Intaha Ka Ishq - Article No. 1018

Intaha Ka Ishq

انتہاکاعشق - تحریر نمبر 1018

یہ اس زمانے کی بات تھی کہ جب ابھی میڈیا نے اتنی ترقی نہیں کی تھی۔ ٹی وی چینلز گھروں پر حکومت نہیں کرتے تھے۔ آزادی ِ اظہار کے پھن میں ابھی اتنا زہر نہیں آیا تھا۔

بدھ 2 مارچ 2016

عمار مسعود:
یہ اس زمانے کی بات تھی کہ جب ابھی میڈیا نے اتنی ترقی نہیں کی تھی۔ ٹی وی چینلز گھروں پر حکومت نہیں کرتے تھے۔ آزادی ِ اظہار کے پھن میں ابھی اتنا زہر نہیں آیا تھا۔ صبح صبح اخباروں کی شہ سرخیاں لوگوں کو ہراساں نہیں کرتی تھیں۔ لوگ ابھی تک بریکنگ نیوز کی لذت میں نہیں کھوئے تھے۔ ابھی دن رات ٹی وی نہیں چلتا تھا۔
ہاں البتہ ڈرامے دیکھے جاتے تھے۔ وقفے میں اشتہار کم ہوتے تھے۔ اُس وقت دوردراز ملکوں میں ہونے والے حادثوں سے ہم اتنی جلدی آگاہ نہیں ہوتے تھے۔ ریڈیو چینلز ابھی کمرشلز کی دوڑ میں نئے تجربے کرنے سے قاصر تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب ایڈورٹائزنگ ایجنسیز برانڈنگ اور پروڈکٹ ایمبیسڈر بنانے کے لیے چمکتے ستاروں کے پیچھے نہیں بھاگتی تھیں۔

(جاری ہے)

سڑکوں پر جگہ جگہ بڑی ہورڈنگز پر کم لباس ماڈلز کی تصویریں آویزاں نہیں ہوتی تھیں۔

اپنا مال بیچنے اور دوسروں کے مال کو کم تر ثابت کرنے کے کھیل میں ابھی سرمایہ دار اس شدت سے شامل نہیں ہوئے تھے۔
یہ وہ وقت تھا کہ جب لڑکیاں عشقیہ ناول پڑھتی تھیں۔ غزل ابھی متروک نہیں ہوئی تھی۔ نثری نظم اورعلامتی افسانے کی اردو ادب میں کوئی جگہ نہیں بنی تھی۔ اُس وقت لوگ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے تھے۔ خاندانوں کے شجرے بنتے تھے۔
شادیوں پر سہرے لکھے جاتے تھے۔ دوستیوں کا پاس ہوتا تھا۔ لوگ وطن سے محبت کرتے تھے۔ بڑی تحریکیں جنم لیتی تھیں۔ سحر خیزی بیشتر کا معمول تھا۔ مسجدیں صرف عبادت کے لیے استعمال ہوتی تھیں۔ رشوت،ملاوٹ اور جھوٹ بڑے جرم قرار دئیے جاتے تھے۔ ایم بی اے کی ڈگری ابھی اتنی اہم نہیں ہوئی تھی۔ ڈاکٹر ی بڑا مقدس پیشہ تھا۔ اُس زمانے میں بڑے لوگ پیدا ہوتے تھے۔
لوگوں کے پاس بات سننے، بات کہنے کا وقت ہوتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب لوگ سوال کرتے تھے اور جواب کی جستجو میں رہتے تھے۔
یہ اُسی زمانے کی بات ہے کہ جب بابا نورا نے دور پار کی اس پہاڑی بستی میں ایک صدیوں پرانے درخت کے نیچے ڈیرہ جمایا تھا۔ صدیوں کا انہدام اس درخت پر سائے کی طرح منڈلا رہا تھا۔ ہریالی صرف اس کی آخری شاخوں پر دستک دیتی تھی۔
باقی کا سارا درخت بنجر، خشک چٹاخ ہورہا تھا۔ زمین میں جگہ جگہ اس کی جڑیں بوڑھے ہاتھوں کی رگوں کی طرح ابھراور ڈوب رہی تھیں۔ ہاں البتہ اس کے تنے کے ساتھ کی زمین کچھ اس طرح صاف ہوگئی تھی جیسے برسوں سے کسی کی نشست گاہ تیار ہورہی ہو۔جب سے بابا نورا نے یہ نشست سنبھالی تھی، اس کے بعد عجیب اتفاق سے وہ درخت دنوں میں ہرا ہوگیاتھا۔ سبز پتوں کے درمیان سرمئی رنگ کا بور پڑگیااور پُرکیف سی خوشبوچاروں طرف پھیل گئی تھی۔

