Aarzu Thi Usay Panay Ki 2 - Article No. 937

Aarzu Thi Usay Panay Ki 2

آرزو تھی اُسے پانے کی ۔ حصہ دوم - تحریر نمبر 937

پپا مجھے نہیں کرنی شادی آپ مما کو سمجھاتے کیوں نہیں؟دیکھیں نا کیا کررہی ہیں۔ارحم جھنجھلا گیا میں نے نبیلہ با جی کو زبان دے دی ہے۔اب زیادہ بحث مت کرو ۔کل وہ آئیں گئی تو ہم سب مل لیں گے۔۔۔

پیر 17 اگست 2015

خدیجہ مغل
حصہ دوم
پپا مجھے نہیں کرنی شادی آپ مما کو سمجھاتے کیوں نہیں؟دیکھیں نا کیا کررہی ہیں۔ارحم جھنجھلا گیا میں نے نبیلہ با جی کو زبان دے دی ہے۔اب زیادہ بحث مت کرو ۔کل وہ آئیں گئی تو ہم سب مل لیں گے
کیا۔۔۔زبان دے دی۔۔۔وہ حیران ہوگیا۔آپ نے میرے بغیر یہ سب کیسے کر لیا؟آپ زبردستی کر رہی ہیں۔
دیکھ لیں پپا
میں نے کہہ دیا نا۔۔۔بس تم مان جاؤ
پپا آپ کبھی بھی میری طرف داری نہیں کرتے۔ہمیشہ ایسے ہی کرتے ہیں۔وہ تنگ آکر بولاتو ڈیڈی بولے
بیٹا میں تو ان معاملات میں دخل اندازی نہیں کر تا۔بعد میں اگر کچھ ہو گیا تو برا میں ہی بنوں گا۔اسی لیے بہتر ہے تم ماں بیٹا خود ایک دوسرے سے اچھے طریقے سے بات کرو۔

(جاری ہے)


ہاں۔۔۔اب اور ڈرامے بازی نہ کرو۔

تم جہاں اور جس کے پیچھے بھاگ رہے ہو تمھیں وہاں سے کچھ بھی نہیں ملنے والا۔
مما ۔۔۔یہ آپ ٹھیک نہیں کر رہیں۔اور پپا آپ۔۔۔آپ سب خاموشی سے دیکھ رہے ہیں۔اس نے روٹھی روٹھی آوازمیں باپ سے گِلہ کیا
ٹھیک ہے آپ کچھ بھی کریں۔میں آج سے گھر ہی نہیں آؤں گا۔۔تیزی سے چلتا ہوا وہ ہال سے باہر چلا گیا۔جبکہ وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔۔

انسان کے بس میں کوئی اختیار نہیں ہوتا۔کوئی بھی کام وہ نہیں کر سکتا جسمیں الله کی رضا مندی شامل نہ ہو ۔میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا
ممانے اپنی مرضی سے میری شادی لاریب سے فِکس کروا دی۔میں کافی دنوں سے گھر نہیں آیا تھا اور اب آیا تو یہ قیامت دیکھنے کو مل رہی تھی۔شادی کے دن قریب آرہے تھے اور میں اپنی موت کی دُعائیں مانگ مانگ پاگل ہو رہا تھا۔
خالہ ثمرہ جانتی تھیں میری شادی ہے۔میں نے انہیں بے حد سمجھایا کہ نبیرہ کو وہ میرے ساتھ بھیج دیں۔انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ تم میری بہن کی عزت ہو۔تم نبیرہ کو ساتھ لے گئے تو میری بہن معاشر ے میں اپنا منہ نہیں دکھا سکے گئی۔ہماری جو قسمت میں ہوا ہم دیکھ لیں گئے ۔۔تم یہ شادی کر لو بیٹا
میں مجبور ہو چکا تھا۔نبیرہ کو اس بات سے با لکل بے خبر کر رکھا تھا ہم نے۔
لیکن ایک نہ ایک دن تو اسے بھی معلوم ہو ہی جانا تھا۔۔
شام کے سائے کب کے ڈھل چکے تھے وہ ڈور بیل بجا نے کے لیے آگے بڑھا تھا۔تھوڑی ہی دیر میں دروازہ کھل چکا تھا۔۔
اوہ۔۔۔آپ۔۔آج یہاں کیسے؟ہماری یاد کیسے آگئی آپکو۔ایک طرف ہوتے ہوئے اسکے لیے راستہ بناتی ہوئی نبیرہ بولی
ہم ذرا اپنی خالہ جان سے ملنے آئے تھے۔اس نے چھیڑتے ہوئے کہا
کون خالہ جان؟۔
۔یہاں آپکی کوئی خالہ جان نہیں رہتیں۔
مگر میری انفارمیشن کے حساب سے تو ان کا گھر یہی تھا۔کہیں میں غلط پتے پہ تو نہیں آگیا ۔ہنسی روکتے ہوئے بولا
ممی ہیں وہ میری۔خالہ نہیں۔
اوہ۔۔مما۔۔۔کہاں ہیں ؟
ہم کون ہیں؟کیا رشتہ ہے ہمارا آپکے ساتھ؟آپ تو ہمیں جانتے تک نہیں۔۔ہنہ۔۔۔اس نے منہ بسورا
آپکو ہم کیسے بھول سکتے ہیں۔۔
۔؟آپ تو ہماری جانِ۔۔۔وہ اسکے پاس آیا
بس ۔۔۔بس۔۔۔رہنے دیں ۔۔پتہ ہے ہمیں۔لو آگئیں آپکی پیاری خالہ جان۔۔۔
اور آپ جناب کہاں جارہی ہیں؟اسے جاتا دیکھ کر ارحم بولا
آپکے لیے کچھ ٹھنڈا گرم لانے جا رہی ہوں ۔۔گرمی ہے نا۔۔۔
اوہ۔۔۔اچھا اچھا۔میرا کتنا خیال رکھتی ہو تم مائی ڈئیر۔۔۔ضرور لائیں جناب۔مسکراتا ہو ابولا تو نبیرہ بھی مسکراتی ہوئی کچن کی جانب بڑھ گئی
۔۔۔۔#
بالآخر وہ گھڑی آن ہی پہنچی جب اسے کسی کے لیے دُلہا بننا پڑا۔وہ چپ چاپ سب تماشے دیکھ رہا تھا ۔نبیرہ کا خیال اسے بھول ہی نہ رہا تھا ۔کوئی دس دفعہ اس نے خالہ ثمرہ سے اسکا پوچھا تھا۔
