Sham Dhal Gayi Us Paar - Article No. 967

Sham Dhal Gayi Us Paar

شام ڈھل گئی اس پار - تحریر نمبر 967

وہ کب سے دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپائے روئے جارہی تھی اسکے سامنے آج کا منظر بار بار آرہا تھا۔ہر بار رونے کے بعد اسکے دل کا بوجھ کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ رہا تھا۔

ہفتہ 10 اکتوبر 2015

ۡ خدیجہ مغل:
وہ کب سے دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپائے روئے جارہی تھی اسکے سامنے آج کا منظر بار بار آرہا تھا۔ہر بار رونے کے بعد اسکے دل کا بوجھ کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ رہا تھا ۔شاید ہر بار رونے کے بعد اپنے آنسو خود ہی پونچھنے پڑتے تو احساس تنہائی اسکے اندر اور بھی شدت سے جاگ اٹھتا۔
اسے لگتا یتیم اور لاوارث ہو کر زندگی گزارنا زیادہ آسان ہے با نسبت ماں باپ اور بھائی کے ہوتے ہوئے اکیلے پن کی محرومیوں کو جھیلنے سے۔
کیونکہ کہنے کو اسکے پاس سارے خونی رشتے موجود تھے بلکہ خونی رشتے ہی کیا وہ تمام چیزیں تھیں جنھیں زندگی کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔یعنی والدین۔ایک عدد بھائی،اونچا خاندان،بے شمار دولت،بڑی سی کوٹھی اور بے شمار سہولیات۔

(جاری ہے)

اور سب سے بڑھ کر معاشرے میں خاندان کے لیے نہایت عزت اور احترام۔ان سب چیزوں کی موجودگی میں بظاہر اسکی زندگی میں کوئی کمی نہ تھی ۔

مگر پیدائش سے لے کر آج تک اسے اپنی زندگی کبھی مکمل نہیں لگی تھی۔اسکی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ حد سے بڑھ کر خواہشوں کی ماری لڑکی تھی بلکہ اسکی وجہ اسکے والدین کا وہ غیر مناسب رویہ تھا جس نے اسکے اندر سے اعتماد اور یقین جیسی ساری صلاحیتیں چھین لی تھیں۔
اسکے والد شہر کے بہت بڑے بزنس مین ہونے کی وجہ سے اپنی روزمرہ زندگی کو بھی بزنس کی طرح ڈیل کرنے لگے تھے اس پر ستم یہ ہوا کہ اسکی مما بھی اپنے شوہر کی بات مانتی تھیں۔
جب وہ پیدا ہوئی تو اسکے والدین کو پہلا خیال یہی آیا کہ اگر بیٹا ہوتا تو کچھ فائدہ بھی تھا ورنہ بیٹی کی انہیں ضرورت ہی نہ تھی ان کے لیے ایک ہی اولاد کافی تھی اور وہ تھی دلاور۔۔۔
دلاور ان کا نازو پلا بیٹا تھا۔جو اتنے پیار میں پلنے کے بعد بھی کسی بری عادت کا شکار نہیں ہوا تھا الٹا وہ بچپن سے ہی ان کا نام روشن کرتا ہوا آرہا تھا اسکول سے ہی ہر شعبے میں اسکی پہلی پوزیشن آتی تھی۔
پڑھائی ہو یا کھیل۔دلاور کی ہمیشہ جیت ہی ہوا کرتی تھی۔
وہ زندگی میں جتنا کامیاب ہوتا گیا حنیہ کے لیے والدین کے دل میں اتنی ہی گنجائش کم ہوتی چلی گئی۔وہ اس حقیقت سے با لکل لا علم تھے کہ ہر انسان الگ الگ صلاحیتیں لے کر پیدا ہوتا ہے اور ان کے بیٹے دلاور جیسا آل راؤ نڈر ہزاروں میں کوئی ایک ہوتا ہے مگر وہ ہر بات میں حنیہ کا مقابلہ دلاور سے کیا کرتے اور ان کی یہ حرکت اس وقت تو قابل نظر انداز تھی جب تک وہ ایسا صرف حنیہ کے سامنے کرتے مگر انہوں نے یہ رویہ ہر آئے گئے کے سامنے اپنا رکھا تھا خاص طور پر دلاور کی کسی کامیابی پر دی جانے والی پارٹی میں حنیہ کا شرکت کرنا محال ہوجاتا۔
ان تمام باتوں کے باوجود اسے بھائی سے محبت تھی۔
دلاور تو ہمیشہ سے ہی فرسٹ آیا کرتا ہے مجھے تو فکر حنیہ کی ہے اسے تو کہنا پڑے گا کہ اسٹڈی کرلو۔یہ بات اسکے پپا نے کہی تھی اور وہ وہیں روہانسی ہو جایا کرتی تھی۔
آج بھی دلاور نے میٹرک کے امتحانات میں ٹاپ کیا تھا ۔اور اسکے معمولی مارکس اسکے سامنے کچھ بھی نہیں تھے۔اور آج بھی مما پپا کو اسکی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھنے کا موقع مل گیا تھا۔

