Be Naam Si Zindagi 1 - Article No. 945

Be Naam Si Zindagi 1

بے نام سی زندگی ۔ حصہ اول - تحریر نمبر 945

کمرے میں ہر سو اندھیرا تھا۔اس نے آنکھیں کھولنے کی پوری کوشش کی لیکن ناکام رہا ۔ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کسی کوٹھری میں ہو۔وہ اپنے آپکو کسی گہری گھائی میں جاتا محسوس کر رہا تھا۔

پیر 24 اگست 2015

خدیجہ مغل:
کمرے میں ہر سو اندھیرا تھا۔اس نے آنکھیں کھولنے کی پوری کوشش کی لیکن ناکام رہا ۔ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کسی کوٹھری میں ہو۔وہ اپنے آپکو کسی گہری گھائی میں جاتا محسوس کر رہا تھا۔اسے اپنے جسم میں بے حد درد محسوس ہو رہا تھا۔اس نے دائیں بائیں دیکھنے کی بہت کوشش کی لیکن اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھااور ایک بار پھر اس نے پوری کوشش کرکے آنکھیں کھولیں ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔
اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کہاں ہے؟اس نے کروٹ بدلنی چاہی لیکن زبردست چکر نے اسے کروٹ بدلنے نہ دیا مجبورا وہ سیدھا ہی لیٹا رہا اور آنکھیں بند کر لیں اسے بہت شدید قسم کے چکر آرہے تھے۔وہ کیا کرتا؟ جانے وہ کب تک ایسے ہی لیٹا رہا جب کمرے میں لائٹ آن کی گئی اس نے سر اٹھا کر دوسری طرف دیکھنا چاہا لیکن پھر وہی ہواسر چکر انے سے وہ اٹھ نہ سکا تو اس نے اپنا سر تکیے پہ گرا دیا،یہ کیا ہو گیا ہے مجھے؟اونچی آواز میں بولا
آنے والا اس کی آواز کی پروا کیے بِنا باہر چلا گیا۔

(جاری ہے)


روشنی ہوتے ہی اس نے اِدھر اُدھر دیکھا ایک چھوٹا سا کمرہ جس میں ایک بیڈ تھا جس پہ وہ تھا اور پاس ہی ایک کرسی پڑی تھی کمرے میں نہ تو کوئی کھڑکی تھی اور نہ ہی ہوا آنے کے لیے کوئی اور راستہ حتیٰ کہ اٹیچ واش روم تھا۔ اچانک ہی اس نے محسوس کیا کہ اس کا بدن کسی شے میں جکڑا ہوا ہے اس نے فوراً ہی اپنی جانب دیکھا تو رسیوں کی قید میں اپنا آپ دکھائی دیا ۔
وہ گھبرا گیا۔
ایں۔۔۔یہ کیوں باندھا ہے مجھے؟اس نے اپنے آپ سے سوال کیا اور ہاتھوں کو ہلانے جھلانے لگا اپنے جسم کو حرکت کرتے وقت اسے کسی چیز کی کمی کا احساس ہو رہا تھا ۔وہ پہچان نہیں پا رہا تھا۔کہیں تو کچھ تو کمی تھی۔اس کا سارا بدن سُن سا ہو رہا تھا،اور مسلسل چکر آرہے تھے اسے۔
جانے کتنا ہی وقت گزر گیا اسے وہیں پڑے وہ سوچ سوچ کر پاگل ہو رہا تھا کہ یہ سب کیسے ہوا؟
کون کر سکتا ہے ایسا ۔
۔۔؟اور کیوں؟میں نے تو کسی کا کچھ بگاڑا بھی نہیں ۔۔۔اور پھر یہ سب کیوں؟ضرور کسی کو غلط فہمی ہوئی ہے جو میرے ساتھ ایسا ہوا ہے۔پر یہاں کوئی بھی نہیں ہے۔میں یہاں کب تک رہوں گا؟اور یہاں سے میں باہر نکلوں گا کیسے۔۔۔؟اس کے ذہن میں طرح طرح کے سوال اٹھ رہے تھے۔لیکن ان سب کا جواب اس کے پاس نہیں تھا۔اس نے سامنے لگے کیلنڈر پہ نظر دوڑائی جہاںآ ج کی تاریخ تین جولائی تھی ۔
اور وقت شام چھ بج چکے تھے ۔اسے ملائیشیا سے آئے ایک دن ہو چکا تھا ۔مطلب مجھے چوبیس گھنٹے ہو چکے ہیں یہاں۔اس نے اپنے آپ سے سوال کیا۔
اپنے آپکو رسیوں سے چھٹکارا پانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ ہار گیا۔جس نے بھی اسے باندھا ہو گا کافی محنت کی ہو گئی ورنہ اتنی آسانی سے وہ اپنے آپ کو چھڑواضرور لیتا مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔
شام چھ سے رات کے نو بج چکے تھے وہ کب سے مسلسل چھت کو گھورے جا رہا تھا جب کمرے میں کوئی داخل ہوا ۔
اس نے گردن اونچی کر کے پیچھے دیکھا تو ساکت رہ گیا۔
تم۔۔۔اتنا کہہ کر اس نے ایک بار پھر اپنا سر تکیے پہ گِرادیاکیونکہ اس میں اتنی ہمت ہی نہ رہی تھی کہ وہ اپنی گردن کو سہارا دے سکے۔اتنی دیر میں وہ بھی اس کے پاس پہنچ چکی تھی۔وہ چپ رہا
آنکھیں غصے سے سرخ انگارے بنی ہو ئی تھیں۔ایک نظر اسے دیکھنے کے بعد اس نے دروازے کی جانب دیکھا جہاں شاید کوئی کھڑا تھا۔

