Ahsan Itna Sa Kar Day - Article No. 955

Ahsan Itna Sa Kar Day

احسان اتنا سا کر دے - تحریر نمبر 955

جیل میں لگی سلاخیں اسکی نظر میں تھیں ،وہ آنکھیں پھاڑے ان سلاخوں کو دیکھ رہی تھی ،آج دوسرا روز تھا اسے یہا ں آئے اسے اپنی ماں اور چھوٹے بہن بھائی یاد آرہے تھے۔

جمعہ 11 ستمبر 2015

خدیجہ مغل:
جیل میں لگی سلاخیں اسکی نظر میں تھیں ،وہ آنکھیں پھاڑے ان سلاخوں کو دیکھ رہی تھی ،آج دوسرا روز تھا اسے یہا ں آئے اسے اپنی ماں اور چھوٹے بہن بھائی یاد آرہے تھے۔انہیں پتہ چل گیا ہوگا میں گرفتار ہوئی ہوں۔اسکی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے وہ بے قصور تھی مگر اسکی کوئی یہاں بات سننے والا نہیں تھا۔
اس نے دکھ سے آنکھیں مچ لیں ۔اتنی دیر میں ایک پولیس والا اسکے پاس آیا ۔صاحب آنے والے ہیں وہ جو بھی پوچھیں سچ سچ ہی بتانا۔۔اسی میں تیری بھلائی ہے کہہ کر وہ آگے بڑھ گیا
جبکہ وہ اپنے آنسو صاف کرنے لگ گئی۔کہنے کو اب باقی کیا بچا تھا ؟وہ جان گئی تھی اسے کوئی انصاف نہیں ملے گا اس لیے وہ چپ ہو گئی تھی۔با لکل خاموش۔۔۔
تقریباً گھنٹے بعد اسے دوسرے کمرے میں لے جایا گیا۔

(جاری ہے)

وہ کرسی پہ بیٹھ گئی تھی جب کوئی اندر داخل ہوا ۔اس نے نظر اٹھانا مناسب نہ سمجھا ۔
تو تم ہو جس نے معروف و مشہور اداکارا کی بیٹی کا خون کیا ہے؟اس نے فائل کھولتے ہوئے کہا
وہ کچھ نہ بولی۔انسپکٹر چند منٹ خاموش رہا
اگر تم ایسے ہی خاموش رہو گئی تو با ہر نہیں جا سکو گی۔اور اسمیں تمھارا ہی نقصان ہے۔
اب مجھے جلدی سے بتاؤ تمھیں کسی نے کہا تھا یا تمھاری کوئی دشمنی تھی اس سے؟
وہ اب بھی چپ رہی۔
۔۔
کیا ہوا۔۔۔۔؟بولتی نہیں ہو یا بولنا نہیں آتا۔۔۔؟
سر یہ لڑکی کچھ بول ہی نہیں رہی ۔دوسرا انسپکٹر بولا
اوہ۔۔۔چلو تم لوگ جاؤ میں اس سے اکیلے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔
اب کمرہ خالی ہو چکاتھا ۔وہ اب بھی اسی پوزیشن میں بیٹھی ہوئی تھی ۔
دیکھو تم مجھ پہ بھروسہ کر سکتی ہو۔۔۔تمھیں یہاں کچھ نہیں ہو گا۔تم مجھے سب کچھ بتا دو میں تمھاری مدد کروں گا۔

