Naya Morr - Article No. 903

Naya Morr

نیا موڑ - تحریر نمبر 903

وہ شناسا آواز کہیں قریب سے ہی آئی تھی ، جیدے کی نیند بھک سے اڑ گئی چند لمحے تو وہ بے جان سا لیٹا آسمان پر نظریں ٹکائے دیکھتا رہا پھر ہمت کر کے آہستہ سے چارپائی سے اٹھا اور بھینسوں کی کھرلیوں کی اوٹ میں اسی سمت بڑھتا گیا جدھر سے آواز آئی تھی

پیر 8 جون 2015

عدنان جبار: وہ شناسا آواز کہیں قریب سے ہی آئی تھی ، جیدے کی نیند بھک سے اڑ گئی چند لمحے تو وہ بے جان سا لیٹا آسمان پر نظریں ٹکائے دیکھتا رہا پھر ہمت کر کے آہستہ سے چارپائی سے اٹھا اور بھینسوں کی کھرلیوں کی اوٹ میں اسی سمت بڑھتا گیا جدھر سے آواز آئی تھی اس کا اندازہ ٹھیک نکلا مکئی کے کھیت کی اوٹ میں وہ دونوں دبکے بیٹھے تھے ، جیدے کے قدم جیسے منوں وزنی ہو گئے ہوں ، اندھیرے کے باوجود یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وہاں دو اجسام محبت کی چھینا جھپٹی میں مشغول ہیں بوجھل قدموں سے چارپائی تک آتے آتے وہ بالکل بےجان ہو چکا تھا چارپائی پر گرتے ہی اس کی آنکھوں سے آنسو پھوٹ پڑے جیدا چھ بھائی بہنوں میں تیسرے نمبر پر تھا ، صحت شروع سے ہی دھان پان سی تھی اوپر سے لمبوترا قد ، وہ ہمیشہ سے قدرت کی ناانصافیوں پر کڑھتا آیا تھا کبھی کبھی تو اپنے ماں باپ کو دل میں کوسنے دیتا رہتا تھا کہ کیوں ان جیسے احمقوں کے گھر پیدا ہو گیا ، بچپن سے یہ احساس اس کے دل و دماغ میں بیٹھا ہوا تھا کہ اس کے ماں باپ دوسروں کی طرح عقل مند نہیں اور یہی احساس آج پھر شدت سے اس کے دماغ پر حاوی ہو گیا کہ یہ جو کچھ ہوا ہے انہی کی وجہ سے ہوا ہے ، لوگوں کے ماں باپ کتنے سلجھے اور سمجھدار ہوتے ہیں نمبرداروں کو ہی دیکھ لو کتنے معاملہ فہم اور اولاد کو عزت دیتے ہیں اور تربیت تو کمال ہے دونوں بیٹھے اچھی جگہ پڑھتے ہیں اور جب گاؤں آتے ہیں تو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے یہی بات جیدے کو کھاتی جا رہی تھی کہ ماں باپ عزت دیں تو لوگ بھی عزت دینے لگتے ہیں اور یہاں یہ معاملہ کہ اپنے ہی مزارعوں کی بیٹی تک اسے نظرانداز کر کے مسلیوں کے لڑکے سے عشق چلا رہی ہے اور معاملہ رات کی ملاقاتوں تک پہنچ گیا ہوا ہے ، جیدہ یونہی جلتا کڑھتا پتہ نہیں کب دو سو گیا صبح تڑکے ابے کی گالیوں نے اٹھایا جو بیلنا چلانے کی تیاریوں میں مصروف تھا ابے کو دل ہی دل میں کوستا وہ منہ ہاتھ دھو کر بیلنے پر پہنچا اور کام میں جت گیا یہاں بھی اسے کوئی اہم کام نہیں دیا جاتا تھا ، گُڑ بنانے کے سارے مراحل میں اس کے ذمے صرف آگ جلائے رکھنے کا ہوتا تھا بار بار ابے کی گالیاں اوئے خبیث ساری پٓت جلا دی اوئے گدھے الوُ کب عقل آئے گی تجھے ۔

(جاری ہے)

