Azm Ki Dastaan - Article No. 887

Azm Ki Dastaan

عزم کی داستان - تحریر نمبر 887

ثمرین کا سٹاپ گھر سے تقریبا دس منٹ کے فاصلے پر تھا آج ثمرین کو کالج سے بہت دیر ہو گئی تھی لہذا ثمرین نے اپنے قدموں کی رفتار دتیز کر لی راستے میں نازش بھی مل گئی جو کہ ثمرین کی کلاس فیلو تھی

منگل 21 اپریل 2015

بابرنایاب
امی جلدی سے ناشتا بنا دو اگر آج مجھے کالج جانے میں د یر ہو گئی نا تو میری خیر نہیں ،ثمرین نے اپنے خوبصورت گھنے بالوں پہ کنگھی کرتے ہوئے اونچی آواز میں اپنی امی کو کہا،ثمرین آج تیرے لیے میں نے دو آلو کے پراٹھے بنائے ہیں یہ تو کھا کے ہی کالج جائے گئی تونے اپنی صحت دیکھی ہے کتنی دبلی پتلی ہو گئی ہے ،چل اب آرام سے بیٹھ اور کھا تیرے کالج کو دیر ہوتی ہے تو ہو جائے ،ثمرین کی امی فرحت نے محبت اور مٹھاس سے اپنی اکلوتی بیٹی ثمرین کو ناشتا دیتے ہوئے کہا،افوہ امی آپ بھی نا مجھے موٹی بھینس بنا کے ہی چھوڈو گئی ،ثمرین نے بادل نا خواستہ ایک ہی پراٹھے پہ اکتفا کیا اور جلدی جلدی اپنی کتابیں بیگ میں ڈالیں اور بلیک گاؤن پہنا اور امی کو خدا حافظ کہ کر گھر سے نکل پڑی۔

(جاری ہے)


ثمرین کا سٹاپ گھر سے تقریبا دس منٹ کے فاصلے پر تھا آج ثمرین کو کالج سے بہت دیر ہو گئی تھی لہذا ثمرین نے اپنے قدموں کی رفتار دتیز کر لی راستے میں نازش بھی مل گئی جو کہ ثمرین کی کلاس فیلو تھی آج تو مس نبیلہ مجھے کالج سے ہی نکال دے گئی چلتے چلتے ثمرین نے نازش کو کہا،ارے گھبرایا نہ کرو یہ جو ٹیچرز ہوتی ہے نا صرف رعبجھاڑنے کے لیے ہوتی ہے میری طرح ایک کان سے سنا کرو اور دوسرے کان سے باہر نکال دیا کرو،نازش نے مسکراتے ہوئے جواب دیا،ہاں ہاں تجھ جیسی ڈھیٹ کا کیا مگر مجھے تو اپنی عزت بہت پیاری ہے مجھے تو زرا بھی ڈانٹ پڑ جائے تو لگتا ہے میری جان ہی نکل جائے گئی ، لو جی ابھی تم نے ڈاکٹر بننا ہے کافی کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے ابھی سے تمہاری یہ حالت ہے سچ میں تو واقعی ہی بہت ڈرپوک ہے ،نازش نے ہنستے ہوئے ثمرین کا مذاق اُڑایا ۔
جب ثمرین نے غصے کی نگاہ نازش پر ڈالی تو نازش کی بولتی بند ہو گئی اتنی دیر میں سٹاپ بھی آ چکا تھا ثمرین اور نازش نے جلدی سے بس میں اپنی جگہ بنائی اورکالج کی طرف روانہ ہو گئیں ۔
####
سیدطلعت احمد کے گھر جب ثمرین نے آنکھ کھولی تو طلعت احمد خوشی سے جھوم اُٹھا آٹھ سال بعد سید طلعت احمد کو اُولاد جیسی نعمت ملی طلعت احمد خدا کا شکر ادا کرتا نا تھکتا تھا۔
طلعت احمد محکمہ تعلیم میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھا اور معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھاجاتا تھا طلعت احمد نے زندگی بھر سوائے نیک نامی کے کچھ نہیں کمایا تھا ۔زندگی کی کل یہی جمع پونجی تھی جس پر انھیں ہمیشہ فخر رہتا تھا اسی بنا پر معاشرے میں ایک عزت کا مقام بھی حاصل تھا فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا اور لوگوں کے دکھ درد میں کام آنا طلعت احمد کی خوبیوں میں ایک بہت بڑی خوبی تھی ۔