بابے کے بارے میں کسی کو علم نہیں تھاکہ وہ کہا ں سے آیا ہے؟ اسے کہاں جانا ہے ؟ کس کی تلاش میں ہے ۔ وہ کس مسلک سے تعلق رکھتا ہے؟ ہندوہے یا مسلمان، سکھ ہے یا عیسائی، کوئی نہیں جانتاتھا۔ بظاہرحلیے سے وہ مسلمان لگتا تھا۔ لیکن اگر مسلمان تھا تو شیعہ تھا یا سنی، بریلوی تھا یا حنفی، اہلحدیث تھا یا دیوبندی،سب کچھ راز میں تھا۔بابے کی شخصیت میں گو ذرّہ بھر جلال نہیں تھا مگر پھر بھی اس کے ماضی کے بارے میں سوال کرنے کی جرأت کسی کو نہیں ہوتی تھی۔

جس بستی میں بابے نے قیام کیا تھا وہاں کے لوگوں کے لیے یہ تعجب کی بات تھی۔ کوئی اجنبی شخص ان کے علاقے میں ایسے براجمان ہوجائے جیسے یہ علاقہ اس کی ملکیت ہو اور یہ نشست گاہ صدیوں سے اسی کا انتظار کررہی ہو۔ لوگ ابتدا میں شکوک میں مبتلا ہوگئے۔شبہات میں رہنے لگے۔ اپنے آپ کو غیر محفوظ تصّور کرنے لگے۔ مگر جب برسوں تک با با اپنی نشست پر کسی کو ضرر پہنچائے بغیر عشق کا درس دیتا رہاتو لوگ اس سے مانوس ہوگئے۔
بابا گاؤں کی ہری بھری تصویر کا لازمی جزو بن گیا۔
بابا کیا کھاتا تھا کیا پیتا تھا کسی کو کوئی خبر نہ تھی۔ لوگ اس کی ضرورتوں کا خیال رکھنا چاہتے تھے مگر بابے کی ضرورتیں ہی نہیں تھیں۔ وہ طمع میں لتھڑا ہوا بابا تھا ہی نہیں۔
جس بستی میں وہ مقیم ہوا تھا وہ سادہ دل لوگوں کی بستی تھی، یہاں لوگ نماز،روزے کے پابند تھے لڑکوں کے لیے ایک پرائمری سکول تھا۔
لڑکیاں ا بھی گھروں میں ہی قرآن پڑھتی تھیں۔زیادہ تر لوگ کاشت کار تھے۔ بیج ڈالتے اور سجدے میں گر جاتے تھے۔ بستی کے لوگ دعاؤں پر یقین رکھتے تھے۔ مسلکوں پر بحث کرتے تھے۔ گاؤں میں دومسجدیں تھیں۔ لوگ الگ الگ فرقے کے پیروکار تھے۔ مگر فساد نہیں ہوتا تھا۔لاٹھیاں نہیں چلتی تھیں۔
بابا تمام دن اپنی نشست پر براجمان ایک ہی انداز اپنائے بیٹھا رہتا۔
لمبے لمبے سفید بال اس کا چہرہ چھپائے رکھتے۔ براق داڑھی اس کی گود کو چھو رہی ہوتی۔ موٹی موٹی آنکھیں ہمیشہ سرخ سی رہتیں۔ چہرے کی گلابی رنگت سفید بالوں میں نمایاں رہتی۔ اس کا لباس مہینوں تک ایک سا ہوتا، مگر پاکیزگی اس کا حصار کیے رہتی تھی۔ بابا ! گندا بابا نہیں بلکہ صاف ستھرا اُجلا، نورانی چہرے والا بابا تھا۔
اُس کے ارد گرد دِنوں میں لوگ جمع ہوگئے اور برسوں تک اُس کے ساتھ رہے۔
اس ہجوم کو اکٹھا کرنے کے لیے نہ تو اُس نے اخبار میں اشتہار دئیے، نہ ٹی وی پر ٹیلپ چلا، نہ ہی نیشنل یا لوکل نیوز پر اُس کے خطاب کے بارے میں کسی تاریخ کا اعلان ہوا۔ نہ ہی سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے جھنڈا بردار جلوس نکالے۔ بس خود بخود ہی لوگ بابے کو جانتے گئے۔ پہچانتے گئے۔ مانتے گئے۔
