Gulabi Ribbon - Article No. 1002

Gulabi Ribbon

گلابی ربن - تحریر نمبر 1002

انٹرویو کے لیے جب وہ شہر سے کچھ دور ایک بیابان میں بڑی سی سنسان عمارت کے چھوٹے سے دروازے پر پہنچا تو ایک لمحے کے لیے اس نے سوچا کہ شاید وہ کسی غلط پتے پر آگیا ہے۔

بدھ 10 فروری 2016

عمار مسعود:
انٹرویو کے لیے جب وہ شہر سے کچھ دور ایک بیابان میں بڑی سی سنسان عمارت کے چھوٹے سے دروازے پر پہنچا تو ایک لمحے کے لیے اس نے سوچا کہ شاید وہ کسی غلط پتے پر آگیا ہے۔ عمارت پر کوئی بورڈ نصب تھا، نہ ہی کوئی کال بیل(CALL BELL) لگی تھی۔ دروازے پر کوئی دربان تھااور نہ ہی دور دور تک کسی ذی روح کا نشان ملتا تھا۔
پارکنگ میں کوئی گاڑی، کوئی موٹر سائیکل بھی نہیں کھڑی تھی۔ ٹیکسی والا اس کو چھوڑ کر جاچکا تھا۔موٹرسائیکل وہ اس لیے نہیں لایا تھا کہ شادی کا سوٹ، جو اس نے زیب تن کیا تھاوہ شہر کے گرد و غبارمیں برباد ہوسکتا تھا۔ اس کا یہ سوٹ اتنی دفعہ استری ہوچکاتھا کہ اب اس میں ایک عجیب سی چمک آگئی تھی۔ اس کے بال سلیقے سے جمے ہوئے تھے۔

(جاری ہے)

برل کریم کی شیشی اُس نے اِسی دن کے لیے سنبھال کر رکھی ہوئی تھی۔

بوٹ اگرچہ پرانے تھے مگر رگڑ رگڑ کر پالش کرنے سے خوب چمک رہے تھے۔ وہ پرفیوم جو مدتوں پہلے اسے بیوی نے دیا تھا وہ بھی آج اس نے خوب فرا خ دلی سے چھڑکا ہوا تھا۔ اس نے ہاتھ میں ایک نئی فائل پکڑی ہوئی تھی۔ جس میں اس کی ذاتی دستاویزات، ایم اے میں گولڈ میڈل کی اعزازی سند، بائیوڈیٹا اور غیر نصابی سرگرمیوں کے سرٹیفیکیٹس سلیقے سے لگے ہوئے تھے۔
فائل کے باہر سرخ رنگ کی ایک چھوٹی سی تتلی بنی ہوئی تھی۔ جسے اس کی چھوٹی بیٹی نے بنایا تھا۔یہ اس کی وہی بیٹی تھی جسے گلابی رنگ کے ربن پہننے کا بہت شوق تھا۔ وہ انٹرویو کے لیے پوری طرح تیار تھا بلکہ وقت سے کچھ پہلے ہی پہنچ گیا تھا۔ مگر وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ وہ اس جنگل میں اکیلا ایک ویران عمارت کے سامنے کھڑا تھا۔
ایک دفعہ تو اس نے دل میں سوچا کہ وہ واپس چلا جائے شاید کسی نے مذاق کیا ہے یا پھر اسے ہی کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔
پھر جانے کیا سوچ کر اس نے بیابان عمارت کے دروازے پر دستک دی۔دروازہ خود بخود کھل گیا۔ وہ پہلے تو جھجکا پھر حوصلہ کرکے اندر داخل ہوگیا۔ اس کے سامنے پرتعیش سامان سے سجا ایک چھوٹا سا کمرہ تھا۔ چاروں طرف شیشے کی بڑی بڑی کھڑکیاں اور شیشے ہی کی دیواریں تھیں۔ کمرے کے عین درمیان ایک کرسی دھری تھی۔ سامنے شیشے کی دیوار پر ایک دودھیاسکرین لگی ہوئی تھی۔