پٓت سے زیادہ آگ جیدے کے اندر جلتی رہتی اور وہ دل ہی دل میں کوسنے دے کر اس آگ کو بجھانے کی اپنی سی کوشش کرتا رہتا۔ پہلی پٓت تیار ہوتے ہوتے مسلّی جن کو دیہاڑی پر کماد کاٹ کر بیلنے تک پہنچانے کے لئے رکھا ہوا تھا وہ بیل گاڑی پر گنّے لاد کر بیلنے پر پہنچ گئے اور اب انہیں مطلوبہ جگہ اتار رہے تھے جیدا کنکھیوں سے ان کے بڑے لڑکے کو دیکھتا رہا اس نے وہ چھلّا بھی پہچان لیا جو اس نے مزارعے کی لڑکی کو ہکلاتے ہوئے گفٹ کیا تھا اور اس نے ماتھے پر تیوری ڈال کر پکڑ لیا تھا اور تمسخرانہ انداز میں گھورتی ہوئی وہاں سے چلی گئی تھی ، اس شام وہ دیر تک پنڈلیوں میں لرزش محسوس کرتا رہا تھا یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا تھا ہمیشہ ہی جب بھی وہ کسی لڑکی کے پاس جاتا سانس اکھڑ جاتی تھی اور ہاتھ پاؤں پھول جاتے تھے اوپر سے ہکلاہٹ طاری ہو جاتی تھی پر اگر وہ تھوڑی سی ہمت کرے اور پیش قدمی کرے تو کوئی منزل دشوار نہیں اس کے لئے "یہ اس کا اپنا خیال تھا" ہر رات وہ سونے سے پہلے سب سے اپنی محرومیوں کا بدلہ لینے کے منصوبے بناتا تھا روز فہرست ترتیب دیتا کہ کس کو کیسے قتل کرے گا اور وہاں سے بھاگ جائے گا اور پھر کیسے کچھ ہی عرصے میں پورے علاقے میں جیدے اشتہاری کی دھاک بیٹھ جائے گی پر یہ خیالات سویرے چارپائی سے اٹھتے ہی دم توڑ دیتے تھے اور وہ گھر کے روز مرہ کے کاموں میں الجھ کے بھول بھی جاتا تھا جیدے کے دونوں بڑے بھائی شادی شدہ تھے ، سب سے بڑے والا تو شادی کے پہلے مہینے ہی بیوی اور اماں کی لڑائی کے بعد اپنا حصہ بٹور کے سسرالی گاؤں شفٹ ہو چکا تھا ، اس سے چھوٹا ویسے ہی بیوی کا غلام تھا اور سارا دن اسی کے پاؤں سے چمٹا رہتا تھا اور اماں کے طعنوں کا شکار رہتا تھا ابا جی نے بھی کبھی کسی سے سیدھے منہ بات نہیں کی تھی اسی ڈیپریشن زدہ ماحول کی وجہ سے جیدا گھر سے باہر ہی رہتا تھا بس کھانا کھایا اور فوراً باہر کی طرف دوڑ لگا دی ایک دن کھانا کھاتے اس کے کانوں میں بھنک پڑی کہ اماں پہلی دونوں بہوؤں سے مایوس ہو کر کام کاج کے لیے تیسری بہو کو لانے کا فیصلہ کر چکی ہیں تا کہ ان کو آرام مل سکے اور چارپائی پر بیٹھے حکم چلا سکیں شادی کا فیصلہ تو ہو ہی چکا تھا اب تیاریوں کا مرحلہ شروع ہو چکا تھا پر جیدا کسی بات میں دخل نہیں دیتا تھا ، دلہن کے لیے کسی بھی چیز حتیٰ کہ کپڑوں تک کی خریداری میں اس نے ذرا دلچسپی نہیں لی جس پر اماں بہت خوش تھیں اور اعلان کر چکی تھیں کہ یہ میرا بیٹا اپنی بیوی سے اپنی ماں کی خدمت کروائے گا جنت میں گھر بھی پائے گا اور اللہ میاں بھی بہت راضی ہوں گے پہلی بار گھر میں اپنی تعریف سن کے وہ تھوڑا جذباتی ضرور ہوا تھا پر پھر سے خیالات آنے والے عروسی لمحات پر مرکوز کر دیے اور کسی بات سے اسے غرض نہیں تھی بس اس کی دلہن گھر آجائے ، روز رات کو سونے سے پہلے وہ خیالات