آج میں ثابت کردوں گئی کہ ایک بیٹی ہی اپنے باپ کی عزت خراب نہیں کرتی ۔تم جیسے بیٹے بھی ہیں جو اپنے باپ کی عزت کو داؤ پہ لگا کر دوسروں کی زندگیاں حرام کردیتے ہیں اور باپ۔۔۔۔اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
کیسا لگا آج یہاں آکر۔۔۔؟انتہائی غصیلے انداز میں بولی
تم۔۔۔مجھے یہاں کیوں لائی ہو؟وہ چینخا تھا
بہت جلد جان جاؤ گئے۔آخر اتنی جلدی کس بات کی ہے؟تم ہی کہا کرتے تھے نہ جو کام جلدی میں کیا جائے وہ کام شیطان کا کام ہو تاہے۔
اور پھر میں شیطان تو ہوں نہیں ۔تمھارا یہ قانون مجھے تم پہ ہی اپلائی کرنا پڑے گا نا۔قریبی کرسی پہ اپنا پاؤں رکھتے ہوئے بولی۔
شاکر اندر آجاؤ ۔اور اس کی مرہم پٹی کر دو۔تب تک اس کے لیے کھانا بھی آجائے گا۔واپس مڑتے ہوئے بولی۔
مرہم پٹی۔۔۔۔؟وہ نا سمجھی کے عالم میں اسے دیکھ رہا تھا۔
وہ بھی شاید سمجھ گئی تھی اسی لیے بولی ڈونٹ وری بہت جلد سمجھ جاؤ گئے۔
گھبراؤ مت تمھاری مرہم پٹی کرنی ہے تمھیں کِل نہیں کروا رہی میں سمجھے۔۔وہ واپس مٹر گئی۔
آج بھی اس نے نوک دار ہیل پہنی ہوئی تھی اور چال بھی با لکل ویسی ہی تھی جیسے پہلے دن تھی ۔وہ ذرا بھی نہیں بدلی تھی ۔
وہ کمرے سے جا چکی تھی ۔شاکر اس کے پاس آیا تو اس نے اس سے پوچھا مرہم پٹی کہاں سے کرنی ہے؟
مجھے تو کوئی چوٹ نہیں آئی ۔پھر مرہم پٹی۔
۔
شاکر نے کوئی جواب نہ دیا۔چپ چاپ اپنا کام کرتا رہا۔
بتاؤ نا۔۔اس سے صبر نہیں ہو رہا تھا۔شاکرنے اس کی بات سنے بغیر اسے انجکشن لگا دیا جس سے وہ نید کی وادیوں میں گم سا ہو اگیااور شاکر اپنا کام ایمانداری سے کرنے لگا۔
کام مکمل کرنے کے بعد مطمئن ساہو کر اس نے بیڈ صاف کیا اور اپنا سامان اٹھا کر کمرے سے باہر آگیا۔
#۔۔۔۔۔#
یار سمجھا کرو نا۔
میں نہیں کرسکتی ایسا۔اور تم تو جانتے ہو نا میں صرف تمھاری دوست ہوں۔
دوستی کرنے کو کون کہہ رہا ہے جان۔معاذ نے رجسٹر بند کیا اور اس کی طرف متوجہ ہوا
