Dastak - Article No. 993

Dastak

دستک - تحریر نمبر 993

دھڑ۔دھڑ۔ دھڑ۔ بالکل نئی طرح کی دستک۔ نہ کوئی جذبہ…نہ محبت …نہ غُصّہ…نہ ہمدردی …بالکل مشین کی طرح۔ دھڑ۔ دھڑ۔دھڑ۔ شاید کوئی دروازے تک گیا ہے۔ نجمہ ہے۔ وہی پیر گھسیٹ گھسیٹ کر چلتی ہے۔

ہفتہ 23 جنوری 2016

عمار مسعود:
دھڑ۔دھڑ۔ دھڑ۔ بالکل نئی طرح کی دستک۔ نہ کوئی جذبہ…نہ محبت …نہ غُصّہ…نہ ہمدردی …بالکل مشین کی طرح۔ دھڑ۔ دھڑ۔دھڑ۔ شاید کوئی دروازے تک گیا ہے۔ نجمہ ہے۔ وہی پیر گھسیٹ گھسیٹ کر چلتی ہے۔ جیسے سخت فرش پر بکھرے ہوئے ریتلے ذرّوں کی چیخیں سُن کر اپنی بڑھتی ہوئی کنواری عمر سے انتقام لے رہی ہو۔
کوئی نئی سہیلی ہے اُس کی۔ کس قدر شوخ اور کھنکتی ہوئی آواز ہے۔ نو عمری سے بھری ہوئی اس آواز کے دیکھا دیکھی نجمہ کے لہجے میں بھی کہیں عمرِ رفتہ کی رمق جاگی ہے۔ جوں جوں میری اس بہن کی عمر بڑھتی جاتی ہے یہ اپنی عمر سے چھوٹی سے چھوٹی سہیلیاں تلاش کرتی ہے۔ یہ سہیلیاں جب اس سے ملتیں تو جانے اپنی جوانی کی بھرپور آواز سے اس کی عمر کچھ کم کردیتیں یا پھر خود اس کی ہم عمر ہوجاتیں۔

(جاری ہے)

دیر تک آوازوں کے جھرمٹ میں ستارے گونجتے رہے۔ مگر جب یہ چلی جاتیں تو پھر نجمہ کی آواز میں بڑھاپا کچھ اس طرح عُود کے آتا کہ اس کی آواز تک میں جُھریاں پڑ جاتیں۔ سانس رُک رُک کے آتی اور چارپائی اُس کے تھکے بدن کی چرچراہٹ تلے دیر تک گونجتی رہتی۔
یہ آوازیں تو باہر کی دنیا کی آوازیں ہیں۔ جسم کے اندر آواز کے کتنے خزانے ہیں۔ دل کی دھڑکن کی ہمہ گیر آواز، سانس کے زیروبم کی آواز، سماعت پر خراش ڈال دینے والی بدن کھجانے کی آواز، تالی کی گونجتی آواز، ان میں سے ہر آواز ایک پرت سے دوسری پرت کے اُترنے کا نام ہے، کچھ کچھ واضح کرنے کا نام۔

چارپائی کی آواز۔ شاید نجمہ اب اُٹھ گئی ہے۔ آخر کب تک لیٹی رہتی۔ کس کس آواز کا ماتم کرتی۔ اب اُس کے کان تھکن سے نڈھال ہوگئے ہوں گے۔ شاید اسی لیے بے معنی مصروفیت میں خود کوبہلا رہی ہو۔
کون ہے ؟ کھانا۔۔۔ آہا کدو گوشت پکا ہے۔ تازہ کھانے کی خُوشبو بھی کتنی تقویت بخش ہوتی ہے۔ میرے بس میں ہوتو اس خوشبو کو کشیدکر کے بہت سے راہ چلتے بھک منگوں میں بانٹ دوں۔
یہ خوشبو تو بھوک کا علاج ہے۔ وقتی سہی مگر علاج ہے۔ روٹی آج پھربہت سخت ہے۔ نجمہ جب بھی اُداس ہوتی ہے۔ روٹی پکاتے وقت اُس کے ہاتھ پتّھر کے ہوجاتے ہیں۔ ایسے لمحے کی روٹی کون کھائے۔ اب پانی کا گلاس گر گیا۔ ہرچیز مجھ سے بغاوت پرتُلی ہوئی ہے۔
یہ گلی سے کون گزرا۔ پروین آج پھر ٹیوشن سے لیٹ آئی ہے۔ آج پھر اُس کا باپ اُسے مارے گا۔ آج پھر دیر تک اُس کے رونے کی آوازیں آتی رہیں گی اور پھر جب ہر طرف جھینگروں کی آوازیں اور چوکیدار کی ”جاگتے رہو“ کی صدا سنائی دے گی۔
اُس وقت فضا میں اس سستے پرفیوم کی خوشبو پھیلے گی جو پروین کو درزی کے بیٹے نے دیا ہوگا اور کل پھر وہ ٹیوشن سے لیٹ آئے گی۔
ایک آواز کے ختم ہونے اور سناٹے کے شروع ہونے کا درمیانی وقفہ بڑا فیصلہ کُن ہوتاہے۔ ساری کدورتیں، نفرتیں، تجسّس اور حادثات صرف اس ایک مختصرسے لمحے کے فیصلے میں پوشیدہ ہوتے ہیں۔ یہ سرگوشی کرتا لمحہ کبھی زندگی بن جاتا ہے اور کبھی زندگی اس لمحے میں مقیّد ہوجاتی ہے۔

