Johann Sebastian Bach 1685 To 1750 - Article No. 988

Johann Sebastian Bach 1685 To 1750

جوہن سباسٹینی باخ 1750ء۔ 1685ء - تحریر نمبر 988

عظیم موسیقار جوہن سباسٹینی باخ ہی وہ پہلا شخص تھا جس نے مغربی یورپ میں موجودہ موسیقی کے سبھی علاقائی رنگ کامیابی کے ساتھ باہم مدغم کردیے۔

جمعرات 3 دسمبر 2015

عظیم موسیقار جوہن سباسٹینی باخ ہی وہ پہلا شخص تھا جس نے مغربی یورپ میں موجودہ موسیقی کے سبھی علاقائی رنگ کامیابی کے ساتھ باہم مدغم کردیے۔ سواطالوی‘ فرانسیسی اور جرمن موسیقی کی روایات میں سے بہتر کوباہم یکجا کرکے اس نے ان سب کوایک دوسرے سے باندھ دیا۔ اپنی زندگی میں وہ زیادہ شہرت حاصل نہیں کرسکا۔ باخ کو اس کی مدت کے پچاس برس بعد تک نظرانداز کیاجاتارہا۔
گزشتہ ڈیڑھ سوبرسوں میں اس کوجائزمقام ومرتبہ ملا۔ آج اسے تاریخ کے دویاتین عظیم موسیقاروں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ بلکہ لوگوں کاایک گروہ تواسے دنیا کاسب سے بڑا موسیقار مانتا ہے۔
1685ء میں باخ جرمنی کے قصبے” ایسناچ“ میں پیداہوا۔ یہ اس کی خوش بختی تھی کہ وہ اس ماحول میں پیداہواجہاں موسیقی کے جوہر کے قدردان مود تھے۔

(جاری ہے)

موسیقی میں مہارت کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔

جوہن سباسٹینی کی پیدائش سے بہت پہلے باخ خاندان موسیقی کے میدان میں ایک بلند مقام حاصل کرچکا تھا۔ اس کاباپ عمدہ ائلن نواز تھا‘ اس کے دوچچا ہونہار موسیقار تھے۔ جبکہ اس کے متعدد عم زادبھائی موسیقی کے میدان میں بڑے معرکے مارچکے تھے۔
وہ نوبرس کاتھا جب اس کی والدہ فوت ہوئیں۔ جبکہ دس برس کی عمر میں وہ یتیم بھی ہوگیا۔ نوجوابی میں اسے لیونی برگ میں سینٹ مائیکل سکول کے لئے وظیفہ مل گیا۔
ایک تواس کی عمدہ آواز کی بدولت اور کچھ اس لیے کہ تب انہیں کسی کی ضرورت تھی۔ سینٹ مائیکلز سے اس نے 1702ء میں گریجوایشن کی۔ اگلے ہی برس اسے دعوتوں میں موسیقی بجانے والے سازندوں میں وائلن نواز کی جگہ ملی گئی۔ اگلے بیس برسوں میں اس نے متعدد نوکریاں بدلیں۔اپنی زندگی میں باخ کی وجہ شہرت ” آرگن“ بجانے میں اس کی مہارت تھی۔ جبکہ اس کی اصل حیثیت ایک استاد اور موسیقار کی تھی۔
1723ء میں جب وہ اڑتیس 38 برس کا تھا‘ لییپزگ میں سینٹ انتھونی کے گرجامیں اسے مناجات گانے والے طائفے کے نگران کی نوکری مل گئی۔ آئندہ ستائیس برس وہ اسی عہدہ پر فائز رہا 1750ء میں وہ فوت ہوا۔
اگرچہ باخ مالی طور پر کبھی واماندہ خاطر نہیں ہوا اور ہمیشہ صاحب حیثیت رہا۔ لیکن اپنی زندگی میں وہ کبھی اتنا معروف نہیں ہوسکا جتنا موزارت اور یتھوون تھے (یاجتنا فرانزلسزٹ یافریڈرک چوین تھا)۔
نہ ہی اس کے تنخواہ داروں نے کبھی اس کے اصل جوہرکوپہچانا۔ لیپزگ میں کلیساکی مجلس کی خواہش تھی کہ وہ کوئی اعلیٰ درجہ کے موسیقار کوملازم رکھے۔ چونکہ وہ ان موسیقاروں کوملازم نہ رکھ سکے‘ جوان کے خیال میں اس کے اہل تھے۔ تومجبور اََ انہوں نے یہ عہدہ باخ کوپیس کیا۔ (دوسری طرف چند سال پہلے جب اس نے آرگن نواز اور منتظم ناٹک گھرکی نوکری سے ویمر کے ڈیوک کی عدالت میں استعفیٰ دے کرنئی جگہ تقرر کی سفارش کی توڈیوک اس کے سبکدوش ہونے پراس قدر نالاں ہواکہ اسے قید کردیا۔
باخ نے قریب تین ہفتے عقوبت خانے میں گزارے ‘ حتیٰ کہ ڈیوک کواس پر رحم آگیا)۔
باخ نے بائیس سال کی عمر میں اپنی عم زاد سے شادی کی۔ اس سے آٹھ بچے ہوئے‘ جب وہ پینتیس 35برس کاتھا تو اس کی بیوی فوت ہوگئی۔ اگلے ہی برس اس نے دوسری شادی کی۔ دوسری بیوی نے صرف اس کے ساتھ بچوں کی نگہداشت کی بلکہ اسے مزید تیرہ بچوں کاباپ بنایا۔ ا ن میں سے صرف نوبچے زندہ رہے ُ جن میں سے چار اپنے دور کے بڑے موسیقار بنے۔
یہ ایک ہونہارخاندان تھا۔
باخ ایک زرخیز ذہ کامالک تھا۔اس نے تین سوراگ نامے(cantatas) لکھے۔ گمکی تمغوں (Fugue) اور افتتاحی نغموں (Preludes) کے اڑتالیس سیٹ ترتیب دیے۔ اس کے دیگر کام میں140مزید افتتاحی نغمات‘ 100 سے زائد ہار پسیکارڈ (Harpsichord) پربنائی گئی دھنیں 23 کونسیرٹوز (Concertos)‘ 4اوورچرز (Overture) 33 سوناٹاز (Sonatas) رسم عشائے ربانی کے پانچ نغمات (Masses) مذہبی رہس (Drama) کے تین گیتوں کی دھنیں اور دیگر متعدد دھنیں شامل ہیں۔
مجموعی طور پر باخ نے اپنی زندگی میں آٹھ سوسے زائد سنجیدہ موسیقی کی دھنیں ترتیب دیں۔
باخ ‘ لوتھر کے عقائد کاپیروکارتھا‘ اور کٹرمذہبی تھا۔ وہ اپنی موسیقی کے لیے گرجاکی خدمت کرنا چاہتا تھا‘ جبکہ اس کی دھنوں کی اکثریت مذہبی ہے۔ اس نے موسیقی کے نئے زوایے کھوجنے کی سعی نہیں کی۔ بلکہ اس کی بجائے مروج اقسام کوان کے کمال پر پہنچادیا۔