میں نے کہا نا میں نہیں کر سکتی ایسا۔بس نہیں کر سکتی۔اس نے اسے جواب دیا ۔
وہ بھی بہت ڈھیٹ تھا اسے منوا نے کا ارادہ کرکے آیا تھا۔تم میرے لیے اتنا بھی نہیں کرسکتی۔بس یہی دوستی ہے ہماری؟وہ اس سے خفا ہوا
دوستی میں یہ سب ٹھیک نہیں ہوتا ۔
تمھیں تو پتا ہے میں کسی ایرے غیرے کو منہ نہیں لگاتی۔اور پھر دوستی تو کہاں رہ جاتی ہے۔
یار ایک بار ٹرائی تو کر لو۔شاید اچھا ہو۔مجھے تو اس نے بہت کہا ہے لیکن میں نے بھی کہا کہ تمھاری مرضی کے بغیر میں کچھ کر نہیں سکتا۔اسی لیے میں اب تم سے پوچھ رہا ہوں۔پلیز مان جاؤ نا۔ورنہ میں کُٹی کر لوں گا۔
ماروا کے پاس اور کوئی حل نہیں تھا۔
وہ اپنے دوست کو ناراض نہیں کر سکتی تھی۔اسی لیے چپ رہی۔
اچھا میں سوچوں گی اس بارے میں۔فی الحال یہ اسائمنٹ کمپلیٹ کرو کل ہی چیک ہو نے والی ہے۔اس نے رجسٹر دوبارہ کھولتے ہوئے کہا تو وہ بولا
ٹھیک ہے میں رات کو تم سے پوچھ لوں گا۔وہ مطمئن سا ہو گیا تھا۔
ٹھیک ہے۔وہ دونوں اسائمنٹ بنانے میں مگن ہو چکے تھے۔
معاذ کو رات کا بے قراری سے انتظار تھا۔
وہ جانتا تھا وہ ضرور مان جائے گئی ۔خوشی سے چہرہ دمک رہا تھاایک نظر ماروا کو کام کرتے دیکھ کر اس نے فواد کو میسج کر ہی ڈالا۔
اب مزہ آئے گا فواد۔۔۔دیکھتے ہیں کون جیتتا ہے؟اورکون ہارتا ہے؟
وہ اپنے دماغ میں کئی کئی پلان سوچے بیٹھا تھا اور اسے امید تھی جیت اسی کی ہو گی۔
چناچہ رات کے نو بجے اس نے ماروا کو کال کر ڈالی لیکن اس کا سیل آف جا رہا تھا۔
ایک پل کو تو وہ حیران ہوا۔اس نے اسے میسج کر دیا تھا جب بھی سیل آن کرے گی تو وہ خود ہی کال کرلے گی۔مطمئن سا ہو کر وہ ٹی وی دیکھنے لگا۔
جہاں نیوز چل رہی تھیں۔اتنے می بازل بھی آگیا
اُف یار۔۔۔آج کل ملک کے حالات کتنے خراب ہو گئے ہیں۔کوئی بھی سکون کی سانس نہیں لے سکتا۔اب ان بے چاروں کا کیا قصور تھا۔بازل اسکے قریب بیٹھتے ہوئے بولا ۔