طلعت احمد کا ایک ہی بھائی تھا جسکا نام سید افتخار احمد تھا جو کہ طلعت احمد سے بڑا تھا اور گاؤں میں زمیندداری کرتاتھا،افتخار احمد کے تین بیٹے تھے سب سے چھوٹے بیٹے کا نام راجو تھا جو کہ افتخار احمدکا بہت لاڈلا تھا اسی بے جا لاڈ پیار نے بچپن سے ہی راجو کو کافی سرکش بنا دیا تھا ۔
جب طلعت کے ہاں ثمرین پیدا ہوئی تو افتخار احمد نے اپنے چھوٹے بھائی کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا ،طلعت یہ آج سے تیری بیٹی نہیں میری بھی بیٹی ہے یہ میں نے اپنے چھوٹے بیٹے راجو کے لیے پسند کر لی ہے ،طلعت احمد کو اپنی بھائی کی یہ بات بہت ناگوار گزری چونکہ خوشی کا موقع تھا لہذا طلعت احمد نے اپنے بڑے بھائی کی اس بات کو نظر انداز کر دیا ،ثمرین کو جب طلعت احمد نے ا ُٹھایا
تو ایسا لگا جیسے چھوٹی سی پیاری سی ایک ڈول کو اُٹھا لیا ہے تبھی طلعت احمد کے دل سے دعا نکلی کہ اے پروردگار میری بیٹی کو میری زندگی بھی دے دینا اسے کبھی میری نظروں سے دور نہ کرنا طلعت احمد کو اپنی بیٹی پہ بے انتہا پیار آ رہا تھا طلعت احمد کو لگا جیسے اُس نے کوئی بہت بڑا خزانہ پا لیا ہے ایک منٹ کے لیے بھی وہ ثمرین کو کو اپنی نگاہوں سے دور نہیں ہونے دیتا تھا ۔

وقت پر لگا کر اُڑنے لگا طلعت احمد نے اپنی بیٹی کی پڑھائی پر خصوصی توجہ دی طلعت کا خواب تھا کہ ثمرین بڑی ہو کر ڈاکٹر بنے یہ طلعت کا صرف خواب ہی نہیں بلکہ جنون بھی تھا جیسے جیسے ثمرین بڑی ہوتی جا رہی تھی طلعت کو اپنے خواب کی تعبیر بہت نزدیک محسوس ہو رہی تھی طلعت احمد اپنی بیٹی سے دیوانہ وار محبت کرنے لگا جب ثمرین دس سال کی ہوئی تو شدید بیمار ہو گئی طلعت احمد دو مہینے دفتر نہیں گیا اور ثمرین کی دن رات دیکھ بھال کی اور بہتر سے بہتر علاج کروایا اور خوب صدقہ خیرات دیااور پھر ثمرین صحت یاب ہوگئی تب جا کر طلعت کے دل کو قرار آیا طلعت کی بیوی فرحت اکثر طلعت احمد کو چھیڑتے ہوئے کہتی تھی لگتا ہے ثمرین کی ماں میں نہیں آپ ہومیں تو صرف نام کی ہی ماں ہوں اس بات پر طلعت مُسکرا دیتا ۔
جیسے جیسے ثمرین بڑی ہوتی جا رہی تھی حسن و جمال کا پیکر ہوتی جا رہی تھی بڑی بڑی خوبصورت آنکھیں جن میں دنیا کی مچلتی ہوئی آرزوئیں سمٹ کے آ گئی ہوں،دودھ جیسی رنگت ،موتیوں جیسے دانت اور پھول سے بھی تازہ ہونٹ اور کالی گھٹا کی طرح زلفیں ،چاند جیسا روشن چہرہ جو دیکھنے والوں کو مبہوت کر دیتا تھا ثمرین اپنی خوبصورتی کی وجہ سے اپنے پورے کالج میں مشہور و معروف تھی مگر اتنی خوبصورتی نے بھی ثمرین کو گھمنڈی نہیں بنایا تھا بلکہ ثمرین اپنے باپ کی طرح شفیق اور انتہا درجہ کی ہمدرد اور نیک سیرت تھی ثمرین کے لیے بڑے بڑے گھروں سے رشتے آئے مگر طلعت احمد اپنی بیٹی کی جلدی شادی نہیں کرنا چاہتا تھا جب ثمرین نے میٹرک میں ٹاپ کیا تو طلعت نے پورے محلے میں دل کھول کر مٹھائی بانٹی اب ثمرین سیکنڈ ائیر میں تھی اور دن رات محنت کر رہی تھی تاکہ اچھے سے اچھے نمبرز بن جائیں اور میڈیکل کالج میں آسانی سے داخلہ مل جائے ۔

