Mitti Ki Mona Lisa - Article No. 895

Mitti Ki Mona Lisa

مٹی کی مونالیزا - تحریر نمبر 895

سینما ہال کے بک سٹال پر کھڑے میں اس میٹھے رس کی گرم خوشبو سونگھتا ہوں اور ایک آنکھ سے انگریزی رسالے کو دیکھتے ہوئے دوسری آنکھ سے ان عورتوں کو دیکھتا ہوں جنہیں میں نے فلم شروع ہونے سے پہلے سب سے اونچے درجوں کی ٹکٹوں والی کھڑکی پر دیکھا تھا

ہفتہ 16 مئی 2015

اے حمید:
مونالیزا کی مسکراہٹ میں کیا بھیدہے؟
اس کے ہونٹوں پر یہ شفق کا سونا سورج کا جشن طلوع ہے یا غروب ہوتے ہوئے آفتاب کا گہرا ملال؟ان نیم وامتبسم ہونٹوں کے درمیان یہ باریک سی کالی لکیر کیا ہے؟یہ طلوع وغروب کے عین بیچ میں اندھیرے کی آبشار کہاں سے گررہی ہے ہرے ہرے طوطلوں کی ایک ٹولی شور مچاتی امرود کے گھنے باغوں کے اوپر سے گزرتی ہے ۔
ویران باغ کی جنگلی گھاس میں گلاب کا ایک زرد شگوفہ پھوٹتا ہے۔آم کے درختوں میں پہنچے والی نہر پلیا پر سے ایک ننگ دھڑنگ کالا پتلے ٹھنڈے پانی میں چھلانگ لگاتا ہے اور پکے ہوئے گہرے بسنتی آموں کا میٹھارس مٹی پر گرنے لگتا ہے۔
سینما ہال کے بک سٹال پر کھڑے میں اس میٹھے رس کی گرم خوشبو سونگھتا ہوں اور ایک آنکھ سے انگریزی رسالے کو دیکھتے ہوئے دوسری آنکھ سے ان عورتوں کو دیکھتا ہوں جنہیں میں نے فلم شروع ہونے سے پہلے سب سے اونچے درجوں کی ٹکٹوں والی کھڑکی پر دیکھا تھا۔

(جاری ہے)