میں پتہ نہیں کہاں کا کہاں پہنچ جاتا بس ایک چیز تھی جو سارے خیالات میں اس کے ہمراہ رہتی تھی " اس کی دلہن " دن گزرتے پتہ بھی نہ چلا اور مہندی مایوں کی رات آ گئی گھر کے صحن میں رنگلے پایوں والی کرسی ڈال کر اسے بٹھا دیا گیا اور سارے خاندان کی عورتیں اس سر پر تیل اور ہاتھوں پر مہندی تھوپنے لگیں ، انہی بیچ مزارعے کی بیٹی نے رسم پوری کرتے مہندی لگاتے ہوئے شرارت سے اس کے ہاتھ پر چٹکی کاٹ لی اور پہلی بار جیدے نے خوداعتمادی سے اس کی آنکھوں میں گھورا اور بے نیازی سے منہ دوسری طرف پھیر لیا ، اس نئے بدلاؤ پر وہ خود بھی بھی بہت حیران تھا وہ رات بہت بے صبری سے کٹی دن ہی نکلنے کا نام نہیں لے رہا تھا آخر صبح کے سورج نے جھلک دکھائی اور گھر میں آئے سارے مہمانوں کی تیاریاں شروع ہو گئیں ہر کوئی نئے کپڑے اٹھائے اِدھر سے اُدھر بھاگا پھر رہا تھا جیدے نے بھی نہا دھو کر شادی کا سوٹ پہنا اور سہرا باندھ کے بارات کے ساتھ روانہ ہوا سارا دن آنے جانے کے سفر اور لڑکی والوں کی رسموں میں گزر گیا شام گئے وہ دھاڑیں مارتی غش کھاتی دلہن کو لے کر واپس روانہ ہوئے جیدے کی زندگی آج نئے موڑ پر تھی پہلی مرتبہ اتنی توجہ اور آؤ بھگت ملی تھی اسی خوشی میں سرشار بارات سمیت دلہن لیے گھر پہنچ گیا ۔
گھر کی رسموں سے فارغ ہو کر دلہن کو حجلہ عروسی میں بٹھا دیا گیا اور جیدے کو بھی کچھ دیر تنگ کرنے کے بعد وہیں دھکیل دیا گیا نئی نویلی دلہن گھونگھٹ نکالے سمٹی بیٹھی تھی وہ کچھ دیر دروازے کے پاس کھڑا اپنے خیالوں میں گم رہا پھر کچھ سوچتا ہوا گردن اکڑائے بیڈ کی دوسری طرف سے جا کر تقریباً ٹیک لگا کر لیٹ گیا ، دلہن کی بے چینی اور گبھراہٹ سے کافی دیر تک محظوظ ہونے کے بعد رعب دار آواز میں بولا "گھونگھٹ اٹھاؤ" تھوڑی دیر خامشی کے بعد جواب نہ ملنے پر ذرا غصیلے لہجے میں پھر دھاڑا تمھیں سنا نہیں میں نے کیا کہا ہے وہ بیچاری لرزتے ہاتھوں سے گھونگھٹ سرکا کے سر نیچا کئے بیٹھی رہی پہلی بار جیدے کو اپنے آپ میں غرور آیا تھا اپنے اندر کی مسرت کو چھپائے پھر تلخ لہجے میں حکم دیا کہ سر اوپر کرو اور ادھر میری طرف دیکھو دلہن اس نئے حکم سے گبھرائی فوراً سہمی نظروں سے اپنے دولہے کی طرف دیکھنے لگی پر اسے اپنی طرف گھورتا پا کر فوراً نظریں جھکا لیں احساس تفاخر جیدے کے سر تک پہنچ چکا تھا اور اس نے جھٹ سے اگلا حکم داغ دیا کہ نخرے چھوڑو اور یہاں آ کے میرے پاؤں دباؤ سارا دن تمھارے گھر والوں نے فضول رسموں میں تھکا دیا وہ بیچاری سہمی ڈری اپنے مجازی خدا کے پاؤں کے پاس کھسک آئی اور سر جھکائے مہندی لگے ہاتھوں سے اس کے پاؤں دبانے لگی جیدے کی زندگی کا یہ نیا موڑ بہت بڑی تبدیلیاں لایا تھا وہ حجلہ عروسی میں نیم دراز نئی نویلی دلہن سے پاؤں دبواتے ہوئے آنے والی زندگی کے حسین مناظر میں کھو گیا ۔

Browse More Urdu Literature Articles