مگر اس کمرے میں کسی انسان کا وجود نہیں تھا۔ اچانک سامنے اسکرین پر کچھ حروف نمودار ہوئے۔ اس نے آنکھیں جھپک جھپک کر بار بار وہ لفظ پڑھے۔ صاف صاف لکھا تھا ” مسٹر فلک مراد، آپ کی تشریف آوری کا شکریہ۔ مہربانی فرما کر اپنی باری کا انتظار کریں۔“ حیرت سے اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔یہ کیا طریقہ ہوا ؟۔یہ کس طرح کا انٹرویو ہے؟۔ یہ تحریر کس کی ہے؟۔
کون اسے دیکھ رہا ہے ؟۔اس نے چاروں طرف گھوم کر دیکھا مگرشیشے کی ان دیواروں میں کوئی بھی موجود نہیں تھا۔ کچھ نہ سمجھتے ہوئے وہ آرام کرسی پر بیٹھ گیا۔ سکرین پر لکھی تحریر بجھ گئی اور چند لمحوں کے بعد ایک اور تحریر نمودار ہوئی۔ ” اگر آپ پسند کریں تو کمرے میں موجود کیتلی کی مدد سے چائے بنا کر نوش کرسکتے ہیں،ہم انتظار کی زحمت کے لیے معذرت خواہ ہیں“اس نے دائیں طرف دیکھاتو ایک کونے میں تھرماس رکھا تھا جس پر ہاٹ واٹر لکھا تھا۔
ساتھ ہی ٹی بیگز، خشک دودھ اور چینی دان پڑا تھا۔ وہ کسی معمول کی طرح اٹھا اور اپنے لیے چائے بنانے لگا۔
اس کے ذہن میں طرح طرح کے خیالات آتے رہے۔ شاید اس کے ساتھ کوئی مذاق کیا جارہا ہو۔ یا پھریہ کسی حساس ادارے کا دفتر ہے۔ یا ہوسکتا ہے کوئی بڑی ملٹی نیشنل کمپنی ہو جس نے امیدواروں کی قابلیت کو جانچنے کا کوئی انوکھا طریقہ وضع کیا ہو۔
یہ خیال آتے ہی وہ سنبھل کربیٹھ گیا۔ چائے ختم کرکے نہایت آہستگی سے اٹھا اور خاموشی سے جاکر کپ میز پر رکھ دیا۔ اسے یوں لگتا تھا کہ ذرا سی آہٹ بھی جادو کے اس منظر کو توڑ دے گی۔اسے مسلسل یہ احساس ہورہا تھا کہ کوئی اُسے دیکھ رہا ہے۔اس کی ایک ایک حرکت نوٹ کی جارہی ہے۔ اس نے بار بار کن اکھیو ں سے کمرے کی دیواروں کو دیکھا کہ کہیں کوئی سوراخ یا کیمرہ نظرآجائے مگر شیشے کی سب دیواریں سپاٹ تھیں۔
جانے کیوں ایک خوف سا اس کی رگوں میں سرایت کرنے لگا۔کبھی وہ سوچتا کہ شایدانگلش فلموں کے کمرہٴ تفتیش کی طرح کچھ لوگ دیوار کے پیچھے کھڑے اسے مسلسل دیکھ رہے ہیں۔اس نے خود کو کچھ حوصلہ دیا اور سنبھل کراپنی فائل دیکھنے لگا کہ کہیں کوئی چیز بے ترتیب ہو تو انٹرویو سے پہلے درست کرلے۔ مگر فائل کے سب کاغذات نہایت سلیقے سے لگے ہوئے تھے۔ اس فائل کی ترتیب اس نے اور اس کی بیوی نے تین دن لگا کر کی تھی، غلطی کا کوئی امکان نہیں تھا۔

سکرین پر” ہم انتظارکی زحمت کے لیے معذرت خواہ ہیں“ کے الفاظ بدستور جگمگا رہے تھے۔ اس کا دل چاہا کہ اس سحر زدہ ماحول کو چھوڑ کر بھاگ جائے۔ مگر ہربار اس کے سامنے اپنی بیوی اور دو بچیوں کے چہرے آجاتے جنہیں آج کے انٹرویو سے بہت سی امیدیں وابستہ تھیں۔ نوکری مل جانے پر اس نے اپنی بیوی کو پہلی تنخواہ سے سونے کے بُندے لاکر دینا تھے۔