دُور سے کسی تیز رفتار جیپ کی آواز آرہی ہے۔ لگتا ہے آج پھر کونسلر صاحب دورے پر ہیں اور جیپ صاحبزادوں کے حوالے۔ یہ کیا ہوا۔یہ بچے کی چیخ کی آواز۔ یہ تو رشیداں کا پپوہے۔ جیپ بھی رک گئی۔ بچے کی آواز بھی نہیں آئی۔ گھڑی بھی رک گئی۔ یہ سناٹا کیوں ہوگیا۔ کوئی بولتا کیوں نہیں ؟ کوئی تو بولو۔ یہ سناٹا تو بالکل اندھیرا کردیتا ہے۔ نجمہ، نجمہ، دیکھو گلی میں کیا ہوا ہے ؟ اب شور ہے۔
بالکل بے ہنگم شور۔ صدمے سے بھرا اور بے وجہ۔ رشیداں کا پپو مرگیا۔ کیسی منحوس آواز ہے۔ جیپ کے فراٹے کی آواز دُور کہیں گم ہونے لگی۔
یہ آواز بہت سی آوازوں کی طرح میرے اندر جیسے جم گئی،کتنا کُھرچتا ہوں، کتنا کُھرچتا ہوں مگر یہ مزید اندر دھنستی چلی جاتی ہے۔ اب یہ آواز میرے خوابوں میں آئے گی۔ بار بار گونجتی رہے گی اور پھر میں اندھیرے سے خوف زدہ ہو کر سوجاؤں گا اور ساری نیند اسی واقعے کے خوف میں گزار دوں گا۔