####
ثمرین کالج سے تھکی ہاری گھر واپس آئی تو اپنے کزن راجو کو گھر کے صحن میں کرسی پر اکڑ کر بیٹھے دیکھا ،راجو اکثر و بیشتر بہانے بہانے سے ثمرین کے گھر ا ٓ جاتا تھا ثمرین جب راجو کو دیکھتی تو تن بدن میں آگ سی لگ جاتی کیونکہ راجو ایک نمبر کا آوارہ تھا راجو نے آٹھویں کے بعد سکول چھوڈ دیا تھا اور باپ کی زمینوں پر عیاشی کررہا تھا ۔
ثمرین کی امی نے بھی خاص طور پر راجو کی اُوچھی حرکتوں کو محسوس کیا مگر وہ اُسے اپنے گھر آنے سے منع نہیں کر سکتی تھی کیونکہ یہ حق صرف طلعت کو حاصل تھا جو کہ راجوکا چچا تھا ۔
ثمرین کو کالج سے میں لے آیا کروں چچی دیکھوں تو سہی بیچاری بس کے دھکے کھا کھا کر کتنی تھک جاتی ہے میرے پاس تو کار ہے آرام سے لے آیا کروں گا ،راجو نے اپنی چچی فرحت کو کہا،نہیں بیٹا ثمرین اپنی سہیلیوں کے ساتھ ہی جانا پسند کرتی ہے اور اُن کے ساتھ ہی واپس آتی ہے ویسے بھی تمہارے چچا طلعت کبھی کبھی د فتر سے گاڈی بھیج دیتے ہیں ثمرین کو پک اینڈ ڈراپ کے لیے مگر وہ خود ہی پبلک ٹرانسپورٹ میں آتی جاتی ہے ،ثمرین کی امی نے راجو کو تفصیلی جواب دیااچھا چچی اب میں چلتا ہوں آپ تو کبھی ہمارے گھر آتی نہیں ، راجو نے اپنے لہجے میں مصنوعی سی معصومیت لاتے ہوئے کہا،بس بیٹا گھر کے کام کاج سے فرصت نہیں ملتی ،ہاں اب کبھی طلعت کو دفتر سے چھٹی ملی تو ضرور آئیں گئے ،ثمرین کی امی نے راجو کو جواب دیا اور پھر راجو چلا گیا۔

امی یہ ادھر لینے کیا آتا ہے اسکی بیہودہ نظریں اور خباثت والا چہرہ مجھے زرا پسند نہیں ،ثمرین نے غصے سے اپنی امی کو کہا،بیٹا خود پہ کنٹرول کرو وہ تیرا کزن ہے مجھے خود اسکا یہاں آنا جانا اچھا نہیں لگتا مگر اب تو ہی بتا میں اُسے کیسے منع کروں،آپ ابو کو کہیں کہ وہ راجو کو گھر آنے سے منع کرے ،ثمرین کا غصہ ٹھندا نہیں ہو رہا تھا راجو نے ایک دو دفعہ حد ہی کر دی تھی کالج سے واپسی پر ثمرین کے ہاتھ میں ایک کاغذ کا ٹکڑا پکڑا دیا تھا جو کہ یقیناراجو کی طرف سے اُس کا محبت نامہ تھا جسے ثمرین نے پڑھے بغیر پھاڑدیا تھا پھر اُس دن کے بعد راجو نے خط تو نہیں دیا مگر ثمرین کے گھر چکر لگانا اُس کا معمول بن گیا تھا ۔