نہ جانے انہیں مجھ سے ہمدردی کیوں ہو رہی تھی؟میں جان ہی نہ پائی۔میں کچھ نہ بولی وہ مجھے دیکھتے رہے۔شاید وہ میرا درد جان چکے تھے اسلیے وہ میرے قریب آگئے اور بولے۔
دیکھو!یوں خاموش رہنے سے تمھیں کوئی فائد ہ نہیں ہو گاالٹا نقصان ہو جائے گا پھانسی پہ چڑھا دیں گئے وہ تمھیں۔۔۔
ان کی باتوں نے مجھے چوکنے پہ مجبور کردیا۔
پلیز مجھے بتاؤ کیا ہوا تھا اس رات۔
۔۔؟بھروسہ رکھو مجھ پہ
میں نے ایک نظر انہیں دیکھا اور اپنی کہانی انہیں سنانے لگی۔۔
#۔۔۔۔۔۔۔#
امی آج مجھے علینہ کہہ رہی تھی کہ اگر تم میرے گھر کام پہ لگ جاؤ تو تمھارے بہن بھائی اسکول جانے لگے گئے اور تمھاری پڑھائی بھی ہو جائے گی۔صحن کی صفائی کرتے ہوئے حانی نے امی سے بات کی۔
پھر دیر کس بات کی ہے؟تو صبح سے چلی جا۔۔۔انہیں خوشی ہوئی
امی وہ کہہ رہی تھی کہ تمھیں وہاں ایک کمرہ بھی دے دوں گی وہیں رہنے کے لیے۔
۔۔حانی نے ایک اور خوشی کی بات کی
وہاں تو آئے روز پارٹیاں ہو تی ہیں تیری تو عیش ہو جائے گئی۔اماں خوش ہو گئیں
امی الله بھلا کرے گا۔ہمیں صرف اسی پہ بھروسہ رکھنا چاہیے۔
اگلے دن صبح ہی حانی علینہ کے گھر موجود تھی۔گھر اعلیٰ تھا۔علینہ نے تمام کام اسے سمجھا دیے تھے۔سب کچھ تھا اسکے لیے وہاں۔سارا دن وہ کام کرتی اور شام سات بجے وہ اپنے کمرے میں چلی جاتی۔
۔۔اسکی زندگی میں اب آرام تھا اور اب تو اس نے میٹر کی بھی پاس کر لیا تھا۔۔
کل شام کو علینہ گھر آتے ہی اسے بازار لے گئی تھی کیونکہ اگلے روز اسکے گھر پارٹی تھی اور خوشی کی بات یہ تھی کہ اسے گھر جانے کی اجازت بھی مل گئی تھی۔وہ بہت خو ش تھی اور اسی طرح کاموں میں لگی رہی اور پارٹی کا دن بھی آگیا۔۔
انوشہ کی تیاری دیکھ کر وہ مطمئن ہو گئی تھی کیونکہ اگر انوشہ میڈم تیاری نہ ہوں گھر میں سکون نہیں ہوتا۔
۔
رات آٹھ بجے مہمان آنا شروع ہو گئے تھے اور گھر مہمانوں سے بھر چکا تھا ۔سب کچھ تیار تھا اس نے کھانا
لگا کر جلدی سے وہاں سے چلے جانا چاہا۔۔۔
علینہ اسکے کام سے بے حد خوش ہو ئی تھی ۔وہ اسکے کام کی تعریف کرہی رہی تھی جب ایک لڑکا ان کے پاس آیا۔۔
ارے ان سے ملو۔۔۔یہ میری بائی کم بیٹی زیادہ ہے۔۔وہ خوشی سے بتارہی تھیں
ہائے۔
۔۔ازمیر بولا
ہائے۔۔۔حانی گھبراتے ہوئے بولی
وہ لڑکا اسے بہت غور سے دیکھ رہا تھا اسے کچھ اچھا نہیں لگا تھا۔۔
حانی یہ میرا ہونے والا داماد۔۔۔میری بیٹی کے لیے ازمیر سے اچھا کوئی اور لڑکا ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔
مبارک ہو ۔۔۔
شکریہ۔۔۔ازمیر پھر سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔
اس نے آنٹی سے سر درد کا بہانہ بنا یا اور اپنا کھانا لینے کے لیے کچن میں آگئی
اس نے اپنا کھانا ایک باؤل میں ڈالا اور برتن دھونے لگی وہ جلدی سے گھر جانا چاہتی تھی لیکن کام ختم ہی نہیں ہو رہا تھا۔
۔۔
آپ بہت اچھا کام کرتی ہیں مجھے تو آپ۔۔۔اسکی بات کاٹتے ہوئے بولی
پلیز یہاں سے چلے جائیں۔
اوہ کم آن۔۔۔وہ کہتا ہوا آگے بڑھا اور حانی کا ہاتھ پکڑ لیا
چھوڑیں مجھے۔۔۔حانی کو غصہ آیا