یار تم یہ سب اتنے شوق سے کیوں دیکھتے ہو؟معاذ نے چینل بدلتے ہوئے کہا
ملک میں کیا کچھ ہوتا ہے اور کیا ہو رہا ہے ؟یہ سب ہمیں پتا تو ہونا چاہیے نا
یہ بات تو ٹھیک ہے لیکن یہ سب دیکھنے کے بعد دل کچھ برا سا نہیں ہو جاتا؟معاذ بولا
ظاہر ہے مرنے والوں کے لیے دل کچھ غمگین تو ہوگا ہی۔اینی وے تم سناؤ آج کل کیا ہو رہا ہے؟
آج وہ کا فی دنوں بعد یہاں پایا گیا تھا اسی لیے وہ دونوں باتوں میں مشغول تھے ۔
تھوڑی ہی دیر میں کھانا آگیا تو وہ کھانے میں مشغول ہوگے جبکہ معاذ کو پروا ہو رہی تھی ماروا کی۔
وہ جانتا تھا اسے کوئی نیوز ملی ہے اسی لیے وہ وہیں گئی ہو ئی ہے لیکن اب تک تو اسے واپس آجا نا چاہیے تھا کیونکہ رات کے دس بج رہے تھے۔اس نے ایک بار پھر ماروا کو کال ملائی اس کا سیل ابھی بھی آف جا رہا تھا ۔اس نے بے دلی سے اپنا سیل بیڈ پہ پھینکا اور خود صوفے پہ لیٹ گیا۔
لگتا ہے آج کچھ زیادہ ہی کام آگیا ہے وہ اپنے آپ سے بولا۔
وہ کب لیٹے لیٹے سو گیا اسے پتہ ہی نہ لگا اچانک آنکھ کھلی تو اس نے بے اختیار ہی گھڑی کی جانب دیکھا جہاں صبح کے چھ بج چکے تھے۔کروٹ بدل کر وہ اٹھ بیٹھا تھا۔اس نے موبائل چیک کیا تو ماروا کے کافی میسجز آئے ہوئے تھے۔
اگر یہی حالت رہی پھر تو کبھی ایسا نہیں ہو گا۔اس نے سوچا اور ماروا کو میسج کردیا۔
وہ جانتا تھا ماروا بھولی ہے جلد ہی اس کی باتیں مان لے گئی اور یقینا کامیابی اسے ہی ہو گی۔سوچتا ہواوہ واش روم میں گھس گیا ۔
#۔۔۔۔۔#
کمرے میں ہنوز خاموشی چھائی ہوئی تھی۔وہ ابھی تک بے ہوشی کے عالم میں تھا ۔شاکر اسکی رسیاں کھول دو۔اور دھیان سے یہ یہاں سے باہر نہیں جانا چاہیے۔سمجھے ۔وہ اسے تاکید دیتی ہوئی ہولے ہولے چلتے ہوئے دروازے تک آئی ۔
پھر کچھ یاد آنے پہ واپس مڑی
تمھیں پتا ہے نا یہ کام کتنا مشکل ہے اور تمھیں جو کام دیا گیا ہے وہ کام ایمانداری سے کرنا۔
جی بیگم صاحبہ!میں کبھی اپنے کام میں دھوکہ نہیں کرتا۔محنت کی کماتے ہیں کوئی فراڈ نہیں۔شاکر ادب سے بولا
گڈ ۔۔تو جب یہ ہوش میں آگیا تو مجھے بتا دینا ۔
جی بیگم صاحبہ!
وہ کمرے سے جاچکی تھی ۔ایک نظر اس نے بیڈ پہ لیٹے فواد پہ ڈالی اور اسکے پاس آگیا
بے چارہ۔
۔۔کہاں پھنس گیا ؟سوچتے ہوئے اس نے اسکے ہاتھوں کی رسی کھول دی۔اور خود کرسی پہ بیٹھ گیا۔
یہ زندگی بھی عجیب امتحان لیتی ہے۔کبھی ہمیں قسمت کے سامنے ہارنا پڑتا ہے اور کبھی قسمت ہمیں جیت سے روشناس کرواتی ہے۔بعض اوقات ہم جیتنا چاہتے ہیں اور قسمت ہمیں ہرا دیتی ہے اور پھر شاید ہماری قسمت میں ہارنا ہی لکھا ہوتا ہے۔
ایسا ہی اس کے ساتھ بھی ہوا اس نے جیتنا چاہا لیکن قسمت میں ہارنا ہی تھا سو وہ ہار گئی تھی۔