بابے کے گرد موجود ہجوم میں ہر طرح کے لوگ تھے۔
وہ سیاستدان جو ٹکٹ چاہتے تھے۔ جواری جو پانسے کا اسم اعظم جاننا چاہتے تھے۔ سینما مالکان جو فلم کی کامیابی کی دعا کروانا چاہتے تھے۔ ڈکیت جو کسی مالداراسامی کی تلاش میں تھے۔بانجھ والدین جو اولاد کی خواہش رکھتے تھے۔ مائیں جو بیٹیوں کا رشتہ چاہتی تھیں۔ مزدور جو مل مالک بننا چاہتے تھے۔ مل مالک جنہیں مزید کی تلاش تھی۔ ایسے استاد بھی تھے جو علم کا دبدبہ قائم کرنا چاہتے تھے۔
ایسے طالب علم بھی تھے جو احترام کی زنجیر توڑنا چاہتے تھے۔ کچھ راہ گیر بھی تھے جو صرف چھاؤں میں سستانا چاہتے تھے۔ ادیب، شاعر جو لفظ میں اثر کی دعا کرتے تھے۔ غرض ہر طرح کے لوگ اُس کے گرد جمع رہتے تھے۔ وہ ان غرض مند مکھیوں کے درمیان گُڑ کی ڈلی کی طرح بیٹھا ذرّہ ذرّہ علم سب میں تقسیم کرتا جاتا۔
وہ بڑا نرم مزاج بابا تھا۔ لوگو ں کو جھڑکتا نہیں تھا۔
ڈانٹ ڈپٹ سے اجتناب کرتا تھا۔ مختلف کرتب دکھا کر سادہ لوح لوگوں کو خوفزدہ نہیں کرتا تھا۔ نفرت کی مناہی اس کا شعار تھی۔ وہ محبت کا درس دیتا تھا، نرمی سے بات کرتا تھا۔ ہرسوال کا جواب دیتا تھا۔ کسی شخص کو گناہ گارقرار نہیں دیتا تھا۔ تعویذ بھی نہیں دیتا تھا۔ دم والے پانی کی بوتلیں بھی کبھی اس کے پاس سے برآمد نہیں ہوتی تھیں۔ کوئی چلہ، کوئی ٹوٹکا بھی اس نے کسی کو نہیں بتایا تھا۔
وہ کسی خاص مذہب، فرقے یا نسل کے لوگوں میں امتیاز نہیں کرتا تھا۔ وہ سب سے ایک ہی لہجے میں بات کرتا اور سب کو پوری تسلی سے جواب دیتا تھا۔
بابے کو باتوں کا بڑا شوق تھا۔ وہ سوالوں کے بڑے رسیلے جواب دیتا تھا۔ گفتگو کی لذت اسے بے پناہ میسر تھی۔ وہ خوب سیر ہوکر بات کرتا تھا۔ سوال سن کر لمحہ بھر کو سوچتا پھر مزے لے لے کر مسکرا کر جواب دیتا تھا۔
سوال کوئی بھی ہو، کیسی بھی نوعیت کاکیوں نہ ہو، سوا ل کرنے والا کیسا ہی کیوں نہ دکھتا ہو، سوال سن کر بابے کا انجن سٹارٹ ہوجاتا اور وہ دوسرے گیئر میں گاڑی اٹھا لیتا۔ وہ بات کو اختتام سے شروع کرنے کا عادی تھا۔ اس کو لفظوں کامرہم عطا ہوا تھا اور وہ اُسی میں گندھا ہر وقت پھاہے رکھتا رہتا۔
بابے کی ہر بات کی تان عشق پر ٹوٹتی تھی۔ یہ اس کا محبوب موضوع تھا۔
اُس کا ذکر آتے ہی وہ لذت سے سسکاریاں مارنے لگتا۔ دیر تک لفظوں کے میٹھے میٹھے تار بنتا تھا۔ جب کبھی کوئی جواری اس سے سعد ہندسے یا ترپ کے پتے کا رنگ پوچھتا تو بابا دیر تک مسکراتا اور مزے لے لے کر کہتا ” ساری بات عشق کی ہے کسی ایک رنگ میں ڈھل جانے کی ہے۔ ڈوب کر ابھرنا پڑتا ہے جس کی طلب ہوتی ہے اس جیسا بننا پڑتا ہے۔ تاش کی گڈی کو خوب پھینٹنا پڑتا ہے۔