چھوڑو مجھے۔۔۔اس نے جھٹکا دینے کے ساتھ ہی ایک تھپڑ دے مارا اور بھاگتی ہوئی اپنے کمرے میں آگئی زور زور سے رونے لگی۔۔۔
ازمیر کو اس کی اس حرکت پہ غصہ تھا۔
وہ باہر آگیا
رات کافی گزر گئی تھی مہمان شاید جا چکے تھے گھر بھر میں خاموشی تھی بھوک سے اسکا برا حال ہو رہا تھا۔
اگر علینہ کو پتہ چل گیا تو۔۔۔۔؟وہ ڈر گئی تھی۔
مجھے کچن کا کام کرنا ہے ابھی۔۔۔وہ اٹھ گئی تھی
ہولے ہولے چلتے ہوئے وہ کچن تک آئی اور آرام آرام سے برتن دھونے لگی۔سب کچھ کرکے وہ کھانا لے کر اپنے کمرے میں آگئی سامنے ازمیر کھڑا تھا کھانا اسکے ہاتھ سے چھوٹتا اس سے پہلے ازمیر اس کے ہاتھ سے کھانا لے چکا تھا۔
۔۔
آپ۔۔۔۔میرے کمرے میں۔۔۔۔وہ پاگل ہورہی تھی۔۔۔
اس سے پہلے وہ کچھ بولتی ازمیر کا طاقتور ہاتھ اسکے منہ پہ تھا ۔۔اس نے اپنے آپکو بچانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ مرد تھا اور جیت ہمیشہ مرد کی ہی ہوتی ہے اور اب بھی وہ جیت چکا تھا۔۔۔
رات تاریک ہوتی رہی اسکے ساتھ ام ِ حانی کو بھی تاریک کرگئی ۔ام ِحانی بھی اسی تاریکی میں تاریک ہو چکی تھی۔
۔۔
#۔۔۔۔۔۔#
سر۔۔۔انوشہ کا قتل میں نے نہیں کیا بلکہ ازمیر نے کیا ہے۔اس نے گویا انسپکٹر کے سر پہ بم پھوڑا
انہیں یقین نہ آیا وہ اسے دیکھتے رہ گئے
جی سر۔۔۔ان کا قتل ازمیر نے کیا ہے۔انوشہ میڈم انہیں پسند کرتی تھیں لیکن ازمیر نہیں کرتا تھا۔
میں سب جانتی ہوں انہوں نے میرے سامنے انہیں مارا ہے
اس نے پہلے میرے ساتھ۔
۔۔۔وہ رونے لگی
پلیز آگے بتاؤ مجھے۔۔۔کیا ہوا۔
سر۔۔۔علینہ میڈم کے گھر ایک ہی پستول تھا جسے میں ہر روز لاک میں رکھا کرتی تھی لیکن اس رات وہ وہاں تھا ہی نہیں ۔
وہ پستول جس پہ تمھارے فنگر پرنٹس ہیں؟
جی سر۔۔۔
میں نے انوش کو نہیں مارا مجھے جانے دیں۔مجھے معاف کردیں۔
تمھیں پورا یقین ہے یہ کام ازمیر نے ہی کیا ہے؟
جی سر۔
اس رات انوش میڈم کی سالگرہ تھی ،علینہ میڈم شوٹنگ پہ گئی ہوئی تھیں اور انوشہ ازمیر کا ویٹ کر رہی تھیں ۔پیچھلی رات ان میں بہت جھگڑا ہو اتھامگر وہ جلد ہی راضی بھی ہوگئے تھے۔
ازمیر جلد ہی آگیا تھا ۔دونوں میں تھوڑی بہت بات ہوئی ازمیر کو شاید معلوم تھا گن ڈریسنگ میں ہے۔وہ کسی بہانے سے کمرے میں گیا تھوڑی دیر بعد گولی چلنے کی آواز آئی
میں اخبار چھوڑ کر بھاگتی ہوئی اندر آئی تو۔
۔۔وہ دو پل کو رکی
انوشہ فرش پہ اوندھے منہ گری ہوئی تھی۔ازمیر نے گن میری طرف کی میں ڈر گئی
میں کمرے سے بھاگی لیکن وہ شاید پہلے ہی کھڑکی سے باہر جاچکا تھا۔۔۔
میں دوبارہ کمرے میں آئی انوشہ میڈم کو تھاما لیکن ان کی موت میری ان بانہوں میں ہو گئی ۔۔۔۔
میں ۔۔۔میں نے علینہ میڈم کو کال کی
پولیس اور میڈم ماننے کو تیارہی نہیں کہ یہ خون میں نے نہیں کیا۔
۔۔
ہاں۔۔۔تم نے ایک غلطی بھی تو کی
غلطی۔۔۔؟وہ سمجھی نہ تھی
وہ کیا سر۔۔۔؟
تم نے گن کو ہاتھ لگایا تھا۔جبکہ ازمیر کے ہاتھوں میں دستانے تھے۔وہ بچ گیا اور تم پھنس گئی۔۔۔
اب۔۔۔کیا ہو گا سر۔۔۔؟وہ گھبرا گئی
میں کوشش کرونگا تمھیں رہا کر دیا جائے۔تم دعا کرنا
میں سب باتیں لکھ لی ہیں۔جلدہی ازمیر کا پتہ لگائیں گئے۔