وہ بارات کے ساتھ نہیں آئی تھی۔وہ اسکے لیے فکر مند تھا ،یہ سب کچھ اس نے اپنی والدہ کی عزت اور خوشی کی خاطر کیا۔اسے کوئی شوق نہیں تھا لاریب سے شادی کرنے کا۔
ساری رسومات مکمل ہونے کے بعد بالآخر وہ گھر پہنچ ہی گیا۔لیکن آج وہ اکیلے گھر نہیں آیا تھا اسکی ہمسفر ،ایک بیوی اور ایک فرض اسکے ساتھ تھا۔جسے اسے نبھانا تھا۔جسے اس نے دیکھا تک نہیں تھا
ایک تو ان ویڈیو والے نے تنگ کر رکھا ہے۔اسے غصہ آرہا تھا ،خالہ ثمرہ کی بار بار آتی کال اسے مسلسل پریشانی میں مبتلا کر رہی تھی ۔اس نے مما کو بلایا اور با ہر آگیا
کال اٹینڈ کرتے ہی اسکا دل ساکت رہ گیا۔
۔۔قدم وہیں کے وہیں جم گئے۔مگر اسے چلنا تھا۔
وہ وہاں سے کیسے ہاسپٹل پہنچا وہ نہیں جانتا تھا۔۔۔
نبیرہ۔۔۔نبیرہ کہاں ہے؟بھاگتے ہوئے وہ خالہ ثمرہ کے پاس آیا
ڈاکٹرز اندر لے گئے ہیں۔
خالہ آپ پریشان مت ہوں۔۔۔میں ہوں نا۔۔۔اس نے خالہ کے ہاتھ تھامتے ہوئے کہا
میری نبیرہ ٹھیک ہو جائے۔۔۔وہ پریشانی سے بولیں
خالہ۔۔۔کچھ نہیں ہو گا نبیرہ۔
۔اس نے خالہ کو حوصلہ دیا
تھوڑی دیر میں دونرسز کمرے سے باہر آئیں۔آپ کو جلد از جلد بلڈ کا انتظام کرنا پڑے گا ۔کیونکہ مریضہ کی طبیعت بے حد نازک ہوتی جا رہی ہے۔آپ کوشش کرکے جلد یہ کام مکمل کردیں تاکہ ہم باقی اپنا کام کر سکیں۔۔
بلڈ۔۔۔ارحم نے یہ لفظ دو تین بار دوہرایا
نبیرہ کا بلڈ گروپ تو o_ہے۔
اب۔۔۔وہ سوچنے لگا۔ہر ماہ یہی مسئلہ ہوا کرتا تھا۔
نبیرہ کا بلڈ گروپ نہایت مشکل سے ملتا تھا ۔لیکن اب تو یہ ارجنٹ تھا۔اب یہ کیسے ممکن تھا۔اس نے اپنے تمام دوستوں سے بات کی تھی۔۔خالہ مسلسل روئے جارہی تھیں۔وہ انہیں تسلی دیتا تھا۔لیکن کام کرتے کرتے بھی دو گھنٹے لگ ہی گئے تھے۔
خدا کا شکر تھا کہ انہیں بلڈ مل گیا تھا۔اب وہ خاموشی سے روم کے باہر کھڑا تھا۔مما کی کال اسے بار بار آرہی تھی اس نے سیل آف کردیا تھا۔
وہ خود کو کسی اور ٹینشن میں نہیں ڈال سکتا تھا۔اس وقت اسے صرف اور صرف نبیرہ کی پریشانی تھی۔۔
بیٹا ۔۔۔تم گھر جاؤ۔وہاں سب تمھارا انتظار کررہے ہوں گئے۔
ہوں۔۔۔وہ چونکا تھا۔
نہیں خالہ مجھے نبیرہ سے ضروری کوئی شے نہیں۔اور میں آپکو اکیلے کیسے چھوڑ کر جا سکتا ہوں۔میں آپکے ساتھ ہی رہوں گا۔
بیٹا۔۔۔تمھاری ابھی ابھی شادی ہوئی ہے۔
تمھاری بیوی۔۔۔۔
نہیں ہے کوئی میری بیوی۔اس نے خالہ کی بات کاٹ دی