بڑی بیٹی کو تصویروں والی کتابیں اور چھوٹی کے لیے ڈھیر سارے گلابی ربن لانے کا وعدہ پورا کرنا تھا۔گولڈ میڈل کے اس ٹھیکرے کو سنبھالتے ہوئے اب وہ تھک چکا تھا۔ایم اے میں اول آنے کے باوجود ٹیوشنیں پڑھا پڑھا کر اس کا ذہن ماؤف ہوچکا تھا۔وہ نوکری کرنا چاہتا تھا۔ یونیورسٹی کے عرصے میں دیکھے ہوئے سب خواب پورے کرنا چاہتا تھا۔تین سال ہر نوکری کے لیے درخواست دینا، انٹرویو کا انتظار کرنا، اور پھر انکار سننا ایک طویل اور صبرآزما دور تھا۔
اب وہ بیکاری کے اس دورانیے کا ہر قیمت پر اختتام چاہتاتھا۔سکرین پر ابھی تک وہی الفاظ روشن تھے۔اس نے اپنے ذہن کو مصروف رکھنے کے لیے اس اشتہارکے بارے میں سوچنا شروع کردیا جس کے نتیجے میں اسے آج یہاں انٹرویو کے لیے بلایا گیا تھا۔
آج سے ٹھیک ایک ماہ پہلے ملک کے تمام بڑے اخبارات میں اس طرح کا اشتہار چھپا تھا۔ ”درخواستیں مطلوب ہیں۔
ایسے تمام نوجوان جنہوں نے کسی مستند یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری میں اول پوزیشن حاصل کی ہو، ان کے لیے روزگار کے پُر کشش مواقع۔دلچسپی رکھنے والے خواتین و حضرات اپنے کاغذات مع تصدیق شدہ اسناد اور پاسپورٹ سائز تصاویر کے درج ذیل پتے پر جلد ازجلد ارسال کریں۔“ سارے اشتہار میں نہ کام کی نوعیت کا ذکر تھا، نہ تجربے کی مدت کے بارے میں کچھ لکھا تھا۔
یوں لگتا تھاکہ اہلیت کی شرط صرف گولڈ میڈل ہے۔وہ خود کو اس ملازمت کے لیے بہت اہل سمجھتا تھا۔ اس لیے کہ اس کے پاس معاشیات میں گولڈ میڈل اور تین سالہ ناکام انٹرویو زکے تجربے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ چھوٹی عمر میں کی گئی شادی کا نتیجہ اب تک دو بچیوں کی صورت میں نکل چکا تھا۔ اس کی بیوی سکول میں پڑھاتی تھی اور وہ تین سا ل سے ہرروز نوکری کے لیے درخواستیں لکھتا، انہیں اٹیسٹ کرواتا اور پاسپورٹ سائز تصویریں بنواتے بیروزگاری کے دن کاٹ رہا تھا۔

وہ ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک سامنے سکرین پر عبارت تبدیل ہوگئی۔ ” آپ کے انٹرویو کا وقت ہوگیا ہے برائے مہربانی تشریف لائیے“۔ اس کے ساتھ ہی دائیں ہاتھ پر شیشے کی دیوار خود کار طریقے سے کھسک گئی۔ سامنے ایک اور کمرہ تھا۔ جس میں ایک کرسی، میز اور مائیک دھرا تھا۔ وہ گھبرایا سا اس کمرے میں داخل ہوا تو اس کے عقب میں موجود شیشے کی دیوار اپنی جگہ پر واپس آگئی۔