وہ چپ رہی۔۔۔
شکریہ تم نے مجھے بتایا۔اب میں چلتا ہوں خد اکرم کرے گا پریشان مت ہونا۔۔۔کہہ کر وہ باہر چلے گئے
#۔۔۔۔۔۔#
علینہ ماننے کوتیار ہی نہ تھی۔۔۔تم نے میری بیٹی کا خون کردیا ہے۔تمھی ہو اسکی قاتل۔۔۔وہ اسکے گلے پڑ گئی تھیں جبکہ حانی کا پریشانی سے برا حال تھا ۔
انہوں نے ازمیر کو کال کی۔۔۔وہ گھر آچکا تھا
تھوڑا حیران ضرور تھا وہ ۔
۔۔اس نے انجانا بننے کی کوشش کی اور جلد ہی واپس آگیا۔وہ اپنے مشن میں کامیاب ہو چکا تھا۔اب اسکا نشانہ عنائیہ پہ تھا اگلے دو دن میں وہ اسکا بھی کام تمام کرچکا تھا۔
علینہ کا رو رو کر بر احال تھا اک ہی تو بیٹی تھی اسکی ۔۔۔اب وہ ہی نہ رہی تھی اس کے پاس اسکے جینے کا مقصد ختم ہو گیا تھا۔۔
#۔۔۔۔۔۔۔۔#
اگلے دن شام کے وقت ایس پی اسکے پاس آیا تھا۔
اس نے علینہ کی جانب سے ساری تفصیلات لے لی تھیں۔اس نے ازمیر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن اس کا سیل آف آرہا تھا ۔وہ ان سے ملکر ازمیر کی تلاش میں تھے جب ایک اور کیس آگیا ۔ادھر بھی لڑکی کا ہی قتل کیا گیا تھا ۔وہ سوچ میں گم تھے اسے حل چاہیے تھا جو کسی کے پاس بھی نہیں تھا۔
انہوں نے خوب محنت کی اور چند ہی دن میں انہیں ازمیر کا پتہ چل گیا۔

