Thomas Robert Malthus 1766 To 1834 - Article No. 984

Thomas Robert Malthus 1766 To 1834

تھامس روبرٹ مالتھس 1834ء۔1766ء - تحریر نمبر 984

1798ء میں ماضی کاایک گمنام انگریز پادری تھامس رابرٹ مالتھس نے ایک مختصر مگرنہایت موثر کتاب”معاشرے کی مستقبل کی پیس رفت پر اثرانداز ہونے کے تناظر میں قانون آبادی پر ایک مضمون ‘ شائع کی۔

بدھ 18 نومبر 2015

1798ء میں ماضی کاایک گمنام انگریز پادری تھامس رابرٹ مالتھس نے ایک مختصر مگرنہایت موثر کتاب”معاشرے کی مستقبل کی پیس رفت پر اثرانداز ہونے کے تناظر میں قانون آبادی پر ایک مضمون ‘ شائع کی۔
مالتھس کابنیادی خیال یہ تھا کہ آبادی کی بڑھوتری وسائل کی بڑھوتری کی نسبت سریع الرفتار ہوتی ہے۔اس اہم مضمون میں مالتھس نے یہ نظر یہ واضح طور پر غیر لچک پذیر انداز میں پیش کیااور کہاکہ آبادی میں اضافہ علم ہندسہ کے اصول کے مطابق ہوتا ہے‘ (جیسے اعداد کایہ سلسلہ1‘ 2‘ 8‘ 16․․․) جبکہ خوراک کی رسد میں اضافہ حسابی طریقے سے ہوتا ہے (جیسے اعداد کایہ سلسلہ کہ1‘ 2‘ 3‘4‘5‘ 6․․) اس نے بعد ازاں کتاب میں اضافے کیے جن میں مالتھس نے قدرے معتدل انداز میں اسی نظریہ کوبیان کیا‘ اور کہا کہ آبادی میں اضافہ غیر متعین انداز میں ہوتا ہے حتیٰ کہ خوراک کی رسدکی حدتک پہنچ جاتی ہے۔

(جاری ہے)

اس نظریہ کی دونوں صورتوں سے مالتھس نے یہ نتیجہ مستنبط کیا کہ انسانو ں کی اکثریت کی قسمت میں مفلسی اور فاقہ کشی لکھی گئی ہے۔ مجموعی طور پر ٹیکنالوجی میں کوئی پیش رفت اس نتیجہ کوبدل نہیں سکتی۔ کیونکہ خوراک کی رسد میں اضافہ ناگزیر طور پرمحدود ہے جبکہ آبادی کی طاقت زمین کی طاقت سے جوانسان کے لیے خوراک پیداکرتی ہے‘کہیں زیادہ ہے۔