####
ثمرین نازش کے ساتھ سٹاپ کی طرف پیدل جا رہی تھی کہ ایکدم ایک پجارو ثمرین کے بالکل سامنے آ کر رکی جس میں راجو بیٹھا صاف نظر آرہا تھا اور اُس کے ہونٹوں پہ ایک مکارانہ سی مسکراہٹ ناچ رہی تھی ،آؤ ثمرین تمہیں گاڈی میں کالج چھوڈ دوں ،راجو نے ثمرین پر ایک بھرپور نظر دٓالتے ہوئے کہا ،نہیں مجھے آپ کی گاڈی کی ضرورت نہیں اور آیندہ کبھی میرے سامنے بھی مت آنا ورنہ میں ابو کو بتا دوں گئی ، ثمرین نے غصے سے جواب دیا اور آگے بڑھ گئی ،پیچھے سے راجو نے جو کچھ کہا اُس کوسن کر ثمرین لرز کر رہ گئی ،اگر تم میری نہ ہوئی تو میں تمہارے حسن کو جلا کر رکھ دوں گا یہ راجو نے کہا تھا ،یہ صرف ایک جملہ نہیں ایک دھمکی آمیز واضح پیغام تھا پھرجسطرح ثمرین نے کالج تک سفر کیا وہی جانتی تھی یہ تو نازش ساتھ نہ ہوتی تو شاید ثمرین کو اپنے قدموں پر چلنا مشکل ہو جاتا وہ تو ایک نازک سے دل کی مالک تھی اتنی خوفناک دھمکی نے ثمرین کو بری طرح خوفزدہ کر دیا تھا کالج پہنچ کر ثمرین نے اپنے ابو کو کال کی کہ اُسکی طبعیت خراب ہے ا ور اُسے کالج سے آ کر لے جائیں ،طلعت احمد جلد ہی کالج پہنچ گیا اور ثمرین کو لیکر گھر آگیا ۔

ثمرین نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اُس سے پہلے راجو کی بدمعاشی مزید بڑھے اپنے ابو کو راجو کے بارے میں سب بتا دے رات کو ثمرین نے اپنے ابو کو تفصیل سے راجو کی دھمکی اور بدمعاشی کے بارے میں سب بتا دیا ،طلعت احمد ثمرین کی زبانی اپنے بھتیجے راجو کے بارے میں سن کر سناٹے میں ا ٓ گئے وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اس کا بھتیجا اتنانیچ اور گھٹیا بھی ہو سکتا ہے طلعت احمد غصے سے آگ بگولہ ہو گئے ساری رات سو نہ سکے اور دوسرے دن صبح سویرے ہی اپنے بھائی افتخار احمد کے گاؤں گئے اور افتخار احمد کوایک الگ کمرے میں لے جا کر راجو کی ساری خباثتیں بتا دیں ،افتخار احمد نے کچھ پل سوچنے کے بعد کہا،تو اس میں گھبرانے کی کیا بات ہے ثمرین راجو کی منگ ہے یہ تو جوانی میں ایسی چھوٹی موٹی غلطیاں ہو جاتی ہیں افتخار احمد کی اس جواب نے طلعت احمد کو حیران پریشان کر دیا ۔

بس بھائی بہت ہو گیا راجو سے میں اپنی بیٹی کے رشتے کا سوچ بھی نہیں سکتا وہ ایک انمول ہیرا ہے اُسے میں کیچڑ میں کبھی نہیں پھینک سکتا آپ جیسے بھائی کے رشتے کی قربانی تو دی جا سکتی ہے مگر اپنی بیٹی کی نہیں جسے میں اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتا ہوں میں اُسے راجو جیسے ان پڑھ جاہل اور آوارہ کے پلے باندھ کر اُس کی زندگی دوزخ میں نہیں ڈال سکتا ا ب راجو میری بیٹی کے آس پاس بھی دکھائی دیا تو ُپھر مجبورا مجھے پولیس سے رجوع کرنا پڑے گا ، طلعت احمد نے انتہائی غصے سے اپنے بڑے بھائی افتخار احمد کو کرارہ سا جواب دیا اور اُن کا جواب سنے بغیر گھر سے نکلا آیا۔