آج رات وہ اسکے پاس پہنچ چکے تھے ازمیر ذرا بھی نہ ڈرا۔بلکہ اس نے تو یہ تک کہہ دیا کہ وہ حانی کو نہیں جانتا۔ایس پی کے دل کو کچھ ہوا ،اس معصوم لڑکی کا صبیح چہرہ ان کے سامنے آیا۔انہوں نے ازمیر کو ایک تھپڑ رسید کردیا اور بولے اب یاد آیا۔۔۔
میں نہیں جانتا۔۔۔
کب تک جھوٹ بولو گئے؟
ازمیر ہنسنے لگا
تمھیں ابھی اسی وقت میرے ساتھ تھا نہ چلنا ہو گا۔

میں کیوں چلوں ؟کیا ثبوت ہے آپکے پاس میرے خلاف؟
ثبوت یہ ہے کہ تم انوشہ کے قاتل ہو اور حانی کے ساتھ زیادتی کے جرم میں تمھیں گرفتار کیا جاتا ہے۔انہوں نے کہتے ہی اپنے ساتھی کو اشارہ کیا اور اسطرح وہ پکڑا گیا۔۔۔
بتاؤ مجھے کیوں مارا تم نے اس لڑکی کو۔۔۔؟
مجھے کوئی شوق نہیں ۔۔۔اس نے خود ہی کام الٹا کردیا تھا
کیا کام۔۔
۔؟
میں نے اسے یہی کہا تھا میں نے تم سے شادی نہیں کرنی لیکن وہ بے و قوف میری ایک نہ مانی اور پھر مجھے اسے راستے سے صاف کرنا پڑا۔۔۔
اگر شادی نہیں تھی کرنی تو اسکی مما سے بات کرسکتے تھے۔اور تم نے الٹا حانی کو پھنسا دیا۔۔۔
اور کیا کرتا۔۔۔؟میرے پاس کوئی حل نہیں تھا۔۔۔
کمینے تجھے شرم نہ آئی ایسا کرتے ہوئے۔۔۔۔تمھیں کیا ملے گئی یہ تم جانتے ہو۔
۔۔؟
مجھے کوئی سزا نہیں دے سکتا۔۔۔
عمر قید کی سزا ہو گئی تمھیں۔۔۔سمجھے تم کہہ کر وہ کمرے سے باہر جا چکے تھے۔
#۔۔۔۔۔۔۔۔۔#
اماں۔۔۔حانی رونے لگی
نہ میرے بچے۔۔۔اماں اسے چپ کروانے لگیں
مجھے یقین ہے تو بے قصور ہے۔اماں اسے حوصلہ دینے لگیں
بصیرت اور شہزاد کیسے ہیں؟
وہ با لکل ٹھیک ہیں۔تجھے بہت یاد کرتے ہیں ۔
تو اب جلدی سے آجا گھر
کافی دیر تک اس نے اماں سے بات کی اماں کے جانے کے بعد ہی ایس پی آگئے تھے۔
وہ ان کے سامنے با لکل چپ بیٹھی تھی جیسے پہلے دن بیٹھی تھی خاموش۔۔۔
تم جانتی ہو تمھارے ایک سچ بولنے سے مجھے کتنی خوشی ہوئی ہے۔۔۔
میں نے ہمیشہ سچ بولنا سیکھا ہے ابا کہتے تھے جھوٹ کبھی مت بولنا چاہے کتنا ہی فائدہ کیوں نہ ہو رہا ہو۔
۔۔ابا کی نصیحت میں نے ہمیشہ یاد رکھی ہے۔اس لیے سچ بولا
تمھیں پتہ ہے ازمیر کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔اور کل تمھارا فیصلہ ہو جائے گا۔
و ہ یک ٹک انہیں گھورے گئی۔۔۔آپ مذاق کر رہے ہیں نا۔۔۔؟
نہیں۔۔۔یہ مذاق با لکل نہیں۔با لکل سچ ہے
ایس پی میں آپکا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گی حا نی کی آنکھوں آنسو آگئے۔۔
احسان کیسا۔۔؟یہ تو میرا فرض تھا۔