میں تو کہتا ہوں اسے آرٹس میں ایڈمیشن کروا دیتے ہیں ۔
یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟جانتے ہیں ایسا کرنے سے کیا ہو جائے گا؟کیوں ناک کٹوانی ہے ہماری؟لوگ کیا بولیں گئے ؟مما بولیں
ارے بھئی دیکھو نا۔۔حنیہ کی مرضی بھی پوچھ لیتے ہیں۔پپا نے آج پہلی بار کوئی اچھی بات کہی تھی
کیا مرضی پوچھ لیں؟
آپ جانتے نہیں پورے معاشرے میں ہماری ناک کٹ جائے گئی کہ ہماری بیٹی نے آرٹس رکھ لی۔
کبھی نہیں ۔اسے میڈیکل میں ایڈمیشن دلوائیں دلاور بھی تو انجینئر نگ کر رہا ہے۔اسے کیا مشکل ہے؟
پپا مجھے ڈاکٹر نہیں بننا۔اس نے انکار کیا۔
تمھیں کیا لگتا ہے میں اپنا پیسہ تمھارے یہ فضول شوق پہ ضائع کردوں گا۔کبھی نہیں۔
تمھارا میڈیکل میں ایڈمیشن ہو جائے گا تم اپنی پڑھائی پہ توجہ دو بس اور کچھ نہیں۔انہوں نے دوٹوک لہجے میں بات کی تو حنیہ چپ کر گئی۔
آج بھی اسکی ایک نہ سنی گئی اور وہ ایک بار پھر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
#۔۔۔۔۔#
کیا ہوا۔۔۔؟جنید عامر کے پاس آتا ہوا بولا
اتنے پریشان کیوں ہو؟
یہ سب دیکھ رہے ہو ۔۔۔؟اس نے سامنے لگے رزلٹ کی طرف اشارہ کیا۔
ہاں ابھی دیکھ کر آرہا ہوں۔لیکن تم اتنے پریشان کیوں ہو۔تمھارا تو دوسرا نمبر ہے
پریشانی صرف یہی ہے کہ دلاور آج پھر مجھ سے آگے ہے۔
میں جتنا اسے پیچھے کرنے کی کوشش کرتا ہوں وہ ہمیشہ میرے سے آگے ہی ہوتا ہے۔
میرے بھائی۔۔۔کوئی بات نہیں۔اور ویسے بھی تو جانتا تو ہے دلاور پورے کالج میں کتنا مشہور ہے۔اور سبھی ٹیچرز اسکی کتنی تعریفیں کرتے ہیں۔
یہ سب میرا حق ہے۔اس نے غصے سے کہا تو جنید مسکرااٹھا
چل یار ۔۔اگلی بار کوشش کرکے تم پہلے نمبر پہ آجانا۔
عامر کے دل میں دلاور کے لیے آگ سی لگی ہوئی تھی ۔
اس کا بس نہیں چل رہا تھا اسے جان سے ہی مار ڈالتا۔
#۔۔۔۔۔#
صبح ناشتے کی ٹیبل پہ پپا کودیکھ کر وہ حیران رہ گئی۔
اسوقت تک تو پپا آفس ہوتے ہیں۔وہ سوچتے ہوئے آگے آئی اور کرسی گھسیٹ کر چپ سی بیٹھ گئی
یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں ۔۔۔؟انہوں نے اخبار ایک طرف رکھتے ہوئے کہا
تم کافی دنوں سے کالج نہیں جارہی۔
نن۔۔۔نہیں پپا۔۔۔
اس نے بہانہ ڈھونڈنا چاہا
اگر تم میڈیکل پاس نہیں کر سکتی تو ہمیں بتا دو۔اتنے فالتو پیسے نہیں ہیں میرے پاس کہ میں تم پہ ضائع کرتا رہوں۔
وہ چپ رہی۔۔
پتہ نہیں کس پر چلی گئی۔دلاور تو اتنا ذہین ہے۔ممی بھی پپا کا ساتھ دیتیں بولیں تو وہ وہاں سے اٹھ گئی۔
میں تمھیں تمھارے ڈیپارٹمنٹ میں چھوڑ آؤں یا تم خود چلی جاؤ گئی۔گاڑی سے نکلتے ہوئے دلاور نے پوچھا تو وہ چونکی۔

نن۔۔۔نہیں ۔۔۔میں چلی جاؤں گئی۔کہہ کر وہ نیچے اتر گئی اور دلاور نے گاڑی بڑھا دی۔
وہ نہیں چاہتی تھی سب لوگوں کو پتہ چلے کہ دلاور میرا بھائی ہے۔اسی لیے خاموشی ہی بہتر تھی۔
آخر مسئلہ کیا ہے؟میں نہیں سن سکتا دلاور کی تعریفیں۔جسے دیکھو اسی کے گن گا رہا ہے۔
آج بھی وہ فرسٹ تھا۔اسکے چہرے پہ خوبصورت مسکراہٹ تھی جسے دیکھ کر عامر سے رہا نہیں جارہا تھا۔

آخر یہ تقاریر ہوتی کیوں ہیں؟میں تو ۔۔۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا جانے کیا کر بیٹھتا۔
ریلکس یار۔۔ماحد نے اسے سمجھایا۔
لیکن وہ ماننے ولا کہاں تھا۔بدلہ تو میں لے کر ہی رہوں گا۔
تمھیں بھی اس آگ میں جلنا ہو گا دلاور جس آگ میں میں جل رہا ہوں۔دل ہی دل میں سوچنے لگا۔
حیرت تو اسوقت اسکی گم ہوئی جب اسے یہ پتا چلا کہ دلاور کی سسٹر اسی کالج میں میڈیکل ڈیپارٹمنٹ میں ہے۔
اسوقت سے اسکا دل بہت خوش تھا اور وہ بے تابی سے اسکی سسٹر کو دیکھنے کو بے چین تھا۔
آں۔۔۔اب وقت آگیا دلاور بدلہ تو میں پورا پورا ہی لوں گا۔دل ہی دل میں سوچتے ہوئے اسکے دماغ میں کوئی پلان تھا جو اسطرح سے وہ ہاتھ جھاڑتا ہوا اٹھ بیٹھا۔
وہ حنیہ کے لاکھ انکار کے باوجود اسکے پاس بیٹھا ہوا تھا۔حنیہ کو دلاور کی پریشانی ستا رہی تھی اگر انہوں نے مجھے اسکے ساتھ دیکھ لیا تو ٹھیک نہ ہوگا۔
۔اس سے پہلے دیر ہوتی وہ خود ہی وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی وہ نہیں چاہتی تھی کہ اسکی وجہ سے اسکے بھائی کی عزت میں کوئی کمی آئے۔
اسے یوں اٹھتا دیکھ کر عامر بھی اسکے پیچھے چل دیا۔با لآخر کلاس میں ہی اینڈ ہوا۔وہ کلاس کے باہر کھڑا ہو کر اسے کرسی پہ بیٹھتا دیکھ کر غصے سے آگ بگولہ ہو گیا اس نے پوری قوت سے دیوار پہ مکا جوڑ دیا۔
دن پہ دن گزرتے چلے گئے اور وہ دن بھی آگیا جس دن وہ اپنے پلان میں کامیاب ہو ہی گیا۔
آج حنیہ اسکے ساتھ کیفے ٹیریا میں بیٹھی تھی۔
ابھی تک ناراض ہو۔۔۔؟اس نے جان بوجھ کر کہا اور کہتا بھی وہ کیا
مجھے یہ سب با لکل پسند نہیں۔حنیہ نے نوٹس ٹیبل سے اٹھا کر گود میں رکھ لیے
ٹھیک ہے آئندہ ہم یہاں نہیں ملیں گئے۔لیکن اپنا موڈ تو ٹھیک کرو نا۔اس نے صاف گوئی سے کہا
حنیہ چپ رہی۔آج پہلی بار وہ کسی لڑکے کے ساتھ یہاں تھی اسے بہت عجیب محسوس ہو رہا تھا۔
اور عامر کے دل میں لگی آگ کو جیسے سکون ملنے والا تھا۔وہ بس دلاور کا انتظار کررہا تھا۔