اس سے پہلے انہیں سبز رنگ کی لمبی کار میں نکلتے دیکھا تھا اور اس سے پہلے بھی شاید انہیں کسی خواب کے ویرانے میں دیکھاتھا۔ایک عورت موٹی ،بھدی ،جسم کا ہر خم گوشت میں ڈوبا ہوا آنکھوں میں کا جل کی موٹی تہہ ہونٹوں پرلپ سٹک کا لیپ کانوں میں سونے کی بالیاں انگلیوں پر نیل پالش کلائیوں میں سونے کے کنگن گلے میں سونے کا ہار سینے میں سونے کا دل ڈھلی ہوئی جوانی ،ڈھلا ہوا، جسم ،چال میں زیادہ خوشحالی اور زیادہ خوش وقتی کی بیزاری آنکھوں میں پر خوری کا خمار اور پیٹ کے ساتھ لگایا ہوا بھاری زرتا رپرس۔
دوسری لڑکی الٹراماڈرن ،الٹر اسمارٹ، سادگی بطور زیوراپنا ئے ہوئے دبلی پتلی،سبزرنگ کی چست قمیض، کٹے ہوئے سنہرے بال،کانوں میں چمکتے ہوئے نگینے ،کلائی میں سونے کی زنجیر والی گھڑی اور دو پٹے کی رسی گلے میں،گہرے شیڈکی پنسل کے ابرو آنکھوں میں پرکار سحرکاری،گردن کھلے گریبان میں اوپر ٹھی ہوئی دائیں جانب کواس کا ہلکا سامغرور خم ،ڈورس ڈے کٹ کے بال بالوں میں یورپی عطر کی مہک دماغ گزری ہوئی کل کے ملال سے ناآشنا دل آنے والی کل کے وسوسوں سے بے نیاز زندگی کی بھر پور خوشیو ؤں اور مسرتوں سے لبریز جسم کچھ رکارکا سا متحرک سا کچھ بڑا بڑا ہوتا ہوا ۔
اس دودھ کی طرح جسے ابال آنے ہی والاہو۔سراینگوپاکستان لباس پنجابی،زبان انگریزی اور دل نہ تیرانہ میرا۔
بک اسٹال والا نہیں اندداخل ہوتے دیکھ کر اٹھ کھڑا ہواور کٹھ پتلی کی طرح کے آگے پیچھے چکر کھانے لگا۔اس نے پنکھا تیز کر دیا۔کیو نکہ لڑکی باربار اپنے ننھے ریشمی رومال سے ماتھے کا پسینہ پونچھ رہی تھی ۔موٹی عورت نے مسکرا کر پوچھا؛آپ نے لک اور وہ ٹریوسٹوری نہیں بھجوائے۔
سٹال والا احمقوں کی طرح مسکرانے لگا وہ جی کے ہمارا مال راستے میں رک گیا ہے۔بس اس ہفتے کے اندر اندرسر ٹنلی بھجوادوں گا۔موٹی عورت نے کہا پلیز ضرور بھجوادیں۔لڑکی نے فوٹو گرافی کا رسالہ اٹھاکر کہا، پلیز اسے پیک کرکے گاڑی میں رکھوادیں۔بک سٹال والابول کیا آپ انٹرول میں جارہی ہیں؟ موٹی عورت بولی یس پکچر بڑی بور ہے۔
انہوں نے ساڑھے تین روپے کے ٹکٹ لئے تھے۔
پکچر پسند نہیں آئی۔لمبی کارکار دروازہ کھول دیا اور کاردریا کی پر سکون لہروں کی طرح سات کے اوپر سے گزر گئی ۔وہ سات روپے جن کے اوپر سے لوہاری دروازے کے ایک کنبے کے پورے سات دن گزرتے ہیں۔اور لوہاری دروازے کے باہر ایک گندہ نالہ بھی ہے۔اگر آپ کو اس کنبے سے ملنا ہو تو اس گندے نالے کے ساتھ ساتھ چلے جائیں ۔ایک گلی دائیں ہاتھ کو ملے گی۔اس گلی میں سورج کبھی نہیں آیا لیکن بد بوبہت آتی ہے۔
یہ بدبو بہت حیرت انگیز ہے۔اگر آپ یہاں رو جائیں تو یہ غائب ہوجائے گی۔یہاں صغراں بی بی رہتی ہے۔ایک بوسیدہ مکان کی کوٹھڑی مل گئی ہے۔دروازے پر میلا چیکٹ بور یا لٹک رہا ہے پردہ کرنے کیلئے جس طرح نئے ماڈل کی شیورلیٹ کار میں سبز پردے لگے ہوتے ہیں۔صحن کچا اور نم وار ہے ۔ایک چارپائی پڑی ہے ۔ ایک طرف چولہا ہے ۔اوپلوں کا ڈھیر ہے۔دیوار کے ساتھ مٹی کا لیپ پھیر نے والی ہنڈیا اور دوست پناہ لگے پڑے ہیں۔
ایک سیڑھی چڑھ کر کو ٹھڑی کا درواز ہے کوٹھڑی کا کچا فرش سیلا ہے ۔دور دیوار سے نم دار اندھیر رس رہا ہے۔سامنے دوصندوق ایک دوسرے کے اوپر رکھے ہیں۔صندوق کے اوپر صغراں بی بی نے پرانا کھیس ڈال رکھا ہے ۔کونے میں ایک ٹوکر الٹارکھاہے ۔جس کے اندردومرغیاں بند ہیں ۔دیوار میں دوسلاخیں ٹھونک کر اوپر لکڑی کا تختہ رکھا ہے۔اس نختے پر صغراں بی بی نے اپنے ہاتھ سے اخبار کے کاغذ کاٹ کر سجائے ہیں اور تین گلاس اور چار تھالیاں نکادی ہیں ۔