مما کو مجھ سے زیادہ اچھے جواب دینے آتے ہیں لوگوں کو ۔وہ ان کا منہ بند کر دیں گئی۔مجھے نہیں جانا۔بس
خالہ سمجھ گئیں تھیں کہ ارحم اب غصے میں آچکا ہے۔اسی لیے چپ رہیں
وہ بار بار دروازے کی جانب دیکھ رہی تھی۔آنے والے کا انتظار کرنا اسے بہت اچھا لگ رہا تھا۔کبھی وہ سجے ہوئے کمرے میں نظریں دوڑاتی کبھی اپنے آپکو آئینہ میں دیکھتی اور خود سے شرما جاتی،کبھی اپنے ہاتھوں میں لگی مہندی دیکھ کر ہولے سے مسکراتی۔
۔۔آخر کب تک وہ یوں کرتی۔دروازہ ویسے کا ویسے بند تھا۔اس نے گھڑی کی جانب نظر دوڑائی رات کے دو بج چکے تھے۔
اس نے اپنی پوزیشن بدلی اور سر جھکا کر ایک بار پھر آنے والے کا انتظار کرنے لگی۔اور واقعی تھوڑی دیر میں دروازہ کھلا تھا۔
وہ نہیں جانتی تھی اندر کون آرہا ہے۔اتنا ضرور یقین تھا اسکا ہمسفر ہی آرہا ہے۔
لاریب بیٹا۔۔۔عالیہ آفندی لایب کے پاس آکر بولیں
لایب بیٹا ارحم کو کسی کام کے سلسلے میں باہر جانا پڑا اسی لیے وہ ہیں آیا۔
آپ چینج کر لو ۔وہ شاید لیٹ ہو جائے۔آپ تھک گئی ہو گی۔آرام کر لو۔وہ جوں ہی آیا میں اسے آپکے پاس بیھجوں گئی۔۔
لاریب جو کچھ اور سوچے بیٹھی تھی ۔اسکا موڈ خراب ہو گیا۔مگر وہ چپ رہی۔اور آہستہ سے اٹھتی ہوئی وہ واش روم میں چلی گئی۔
#۔۔۔۔۔#
یہ کیا بکواس ہے؟
میں کیا کہا تھا آپکو۔۔۔؟
سر ہم نے پوری کوشش کی تھی۔۔۔
میں نے کہا تھا نا میری نبیرہ کو کچھ نہیں ہونا چاہیے۔
اس نے ڈاکٹر کو گردن سے پکڑ لیا تھا
سر۔۔۔نرسز ڈاکٹر کو بچانے کے لیے آگے بڑھیں تو اس نے ان سب کو ذور سے دھکا دے دیا۔خالہ ثمرہ نے اسے بہت روکا مگر ۔۔۔وہ کمرے میں جا چکا تھا ۔وہ اب رکنے والا نہیں تھا۔نبیرہ پلیز واپس آجاؤ۔پلیز نبیرہ واپس آجاؤ۔وہ اسکے ساتھ لگ کر رو رہا تھا
اٹھو نبیرہ۔۔۔اتنی دیر میں نرسز اندر آچکی تھیں۔
سر پلیز آپ پیچھے ہٹ جایئے۔
انہوں نے اسے نبیرہ سے الگ کرنے میں بہت زور لگایا۔۔۔
خالہ ثمرہ بے تہاشہ رو رہی تھیں۔ان کی اکلوتی بیٹی آج انہیں چھور کر جا چکی تھی۔
میں مما کو کبھی معاف نہیں کروں گا۔ان کی وجہ سے میری نبیرہ مجھ سے دُور ہو گئی۔۔وہ اسی حالت میں گھر واپس آیا تھا۔مما اسکا حلیہ دیکھ کر حیران رہ گئیں تھیں۔ولیمہ کی دعوت کو فی الحال ملتوی کر دیا گیا تھا کیونکہ نبیرہ کی وفات سے سارا خاندان میں اداس اور غمگین ہو گیا تھا۔