ٹھاک۔ ٹھاک۔ ٹھاک۔ مجید آیاہے۔ شکر ہے کچھ تو سکون ملے گا۔ کوئی نئی بات سنوں گا۔ کتنی باتیں، کتنی سوچیں میرے اندر مچلتی ہیں۔کوئی سننے کو تیار نہیں۔ مجید بہت اچھا لڑکا ہے۔ جب چھوٹا سا تتّلاتی آواز میں بولتا تھا تب سے میرے پاس آتاہے۔ اب توماشاء اللہ میٹرک میں ہے۔ روز مجھے اخبار سناتا ہے۔ مجھے تو خیر سے پڑھنا بھی نہیں آتا۔ مجید ہی تو رابطہ ہے، کبھی اخبار، کبھی کہانی، کبھی ڈائجسٹ اور پھربُلّھے شاہ کا کلام۔
یہ سب کچھ مجید کے دم سے ہے۔ ریڈیو، ٹی وی تو بے تاثر آوازوں کے ڈیرے ہیں۔ ہر لمحہ نصیحت، ہرو قت قوم کے نام پیغام، احمقوں کو اتنا نہیں معلوم کہ قوم میں افراد بھی ہوتے ہیں اور افراد کے لیے صرف نصیحتیں اور پیغامات کافی نہیں۔
کبھی کبھی جی چاہتا ہے خوب بھاگوں، دوڑوں، مگر بلندی سے گرنے کا خوف رہتا ہے۔ بعض خوف بھی کتنے عجیب ہوتے ہیں۔ ان راستوں پر میں سینکڑوں دفعہ گیا ہوں مگر جوں ہی گھر سے قدم نکالتا ہوں یہ خوف میرے قدم جکڑ لیتا ہے۔
کہیں کسی کھائی میں نہ گر جاؤں۔ کوئی مجھے رشیداں کا پپونہ سمجھ لے۔ مجید کہتا ہے مجھے ڈاکٹر سے ملنا چاہیے۔ بچہ ہے ابھی۔
ٹھک۔ ٹھک۔ ٹھک۔ یہ کون آیا ہے ؟ بالکل نئی آواز۔ کس قدر خُوب صورت آواز ہے، شائستہ نام ہے۔ پڑوس میں رہتی ہے۔ اس کی آواز میں عجیب خوشبو کا احساس ہے۔ بعض آوازیں بھی کتنی خوشبودار ہوتی ہیں۔ وہ اِدھر ہی آرہی ہے۔ میں کیا کروں۔
چادر لپیٹ لیتا ہوں۔
شائستہ کے جانے کے بعد میں دیر تک اس کی خوشبو کے حصار میں رہا۔ جانے یہ اس کی آواز کی خُوشبو تھی یا کوئی پرفیوم۔ جو کچھ بھی تھا، بہت مدھم، میٹھا، ہلکا، ہلکا،کس قدر ریشمی لہجہ تھا اس کا۔ اس کے بارے میں سوچو تو دیر تک بدن سنسناتا رہتا ہے۔ گرمی کا احساس ہوتا ہے۔ بے وقت پسینہ سا آجاتا ہے۔
اب تو روز ہی شائستہ میرے پاس آجاتی ہے۔
اُسے میری آواز بہت پسند ہے۔ میری باتیں بہت دلچسپ لگتی ہیں۔ مجھے کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ وہ مجھ سے مل کر دیر تک میری باتوں میں ڈوبی سی رہتی ہے۔ کہیں وہ مجھے پسند تو نہیں کرنے لگی۔ نہیں نہیں۔۔۔ مگر شاید۔۔۔ نہیں نہیں۔
شائستہ کے پاس کتنی باتیں ہیں۔ نجمہ تو صرف کھانے کی اطلاع دینے کا ذریعہ ہے اور مجید تو بس اخبار، کتابیں۔۔۔ کوئی کب تک بے زارآوازیں سنے اورشائستہ۔
۔۔ وہ تو ستار کے تاروں کی طرح بجے جاتی ہے۔کتنی روانی ہے، کوئی وقفہ نہیں، کوئی کھنکار نہیں۔ نہ گلا خراب،ایسے جیسے شہد۔ میٹھا میٹھا، گلے سے اُترتا ہو۔
شائستہ کے جانے کے بعد ہمیشہ میرے دِل میں ایک ننھا سا چور سر اُٹھانے لگتا ہے۔ جی چاہتا ہے کوئی پیاری سی بات کہوں، اُسے اپنے دُکھ بتاؤں۔ اُس کو کہہ دوں کہ۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔ شاید کسی دن کہہ دوں۔
ڈرنے کی کیا بات ہے۔ وہ مجھے سمجھتی ہے، میرا دُکھ جانتی ہے۔ مجھے بھی خواہ مخوا خوفزدہ رہنے کی عادت ہے۔ جیسے بلندی کا خوف ہر لمحہ مُجھ پر طاری رہتا ہے۔ اب تو گھر سے باہر جانے کو جی چاہتا ہے۔ ڈرنے کی کیا بات ہے۔
آج تو شائستہ بہت دیر سے بیٹھی ہے۔ وہ اُٹھ کر میری چارپائی پر آگئی ہے۔ یہ میرے دل کی دھڑکن کیوں چیخ رہی ہے۔ اس کے بدن سے کیسی خوشبو پھوٹ رہی ہے۔
کہہ دوں۔ نہیں نہیں۔ اب اس نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔ کیاکروں ؟ یہ خُوشبو تومجھے پاگل کردے گی۔ وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہتی ہے۔ میں کہہ دیتا ہوں۔
شائستہ نے دھیرے سے میرے کندھے سے ہاتھ اُ ٹھایا اور اسی ہاتھ سے اپنے آنسو پونچھے۔ کہنے لگی ” تم کتنے ہی خوش شکل، خوش خیال، خوش آواز کیوں نہ ہو، میرے ماں باپ آنکھ کا نُور مانگتے ہیں“۔ شائستہ چلی گئی اور مجھے بہت بلندی سے کسی چیز کے گرنے کی آواز دیر تک سنائی دیتی رہی۔

Browse More Urdu Literature Articles