اس کی موت کے بعد قریب نصف صدی تک اس کی موسیقی کابیشتر نظرانداز کیا گیا (یہ امرقابل غور ہے کہ اس دور کے عظیم موسیقاروں جیسے بائیڈن ‘ موزارٹ اور یتھوون نے باخ کے فن کی مدح کی تھی) موسیقی میں نئے تجربات ہورہے تھے۔ جبکہ باخ کی پرانی طرزکی موسیقی بالائے طاق رکھ دی گئی۔ 1800ء کے بعد باخ کی موسیقی میں ازسرنودلچسپی لی گئی۔ اس کے بعد پھراس کی شہرت اور وقعت میں بتدریج اضافہ ہوا۔
آج باخ بہت مقبول ہے ‘ آج اس کے دور کی نسبت زیادہ آزاد فکردور ہے۔ یہ بات البتہ عجیب ہے کہ ایک موسیقار جسے دو سوبرس پہلے اپنے انداز اور موضوع کے حوالے سے وقیانوسی تصور کیاجاتا تھا‘ آج دنیا بھر میں مقبول ہے۔ اس مقبولیت کی کیاوجہ ہے؟
پہلی بات تویہ ہے کہ باخ کوتمام اہم موسیقاروں میں فنی طور پرسب سے مضبوط آدمی مانا جاتا ہے۔ وہ اپنے دور کی موسیقی کی ہرانگ سے واقف تھا اور انہیں مہارت سے استعمال کرنے پرمجبور رکھتا تھا۔
مثال کے طور پربعدکاکوئی موسیقار راگوں کی ” جوڑ بندش“ (Counterpoint ) میں باخ کاہم سرنہ ہوسکا۔ مزید کہ اس کی دھنیں سازینہ کاری کی منطق اور ہمہ گیریت‘ موضوعات کی دل نشینی اور متاثر کن لے کے سبب قابل تحسین تھیں۔
موسیقی کے سنجیدہ طالب علموں کے لیے دیگر موسیقاروں کی سہل الفہم دھنوں کی نسبت باخ کی دھنوں کی ساخت کی گہرائی اور پیچیدگی زیادہ باعث دلچسپی ہے۔
جن لوگوں کوموسیقی سے واجبی سی دلچسپی ہے ان کے لیے باخ ایک قدرے دشوار پسند موسیقار ہے۔ تاہم یہ بات اہم ہے کہ اس کے معترفین کی تعداد محدود نہیں ہے۔ اس کے ایکارڈز‘ یتھوون کے علاوہ دیگر ممتاز موسیقاروں سے زیادہ بکتے ہیں۔ (مجموعی طورپر ان موسیقاروں کی نسبت جنہوں نے کچھ عرصہ کے لیے ہر طرف دھوم مچائی‘ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ان کی شہرت پانی کی جھاگ کی طرح بہہ گئی۔
باخ اور یتھوون کی مقبولیت دیرپا ہے)۔
اس فہرست میں باخ کامقام کیاہونا چاہیے ؟ ظاہر ہے اس کادرجہ یتھوون سے کم ترہے۔ نہ صرف یتھوون زیادہ مشہور ہے بلکہ وہ جدت طراز بھی تھا‘ اور موسیقی پر اس کے اثرات باخ سے زائد ہیں۔ تاہم باخ کومائیکل اینجلو سے بعد شمار کرنا مناسب ہے۔ جوبصری فنون کاماہر تھا۔ باخ شیکسپئر جیسی ادبی شخصیت سے بھی کم اہم شمار ہوگا۔ تاہم باخ کی دیرپا موسیقی اور آئندہ موسیقاروں پر اس کے گہرے اثرات کے پیش نظر اسے دیگر فن کاروں اور ادبہ شخصیات سے بلند درجہ دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles