Pachtawa - Article No. 941

Pachtawa

پچھتاوا - تحریر نمبر 941

دسمبر چل رہا تھا، سردی کا کہنا تھا کہ میں اگر آج اپنا کمال نہ دِکھا پائی تو کبھی نہیں دِکھا پاؤں گی۔ میں اپنے کمرے میں اپنے آپ کو قہر کی سردی سے بچانے کیلئے ،اپنے گھر کے اُس کمرے میں ہیٹر جلائے ہوئے کچھ پڑھ رہا تھاجس کا دروازہ باہر گلی میں کُھلتا تھا

جمعرات 20 اگست 2015

ندیم گُلانی
دسمبر چل رہا تھا، سردی کا کہنا تھا کہ میں اگر آج اپنا کمال نہ دِکھا پائی تو کبھی نہیں دِکھا پاؤں گی۔ میں اپنے کمرے میں اپنے آپ کو قہر کی سردی سے بچانے کیلئے ،اپنے گھر کے اُس کمرے میں ہیٹر جلائے ہوئے کچھ پڑھ رہا تھاجس کا دروازہ باہر گلی میں کُھلتا تھا۔اتنے میں اچانک دروازے پر دستک ہوئی․․․ ، میری نظر ایک دم گھڑیال کی جانب گئی،جو ابھی پندرہ منٹ پہلے ہی رات کے ایک بجنے کی خبر دے چُکا تھا․․․،پہلے تو مجھے حیرت ہوئی کہ اِس وقت کون ہو سکتا ہے․․․؟میں نے پہلی دستک پہ علاقے کہ خراب حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دروازہ نہ کھولا، لیکن جونہی دروازے پر دوسری بار دستک ہوئی تو میں نے اندر سے آوازلگائی ،کون ہے․․؟باہر سے ہلکے دھیمے لہجے میں آواز آئی․․․ ،” میں ہوں ۔

(جاری ہے)

۔رِدا“۔۔ ۔ مجھ پر جیسے ایک بجلی سی گِری․․․، میں نے ایک دم دروازہ کھولااور باہر رِدا کو کھڑا ہُوا پایا۔۔ ۔ میں ابھی اِس شش وپنج میں مُبتلا تھا کہ رِدا اِس وقت یہاں اتنے سالوں کے بعد کیوں اور کیسے․․ ؟ اتنے میں رِدا نے کہا ۔۔،” میں اندر آ سکتی ہوں“؟میں نے ایک دم اُسے کہا ․․،” ہاں ہاں کیوں نہیں “۔۔ ۔ میری حیرت ابھی تک ختم نہیں ہوئی تھی، میں اس سوچ میں گُم تھا کہ آج یہ کیا ہو رہا ہے میرے ساتھ؟رِدا آج پانچ سال کے بعدمیرے پاس اِس وقت کیوں آئی ہے؟جس نازنین کے عشق کی چوٹ نے اور جس کے مجھے چھوڑ دینے کے غم نے میری زندگی وبال کرکے رکھ دی تھی، وہ آج خود اِس وقت میرے پاس چل کر کیوں آئی ہے؟میرے ذہن میں سوالات کی بارش ہو رہی تھی۔
میں ایک دم کافی بے چین سا ہو گیا تھا۔لیکن رِدا مجھ سے ذیادہ بے چین اور پریشان نظر آرہی تھی، ایسا لگ رہا تھا جیسے کئی راتوں سے سوئی نہ ہو،ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی غم ہو جو اُسے اندر ہی اندر کھا رہا ہو،وہ چُپ چُپ سی نظریں جُھکائے میرے سامنے والی کُرسی پر بیٹھ گئی۔یوں لگ رہا تھا جیسے میں اُس سے اِس وقت یہاں آنے کی وجہ پوچھوں گا تو وہ رو دے گی․․،اور میں۔
۔۔۔ جو کبھی اُس کی خوشی کیلئے اپنی زندگی کی ساری خوشیاں، سارے خواب تِیاگ دینے کو تیار رہتا تھا ، مجھ میں آج بھی اتنی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ اُس سے کچھ پوچھوں ۔صرف اِس ڈر سے کہ کہیں وہ رو نہ دے۔ ہم محبت کرنے والے بھی کتنے عجیب ہوتے ہیں،چاہے ہمارا محبوب ہمیں کتنے ہی دُکھ کیوں نہ دے ،کتنی ہی بار کیوں نہ رُلا دے، لیکن ہم میں اُسے ایک بار بھی اپنے سامنے روتے ہوئے دیکھنے کی ہمت نہیں ہوتی۔

ہم دونوں کافی دیر چُپ رہے ، لیکن آخر کار رِدا نے خاموشی کا حصار توڑا․․․،اور دبے دبے لہجے میں آنکھیں نیچی کِئے ہوئے کہا․․․” میں تم سے معافی مانگنے آئی ہوں․․،مجھے معلوم ہے میری وجہ سے جو دُکھ تم نے جھیلے ہیں،اُن کا اَزالاتو شاید کبھی نہیں ہو سکتا،لیکن“․․․․،اور پھر اُس ہی پل اُس کی آنکھوں سے آنسو اپنی جگہ خود بناتے ہوئے زبردستی چھلکنا شروع ہوگئے۔
اور پھر دوسرے ہی پل اُس نے اپنے گالوں تک آئے ہوئے آنسوؤں کو اپنی ہتھیلیوں کے چاند سے صاف کِیا۔۔، میں نے کہا”لیکن تم یہ سب کیوں ․․․․،اُس نے ایک دم میری بات کاٹتے ہوئے بھیگے ہوئے لہجے میں کہا․․،”نہیں اعزاز آج مجھے کہنے دو“ ․․․،، اُس نے ایک لمبی سانس لی، اور پھر مخاطب ہوئی۔۔،”کتنا اچھا ہو اگر ہم سچے پیار کرنے والے لوگوں کی قدر تب ہی کر لیا کریں جب وہ ہمارے ساتھ ہوتے ہیں،ہمیں مُیسّرہوتے ہیں․․․․،لیکن یہ بھی کسی نصیب والے کو ہی نصیب ہوتا ہے کہ وہ ٹھیک وقت پہ یہ سب کر سکے․․․، ورنہ شاید دُنیا میں تقریبن لوگ مجھ جیسے بد نصیب ہی ہوتے ہیں“․․ ،یہ کہہ کر وہ پھر رونے لگی․․․،میں نے کہا ،” دیکھیں آپ اسطرح رو رو کے اپنے آپ کو ہلکان نہ کریں، جو ہُوا سو ہُوا،مجھے آپ سے کوئی گِلا نہیں ہے، خُدارہ آپ روئیں نہ“․․․ ،لیکن قدرت بھی توکبھی سچی محبت کرنے والوں کے سہے ہوئے غم کو رائیگاں نہیں جانے دیتی،جتنا غم ایک سچی محبت کرنے والاکسی سنگدل قسم کے محبوب سے محبت کر کے جھیلتا ہے،اُس سے کئی ذیادہ غم زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے میں وہی غم پچھتاوے کی شکل میں یا پھر اِس سے جُڑی کسی اور شکل میں اُس سنگدل محبوب کو بھی جھیلنا پڑتا ہے۔
۔، اور اُس وقت اِس کی سب سے بڑی مثال میرے سامنے بیٹھی تھی․․․۔ مجھے ایک دم وہ دن یاد آیاجب میں رِدا سے آخری بار مِلا تھا،میں نے رِدا سے اِسی طرح بھیگے ہوئے لہجے میں پوچھا تھا․․․،” تم نے میرا خط بغیر پڑھے واپس کیوں کِیا“؟رِدا نے کہا ․․،”اِس لیئے کہ مجھے معلوم تھاکہ تم نے اُس میں پیار محبت سے جڑے ہوئے فرسودہ قسم کے جملے لکھے ہونگے․․، اور میں تمہیں صرف اپنا دوست سمجھتی ہوں․․، ہم بچپن سے ایک محلے میں ساتھ کھیل کُود کے بڑے ہوئے ہیں،لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں کہ میں تم سے پیار کرتی ہوں ،یا تم مجھ سے پیار کرنے لگو“․․․ ۔
میں نے کہا ․․،” تم مجھے چاہو نہ چاہو، لیکن تم تمہیں چاہنے کا حق مجھ سے تومت چھینو، میں تم سے پیار کرتا تھا ، کرتا ہوں اورہمیشہ کرتا رہوں گا“․․․۔ رِدا نے کہا․․،” وہ تمہاری مرضی ہے، لیکن میرے خوابوں کا شہزادہ کوئی اور ہے“․․، میں نے بڑی فراغ دِلی سے پوچھا․․․․،”کیاتمہاری زندگی میں کوئی اور آچُکاہے“․․؟اُس نے کہا ․․،”نہیں․․،ابھی تو نہیں․․،لیکن کوئی نہ کوئی آئے گا سہی․․،اور وہ کم سے کم تم نہیں ہو“․ ․ ۔
میں نے کہا․․،” یعنی․․․ کسی کے انتظار میں کسی کو ٹُھکرارہی ہو“․․؟ رِدا نے کہا ․․،”ایسا ہی سمجھ لو“․․․ ، اور پھررِدا مجھے دو منٹ وہیں رُکے رہنے کا حُکم دے کر اندر کمرے میں الماری تک گئی ، اور پھر میرے آج تک کے دیئے ہوئے سارے کارڈز اور گفٹس ایک شاپر میں باندھے ہوئے مجھے واپس کردیئے․․،اور کہنے لگی ․․،” اُمید کرتی ہوں کہ آئندہ تم امی کے بُلوانے پر بھی اُنکی بات باہر سے ہی سُن کرواپس چلے جاؤ گے، اور آئندہ مجھے کوئی کارڈ یا گفٹ مت بھیجنا“․․․۔
․ میرے سر پہ جیسے آسمان گِرپڑا تھا․․، اور زمین پیروں کے تَلوں سے نکل چُکی تھی․․، اُس کے بعد میں چاہنے پر بھی اُسے کچھ نہیں کہ پایا، لفظ جیسے کہیں کھوسے گئے تھے،لیکن میری آنکھوں نے آنسوؤں کی صورت وہیں کھڑے کھڑے بہت کچھ کہنا شروع کر دیا تھا․․․ ․میرے واپس پلٹنے سے پہلے ہی اُس نے اپنارُخ کمرے کی جانب کرنے سے ذرا پہلے کہا․․․․ ،” اب جاؤ․․․ آج سے میرا تمہارا کوئی رشتہ نہیں ہے“․․․ ، اور پھر کمرے میں چلی گئی․․․․ ․ اتنے میں رِدا پھر مخاطب ہوئی․․․،اور میں ماضی کی تلخ یادوں سے ایک دم حال میں آپہنچا․․،”اعزازانسان کو اکثراپنی زندگی میں موجود بہت ساری چیزوں کا بہت بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیا تھیں،چاہے وہ کسی بھی صورت میں ہَوں،تمہیں اپنی زندگی سے بے دخل کرنے کے بعدمیرا رشتہ میرے کزن حماد سے طے ہُوا،اُس وقت تو مجھے لگتا تھا کہ ایک کمیشنڈ آفیسر کی بیوی بن کے میں دُنیا کی ہر خوشی اور ہر وہ چیز پالوں گی جسکی ایک انسان کو ضرورت ہوتی ہے،لیکن یہ مجھے پھر معلوم ہُوا کہ آسائشوں سے جُڑی ہوئی چیزوں کا حصول آدمی کی ضرورت ہوتی ہے․․․،لیکن ایک انسان کو تو سچے رشتوں اور سچے پیار کی ضرورت ہوتی ہے․․․، جو میں تمہاری صورت میں کھو چُکی تھی․․․، در حقیقت میں نے اُس وقت تک آدمی سے انسان ہونے کا سفر کِیا ہی نہیں تھا․․․․․ ،اور وہ پیار جسے سچا پیار کہتے ہیں ․․․،وہ میں نے حماد سے کبھی نہیں پایا، “․․ ۔
میں حیرانی سے اُسے دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھاکہ کوئی اتنا بدل سکتا ہے،یہ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا، مجھے یقین ہی نہیں آرہا تھا․․،لیکن رِدا کی حالت دیکھ کر میں نے اِس بات پہ یقین آنے سے لیکر یقین پَکا ہونے تک کا سفر کِیا․․، کہ واقعئی غم چاہے کسی بھی صورت میں ہو، آدمی کو آدمی سے انسان ہونے تک کا سفر کرواتا ہے․․․،کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ جس غم کا ہم ہروقت ماتم کئے ہوئے پریشان پریشان سے پھرتے رہتے ہیں ، اور اِس سے دُور بھاگنے کے ہزار بہانیں تلاش کرتے پھرتے ہیں، در حقیقت یہی تو ہمیں آگہی اور شعور کی اُن منزلوں تک پہنچاتا ہے، جہاں سے ہم دونوں جہانوں کی ساری حقیقتوں کو سمجھنے کے قابل ہونے لگتے ہیں ،اور اپنی اپنی محنت شوق برداشت اور لگن کے مطابق اپنی شعور اور آگہی کی منزلیں پاتے ہیں․ ․۔
وہ پھر مخاطب ہوئی․․․”مجھے تھوڑے ہی عرصے میں تمہاری محبت سے جُڑے پچھتاوے نے گھیرنا شُروع کر دیا تھا،حماد ایک آفیسر تو تھا لیکن وہ ایک درجے کا بد تمیز اور اُوباش قسم کا آدمی تھا،اور یہ صرف میں ہی جانتی ہوں کہ زندگی کے پانچ سال میں نے اُس کے ساتھ کیسے گُزارے ہیں“․ وہ ایک لمحے کو چُپ ہوئی ، اور ایک لمبی گہری سانس لیکر پھر مخاطب ہوئی،”اور اب حماد نے مجھے طلاق دے دی ہے“․ میرے پیروں تلے زمین نکل گئی،”کیا․․․․؟ طلاق دے دی ہے اُس نے تمہیں،یہ تم کیا کہ رہی ہو․․؟ ”ہاں اعزاز ․․․مجھے طلاق ہو گئی ہے․․․، اور مجھے ایسا لگتا ہے کہ میرے ساتھ یہ سب تمہیں ٹُھکرانے کی وجہ سے ہُوا ہے، میں اپنی کی ہوئی غلطیوں کا ازالا کرنا چاہتی ہوں․․،مجھے معاف کردو اعزاز․․․․ پلیز مجھے معاف کردو․․․․ آج میں خود جھولی پھیلائے تم سے تمہاری محبت کی بھیک مانگنے آئی ہوں،مجھے اپنا لو اعزاز․․․․ پلیز مجھے اپنا لو“، اور پھر وہ رونے لگی․․․میرادماغ کام نہیں کر رہا تھا․․․،مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا․․․،ایک لمحے کو تو دل نے کہاکہ میں ایک دم اُسے اپنانے کیلئے ہاں کردوں․․․․، یہ دل بھی کتنا پاگل ہوتا ہے،چاہے کتنے عرصے بعد بھی اپنے محبوب سے ملے ،محبت کا سلسلا پھر وہیں سے شروع کرنے کو تیار ہو جاتا ہے جہاں سے ٹوٹا تھا․․، کمبخت محبت․․ ․۔