وہ پھر سے ایک تنگ کمرے میں اکیلا کھڑا تھا۔ ” پلیز سٹ ڈاؤن۔“ اچانک کہیں اوپر سے آواز آئی۔ اس بیا بان عمارت میں پہلی مرتبہ کسی انسانی آواز کو سن کر وہ ہڑبڑا سا گیا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا تو کوئی نہیں تھا۔ پھرآواز آئی۔”پلیز سٹ ڈاؤن“۔ اس بار بولنے والے کے لہجے میں تحکم بڑا نمایاں تھا۔ وہ جلدی سے کرسی پر بیٹھ گیا۔ سامنے رکھے مائیک کی سرخ لائٹ خود بخود آن ہوگئی۔
نادیدہ شخص کی آواز آئی۔ ” نام “۔ وہ پھر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ ” آپ کا نام “ آواز پھر گونجی۔وہ مائیک کے قریب ہوکر بولا” فلک مراد سر“۔ ”تعلیم؟“ اگلا سوال ہوا۔ ” ایم اے معاشیات سر… گولڈ میڈلسٹ “۔ اس نے اپنے سارے پتے پہلے ہی ہاتھ میں دکھا دئیے۔ ” کیا کرنا چاہتے ہو “۔ آواز پھر سے گونجی۔ملک کی خدمت سے لے کر معاشیات میں ریسرچ تک ہر چیز اس کے ذہن میں آنے لگی مگر وہ صرف اتنا ہی کہہ سکا۔
”ملازمت سر“۔ دوسری طرف کچھ دیرخاموشی رہی۔وہ اپنے جواب پر پچھتانے لگا۔ اس شخص کی آواز پھرآئی” کوئی تجربہ ؟“ اب تک وہ سنبھل چکا تھا۔ انتہائی سچائی سے بولا ” سر تین سال ہوگئے ایم ا ے کئے ہوئے ہر جگہ اپلائی کیا مگر “ بھاری سی آواز نے اگلے سوال سے اس کے جواب کا گلہ گھونٹ لیا۔” بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر کتنا کمالیتے ہو؟“ ٹیوشنوں کا ذکر تو اس نے کسی بھی کاغذ میں نہیں کیا۔
اس لمحے اس پر منکشف ہوا کہ وہ نادیدہ شخص اس کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے۔”سربس گزارا ہوجاتاہے “۔ فلک مراد نے تھکے سے لہجے میں جواب دیا۔ ”کتنے پیسے چاہئیں؟“ سوال ہوا۔ وہ دل ہی دل میں حساب کرنے لگا۔ بجلی کا بل پندرہ سو، گیس کا بل کبھی نوسو کبھی دوہزار، فون کا کارڈ، موٹر سائیکل کا پٹرول، بچیوں کی تعلیم، اس کے حساب کتاب سے پہلے ہی حکم صادر ہوا ” ایک لاکھ روپیہ، گاڑی اور مکان قبول ہے۔
“ اس کا دل بلیوں اچھلنے لگا یہ رقم اور مراعات تو اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچی تھیں۔ اس کے ماتھے پر پسینے آنے لگے۔ اس کے منہ سے صرف یہ نکلا ” جی سر! بہت کافی ہیں“۔بھاری بھرکم آواز میں پھر کوئی بولا ” تمہارا انتخاب ہوگیا ہے۔ملازمت کی شرائط میں سب سے اہم یہ ہے کہ تم اپنے دفتری معاملات کو مکمل طور پر صیغہ راز میں رکھو گے۔