اندر بھی ایک چار پائی بچھی ہے۔اس چار پائی پر صغراں بی بی کے دو بچے سورہے ہیں ۔دو بچے اسکول پڑھنے گئے ہیں ۔صغراں بی بی بڑی گھریلوعورت ہے بالکل آئیڈیل قسم کی مشرقی عورت خاوند مہینے کی آخری تاریخوں میں پٹائی کرتا ہے تو رات کو اس کی مٹھیان بھرتی ہے ۔وہ لات مارتا ہے تو صغراں بی بی اپنا جسم ڈھیلا چھوڑ دیتی ہے کہیں خاوند کے پاؤں کو چوٹ نہ آجائے ۔
کتنی آئیڈیل عورت ہے یہ صغراں بی بی یقینا ایسی ہی عورتوں کے سر پر دوزخ اور پاؤں کے نیچے جنت ہوتی ہے۔خاوند ڈاکیہ ہے ساٹھ روپے کی کثیر رقم ہر مہینے کی پہلی کولاتا ہے ۔پانچ روپے کو ٹھڑی کا کرایہ پانچ روپے دونوں بچوں کے اسکول کی فیس بیس روپے دودھ والے کے اور تیس روپے مہینے بھر کے راشن کے باقی جو پیسے بچتے ہیں ان میں یہ لوگ بڑے مزے سے گزربسر کرتے ہیں۔
کبھی کبھی صغراں بی بی ساڑھے تین روپوں والی کلاس میں بیٹھ کر فلم بھی دیکھ آتی ہے اور اگر پکچر بور ہو تو انٹرول میں اٹھ کر لمبی کار میں بیٹھ کر اپنے گھر آجاتی ہے۔بک سٹال والا ہر مہینے انگریزی رسالہ لک لائف اسے گھر پر ہی پہنچا دیتا ہے۔وہ کھانے کے بعد میٹھی چیز ضرور کھاتی ہے۔دودھ کی کریم میں ملے ہوئے انناس کے قتلے صغراں بی بی اور اس کے خاوند ڈاکئے کو بہت پسند ہیں ۔
کریم کو محفوظ رکھنے کیلئے انہوں نے اپنی کو ٹھڑی کے اندرایک ریفریجر یٹر بھی لاکر رکھا ہوا ہے۔صغراں بی بی کا خیال ہے کہ وہ اگلی تنخواہ پر کوٹھڑی کو ائر کنڈیشنڈ کر والے کیونکہ گرمی حبس اور گندے نالے کی بدبو کی وجہ سے اس کے سارے بچوں کے جسموں پروانے نکل آتے ہیں اور رات بھر انہیں اٹھ اٹھ کر پنکھا جھلتی رہتی ہے۔ صغراں بی بی نے ایک ریڈیو گرام کا آرڈر بھی دے رکھا ہے۔
مائی گاڈھاٹ اے لولی ہوم ازدس۔ہوم سویٹ ہوم My god whta a lovely home as this home sweet hom صغراں بی بی کا رنگ بلدی کی طرح ہے اور بلدی ٹی بی کے مرض میں بے حد مفید ہے۔اس کے ہاتھوں میں کانچ کی چوڑیاں ہیں ۔
مہینے کے آخر میں جب اس کا خاوند اسے پیٹتا ہے تو ان میں سے اکثر ٹوٹ جاتی ہیں۔چنانچہ اب وہ اس ہر ماہ کے خرچ سے بچنے کیلئے سونے کے موٹے کنگن بنوارہی ہے۔
کم ازکم وہ ٹوٹ تو نہیں سکیں گے۔صغراں بی بی کے چاروں بچوں کارنگ بھی زرد ہے اور ہڈیاں نکلی ہوئی ہیں ۔ڈاکٹر نے کہا ہے انہیں کیلشیم کے ٹیکے لگاؤ۔ہر روز صبح مکھن ،پھل،انڈے ،گوشت اور سبزیاں دو شام کو اگر یخنی کا ایک ایک پیالہ مل جائے تو بہت اچھا ہے اور وہاں انہیں جس قدر ممکن ہوگندے کمروں ،بدبودار اندھیری کوٹھڑیوں سے دور کھو۔صغراں بی بی کا خیال ہے کہ وہ اگلی سے اگلی تنخواہ پر گلبرک یا کینال پارک میں کسی جگہ ان بچوں کیلئے زمین کا چھوٹا سا ٹکڑا لے کر وہاں ایک چھوٹا سا تین چار کمروں والا مکان بنوالے گی۔
دو چھوٹے بچے اب اسکول بھی نہیں جاتے لیکن انشاء اللہ تعالیٰ وہ بھی ایک دن سکول جانا شروع کر دیں گے اور جو دو بچے مزید پیدا ہوگے وہ بھی سکول ضرور جائیں گے۔اب کی دفعہ انہیں کا ٹونٹ میں داخل کراونے کا ارداہ رکھتی ہے۔جہاں وہ ہر صبح خدا کے بیٹے کی دعا پڑ ھیں گے۔صغراں بی بی کو ممی کہیں فرفر انگریزی بولیس اور اردوفارسی پڑھ کر تیل بیچنے کی بجائے مقابلے کے امتحان میں بیٹھیں اور اونچا مرتبہ اور لمبی کارادر چوڑے لان والی کوٹھی پائیں۔