کہتے ہیں کہ ہارنے سے انسان کو تجربہ ہوتا ہے۔وہ ایک بار ہار جائے تو دوسری بار جیتنے کی کوشش ضرور کرتاہے۔آج اسی اُمید سے وہ یہاں تھی اور اُسے اُمید تھی کہ اس باروہ ضرور جیت جائے گئی۔آخر ہارنے کے بعد ایک بار جیت تو بنتی ہی ہے نا۔
وہ کب سے آنکھیں کھولنے کی کوشش کر رہا تھالیکن شاید کسی نے اسکی آنکھوں پہ ہاتھ رکھا تھا یا اسکی آنکھیں وزنی بہت ہوچکی تھیں اسی وجہ سے کھل نہیں پا رہی تھیں۔

بار بار کوشش کرنے کے بعداسے تھوڑی سی روشنی نظر آہی گئی ۔اسے شدید قسم کی پیاس محسوس ہو رہی تھی اس نے بولنے کی کوشش کی لیکن آواز کہیں گلے میں ہی اٹک گئی۔
اس کی حالت دیکھ کر شاکر کمرے سے باہر آگیاوہ جانتا تھا اگر اس نے دیر کر دی تو بیگم صاحبہ غصہ کریں گئیں اور وہ بیگم صاحبہ کو غصے میں نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔
حالت کچھ سنبھلی تو اس نے کروٹ بدلنی چاہی لیکن وہ جلد ہی نیچے گِر گیا۔