گھر بھر میں مکمل خاموشی چھائی ہوئی تھی۔وہ بیڈ پہ لیٹا مسلسل چھت کو گھورے جا رہا تھا۔۔لاریب دو بار کھانے کا پوچھنے آئی تھی اس نے منع کر دیا تھا۔
میں نے آپکو کتنی دفعہ کہا ہے آپ میرے سامنے مت آیا کریں۔میری مما نے آپکو بتایا نہیں میرے بارے میں؟مجھے یہ سب پسند نہیں ہے۔اس نے اسکے تیار ہونے کی طرف اشارہ کیا۔
وہ چپ کھڑی رہی اسکے سامنے۔
۔۔
اب۔۔مجھے ہی چلا جانا چاہیے یہاں سے۔ایک نظر اسے دیکھنے کے بعد وہ بیڈ سے اٹھا اور کمرے سے باہر چلا گیا۔۔۔لاریب بند دروازہ دیکھتے گئی۔۔۔
ممی آجکل میں شاید میرا ویزا اوکے ہو جائے۔میں نے آپ سے کہنا تھا کہ لاریب سے بات کریں کہ وہ اپنے گھر چلی جائے۔میں تو اسے اپنے ساتھ نہیں لے کر جاسکتا ۔اور آپ اچھی طرح سے جانتی ہیں کہ میں نے اسے اپنی بیوی تسلیم نہیں کیا۔
۔۔تو بہتر یہی ہے کہ آپ۔۔۔۔
تم کہنا کیا چاہتے ہو؟
آپ کچھ بھی سمجھ لیں۔کیونکہ مجھ سے زیادہ سمجھ دار تو آپ ہیں۔مجھے آپکو سمجھانے کی ضرورت نہیں۔
میں ایسا کچھ نہیں کرنے والی۔لاریب تمھاری بیوی ہے۔تم خود اسکے ساتھ اچھی طرح سے رہنے کی کوشش کرو۔سب ٹھیک ہو جائے گا۔،
سب کچھ ٹھیک ہی ہے مما۔۔میں بس پاکستا ن نہیں رہنا چاہتا۔میں جب تک یہاں رہا ۔
مجھے بھی تکلیف ہو گی اور آپ کو بھی۔میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے کسی کو تکلیف ہو۔۔
تو ٹھیک ہے۔لاریب کو بھی ساتھ لے جاؤ۔اسکا بھی دل خوش ہو جائے گا۔اور پھر تم دنوں شادی کے بعد کہیں باہر گئے بھی نہیں۔
فار گاڈ سیک مما۔۔۔اس نے اپنا ماتھ پیٹا۔۔۔آپکو سمجھانے کی ضرورت نہیں۔آپ نے تو بس وہی کرنا ہے جو آپکی مرضی ہوتی ہے۔میں خود ہی کچھ کر لوں گا۔
اس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا اور وہاں سے اٹھ گیا۔۔۔
وہ اپنے ساتھ لاریب کو سزا نہیں دے سکتا تھا۔اسی لیے بہتر یہی تھا کہ وہ اسے آزاد کردے۔اور یہ شاید سب سے بہتر تھا۔اس نے خالہ ثمرہ سے مشورہ بھی کیا تھا۔انہوں نے اسے سمجھایا کہ وہ اسکی بیوی ہے۔وہ ایسا نہیں کر سکتا
میں رہنا چاہتا کسی کے ساتھ بھی۔مجھے اکیلے رہنا ہے بس۔۔میں آج ہی وکیل سے بات کرکے تمام کاغذات اوکے کروا دیتا ہوں۔
میں کم ازکم اسکی زندگی خراب نہیں کر سکتا۔۔۔اس نے فیصلہ کر لیا تھا۔
چند ہی دنوں میں یہ سب کچھ ہو گیا۔۔آج صبح وہ جلدہی اٹھ گیا تھا۔اور لاریب اسکے لیے ناشتہ بنا رہی تھی۔ناشتہ کرتے ہوئے اس نے اسے شام میں تیار ہونے کا کہا تھا کہ وہ اسے گھر چھوڑ آئے گا۔
آج پہلی بار اس نے لاریب سے بات کی تھی۔لاریب خوش ہو گئی۔کافی دنوں سے وہ گھر نہیں گئی تھی۔
آج اس نے تمام کام جلدہی پورے کر لیے تھے۔ساراسامان تیار تھا۔اب بس ایک کام ادھورا تھا۔۔۔اس نے گاڑی کارُخ گھر کی طرف کر دیا۔۔
آدھ گھنٹے میں گھر تھا۔لاریب پہلے سے ہی تیار تھی اسے زیادہ دیر نہ لگی۔اسے گاڑی میں بٹھا کر اس نے گاڑی کی اسپیڈ تیز کر دی۔وہ ان لمحات کو جلد از جلد گزارنا چاہتا تھا۔۔۔
آدھ راستے میں اس نے اسے بتایئا تھا کہ بیگ میں اسکے کاغذات ہیں۔
گھر جا کر وہ دیکھ لے۔سب کچھ ٹھیک تھا۔اس نے اسکا مہر بھی ادا کر دیا تھا۔اب وہ لاریب کو آزاد کر چکا تھا۔۔
آپکو مجھ سے زیادہ اچھے انسان مل جائیں گئے۔میں نے آپکو آزاد کیا۔کیونکہ میں آپکو خوش نہیں رکھ سکتا۔۔۔آپ اچھی طرح جانتی بھی ہیں کہ میرے دل میں صرف اور صرف نبیرہ ہے۔۔میں آپکو دھوکہ نہیں دے سکتا۔رب کریم آپکو بیحد خوشیاں دے گا۔
یہ میری دُعا ہے آپکو۔آپ نے جتنا بھی وقت میرے ساتھ گزارا بہت اچھا تھا۔آپ بہت اچھی ہیں۔۔بس آپ خوش رہیں۔
لاریب بُت بنی سب باتیں سن رہی تھیں۔وہ ایک لفظ بھی نہ بول پائی۔۔آنسوپلکوں کی بھاڑ سے آزاد ہو کر گالوں پہ پھسل گئے۔۔۔اس کا گھر آچکا تھا۔ایک نظر اس نے ارحم کی جانب دیکھا تو وہ ساکت رہ گئی۔ارحم خود رو رہا تھا۔۔تو کیا یہ سب آپکی مجبوری تھی؟
آپ کچھ ایسا ہی سمجھ لیں۔
۔۔کہہ کر وہ نیچے اترا اور سارا سامان اتارنے لگا۔۔
لاریب کو گھر تک چھوڑنے کے بعد وہ ایک بار پھر ٹوٹ گیا تھا۔
کاش۔۔۔نبیرہ ایسا نہ ہوتا۔
نبیرہ تم آجاؤ۔۔۔وہ ایک بار پھر رونے لگا۔۔۔
زندگی میں بہت سے واقعات ایسے ہیں جنھیں ہم کبھی بھول نہیں سکتے۔مگر جو ارحم کے ساتھ ہوا کیا وہ بھول پائے گا۔۔۔؟وہ نبیرہ کے بغیر جی تو لے گا لیکن کیا وہ واقعی نبیرہ کا مجرم تھا؟یہ فیصلہ آپکا ہے۔۔۔
ختم شد!

Browse More Urdu Literature Articles