وہ بغیر سوچے سمجھے بولا ” سرآپ مجھ پر اعتماد کرسکتے ہیں“۔ ” اگر تمہیں یہ تنخواہ اور مراعات قبول ہیں تو میز پر پڑے کاغذپر دستخط کردو۔“ حتمی انداز میں حکم ملا۔ اس نے کاغذ کو پلٹ کر دیکھاتواس پر ملازمت کی شرائط،نئے مکان کا پتہ اور گاڑی کا نمبر اس کے نام اور تمام تفصیلات کے ساتھ درج تھے۔ اس نے جلدی سے دستخط کیے اور تیزی سے باہر نکلنا چاہا۔
آواز پھر گونجی” ملازمت مبارک ہو، تم ایک ذہین نوجوان ہو۔“ وہ شکریہ ادا کرتے کرتے پسینے سے شرابور گھر پہنچا۔ اس کی حالت دیکھ کر بیوی نے سمجھا کہ شاید آج پھر اس کی ڈگری پر ناکامی کی مہر لگادی گئی ہے۔ بچیاں بھی اس کا موڈدیکھ کر سہم گئیں۔وہ سردرد کا بہانہ کرکے بستر پر جالیٹا۔ وہ کسی سے کیا بات کرتا۔ سب کچھ بھونڈا سا مذاق لگتا تھا۔
اس نے انٹرویو کے احوال کے بار ے میں کسی سے کچھ نہ کہا۔ مگر اگلے دن جب کورئیر کے ذریعے اسے اپوائنٹ منٹ لیٹر مل گیاتوبیوی بچے اس سرپرائز پر بہت خوش ہوئے۔ دوہی دن میں وہ ایک نئے گھر میں شفٹ ہوگئے۔اُس نے گاڑی چلانا بھی سیکھ لی۔ مگر اب تک اس کو یہ سب خواب سا لگ رہا تھا۔
پہلے دن جب وہ ملازمت پر گیا تو اس ویران بلڈنگ میں بے دھڑک داخل ہوگیا۔
سامنے ایک نیا کمرہ سجا تھا۔ جس کے باہر اس کے نام کی نیم پلیٹ لگی تھی۔ فلک مراد۔ ایم اے معاشیات۔گولڈ میڈلسٹ۔ایک عالی شان دفتر اس کا منتظر تھا۔ دفتر میں وہ سب کچھ تھا جس کا وہ خواب دیکھ سکتا تھا۔ مگر آج بھی کوئی ذی روح اس عمارت میں نہیں تھا۔وہ تنہا گولڈ میڈلسٹ کی نیم پلیٹ سجائے اپنے کمرے میں بیٹھا تھا۔ اس نے فون کا ریسیور اٹھایاتو اسی نادیدہ شخص کی آواز کمرے میں گونجی ” تم فون کرسکتے ہونہ سن سکتے ہو“۔
” کیوں؟ “ وہ حیرت سے بولا ”لوگوں سے رابطہ رکھنا تمہارے لیے مناسب نہیں۔تم چپ چاپ اپنا کام کرو۔ “ وہی آواز پھر سے کمرے میں گونجی ”کیا کام کروں؟“ اس کے لہجے میں اب حیرت بڑھ گئی تھی ”ملازمت “جواب آیا۔ اس بار اس آواز میں ایسی سختی تھی کہ اس نے مزید کوئی سوال کرنا مناسب نہ جانا۔ لیکن اس کو بالکل سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ گاڑی، گھر، عالی شان دفتر اور کوئی کام نہیں!۔
اس نے چھت کی جانب دیکھ کر سوال کیا ” میں چائے پی سکتا ہوں“۔ ”کیوں نہیں “۔ وہ ناسمجھنے والے انداز میں اٹھا اور چائے بنانے لگا۔وہ سوچ رہا تھا کہ نہ تو کسی سے رابطہ ہوسکتا ہے، نہ کسی انسان کا ادھر سے گزر ہے۔ نہ دفتر میں کسی اور کی موجودگی کا پتہ چلتا ہے۔وہ آخر یہاں کیا کرے؟ وقت کیسے گزارے؟ چائے پینے کے بعد اس نے میز کی درازیں کھولیں تووہاں بہت سی پنسلیں تراشی ہوئی پڑی تھیں۔