####
ثمرین کے کالج میں آج ہاف ڈے تھا لہذا ثمرین کو جلد ہی چھٹی ہو گئی موسم بھی آج بہت سہانا تھا ثمرین ایسے موسم میں خوب انجوائے کرتی تھی راستے میں ثمرین نے آ ئسکریم لے لی سوچا گھر جا کر آرام سے کھائے گئی ،نازش آج سارے رستے ثمرین کو چھیڑتے ہوئے آ رہی تھی ،ثمرین بھی آج کافی موڈ میں تھی اور وہ اپنی پسند کی شاعری موسم کے مزاج کے مطابق نازش کو سنا رہی تھی،راستے میں نازش کا گھر آ گیا تو ثمرین نے اُسے خدا حافظ کہا اور اپنی گلی کی طرف مڑ گئی اچانک سامنے سے آنے والے دو موٹر سائکل سوار افراد میں سے پیچھے بیٹھے ایک آدمی نے بوتل سے کوئی چیز ثمرین پر پھینک دی،ثمرین کو لگا جیسے کسی بھیانک آگ نے ثمرین کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہو ،درد اور ازیت سے ثمرین کی ایک خوفناک چیخ نکل گئی اور ثمرین گلی میں ہی نیچے گر گئی پھر ثمرین کو کچھ ہوش نہ رہااُس کے ساتھ کیا قیامت بیتی ہے محلے کے لوگ اکٹھے ہو گئے ثمرین کی آئسکریم اُس کے ہاتھ میں تھی اور شولڈر پر لٹکا بیگ ایک طرف لڑھک گیا ،ثمرین کی امی کو پتا چلا تو وہ گھر سے بھاگتی ہوئی آئی اور ثمرین کی حالت دیکھ کر دیوانہ وار چیخنے لگ گئی ۔
اتنے میں محلے کے لوگوں نے جلدی سی ثمرین کو ہسپتال پہنچایاطلعت ااحمد کو اطلاع دے دی گئی وہ بھی جلدی سے ہسپتال پہنچے تو پتا چلا کے ثمرین پر کسی نے تیزب پھینک دیا ہے۔طلعت احمد کو لگا جیسے اُن کی جان نکل گئی ہوہسپتال میں ایک جگہ ایمرجنسی کے باہر طلعت احمد کی بیوی زار قطار ر و رہی تھی اور پوری پرادری کے لوگ جمع تھے طلعت احمد بھی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور ہچکیاں لے کر رونے لگ گئے مسز فرحت نے اپنے خاوند کو دلاسا دیا مگر آنسوؤں کا اذیت بھرا سمندر تھا جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ۔
طلعت احمد نے اپنی پوری زندگی کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی مگر آج اُن کی جان سے پیاری بیٹی کو یوں انتقام کا نشانہ بنا یا گیا کہ سوچنے سے بھی جُھرجھری ہو رہی تھی جس بچی کی ایک تکلیف طلعت احمد کو غمزدہ کر دیتی تھی ۔