اتنا کہ لمس کو ہر رنگ کی شناخت ہوجائے۔پان کا یکہ جب دل میں اترے گا تو سارا راز کھل جائے گا۔ہر نمبر لگ جائے گا۔ بیٹا تاش سے محبت کر۔ پانسے کی گوٹیوں سے عشق کر۔ کامیابی خودترا پتہ پوچھے۔ابھی تیرے حصے کی بہت پیہہ باقی ہے۔ خوب پھینٹ۔ دل لگا کے پیہہ۔“
جواری پیچھے ہٹتا تو ایک ماں سوال کی طشتری لے کر آگے بڑھتی، بوڑھی ہوتی بیٹی کی شادی کا سوال بابے کی گود میں ڈال دیتی۔
بابا مسکراتے ہوئے گیئر دوسرے میں سٹارٹ ہوجاتا۔ ” اولاد کے مستقبل کی لکیر ماں باپ کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ تنبیہہ، روک ٹوک، ڈانٹ پھٹکار اور نصیحت سے ہر بات نہیں بنتی۔ اولاد کے عشق میں گرفتار ہونا پڑتا ہے۔ ان کے زمانے کے سچ بھی ماننے پڑتے ہیں۔کبھی کبھی ان کا ہم عمر بننا پڑتا ہے۔ اپنے بکھرے خوابوں کی گٹھڑی سمیٹ کرطاق میں رکھنا پڑتی ہے۔
کرنے دے اس کو اپنی مرضی سے شادی۔ تجھ سے بڑی لگنے لگی ہے اب۔ بات مان لے۔ اولاد کی رضا کا پاس کر۔“
وہ پریشان خاطر ہو کر اٹھتی تو ایک موٹا سرمایہ دار اس کی جگہ سنبھال لیتا۔ کاروبار کی حالت، دولت میں کمی اورخام مال کی کمیابی کا رونا اکٹھا ہی رونے لگتا۔ بابا دیر تک مسکراتا،پھر دھیرے سے کہتا۔” مال جمع کرنے سے جمع نہیں ہوتا۔ لاکروں میں برکت نہیں پڑتی۔
دھن کو روشنی دکھا، سب روشن ہوجائے گا۔دوسرے کے مال کو اپنا مت سمجھ۔ اپنے مال کو بھی اپنا مت سمجھ۔ طمع کے میل کو من سے دھو ڈال نادار سے نیک سلوک کر۔ ان کاتیرے مال میں حصہ ہے۔ ان کو دے۔ بھربھر برکت لے۔پھر بابا خود ہی دہرانے لگتا ان کو دے۔ بھربھر برکت لے۔ ان کو دے۔ بھربھر برکت لے۔“
اتنے میں شہر کی نامی گرامی طوائف آگے بڑھتی۔ گاہکوں کی ناقدری، کوٹھے کی بے رونقی اور سرکاری اہل کاروں کی چیرہ دستیوں کا شکوہ کرتی۔
بابا گویا ہوتا” پیر کی تھاپ صحیح پڑے تو دھمک دل میں اُتر جاتی ہے۔ رقص پیشہ بنا کر نہ کر۔ اس میں ڈوب جا۔ اسے کام مت سمجھ۔ مشقت کی طرح نہ کر۔ پہلے ہی پنچم نہ لگا دیا کر۔ آواز دھیمی رکھ۔ تجھ میں بڑی شکتی ہے۔ بس شہدوں کی طرح طاقت کے مظاہرے نہ کیا کر۔ اُستاد کو یاد رکھا کر۔ نرمی سے بات کیا کر اس سے۔ تیرا دل ملتفت نہیں تو کوئی مجبوری نہیں۔
بس اس کی عمر کا احترام کیا کر۔ پیٹی خود اٹھایا کر۔ سلام کیا کر۔ سکون مل جائے گا۔ کوٹھا بھر جائے گا۔ محفل جم جائے گی۔ “
پھر مولانا صورت ایک شخص ہاتھ میں تسبیح لیے عطر میں بسی ہوئی شیروانی پہنے خدا کی تلاش کا سوال کرتا تو بابا بڑا خوش ہوتا۔ لہجے کو ریشمی بنا کر جواب دیتا۔ ” تماشا گر کبھی تماشائیوں کے ہجوم میں نہیں ملتا۔ اس کو تالی بجانے والوں اورنعرے لگانے والو ں میں تلاش نہ کر، رب نمود کے شور میں نہیں ملتا۔