کیاکسی طریقے سے آبادی میں اضافہ پر روک نہیں لگائی جاسکتی؟بے شک ایسا ممکن ہے۔جنگ وبایا دیگر فطری آفات مسلسل آبادی میں تخفیف کرتی رہتی ہیں۔لیکن یہ آفات آبادی میں اضافے کے امکان میں عارضی التواء ہی پیداکرپاتی ہیں اور پھر کہیں ہولناک قیمت پر مالھتس نے تجویز کیاکہ آبادی میں اضافے کوروکنے کاایک طریقہ اخلاقی بندش بھی ہے ‘جس سے اس کی مراد بڑی عمرکی شادی‘ کنوارہنے میں تحفظ عصمت اور ازدواجی مباشرت کے عمل میں کمی جیسی تدابیرکاملغوبہ تھی۔
مالتھس نے حقیقت پسندی کے ساتھ محسوس کیاکہ بیشترلوگ ایسی بندش کوقبول نہیں کریں گے۔اس نے نتیجہ اخذکیا کہ عملی طور پر آبادی میں اضافہ ناگزیر ہے۔اور یہ کہ غربت بیشترنوع انسانی کے لیے ایک ناقابل مفرمقدر ہے۔بے شک یہ ایک مایوسانہ نتیجہ ہے۔
اگرچہ مالتھس نے خود مانع حمل طریقوں سے آبادی کم کرنے کی تجویز کی کبھی حمایت نہیں کی‘لیکن ایسی حکمت عملی کوتجویزکرنا۔
اس کے بنیادی نظریہ کاایک قدرتی نتیجہ تھا۔ پہلاآدمی جس نے عوامی سطح پر آبادی میں اضافے کوروکنے کے لیے دفع حمل تدابیر کے عام استعمال کی حمایت کی تھی‘ وہ بااثر برطانوی مصلح فرانسس پلیس (1854ء۔ 1771ء تھا)۔پلیس نے مالتھس کامضمون پڑھا اور اس سے ازحس متاثر بھی ہوا۔اس نے 1822ء میں مانع حمل تدابیر کی حمایت میں ایک کتاب لکھی۔اس نے محنت کش طبقہ میں خبط تولید کے متعلق معلومات کوعام کیا۔
امریکہ میں ڈاکٹر چارلس نولٹن نے دفع حمل ادویات پر 1832ء میں ایک کتاب تحریرکی۔1860ء کی دہائی میں اولین ” مجلس ہم نواہاں ومالتھس“ تشکیل پائی۔ جبکہ خاندانی منصوبہ بندی کے حامیوں کی تعداد آہستہ آہستہ بڑھتی گئی۔اگرچپ خود مالھتس نے اخلاقی بنیادوں پر دفع حمل تدابیر اختیار کرنے کی حمایت نہیں کی تھی۔لہٰذا مانع حمل تدابیر کے حامیوں کو ”نیوماتھوسی“ کہاجاتا ہے۔

مالتھس کے نظریہ نے معاشی نظریہ کوبھی متاثر کیا۔ مالتھس سے متاثرہ معیشت دان اس نتیجہ پر پہنچے کہ عام حالات میں کثرت آبادی اجرتوں کوعام روز مرہ معاش سے بڑھنے نہیں دیتی۔ معروف انگریز دان ڈیوڈریکارڈو (جو مالتھس کاقریبی دوست بھی تھا) لکھتا ہے “ محنت کی فطری اجرت وہ اجرت ہے جو محنت کشوں کوایک دوسرے سے مل کر ختم ہوئے یابڑھے بغیر اپنی نسل کے لیے روزی کمانے اور اس باقی رکھنے کے قابل بنانے کے لیے ضروری ہے۔
اس نظریہ کوعموماََ اجرتوں کے آئینی قوانین “ کہا جاتا ہے۔ اسے کارل مارکس نے قبول کیا اور اس کے (قدرزائد) کے نظریہ کاایک اہم جزوبن گیا۔
مالتھس کے نظریات نے حیاتیات (Biology) کے علم پر بھی اپنے اثرات چھوڑے ۔چارلس ڈارون نے ”قانون آبادی پر ایک مضمون“ پڑھا تھا‘ جس سے اسے فطری انتخاب کے ذریعے ہونے والے ارتقاء کے نظریہ کی نئی تفہیم ہوئی ۔