احسان تو آپکو مجھ پہ کرنا ہے؟ان کے منہ سے نکل گیا
کیسا احسان ۔۔؟
کیا میں اس سلسلے میں فیصلے کے بعد بات کروں؟
جی ٹھیک ہے۔۔۔
کل تم رہا ہو رہی ہو کیسالگ رہا ہے؟
سر۔۔آپ یہ کیوں پوچھ رہے ہیں۔آپ جانتے ہیں جب کسی قیدی کو رہا کیا جائے تو اسکیو کتنی خوشی ہوتی ہے۔
اوکے۔۔۔میں اب چلتا ہوں وہ کھڑے ہوگئے
خداحافظ۔
۔۔
#۔۔۔۔۔۔۔۔#
رات گہری ہوتی جارہی تھی ایس پی اعجاز کو نید نہیں آرہی تھی عجیب سی حالت ہو رہی تھی۔
با ربار اسکا معصوم چہر ہ ان کے سامنے آتا تھا
ایک انسپکٹر بن کروہ اپنے دل کی بات بتانے میں دیر کر رہے تھے۔۔
نہ جانے ہمت کہاں گم ہو کر رہ گئی تھی
لیکن وہ فیصلہ کر چکا تھا کہ اسے صبح کیا کرنا ہے۔اب وہ مطمئن ہو گیا تھا
صبح جلد ہی وہ کورٹ پہنچ گیا تھا ۔
سبھی لوگ وہیں موجود تھے۔
حانی سے اس رات کا سارا واقعہ سنا گیا تھا۔
ازمیر پہ دوہرے الزام تھے اسے تا حیات عمر قید کی با مشقت سزا سنائی گئی تھی جبکہ حانی کو با عزت بری کر دیا گیا تھا ۔اسوقت حانی کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا ۔وہ رو رہی تھی اس نے اچانک ہی اعجاز کی جانب دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہے تھے انہوں نے اشارے سے اسے رونے سے منع کیا۔
۔۔
اماں نے اسے اپنے گلے لگا لیا تھا۔سب لوگ اعجاز کو مبارک باد دے رہے تھے وہ یہ کیس جیت چکا تھا ۔
وہ خو ش تھا لیکن بے قرار بھی تھا۔
واپسی پہ اس نے خود حانی لوگوں کو گھر چھوڑنے آیا تھا۔اماں اس کے ساتھ بے حد خوش تھیں۔
اس نے اماں سے اپنے دل کی بات کہہ ہی ڈالی اور اماں کو اس سے اعتراض کس با ت کا تھا ؟
وہ خوشی خوشی گھر لوٹ گیا۔
۔۔لیکن اب بے قراری کچھ اور بڑھ گئی تھی۔حانی سے ملنے کی
رات کو سوتے وقت اماں نے اسے اپنے پاس بلایا اور کہا
بیٹا اب تم بڑی ہو گئی ہو ۔۔۔
اماں کیا بات ہے۔۔۔؟
بیٹا! اعجاز تم سے شادی کرنا چاہتا ہے۔مجھے تو وہ بہت اچھا لگا ہے۔تمھیں کوئی اعتراض تو نہیں ہے نا۔۔۔؟
اماں بو ل رہی تھیں اور وہ دل تھامے سب سن رہی تھی۔۔۔
اماں آپ جو بھی فیصلہ کرنیگی مجھے منظور ہے۔
اس نے دھڑکتے دل سے کہا
تو میں اسے ہاں کہہ دوں ؟
حانی شرم سے بھاگ کر کمرے میں چلی گئی جب کہ اماں مسکرااٹھیں۔وہ خدا کا جتنا شکر اد اکرتی کم تھا۔