آج وہی بچی پر ایک قیامت گزر رہی تھی اور طلعت احمد کا غم کے مارے بُرا حال تھا کچھ ہی دیر بعد ایمر جنسی روم سے ڈاکٹر باہر نکلا اور طلعت احمد کو کہا ، شکرہے آپ کی بچی خطرے سے باہر ہے آپکی بچی کا ہاتھ ، کان اور دائیں گال کو تیزاب نے متاثر کیا ہے مگر آپکی بیٹی کے کندھے پر جو بیگ تھا اُس کی وجہ سے قمر اور جسم کاباقی حصہ تیزاب سے محفوظ رہ گیا طلعت احمد یہ سن کر سجدے میں گر گیا اور کہا، اے میرے رب تیرا لاکھ لاکھ شکرہے تو نے میری بچی کی زندگی رکھ لی ،اتنے میں افتخار احمد اور اُسکی بیوی بھی ہسپتال پہنچ چکے تھے افتخار احمد کے چہرے پر کافی پریشانی تھی افتخار احمد نے اپنے بھائی کو گلے سے لگایا اور دلاسہ دیتے ہوئے کہا جس نے بھی یہ ظلم کیا ہے خدا اُسے ضرور سزا دے گا ۔
طلعت احمد اپنے بھائی کے گلے لگ کے کافی دیر تک روتا رہا ایک مہینہ تک ڈاکڑز نے ثمرین کو انتہائی نگہداشت میں رکھا طلعت احمد نے دفتر سے ایک مہینہ تک چھٹی لے لی تھی اور دن رات اپنی بچی کی تیمارداری کی ،ثمرین کو جب پوری طرح ہوش آیا تو اُسے اپنے جسم کے مختلف حصوں پر شدید تکلیف کا احساس ہوا ایسا لگ رہا تھا کہ سارا جسم جیسے جل رہا ہو مارے تکلیف کے ثمرین کی آنکھوں سے آنسو آ گئے ۔
طلعت احمد نے اپنا ہاتھ ثمرین کے سر پر رکھا اور کہا،میری بیٹی بتا کس نے یہ ظلم تیرے ساتھ کیا ہے میں خود اپنے ہاتھوں سے اُس کو جہنم واصل کروں گا ،ثمرین نے اپنی آنکھیں بند کر لی اور دماغ پر تھوڑا زور دیا تو حقیقت واضح ہو گئی جس کے ہاتھ میں تیزاب کی بوتل تھی اس کے ہاتھ کی انگلی میں پہنی ہوئی انگھوٹی یقینا راجو کی تھی ثمرین نے آنکھیں کھولیں اور ہولے سے جواب دیا ، ابو جس نے یہ ظلم کیا وہ ہمارا اپنا ہے مگر آپ کو میری قسم آپ قانون کو ہاتھ میں نہیں لیں گئے الله پاک بہتر فیصلہ کرنے والا ہے اُس کی سزا میں نہیں دے سکتی اُس کی سزاخدا ہی دے گا ،طلعت احمد اپنی بیٹی کا جواب سن کر دنگ رہ گیا کل کی چھوٹی سی ڈول آج کتنی بڑی ہو گئی ہے اور کتنی بڑی بڑی باتیں کرنے لگی ہے ،مگر بیٹا ظالم کو معاف کر دینا اُس سے بھی بڑا ظلم ہے اُس نے تمہارا چہرہ بگاڑنے کی کوشش کی تمہاری جان لینے کی کوشش کی ہم اُس درندے کو کیسے معاف کر دیں ،طلعت احمد نے انتہائی غصے سے جواب دیا ،ابو میرا چہرہ بگڑا تو نہیں نا اور اگر بگڑ بھی جاتا تو دل تو نہیں بگڑتا نا ،میں تو آج بھی آپکی پہلی جیسی ڈول ہوں نا ،ثمرین نے تکلیف میں بھی مُسکراتے ہوئے کہا، ہاں میری بیٹی تم پہلے جیسی ہی ہو اور خدا غرق کرے اُس راجو کو جس نے درندگی کی انتہا کر دی مگر میری بیٹی تم جیسا کہو گئی ویسا ہی ہو گا ،طلعت احمد نے یہ کہتے ہوئے اپنی بیٹی کو گلے سے لگا لیا۔