مالتھس 1766ء میں انگلستان میں ڈورکنگ کے نزدیک” سرے“ میں پیدا ہوا۔اس نے کیمبرج یونیورسٹی سٹی کایسوعی (Jesuit) کالج میں داخلہ لیا‘ وہ ایک ہونہار طالب علم تھا۔ 1788ء میں اس نے گریجوایشن کی۔ اسی برس وہ” انگلیائی“ پادری بن گیا۔ 1791ء میں اس نے ماسٹرڈگری حاصل کی۔ 1793ء میں وہ یسوع کالج کا رکن بن گیا۔
اس کی معروف کتاب کی اشاعت اول اس کے نام کے بغیر شائع ہوئی۔
لیکن جلد ہی یہ عام ہوئی اور مالتھس مشہور ہوگیا۔ یہی مضمون مفصل صورت میں پانچ سال بعد 1803ء میں شائع ہوا۔کتاب میں باربار اضافے ہوئے۔ 1826ء میں یہ چھٹی بار شائع ہوئی۔
1804ء میں مالتھس کی شادی ہوئی‘ جب اس کی عمراڑتیس برس تھی ۔ 1805ء میں وہ ” ہیلے بری“ میں ایسٹ انڈیا کمپنیز کالج میں تاریخ اور سیاسی معاشیات پڑھانے پر مامورہوا۔
اس عہدے پروہ تاحیات فائزرہا۔ مالتھس نے معاشیات پر متعدد دیگر کتابیں تصنیف کیں۔ ان میں سب سے اہم کتاب ” سیاسی معاشیات کے اصول“ 1820ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب نے بعد ے کے کئی معیشت دانوں کو بالخصوص بیسویں صدی کی معروف شخصیت جان مینارڈکینسز کوبہت متاثر کیا۔ بعد کی عمر میں مالتھس کومتعدد اعزازات ملے۔اس کے تین میں سے دوبچے زندہ رہے ۔
تاہم اس سے آگے اس کی نسل نہیں بڑھی۔
مالتھس کی وفات کے کئی برس بعد بھی مانع حمل تدابیر کاچلن عام نہیں ہوا تھا۔جس سے یہ یجویز کیاجاتا ہے کہ وہ ایک متاثر کن شخصیت نہیں تھا۔ میرے خیال میں یہ نقطہ نظر غلط ہے‘ اول مالتھس کے نظریات نے ڈارون اور کارل مارکس دونوں کومتاثر کیا۔ یہ دونوں انیسویں صدی کے نہایت ممتاز مفکرہیں۔ دوئم یہ کہ اگرچہ ‘نیومالتھسی‘ مکتبہ فکر کی پالیسیوں کوعوام کی اکثریت نے فوری طور پر قبول نہیں کیا تھا‘ لیکن ان کی تجاویز کونظرانداز نہیں کیاگیا تھا اور ان کے خیالات فنانہیں ہوئے۔
موجودہ خاندانی منصوبہ بندی کی مہم مالتھس کی اپنی زندگی میں جاری ہونے والی مہم کی ہی ایک توسیع ہے۔
تھامس مالتھس پہلا آدمی تھا جس نے اس امکان کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کروائی کہ منظم ملکوں کوکثرت آبادی سے دو چار ہونا پڑے گا۔ماضی میں بھی ایسے متعدد نظریات پیش کیے جاچکے تھے۔ مالتھس نے خود نشاندہی کی کہ افلاطون اور ارسطو نے اس مسئلہ پر بحث کی تھی۔
اس نے ارسطو کاحوالہ بھی دیا تھا کہ” اگر ریاستوں کی آبادی میں ہر شخص کوحسب منشاء بچے پیداکرنے کی آزادی دے دی گئی تو اسکاناگزیر نتیجہ مفلسی کی صورت میں نکلے گا۔
لیکن اگر مالتھس کابنیادی نظریہ خوداس کااختراع کردہ نہیں تھا۔ اس کے باوجود اس کی اہمیت میں کمی نہیں آتی۔ افلاطون اور ارسطو نے یہ خیال روا رروی میں بیان کیا ہے جبکہ اس موضوع پر ان کی آراء کوعموماََ نظرا نداز کیا گیا۔ مالتھس نے ہی اسے واضح کیا۔تفصیل سے اس پرلکھا۔زیادہ اہم بات یہ ہے کہ مالتھس ہی وہ پہلا آدمی تھا‘ جس نے کثرت آبادی کے مسئلہ کی اہمیت پر زور دیا اور اس مسئلہ کواہل الرائے کے دائرہ توجہ میں داخل کیا۔

Browse More Urdu Literature Articles