لیکن اُس ہی لمحے مجھے میری مُحسن شُمائلا کا خیال آیا،جس نے رِدا سے ملے زخموں کو مرہم لگانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی،اُس نے مجھ ٹوٹے ، بکھرے اور ٹُھکرائے ہوئے شخص کواسقدر سہارا دیا تھا کہ میری غیرآباد زندگی پھر سے آباد ہونے لگی تھی․․ ۔وہ میری آفس میں میرے ساتھ کام کرتی تھی،اور وہ مجھ سے بہت پیاربھی کرتی تھی،اُس ہی کے پیاراور ساتھ نے مجھے رفتہ رفتہ پھر سے جینا سکھایا تھا․․․، لیکن میں ایک عجیب و غریب قسم کی کیفیت میں گُم ہو کر رہ گیا․․․، اور چُپ ہو گیا․․․،مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کے میں رِدا سے اب اِس وقت زندگی کے اِس موڑ پہ کھڑے ہوئے کیا بات کروں․․․ ؟ لیکن رِدا میری خاموشی دیکھ کر شایدکچھ سمجھ گئی تھی، تھوڑی دیر تک میری خاموشی کا حصار نہ ٹوٹتے ہوئے دیکھ کر وہ مخاطت ہوئی ․․،”کیا تمہاری زندگی میں کوئی اور ہے؟میں نے کہا ․․․ ”ہاں․․․اب ہے“․․ ،تھوڑی ہی دیر میں ،میں نے اُسے شُمائلا کے بارے میں سب کچھ بتادیا․․اور کہا کہ ”دیکھو رِدا ․․․․میں آج بھی تم سے اُتنا ہی پیار کرتا ہوں جتنا کہ پہلے کرتا تھا، لیکن اب میں تمہیں اپنا نہیں سکتا․․․، کیوں کہ میں ہی جانتا ہوں کہ شُمائلانے تمہارے بعد مجھے کس طرح سنبھالا ہے․․․،اور میں کسی کی سوتیلی اور پچھتاوے میں لپٹی ہوئی محبت کیلئے کسی کی سَگی محبت کو تکلیف نہیں دے سکتا․․․،بیشک میں تم سے بہت محبت کرتا تھا ،اور کرتا ہوں،اور کرتا رہوں گا․․،لیکن اب میں تمہارے لیئے شمائلا کو نہیں چھوڑ سکتا․․․،تم نے بہت دیر کردی رِدا ․․․، بہت دیر کر دی تم نے“․․․ ․ وہ اُٹھی اور میرے قریب آئی،اورمیرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیکر کہنے لگی․․․”واقعئی ․․․․انسان کو واپس لوٹنے میں دیر اتنی ہی کرنی چاہیئے ،کہ جب تک معافی، تلافی،پشیمانی اور معذرت کے لفظوں میں اثررہے،ورنہ انسان واپس لوٹ کر بھی کچھ نہیں پاتا․․․․، حقیقت تو یہی ہے کہ میرے ساتھ یہی ہونا چاہیئے تھا،یہی میری سزا ہے، کہ میں تم سے پیار بھی کروں․․․،اورتم سے دُور بھی رہوں․․،اور تمہارا اور تمہاری محبت کے پچھتاوے کا زہرزندگی بھر پیتی رہوں․․․․، یہی میری سزا ہے“․․․ ․یہ کہہ کر اُس نے میرے ہاتھ چومے ،اور ہمیشہ کیلئے میری زندگی سے چلی گئی․․․ ۔
اور میں وہیں کھڑا یہ سوچتا ہی رہ گیا ،کہ یہ ایک لمحہ تو میرا خواب تھا، کہ رِدا کبھی میرے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے، اِنہیں چومے اور مجھ سے اپنی محبت کا اعتراف کرے․․․،اور جب میں نے اپنے اِس خواب کو حقیقت میں پورا ہوتے دیکھا ․․، تو مجھے کیا ہو گیا تھا․․؟میرے لیئے یہ فیصلا کرنا مُشکل کیوں ہو رہا تھا، کہ اُس وقت اُس لمحے میرے خواب کا پورا ہونامیرے لیئے خوشی کی بات تھی․․․ یا ہمیشہ میرے اندر میں کسک بن کے رہ جانے والے دُکھ کی․․․․․․؟

Browse More Urdu Literature Articles