####
ثمرین نے جب گھر قدم رکھا تو لگا وہ کسی دوزخ سے نکل کر جنت میں ا ٓ گئی ہو سچ ہے گھر جیسا سکون دنیا میں کہیں نہیں مل سکتا،ثمرین نے طویل عرصے بعد آئینہ میں اپنا سراپا دیکھا دائیں گال کے نیچے تیزاب نے کچھ نشان چھوڈ دئیے تھے ،کان بری طرح جُھلس گیا تھا مگر شکر تھا کہ چہرہ مسخ ہونے سے بچ گیا ثمرین کی رنگت آج بھی گلابی ہی تھی اور ہونٹوں کی شادابی بھی ویسی ہی تھی کچھ بھی نہیں بدلا تھا اور بدل بھی کیسے سکتا تھا جب خدا کی ذات نہ چاہے تو کوئی کسی کو زرا بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا تھا ثمرین کے چہرے کا جتنا نقصان ہوا تھا اُس کے بارے میں داکٹرز کی رائے تھی کہ یہ میڈیسن اور ڈاکٹر کی تجویز کی ہوئی کریمز کا ریگولر استعمال رہا تو جلددائیں گال کی متاثر جلد ٹھیک ہو جائی گئی طلعت احمد نے ثمرین کا علاج بیرون ملک سے کروایا اور جلد ہی متاثرہ حصہ بھی بہتر ہو گیا ،ثمرین کو پوچھنے نازش کالج کی تمام کلاس فیلوز اور ٹیچرز بھی آئیں سب ثمرین کے حوصلے اور ہمت کی داد دیتی رہی اتنا سب کچھ ہو جانے کے بعد بھی ثمرین ڈگمگائی نہیں اورثابت قدم رہی ،ثمرین نے جس طرح لمحہ لمحہ اذیت اور تکلیف سے گزراہ تھا وہی جانتی تھی یا خدا جانتا تھا کوئی اتنا بھیانک انتقام اپنے دُشمن سے بھی نہیں لیتا جتنا دردناک انتقام ثمرین سے لیا گیا تھا اور ثمرین اکثر سوچتی تھی کہ پاکستان میں ہزاروں خواتین کے ساتھ اس قسم کا سلوک کیا جاتا ہے سیکڑوں عورتیں اپنے مسخ چہروں کے ساتھ اپنی باقی ماندہ زندگی گزار رہی ہیں کیا مرد شرم اور احساس جرم سے مرتا نہیں اتنا ظلم کر کے بھی وہ دندناتا پھرتا ہے ،سچ تو یہ ہی ہے کہ جب انسان بگڑ جائے تو اُس سے بڑا کوئی جانور نہیں اور عورتوں پر ظلم کرنا ،اُن پر تیزاب پھینکنا اُن کی جسمانی اذیت دینایقینا جانور ہی کر سکتا ہے انسان نہیں ، وہ عورت جو ماں بھی ہے بہن بھی ہے بیٹی بھی ہے اور کسی کی بیوی کی صورت میں بھی ہے آخر مرد انتقام میں اتنا اندھا کیوں ہو جاتا ہے اُسے یہ تک احساس نہیں ہوتا ُکہ اُس کا انتقام کسی کی زندگی کا خاتمہ ہی نہیں کرے گا بلکہ ساری زندگی پل پلاذیت دے گا ،ثمرین نے سوچ لیا تھا کہ جب وہ ڈاکٹر بن گئی تو اپنی خدمات تیزاب سے متاثرہ خواتین کے لیے وقف کر دے گئی اور اپنا جتنا بھی کمائے گئی اُس سے اُن عورتوں کی مدد کرئے گئی جو اس ظلم عظیم کا شکار ہیں کیونکہ ثمرین کو پتا چلا گیا تھا جب تک انسان کے ساتھ خود وہ ظلم نہ ہو اُسے تب تک دوسرے پر ہونے والے ظلم کا احساس نہیں ہوتا جب تک انسان کی آنکھوں سے آنسو نہ نکلے ہوں تب تک اُسے دوسروں کے آنسوؤں کا وہ احساس نہیں ہوتا یہ صرف خدا کی ذات تھی جس نے ثمرین کو نئی زندگی دی اور حوصلہ دیا اسی لیے ثمرین گھنٹوں سجدوں میں گر کر خدا کا شکر ادا کرتی تھی ،ثمرین نے دوبارہ سے اپنی سٹڈی کو جوائن کر لیا ،دن رات گھر بیٹھ کر پڑھنے لگی اور پھر ثمرین نے ایف۔
ایس ،سی میں بھی ٹاپ کر دیا اور شہر کے ایک بہترین مڈ یکل کالج میں ایڈمیشن ہو گیااوروہ دن طلعت احمد کی زندگی میں خوشیوں کا ڈھیر لیکر آیا ،طلعت احمد نے اس خوشی کی موقع پر ثمرین سے کہاکہ بتاؤ تمہیں کیا گفٹ دوں تو ثمرین نے جواب دیا، ابو آ پ نے جو میری زندگی کے لیے اتنا کچھ کیا یہ میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں بس میں چاہتی ہوں کی میں ظلم کی شکار عورتوں کی مدد کروں اُس حوالے سے آپ کو میری مدد کرنا ہو گئی ۔