آخر ان کی بیٹی کا گھر بن گیا تھا۔۔۔
#۔۔۔۔۔۔#
دروازے پہ بیل بجی تھی۔
شہزاد دروازہ کھولو۔۔۔حانی آٹا گوندھتے بولی
کوئی جواب نہ آیا
شہزاد۔۔۔اس نے ایک بار پھر آواز لگائی
دروازہ ایک بار پھر بجا۔
۔۔لگتا ہے مجھے ہی جانا پڑے گا۔وہ اٹھتے ہوئے دروازے کے پاس آئی جوں ہی اس نے دروازہ کھولا وہ اسکے سامنے تھے
آج پہلی بار وہ اسکے اتنے قریب کھڑے تھے۔وہ سائیڈ پہ ہو گئی جبکہ وہ اندر آگیا
اس نے جلدی سے اماں کو کمرے سے نکالا اماں نے اسے اپنے سینے سے لگا لیا
چند ہی دنوں میں اسکی شادی کا شور اٹھ گیا۔۔۔وہ رخصت ہو کر ایس پی اعجاز کے گھر چلی گئی
اسے فخر تھا کہ وہ ایک سچے اور ایماندار انسپکٹر کی بیوی ہے۔
وہ بہت خوش تھی اپنی زندگی سے اور اماں تو بے حد خو ش تھیں۔
سردیوں کی بار ش ہمیشہ اسکی کمزوری تھی اور اب بھی وہ اپنے کمرے میں آرام کرنے کی بجائے صحن میں آگئی تھی۔
بارش کے قطروں کو اپنے جسم پہ محسوس کرتے ہوئے اسے بہت اچھا لگ رہا تھا ۔۔۔اسے جلد ہی سردی محسوس ہونے لگی تو اس نے قدم کمرے کی جانب کر دیے لیکن پیچھے اعجاز کھڑے تھے وہ وہیں رک سی گئی۔
۔اعجاز ہولے ہولے چلتے ہوئے اسکے پاس آگئے۔
میرے بغیر بارش انجوائے ہورتھی جناب۔۔۔؟
وہ خاموش رہی۔۔۔وہ شرما کر اندر جانے لگی مگر اعجاز نے اسے روک لیا وہ اسکے سینے سے لگ گئی بارش مزید تیز ہو رہی تھی ۔
ہمیں اندر جانا چاہیے۔حانی بولی
میں تمھیں کہیں نہیں جانے دوں گا۔اس نے اپنی گرفت اور مضبوط کر لی
چلیئے نہ اندر چلتے ہیں اسے سردی محسوس ہورہی تھی۔
وہ ایک بار پھر بولی مگر اعجاز نے اپنے ہونٹ اسکے ہونٹوں سے ملا دیے۔
حانی۔۔۔تم جانتی ہو تم نے مجھ پہ کتنا بڑا احسان کیا ہے۔میں سمجھتا تھا شاید تم کبھی نہیں مانو گئی ۔بارش انجوائے کرتے ہوئے وہ بولا
کیسے نہ کرتی احسان ۔اگر احسان نہ کرتی تو مجھے یہ خوشیاں نہ ملتیں۔وہ اسکے سینے سے لگ کر بولی
اعجاز اسکے اسطرح بولنے پہ خوش ہو گیا۔اور اسے مزید اپنے قریب کر لیا
الله تعالیٰ بھی ان کے ملن پہ خو ش تھے تبھی تو اپن ی رحمت ان پر نچھاور کردی اس برستی بارش نے بھی انکے اسطرح خوش رہنے کی دعا کی۔
ختم شد

Browse More Urdu Literature Articles