اوہ گاڈ۔۔۔اس سے اٹھا ہی نہ گیا تو وہ وہیں پڑا رہا۔
آخر کب تک میں اس جہنم میں رہوں گا؟مجھے کوئی باہر نکالے خدا کے لیے۔وہ اونچی آواز میں بولا
کمرے کی جانب آتے ہوئے وہ ایک پل کو رُکی
شاکر اس کے لیے کھانا لے آؤ۔کہہ کر وہ آگے بڑھ گئی جبکہ وہ اسکے لیے کھانے کے لیے چلا گیا
سناؤ کیسی حالت ہے اب تمھاری؟کمرے میں جاتے اس نے اس سے پوچھا
مجھے بچا لو خدا کے لیے۔
پلیز بمشکل ہی بولا تھا
ہنہ۔۔۔بچانے والی وہ خدا کی ذات ہے ۔اس سے کہو شاید وہ تمھیں بچا لے
میں تمھارے ۔۔۔تمھارے سامنے ہاتھ جوڑتا ہوں مجھے۔۔۔مجھے چھوڑ دو۔
شٹ اپ۔۔۔اپنی یہ بکواس بند کرو ۔میرے سامنے اپنی زبان کھولی تو کاٹ کے ہاتھ پہ رکھ دوں گئی۔
تم سمجھتے کیا ہو؟جو کچھ کر لو تمھارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ پائے گا؟بھول ہے یہ تمھاری۔
تمھیں تو اب سبق سکھانا ہی پڑے گا۔اور بہت جلد تم یہ سب دیکھو گئے ۔
اورمیرا پہلا کام تو تم دیکھ ہی چکے ہو گے ،یا تمھیں ابھی محسوس ہی نہیں ہوا؟اس کے قریب آتے ہوئے بولی
کک۔۔۔کیا کام۔۔۔؟وہ تھوڑا پیچھے ہوا
لگتا ہے بے ہوشی کے ساتھ ساتھ تمھاری عقل ختم ہو گئی ہے۔چلو ابھی تھوڑی دیر میں پتا لگ جائے گا تمھیں۔
اور دوسرا کام میرا تم جانو گئے یا بتائے بغیر ہی کر لوں؟اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولی
تم۔
۔۔تم میرے ساتھ کچھ نہیں کرسکتی۔سمجھی
میں نے کب تمھارے ساتھ کچھ کیا۔۔۔؟کیا تو تم نے تھا جس کی سزا تمھیں مل رہی ہے۔ابھی تو یہ شروعات ہے آگے آگے دیکھو کیا ہوتا ہے۔
اتنی دیر میں شاکر کھانا لے کر آگیا تو وہ کھڑی ہوگئی ۔شاکر نے اسے بیڈ پہ بٹھایا اور کھانا اسکے سامنے کر دیا
شاکر اسے بتا دینا اسکے ساتھ کیا کیا گیا ہے۔کہیں کچھ اورہی نہ کر بیٹھے ورنہ اور ہی نقصان اٹھائے گا۔
وہ باہر جانے کو تھی
مجھے یہاں نہیں رہنا۔مجھے جانے دو۔وہ ایک بار پھر بولا
شاکر اسے سمجھا دینا یہ یہاں کیوں لایا گیا ہے ۔اگر کچھ کمی رہ گئی تو وہ میں پوری کردوں گی۔کہہ کر وہ باہر جا چکی تھی۔
کھانا کھا لو اسکے بعد تمھیں آرام بھی کرنا ہے۔شاکر ہولے سے بولا
مجھے کیوں لائے ہو یہاں؟
تم بہت جلد جان جاؤ گئے۔آخر تمھارے گناہوں کی ہی سزا مل رہی ہے تمھیں جانتے ہو کیا ہو گیا ہے تمھارے ساتھ۔
۔۔؟
فواد نے نفی میں سرہلایا ۔
تمھاری مردانگی طاقت ختم کر دی گئی ہے۔اب تم کبھی بھی اپنی طاقت کا استعمال نہیں کرسکتے۔
کک۔۔۔کیا۔۔وہ دنگ رہ گیا
یہ۔۔۔کیسے ہو ا۔۔۔؟
جب تمھیں یہاں لایا گیا تھا تب یہ سب ہو اتھا۔اب جلدی سے کھانا کھاؤ ورنہ پھر بے ہوش ہو جاؤ گئے۔وہ کہہ کر کمرے سے باہر چلا گیا۔
اسکے کانوں میں ابھی بھی شاکر کی آواز گونج رہی تھی ۔

میں نامرد ہو گیا ہوں۔۔۔؟میری مردانگی طاقت۔۔۔۔ختم کر دی گئی ہے۔۔
اس نے محسوس کر لیا تھا ۔اور محسوس کیا جانا100%درست تھا
تو آج وہ سب اس نے سچ کر ڈالا تھا ۔
یہ سب اتنی آسانی سے کر دیا اس نے ۔کیا وہ واقعی اتنی سمجھدار تھی؟اس کا دل ڈوبا جا رہا تھا۔یہ اسکے ساتھ کیا ہو گیا؟اس کے ساتھ یہ سب بھی ہو جائے گا یہ اس کے وہم وگماں میں نہ تھا۔

Browse More Urdu Literature Articles