احسان جتانے والے خدا کو نہیں پاسکتے۔ اربوں لوگ اس زمین پر تین وقت کی روٹی کھاتے ہیں، پانی پیتے ہیں، سانس لیتے ہیں، وہ تو ان پر احسان کی لات نہیں مارتااور تو چوک میں کھڑا ہو کر شوربے اور بوٹیوں کا ڈول پکڑ کر اعلان کرکے خیرات کرتا ہے۔ مان لے یہ سب تماشا ہوتا ہے، کرتب ہوتے ہیں اور پھرتو لوگوں کو خدا سے ڈراتا بہت ہے، انہیں نماز، روزے کے تالے میں قید رکھتا ہے، خدا تجھ سے ملنے قید خانے میں تو نہیں آئے گا۔
تجھے باہر نکلنا پڑے گا، یار کو منانا پڑے گا، راز کی بات راز میں رکھنے سے رازداں ملتا ہے،جب خدا سے دوستی ہوتی ہے،تب وہ ہم کلام ہوتا ہے۔“
شام سے پہلے جب کوئی محبوب کی جدائی کا سوال لے کر بابے کے حضور پیش ہوتا ہے تو وہ کہتا”دوسری سیڑھی چڑھ جا۔ پہلی پہ نہ بیٹھا رہ۔ جو روٹھ گیا وہ روٹھ گیا۔ جو مان رہا ہے اسے ہاتھ سے جانے نہ دے۔
یاد رکھ،سیڑھیوں میں بیٹھا شخص ہر اترتے چڑھتے کے لیے آزار ہوتا ہے۔ چلو مان لیا تیری محبت سچی تھی مگر یہ مت بھول تیرا محبوب وسیلہ تھا، چھوٹے چھوٹے واقعات بھول جا۔ بڑے دائرے میں آجا۔ رونا چھوڑ دے۔ ناز کر مقدر پر۔“
بابا اس درخت کے نیچے بیٹھا برسوں لوگو ں کو عشق کی تلقین کرتا رہا۔ اُس کے بارے میں بستی کے لوگوں کی مختلف آرا ء تھیں۔
کچھ کہتے تھے کہ یہ سچا فقیر ہے کچھ کا خیال تھا کہ یہ دھوکے باز ہے، جاسوس ہے، بہروپیا ہے۔ کچھ کے مقدر اُس سے مل کرکُھل جاتے تھے، کچھ کی حالت ذرہ بھر نہ بدلتی تھی۔مگر بابے کا درس جاری رہتا تھا۔ہر موسم میں سوال جواب چلتے رہتے تھے۔
اُس کی موجودگی کا یوں تو بستی کو بہت فائدہ تھا۔ مگر مسجدوں کا کاروبار بڑی حد تک ٹھپ ہوگیا تھا۔ لوگ ہروقت بابے کے گرد جمع رہتے تھے۔
بستی کے مُلا اس صورتِ حال سے نالاں تھے۔ پھر اچانک ایک دن دونوں فرقوں میں اختلاف ہوگیا۔ لڑائی جھگڑا سرپھٹول شروع ہوگیا۔ بابے کو فساد کی جڑ قرار دیاگیا۔ بابے نے جب یہ سنا تو پھر وہ اس بستی میں زیادہ دیر نہیں رکا،بوریا اٹھاکر کسی اور سمت چل دیا۔ جاتے ہوئے وہ یہی کہتا جارہا تھا ” فرقوں کی جنگ میں عشق کا بوٹا نہیں لگتا۔تقسیم کا درس عشق کی کتاب میں نہیں لکھا۔

بابا چلا گیا تو نہ تو بستی پر عذاب آیا اور نہ ہی کوئی قہر ٹوٹا۔ صرف وہ ہرا بھرا درخت پھر سے بنجر، بے جان خشک چٹاخ ہوگیا۔ وہ بابا، وہ درخت اور وہ درس اب بہت سے لوگوں کو بھول چکا ہے۔ کیوں کہ یہ اس زمانے کی بات ہے جب میڈیا نے ابھی اتنی ترقی نہیں کی تھی۔ ٹی وی چینلز گھروں پر حکمرانی نہیں کرتے تھے۔۔۔۔۔

Browse More Urdu Literature Articles