طلعت احمد پہلے ہی اپنے حصے میں آنے والی زرعی زمین اور جائیداد ثمرین کے نام کر چکے تھے اور ثمرین کے منہ سے یہ بات سن کر حیران رہ گئے او رپیار سے اپنی بیٹی کے پیشانی پر بوسہ لیتے ہوئے کہا ،میری بیٹی میرا جو کچھ بھی ہے وہ تیرا ہے اور تو اسے اپنے اس عظیم مشن کے لیے جس طرح مرضی چاہے استعمال کرنا ، مجھے فخر ہے میں ایک عظیم بیٹی کا باپ ہوں جو دوسروں کی بھلائی کا سوچتی ہے ۔
ایک دن جب ثمرین گھر واپس آئی تو طلعت احمد کے پاس اپنے چچا افتخار احمداور اُسکی بیوی کو روتے ہوئے دیکھا ،افتخار احمد نے ثمرین کو دیکھا تو لپک کر ثمرین کی طرف بڑھے اور بھرائے ہوئے لہجے میں کہا، بیٹی جس نے تیرے ساتھ ظلم کیا وہ میرا بیٹا راجو ہی تھا مگر تم لوگوں نے تو اُسے سزا نہیں دی مگر خدا کی ذات نے ضرور دی ہے ہمارے گھر میں آگ لگ گئی ہم سب شادی میں گئے ہوئے تھے اور پیچھے راجو گھر میں اکیلا تھا اور پورا گھر جل گیا اور راجو بھی اُس آگ کی لپیٹ میں آ گیا اور میرا راجو مر گیا بیٹی میرا راجو مر گیا ،یہ کہتے ہوئے افتخار احمد پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اتنے میں طلعت احمد نے آ کر افتخار کو دلاسا دیا ، ثمرین کو راجو کی اس دردناک موت کا افسوس ہوا مگر ساتھ میں یہ بھی لگا کہ کون کہتا ہے خدا انصاف میں دیر کرتا ہے خدا کی پکڑ تو بہت سخت ہے ۔
انکل جی میں نے کبھی نہیں چاہا کہ ہم راجو سے کوئی انتقام لیں مگر شاید خدا کو یہی منظور تھا خدا آپ کو صبر دے ،ثمرین نے افتخار احمد کو کہا ۔مگر بیٹی تو میرے بیٹے کو دل سے معاف کر دے تا کہ اُس کی آگے کی منزل آسان ہو جائے افتخار احمد نے انتہائی منت والے لہجے میں کہا،انکل جی میں خدا کو حاظر ناظر جان کر راجو کو معاف کرتی ہوں یہ کہ کر ثمرین اپنے کمرے کی طرف چلی گئی
####
ٓآخر ایک طویل اور تھکا دینے والے سفر کے بعد موسم بہار کی آمد آمد ہو گئی باغوں پہ بہار آگئی ہر ایک چیز نکھر گئی ،ثمرین کے نام کے ساتھ ڈاکٹر لگ گیا صرف یہی نہیں بلکہ ثمرین ڈاکٹر فواد کی ہمسفر بھی بن گئی ،طلعت احمد کا خواب تکمیل کی سرحدوں کو چھو گیا ،ثمرین نے اپنے حوصلے اور ناقابل شکست عزم سے یہ ثابت کر دیا کہ وقت کا طوفان کتنا ہی بھیا نک اور خوفناک کیوں نہ ہو مگر وہ انسان کے حوصلے اور پختہ عزم کو شکست نہیں دے سکتا ،ثمرین نے ڈاکٹر بن کر اپنی خدمات اُن ظلم کی شکار عورتوں کے لیے مختص کر دی اور اپنی ساری زرعی زمین بیچ کر ایک فلاحی ادارہ بھی قائم کر دیا جس کے توسظ سے ظلم کی شکار عورتوں کا علاج اور تعلیم کے مختلف پروجیکٹ سٹارٹ بھی ہو گئے اورڈاکٹر فواد نے ثمرین کے اس مشن میں بھرپور ساتھ دیا اور پاکستان کے مخیر حضرات نے بھی اس سلسلے میں بھر پور تعاون کیا ،ثمرین نے اپنے مشن کی کامیابی پر ایک بھرپور سانس لیا اس سانس میں ثمرین اپنی ماضی کی تلخی کو بہت دور چھوڑ آ ئی اب صرف خوشیوں کا آنگن ثمرین کا منتظر تھا ۔

Browse More Urdu Literature Articles