کیلشیم کے ٹیکوں کا پورا سیٹ بیس روپے میں آتا ہے ۔یہ معمولی بات ہے اب کی وہ اپنے خاوند سے کہے گی کہ ڈاک کخانے سے پہلی تاریخ کو گھرآتے ہوئے دوسیٹ لیتے آؤ۔اپنی کوٹھڑی والا ریفر یجریٹر اس نے لال لال سیبوں سرخ اناروں موٹے انگوروں ،مکھن کی ٹیکوں ، تازہ انڈوں اور گوشت کے قتلون سے بھر دیاہے ۔بچے سارا مہینہ مزے سے کھائیں گے اور موج اڑائیں گے لیکن خدا کی دی ہوئی ہر نعمت کے ہوتے ہوئے بھی صغراں بی بی کے رخسار کی ہڈیاں باہر کو نکلی ہوئی ہیں ۔
کمر میں مستقل درد رہتا ہے چہرہ زرد ہو کر پیلا پڑگیا ہے ۔آنکھیں پھٹی پھٹی سی ،ویران سی رہتی ہیں ۔ان آنکھوں نے کیا دیکھ لیا ہے ہاتھ کی نسیں بھر آئی ہیں۔کنگھی کرتے ہوئے ڈھیروں بال جھڑتے ہیں۔ہاتھ پیر ہر وقت ٹھنڈے رہتے ہیں جس طرح ریفریجر یٹر میں کریم پھل اور گوشت ٹھنڈا رہتا ہے۔صغراں بی بی کی شادی کو پا نچ سال ہوگئے ہیں اور خاوند نے اسے صر ف چار بچے عطاکئے ہیں ۔
خدا اسے سلامت رکھے ابھی اور بچے پیداہوں گے ۔ہر پہلی تاریخ کو اس کے خاوندکو صغراں بی بی سے محبت ہو جاتی ہے ۔جب بیس روپے دودھ لالے جاتا ہے تو محبت کے اس تاج کا ایک برج گرتا ہے پانچ روپے کرایہ جاتا ہے تو دوسرا برج گرتا ہے ۔پھر بچوں کی فیسیں، کاپیاں، پنسلیں ،کتا بیں ،راشن،دال ، آٹا نمک ،مرچ ،ہلدی ،اوپلے کپڑا پریشانی ، تفکرات وسوسے ملال اور ناامیدیاں اور یہ تاج محل گنبد سمیت زمین کے ساتھ آن لگتا ہے اور خاوند اپنی محبت کی پٹاری میں سے ڈنڈا نکال کر اپنی پہلی تاریخ کی محبوبہ کی پٹائی شروع کردیتا ہے۔
ونڈرفول ہوم ڈیڈی آج آپ کا مک نہیں لائی۔ اوممی یہ جیلی گندی ہے اسے پھینک دیں۔ کم آن ڈارلنگ صغراں بی بی آج الحمرا میں کلچر ل شودیکھیں ۔ڈانس میوزک وھاٹ اے تھرل ہبی بس یہ وائیٹ ساڑھی خوب میچ کرے گی اور اس کے ساتھ بالوں میں مفید مویتے کے پھولوں کا گجرامائی مائی یوآرسویٹ ڈارلنگ صغراں بی بی ندی کنارے یہ کاٹیج کس قدر خوبصورت ہے۔ سرسبز لان ترشی ہوئی گھاس قطار میں لگے ہوئے پھولوں کے پودے ایک ملازم غسل خانے میں لکس صابن سے کتے کو نہلا رہا ہے۔
اس کے بعد تو لیے سے اس کا جسم خشک کیا جائے گا۔کنگھی پھیری جائے گی۔گلے میں ایپرن باندھا جائے گا اور اسے دو آدمیوں کا کھانا کھلاجائے گا اور پھر فورڈکار میں بیٹھ کر مال روڈ کی سیرکروائی جاگی۔ آج اگر گوتم بدھ زندہ ہوتا تو وہ جانوروں کے ساتھ انسانوں کی اتنی شدید محبت کودیکھ کر کتنا خوش ہوتا۔ آج اسے انسانی دکھوں اور مصیبتوں کو دیکھ کر محل چھوڑ کر جنگل میں جا بیٹھنے کی کبھی بھی ضرورت محسوس نہ ہوتی بلکہ وہ محل ہی میں اپنی بیوی بچے اور لونڈیوں کے ساتھ رہتا ۔
کتوں کی ایک پوری فوج رکھتا شام کو کلب میں جا کر دوستوں کے ساتھ تاش کھیلتا ،سینما دیکھتا اور بچوں کو ساتھ لے کر انہیں کار میں سیر کرواتا ۔اس کے بچے رنگ دارقمیض اور جینز پہن کر گردن اکڑاکر چھوٹی سی چھاتی پھلا کر پتلی سی کمر مٹکا کر کالج والے بس سٹاپوں ،اعلیٰ ہوٹلوں اور ناچ گھروں کے چکر لگاتے۔وہ رات کو ایک بجے سوتے اور صبح منہ انھیرے گیارہ بجے اٹھتے اور دانت صاف کئے بغیر چائے پیتے اخبار میں فلموں کاپروگرام دیکھتے ۔
گرمیاں کبھی مری اور کبھی سوئٹرزلینڈ میں بسر کرتے اور اپنے باپ کا نام روشن کرتے اور اسے کبھی بال منڈوا کر شاہی لبادہ پھینک کر ننگے پاؤں نروان حاصل کرنے کیلئے جنگل کا رخ نہ کرنے دیتے۔
اف مائی گڈس لوہاری دروازے کی اس گندی گلی میں کس قدر حبس ہے ۔یہ لوگ کیسے چارپائی گندی نالیوں پرڈال کر سورہے ہیں۔وھاٹ اے پٹی مجھے ان لوگوں سے بڑی گہری ہمدردی ہے۔
میں ان کے تمام مسائل سے واقف ہوں۔میں ہر ہفتے ان کی پھیکی اور بے رس زندگی پر ایک افسانہ لکھتا ہوں میرا خیال ہے کہ میں ان لوگوں کی زندگی پر ایک پر مغز تحقیقی مقالہ لکھ کر سمٹ کروادوں۔ بڑا ونڈرفل سجیکٹ ہے ۔ڈاکٹریت تو وہ پڑی ہے جس طرح وہ کھری چارہائی پڑی ہے جس پر تین پھنسیوں زدہ بچے اور ایک بچہ زدہ ماں سورہی ہے۔میں ناک پر رومال رکھے پر نالوں سے اپنے اجلے کپڑے بچاتا ان لوگوں کو گہرا مطالعہ کرتا بدبودار گلی سے باہر نکل آیا ہوں۔

