5 Minute - Article No. 915

5 Minute

پانچ منٹ - تحریر نمبر 915

یار وکیل۔۔! یہ ادارہ بن جائے گا نہ۔۔! ہاں۔۔۔ ! بن جائے گا مگر بڑی عجیب سی بنیاد ہے اس کی۔۔!

جمعرات 18 جون 2015

فوزیہ بھٹی:
یار وکیل۔۔! یہ ادارہ بن جائے گا نہ۔۔!
ہاں۔۔۔ ! بن جائے گا مگر بڑی عجیب سی بنیاد ہے اس کی۔۔!
قبرستان میں اپنی ماں کی قبر پر قریباََ تین گھنٹے بیٹھے رہنے سے میری ٹانگیں اکڑ چکیں تھیں۔ سردیوں کی جلدی ہونے والی شام اور بہت جلد چھا جانے والی رات ہر طرف پھیل چکی تھی۔ میرے ذہن میں میرے وکیل دوست کی بات گونج رہی تھی۔

حسب معمول ماں کی قبر پر آج بھی خالی ذہن کے ساتھ بیٹھا رہا تھا۔ جب سے ماں جی گئیں ہیں میں یونہی روز یہاں آجایا کرتا ہوں۔ بیٹھتا ہوں ۔۔۔سوچتا ہوں۔۔۔ ماں سے بات کروں مگر یہاں آتے ہی سوائے ماں کے ،ہر بات یاد رہ جاتی ہے۔ پتہ نہیں کیوں سوائے ماں کے ہر بات میرے ذہن پرہتھوڑے مارتی رہتی ہے۔راستے میں آتے وقت کسی سائیکل سوار کا چہرہ،لوکل روٹ پہ چلنے والی بھدّی بسوں کے سماع خراش ہارن،کسی بھی گاڑی کی نمبر پلیٹ،قبرستان کے چوکیدار کی مٹی میں سَنی ہوئی چپل۔

(جاری ہے)

۔۔یہ سب مجھے یاد آنے لگتے ہیں۔یہ وسوسے بھی نہیں ہیں کہ مجھے میری ماں کی قبر پر بیٹھ کر غم منانے سے روکا جا رہا ہو، نہ میری ماں پیر پیغمبرتھی۔۔۔پھر کیوں میرا ذہن بھٹک بھٹک جاتا ہے؟؟؟ ایسا کیوں ہوتا ہے؟
دنیا کی ان تمام باتوں کو رد کرنے کی کوشش میں ہلکان ہوتا ہوامیں غائب دماغی سے کسی معمول کی طرح اٹھتا ہوں اور اپنی اکڑی ہوئی ٹانگوں سے کچھ چٹخنے کی آواز سنتے ہوئے اپنے قدموں کو محسوس کرتے چلنے لگتا ہوں۔
ان چند لمحوں میں صرف اور صرف اپنے قدموں کو محسوس کرنا مجھے بے حد مشکل مگر سچ میں انتہائی دلچسپ معلوم ہوتا ہے۔بہت بار ایسا محسوس ہوتا ہے میں اپنے جسم کو پہچانتا نہیں ہوں صرف ذہن اور دماغ سے جڑی کچھ رگیں میرے وجود کا حصہ بن کر رہ جاتی ہیں اور باقی بچا کھچا وجود ہوا میں ہلکورے لیتا رہتا ہے۔
قبرستان کا گیٹ پار کرتے ہی دنیا کی ہر یاد ہر بات میرے ذہن سے محو ہو جاتی ہے ۔
۔۔اور۔۔۔ صرف "ماں" یاد رہ جاتی ہے، اس قدر یاد رہ جاتی ہے کہ مجھے ان کی ہلکی ہلکی پرچھائیاں دکھائی دینے لگتیں ہیں۔ ان کی ایک کلائی میں بھاری سونے کا کڑا اور دوسری میں چوڑیاں ہوا کرتیں تھیں کبھی کبھی مجھے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اب بھی وہ روٹی بیل رہی ہوں اور ان چوڑیوں کی ہلکی ہلکی آواز کہیں بہت قریب سے آرہی ہو ۔ حالانکہ ان کی زندگی میں تو مَیں ان کے قریب کبھی نہیں رہابس کسی اچھے ہمسائے کی روز کی سلام دعا ہو جاتی تھی۔
اتنا یاد ہے کہ وہ مجھے بہت غور سے دیکھا کرتی تھیں جیسے نظر بھر کر دیکھتے ہیں ویسے ہی۔ شاید وہ میرے چہرے پر کچھ کھوجتی رہتیں تھیں۔ان کی آنکھیں میرے طواف میں رہتیں تھیں مجھے لگتا تھا کہ ان کی نظریں دعا کاحصار تھیں ۔باقی رہی رات کو دیر سے آنے پر تازہ روٹی پکانے والی ماں یا باپ کی ڈانٹ سے بچانے والی ماں تو ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔میرے گھر میں سب ٹھیک ٹھیک چلتا تھا ۔
بیٹے کے لئے کوئی خاص اقربا پروری کے اصول رائج نہیں تھے!!! ہاں میری دونوں بہنیں ان کے بہت قریب رہی تھیں۔
اب بھی جب کبھی وہ مجھ سے ملنے آتی ہیں تو اماں کی بہت سی باتیں کرتی ہیں۔کبھی کوئی پرانا قصہ چھیڑ دیتی ہیں۔ بہت کچھ بتاتی ہیں پر پتہ نہیں کیوں مجھے ان کی ہر بات بہت اوپری اوپری سی محسوس ہوتی ہے ۔مجھے لگتا ہے کہ وہ دونوں ماں کو صرف ماں سمجھتیں رہیں، جبکہ میں ان کو ایک شخصیت کے طور پر دیکھتا رہتا ہوں جیسے کسی مکمل انسان کو دیکھا اور سوچا جاتا ہے۔
اس کے بعد یہ سوچ کر کہ میں نے تو انہیں بہت عرصے کے لئے غیر ضرور ی سمجھا تھا!شرمندہ سا ہو جاتا ہوں۔کیا اپنے باپ یا ماں کو انسان سمجھنا غلطی ہے؟؟؟ کیا انہیں صرف انسان سمجھنا اور فار گرانٹڈ نہ لینا غلطی ہے؟
میرا مطلب ہے کہ۔۔۔اوہو پتہ نہیں میرا کیا مطلب ہے۔۔۔ ایسا نہیں ہے کہ ان سے بدتمیزی کرتا تھا یا ان کو برا بھلا کہتا تھا۔ میرا مسئلہ یہ تھا کہ ماں مجھے ساری زندگی نظر تو آئی مگر محسوس نہیں ہوئی۔
محسوس جیسے۔۔ام م م م۔۔ گھر میں دفتر میں ساری چیزیں اپنی جگہ بالکل ٹھیک اور صحیح ڈائرایکشن میں پڑی ہوئی ہوں تو ہم ان کو دیکھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔۔۔ جس طرح روز صبح ہونی ہی ہوتی ہے ہم صبح کو دیکھ کر چونکتے نہیں۔۔۔کیا چونکتے ہیں؟ جیسے رات آنی ہوتی ہے ہم رات کے آنے پر حیرت کا اظہار نہیں کرتے ۔۔۔کیا حیرت کا اظہار کرتے ہیں؟ نہیں نا نہیں کرتے بھئی۔
نپی تُلی چیز یں ہیں۔۔۔قانون فطرت۔ تو ٹھیک ویسی ہی چادر والی ماں چپ چاپ سی ماں ۔۔۔ جس کے پاس رشتے دار ہی رشتے دار نظر آتے ہوں۔ ایسی ماں جو کبھی پراٹھے پکوانے اور کبھی قالین دھلوانے میں کبھی نئے پردوں کے رنگ چننے میں مصروف ہو ۔ کبھی دو لوگوں کا جھگڑا نمٹانے اور کبھی کسی ساس یا بہو کی داستان ناگواری سے سنتے ہوئے گھر کے نوکروں کو ساتھ ساتھ کام جاری رکھنے کی ہدایت بھی دیتی جا رہی ہو۔
سردی گرمی خزاں بہارصرف سفیدرنگ یا بغیر پرنٹ ڈیزائن کپڑے پہننے والی ماں۔ جسے فیشن سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں مگر باتیں بہت کھلے ذہن اور اونچے معیار کی۔ خدا کی قسم!!! مجھے تو اتنابھی پتہ نہیں تھا کہ میری ماں کتنا پڑھی ہوئی تھی ہاں ان کے جانے کے بعد احساس ہوا وہ ہرجملے میں صحیح انگریزی کا کوئی نہ کوئی لفظ ضرور استعمال کرتی تھیں، اخبار پڑھتی تھیں۔

مرنے سے پہلے گھر میں ہر جگہ بکھری ہوئی ماں مجھے کبھی نظر نہیں آئی۔ ان کے مرنے کا افسوس بھی مجھے واجبی سا ہی تھا۔ میں رویا بھی تھا کہ سب کو دیکھ کر مجھے رونا آ جاتا تھا۔ میری عمر بھی تو بس 22 برس تھی۔ خیر سوچتے سوچتے گھر پہنچ گیا ہوں۔ گھرمیں صرف ایک نوکر اور چند بلیوں کے سواکوئی نہیں ہوگا۔ چوکیدار نے گیٹ کھول دیا ہے۔
گاڑی لاک کر کے لان سے گزرتے ہوئے مجھے ماں کا دوپٹہ لہرانے کا گمان ہوتا ہے چونکہ ایسا روز ہوتا ہے تو اب میں چونکتا نہیں ہوں ۔
سردی گرمی ہو یابارش ماں کی کرسی کی مخصوص جگہ بدلنے نہیں دیتا ہوں حالانکہ موسمی اثرات کی وجہ سے کرسی کئی بار بدلی جا چکی ہے مگر ہر نئی کرسی ٹھیک اسی رخ اور طریقے سے رکھ دی جاتی ہے جسے پہلے پڑی ہوئی تھی۔
نیم اندھیری راہداری سے گزرتے ہوئے میں اپنے کمرے میں آگیا ہوں۔ کپڑے بدلتے ہوئے میں مسلسل اسی ادارے کے بارے میں سوچ رہا ہوں ۔ ادارہ کیا ہے بس میرا دل چاہتا ہے کہ دنیا کی تمام مائیں تمام اچھی مائیں ایک چھت کے نیچے رہنے لگیں وہ جن کے بچے ان کو توجہ، محبت نہیں دے سکتے وہ تمام مائیں چھوٹے چھوٹے دکھوں سے بچنے کیلئے وہاں آکر رہیں۔
اب میرا وکیل دوست کہتا ہے کہ مجھے کسی چیز کا گلٹ ہے جو مجھے یہ سب کرنے پر اکسا رہا ہے۔ گلٹ تو خیر کیا ہونا ہے کیا میری سوچ اچھی نہیں ہے؟؟ میں بیسویوں بار اس سے پوچھتا ہوں اور درجنوں بار کہتا ہوں کہ یار ماں بڑی قیمتی چیز ہوتی ہے یوں ضائع کرنے کی نہیں کہ ایک کونے میں رکھ دی جائے۔
پھر وہ بحث کرتا ہے کہ میں denial phase میں پھنس گیا ہوں۔
میری ماں تو بڑی جی دار اور دبنگ قسم کی عورت تھی۔
کسی کی جرأت نہیں تھی سمیت ابا جی کے کہ ان کے سامنے کچھ کہہ سکیں سب عرض ہی کیا کرتے تھے ان کے سامنے تو مجھے کیسا گلٹ بھلا۔۔؟ میں تو ان بد بخت اولادوں کے شکنجے سے ان ماوٴں کو چھڑانا چاہتا ہوں جو خود بھی وہاں سے نکلنا چاہتی ہیں۔ اب اتنا پیسہ ساتھ لے کر نہیں جانے والا قبر میں۔!
ہاں قبر سے یاد آیا کہ ماں جی کے ساتھ والی قبر کی جگہ اپنے لیے لے کر رکھ چھوڑتا ہوں۔
میں نے اپنے موبائل پر متعلقہ شخص سے بات کرنے کے لئے الارم لگایا ۔ میں چونکہ ہر کام سسٹمیٹکلی کرتا ہوں تو میرے فون پرکافی الارم لگے رہتے ہیں ۔
بہر حال۔۔!
سارا دن میں بھاگ دوڑ میں تھک سا جاتا ہوں مگر رات ہوتے ہی میرا ذہن مکمل بیدار ہو جاتا ہے سوچتا ہوں کیا کھویا اور کیا پایا ہے برسوں سے تنہا ہونے کے باوجود اب بھی جب میرے آنسو تکیے میں جذب ہوتے ہیں تو نظر چرا کر ادھر اُدھر دیکھ لیتا ہوں مبادا کوئی دیکھ نہ رہا ہو۔

میں سوچتا ہوں برس ہا برس سے ماں کی قبر پر گھنٹوں بیٹھے رہنے سے بھی میری تشنگی جاتی نہیں ہے۔ شاید وکیل ٹھیک کہتا ہے کہ مجھے گلٹ ہے اگر ماں کے کہنے پر اس دن بیٹھ کر ان کی بات سن لی جاتی تو زندگی شاید آج بہت مختلف ہوتی۔ اس ایک بات نہ سننے کی سزا شاید میں اپنے آپ کو دیتا چلا جا رہا ہوں۔
ماں کی سوالیہ نظریں اس طرح میرے وجود میں گڑھ گئیں ہیں کہ میں اپنی شادی شدہ زندگی بھی 4 ماہ سے زیادہ نہیں چلا پایا۔
عطرت کی سوالیہ نظریں مجھے خوف میں مبتلا کر دیتیں تھیں اور مجھے لگتا تھا کہ بس اگر کہیں کچھ ہو گیا کہیں کچھ غلط ہو گیا تو کیا کروں گا۔ وہ بے چاری بھی مجھے ذہنی مریض سمجھتے ہوئے روتی دھوتی یہاں سے چلی گئی میں بھی توحد کر دیتا تھا۔ وہ جب بھی وقت مانگتی میں اس کے پاس بیٹھ تو جاتا تھا مگر میرا دماغ میرا وجود جیسے سن ہو جاتا تھا ماں کی آواز کہ ”کبیر 5منٹ کے لئے میری بات سن لے“ مجھے اپنے حصار میں لے لیتی تھی۔
مجھے لگتا تھا کہ اگر میں نے اب زندگی میں کسی کو وقت دیا تو یہ ماں کے ساتھ دھوکہ ہوگا۔ اس ایک جملے کا ادراک مجھے ماں کے مرنے کے ٹھیک پانچ سال بعد ہوا تھا۔ جیسے جیسے میری عمر بڑھنے لگی مجھے یہ خیال ہوا کہ ماں میرے اندر زندہ ہوتی جا رہی ہے ماں کی آنکھوں کا رنگ تک مجھے یاد آگیا تھا۔ جب ماں نے مجھ سے کہا تھا کہ ”کبیر 5منٹ کے لئے میری بات سن ہے“ تو تب بھی کسی رشتہ دار عورتوں کے درمیان گھِری بیٹھی تھی۔
میں نے جی اچھا۔۔۔! کہہ کر صحن کی طرف قدم بڑھا لیے تھے۔ اس کے بعد ایک ہفتے میں ہی ماں ختم ہو گئی۔ تب تو احساس نہیں ہوا مگر سالوں بعد یا د کے ہلکے ہلکے جھونکے مجھے چھیڑنے لگے۔ اس ایک ہفتے میں، میں ماں کے قریب سے کئی بار گزرا تھا اب یا دآتا ہے کہ ماں میری طرف غور سے دیکھتی تھی شاید وہ اس انتظار میں تھی کہ میں اپنی Good For Nothing مصروف زندگی میں سے انہیں پانچ منٹ دے دوں۔
نجانے وہ کیا بات ہو گی جو ماں مجھ سے کہنا چاہتی تھی۔۔۔پتہ نہیں شاید ماں مجھے یہ کہنا چاہتی ہو کہ انہیں کوئی ضرورت تھی۔۔یا شاید ماں مجھے یہ بتانا چاہتیں ہوں کہ میں ان کی سب سے خاص اولاد ہوں۔۔۔یا شاید ماں یہ کہنا چاہتیں ہوں کہ ماں کو مجھ سے بہت محبت تھی۔۔۔ اگر خود سے جھوٹ نہ بولوں تو میں ماں کی قبر پر جاتا بھی اس لئے ہوں کہ شاید وہاں مجھ پر کوئی وحی اتر آئے گئی اور مجھے وہ بات پتہ چل جائے گی۔
میراکانسنٹریشن Span اتنا کم ہو چکا ہے کہ زیادہ چیزوں پر توجہ نہیں دے پاتا ،فوکس نہیں کر پاتا ، کاش وہ پانچ منٹ دوبارہ میری زندگی میں آجائیں پانچ لاکھ منٹ بھی ماں کی قبر پر گزارنے کے بعد ان پانچ منٹ کا ازالہ مجھ سے نہیں ہوتا ۔وقت گزرنے کے احساس سے مجھے اتنی وحشت ہوتی ہے میں تو اب گھڑی تک نہیں پہنتا۔ ماں کے مانگے ہوئے وہ ”پانچ“ منٹ میری ساری زندگی پر پھیل گئے ہیں۔
اس ادارے میں جو میں بنانے جا رہا ہوں ، میں ضرور ہر ماں کے پاس بیٹھ کر اس کی بات سناکروں گا۔۔۔ ان پانچ منٹ کہ ازالہ شاید کر پاوٴں۔۔۔ مگر سوچتا ہوں کہ ماں کی ان آنکھوں کو جو میرے اندرکھل گئیں ہیں کیسے بند کروں گا!

Browse More Urdu Literature Articles