لیکن پور ے دفتر میں کاغذ کا ایک بھی ٹکڑا نہیں تھا۔اس کا دل چاہ رہا تھا کہ لوگوں سے ملے، باتیں کرے، کام کرے مگر سب راستے مسدود تھے۔ وہ کبھی کرسی پر بیٹھ جاتا تو کبھی کمرے میں ٹہلنے لگتا۔دوپہر کو اس نے پوچھا ” میں لنچ پر جاسکتا ہوں؟“۔ ”نہیں، لنچ تمہیں یہیں ملے گا۔“ مختصر مگر فیصلہ کن جواب دیاگیا۔ ایک بجے کے قریب دیوار میں بنی کھڑکی سے مرغن کھانے سے بھری ایک ٹرے اس کے سامنے آگئی۔
اس نے کھانا خوب سیر ہوکر کھایااور پھر کچھ دیر کے بعد وہ کرسی پر سوگیا۔ پھر اٹھا اور چائے بنائی۔ باتھ روم گیا۔ منہ دھویا اور پھر سوگیا۔ کبھی وہ کرسی پر بیٹھا پنسل سے میز بجانے لگتا۔ اس کام میں اسے عجیب طرح کی لذت محسوس ہوئی۔پنسل کی آواز سے ایک طرح کا ترنم پیدا ہونے لگا۔وہ دیر تک پنسل کی مدد سے میز پر دھنیں بجاتا رہا۔ پانچ بجتے ہی وہ آواز پھر آئی” اب تم جاؤ آج کا کام ختم “۔
وہ گھرآیا تو کھویا کھویا تھا۔ مگر جب بیوی بچوں نے بہت اشتیاق سے پہلے دن کا حال پوچھا تو جھوٹ موٹ سب کو بتانے لگا۔آفس کے سب لوگ بہت اچھے ہیں۔ بہت عزت کرتے ہیں۔میرے باس نے مجھے اہم اسائنمنٹ دی ہے۔ وہ رات گئے تک سب سے جھوٹ بولتا رہا۔ مگر جواب دیتے اسے بڑی تکلیف ہورہی تھی۔ اس رات وہ ایک پل بھی نہ سو سکا۔
اگلے دن جب وہ ذرا تاخیر سے پہنچا تو اس کے باس نے ناراض لہجے میں اس سے کہا”وقت کی پابندی تم پر فرض ہے۔
تمہارے کام کا حرج ہورہا ہے۔“ ” کام۔کون سا کام؟“اس نے اونچے لہجے میں کہا۔ باس خاموش رہا بہت دیر تک کوئی آواز نہ آئی۔ وہ خود ہی ڈر گیا کہیں اس کا باس اس سے ناراض ہی نہ ہوجائے۔ وہ سنبھل کر کرسی پر بیٹھ گیا اور میز پر پنسل بجانے لگا۔ اس دن وہ نہایت دیانت داری سے صبح سے شام5بجے تک پنسل بجاتا رہا۔
شروع شروع میں وہ اپنے باس سے بہت سوال کرتا تھا کہ اس کے ساتھی ورکر کہاں ہیں؟ کام کب شروع ہوگا؟ وہ اس سے ملنا چاہتا ہے؟ کچھ کرنا چاہتا ہے؟ مگر اس طرح کے ہر سوال کا اسے ہمیشہ یہی جواب ملتا رہا۔
”تم اپنے ذہن کو پریشان نہ کرو۔ بس اپنا کام کرتے رہو۔ “ وہ پھربے چارگی کے عالم میں پنسل بجانا شروع کردیتا۔ رفتہ رفتہ اس نے سوال کرنا چھوڑ دئیے تھے۔ اب وہ ہر صبح نہایت اہتمام سے اچھا لباس پہنتا، دفتر آتااوردیر تک پنسل بجاتا تھااور ٹھیک پانچ بجے دفتر سے چھٹی کرکے گھرروانہ ہوجاتا۔
اس کے گھرمیں ملازمت کے بعد سے بہت تبدیلی آگئی تھی۔
وہ گھر پہنچ کر دیر تک سب کو دفتر والوں کے قصے سناتا تھا۔ نہایت تفصیل سے بتاتا کہ کس طرح اس کے اچھے کام کی وجہ سے کچھ لوگ اس سے جلنے لگے ہیں۔ اس کا باس کس طرح بہانے بہانے سے سب افسروں کے سامنے اس کی تعریف کرتاہے۔ وہ سارا دن فائلوں میں غرق رہتاہے۔ ایک میٹنگ کے بعد دوسری میٹنگ وہ بڑی ذہانت سے نمٹتاہے۔ اب خوشحالی اس کے گھر میں قدم رکھ چکی تھی۔