لاہور میں قیامت کی گرمی پڑرہی ہے لیکن اس ہوٹل کی فضا کس قدر خنک ہے ائیر کنڈیشز بھی خدا کی کتنی بڑی نعمت ہے ۔آن ہوٹل میں بڑی رونق ہے۔سایہ دار دھیمے قمقموں کی ملائم روشنی میں لوگوں کے چہرے کتنے خواب آوردکھائی دے رہے ہیں۔یہ کہیں خواب ہی تو نہیں ۔میرا خواب صغراں بی بی کا خواب اس کے ڈاکئے خاوند کاخواب ہری اوم وہ پونی ٹیل والی لڑکی کتنی پیاری ہے اور وہ بلیک ٹشو کی چست قمیض والی وہ شیزہ جس کے بالوں میں ریل کے گجرے ہیں کانوں میں زہریلے رنگ کے نگینے ہیں اور جس کا چہرہ باقاعدہ اور قوت بخش غذاؤں کے اثر سے کھانا کھانے والے چاندی کے چمچ کی طرح چمک رہاہے ۔
اور وہ مرغن چہرے والی موٹی عورت جس کی آدھی آستینوں والی قمیض بازروؤں پر گوشت کے اند دھنس گئی ہے۔اس عورت کاچہرہ موم کے بت کی طرح ہے۔بے حس اور ٹھنڈا اس کی گاڑی چودہ گزلمبی ہے اور غسل خانے کا فرش بارہ مربع گزہے۔اس نے ریڈیو گرام جرمنی سے منگوایا ہے ۔قالین ایران سے ،عطر فرانس سے،کیمرہ امریکہ سے ،خاوند پاکستان سے حاصل کیا ہے۔جتنے پیسوں کاصغراں بی بی کے ہفتے بھر کاراشن آتا ہے اتنے پیسے یہ بیر ے کوٹپ کردیتی ہے۔
اس کے بنگلے میں چارکتے اور سات بیرے رہتے ہیں ۔یہ ہمیشہ چاندی کے کافی سیٹ میں کافی پیتی ہے۔چاندی کے برتنوں میں بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ ایک تو انہیں زنگ نہیں لگتا دوسرے وہ نان پوائزنس ہوتے ہیں۔ایک سیٹ اپنے گھریلو استعمال کیلئے لوہاری دروازے کی گلی والے ڈاکئے کوبھی خرید لینا چاہئے۔

Browse More Urdu Literature Articles