نئے کارپٹ، نیا ٹی وی اور ڈی وی ڈی آگئے تھے۔ بیوی نے ملازمت چھوڑ کرایک رفاعی ادارے کے ساتھ رضاکارانہ طور پر کام کرنا شروع کردیا تھا۔ اس کی سادہ لوح بیوی کو نئے سوٹ اور جیولری بنانے کا خبط ہوگیا تھا۔ بڑی بیٹی اب ایک انگریزی سکول میں جاتی تھی۔ انگریزی بولتی اور نت نئی فرمائشیں کرتی تھی۔ چھوٹی بیٹی کو البتہ اب تک گلابی ربن پسند تھے۔
وہ اب بھی ان کے ڈھیر میں کھوئی رہتی تھی۔
اس کا سماجی رتبہ بہت بلند ہوگیا تھا۔ ملنے جلنے والے اب مختلف سفارشوں کے لیے ان کے گھرآنے لگے۔ حتیٰ کہ کچھ عزیز رشتے داروں نے قرض بھی مانگ لیا تھا۔روزانہ صبح نو بجے اس کی انگلیاں تھرکنے لگتیں، پنسل اس کے ہاتھ میں مچلنے لگتی۔ چھٹی کا دن وہ بڑی مشکل سے کاٹتاتھا۔ گذشتہ ایک سال میں وہ اس زندگی کا عادی ہوچکا تھا۔
اس کے سوال اب تقریباً ختم ہوچکے تھے۔ ہاں البتہ ایک بار اسے اپنے باس کو ملنے کی آرزو ضرور تھی۔گذشتہ سال میں ایک بار بھی اس کی تنخواہ لیٹ نہیں ہوئی تھی۔اب اس کا ضمیر تنخواہ وصول کرتے ہوئے اسے کچوکے بھی نہیں لگاتا تھا۔
ملازمت کے ٹھیک ایک سا ل بعد جب اس کے باس نے اس کی بہترین کارکردگی کو مدنظررکھتے ہوئے اس کے لیے ترقی اور نئی گاڑی کا اعلان کیا تو ساتھ ہی کہا ” تم مجھ سے ملنا چاہتے ہو، اپنے ساتھیوں کو دیکھنا چاہتے ہو “۔
اس نے دھڑکتے دل سے کہا ” یس سر“۔ باس کچھ دیر خاموش رہا پھر اچانک اس کی پشت کی دیوارایک طرف ہٹ گئی۔ اس کے سامنے ایک زینہ تھا۔ وہ خوف اور حیرت سے لرزتے لرزتے زینہ چڑھ کر جب اوپر گیا تو سامنے ایک بڑا ہال تھا۔ دیواروں پر سینکڑوں چھوٹی چھوٹی ٹی وی سکرینز لگی ہوئی تھیں۔ ہر سکرین میں ایک نوجوان گولڈ میڈلسٹ کی تختی لگائے میز پر پنسل بجا رہا تھا۔
ساری فضا پنسلوں کے شور سے گونج رہی تھی۔ باس کی آواز فضا میں گونجی” حکومت نے ملک کے قابل ترین نوجوانوں کو اہم قومی امور کا فیصلہ کرنے کی تربیت کا پہلا سال کامیابی سے مکمل کرلیا ہے۔“
ایک لمحے کے لیے اسے اس نادیدہ آواز اور اپنے آپ سے شدید نفرت کا احساس ہوا۔ اس کا جی چاہا کہ سامنے رکھے تمام ٹی وی توڑ دے۔مگر پھر اچانک ایک سکرین پر اس کی چھوٹی بیٹی کا چہرہ ابھرا جس نے گلابی ربن لگائے ہوئے تھے۔چھوٹی سی یہ سکرین بڑی ہوتے ہوتے سارے ہال میں پھیل گئی۔ وہ کچھ دیر سوچتا رہا اور پھر ہاتھ میں پکڑی پنسل کو زور زور سے میز پر بجانے لگا۔

Browse More Urdu Literature Articles