اس نے جنید کے سیل سے دلاور کو میسج کیا تھا کہ اگر دیکھنا چاہتے ہو کہ تمھاری پیاری بہن ڈاکٹری کے پیچھے کیا کام کررہی ہے تو ابھی کیفے ٹیریا آجاؤ۔
دلاور یہ میسج پڑھ کر آگ بگولہ ہو گیا۔وہ ایک منٹ کی دیر کیے بِنا وہاں موجود تھا۔
دلاور کے ماتھے پہ پڑی سلوٹیں اسکے غصے کی گواہی دے رہی تھیں۔
حنیہ کی تو گویا جان ہی نکل گئی تھی۔
اسے یقین تو نہ تھا کہ حنیہ یہاں ہو گی لیکن وہ جاننا چاہتا تھا کہ یہ حرکت ہے کس کی۔لیکن سامنے کھڑے عامر کو دیکھ کر تو وہ ایک پل کے لیے رک سا گیا تھا۔
دلاور نے حنیہ کا ہاتھ کھینچا اور پوری قوت سے اپنی طرف کھینچا اور آہستہ آواز میں بولا گھر چلو حنیہ۔۔۔
بھائی میں آپکو اس بارے میں بتانے والی تھی کہ۔
۔۔دلاور نے اسکی بات کاٹی اور جلدی سے آگے بڑھ گیا۔جبکہ عامر کے دل میں ٹھنڈ سی پڑگئی یہ سب دیکھ کر۔۔۔ابھی تو بہت کچھ دیکھنا ہے دلاور صاحب۔۔وہ اپنے آپ سے بڑبڑا رہا تھا اور ہولے سے مسکرا بھی رہا تھا۔آخر آج وہ کامیاب ہو ہی گیا تھا۔
#۔۔۔۔۔۔#
گھر پہنچ کر وہ اس پہ پھٹ پڑا تھا ۔حنیہ خاموشی سے روتی رہی اپنی صفائی میں کچھ کہنے کی اس میں ہمت نہیں تھی ۔
اس کا سر شرم سے زمین میں گڑا جا رہا تھا ۔جب پپا کو اس بارے میں معلوم ہوا تو انہوں نے زور دار تھپڑ حنیہ کے منہ پہ دے مارا۔حنیہ نے خود کو کمرے میں بند کر لیا تھا۔شام سے رات ہو چکی تھی لیکن آج اس گھر میں موت کا سا عالم تھا۔دلاور کب سے ٹیرس پر رکھی کرسی پہ بیٹھا تھا۔مما اسکے پاس آئیں
مما مجھے کچھ نہیں سننا۔۔۔عامر اتنا گر جائے گا یہ میں سوچا نہیں تھا
ہو سکتا ہے وہ اسکے لیے سیریس ہو ہمیں غلط فہمی ہو۔
تم یہ کیوں سو چ رہے ہو کہ وہ تم سے بدلہ لے رہا ہے۔آج مما کو نہ جانے کہاں سے اپنی بیٹی کا خیال آگیا تھا۔
مما میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں۔آج جو میں نے دیکھا وہ آپ دیکھ لیتیں تو آپکو بھی پتہ چل جاتا ۔
دلاور سمجھ دارہونے کے ساتھ کافی سوبر انسان تھا۔وہ عامر کے ارادے جان چکا تھا۔اسی لیے اس نے حنیہ کا کالج جانا فی الحال بند کروا دیا تھا۔
اور حنیہ خود سے شرمندہ کسی کے سامنے نہ آرہی تھی۔
رات کے وقت اسکے موبائل کی بپ ہوئی اس نے روتی آنکھوں سے کال دیکھی تو جھٹکا لگا۔
عامر اسے کال کر رہاتھا۔اس نے تیزی سے کال اٹھا لی دوسری طرف عامر ہی تھا۔اسکی آواز سن کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
عامر اسے سمجھانے لگا لیکن وہ بولی۔
کچھ ٹھیک نہیں ہو گا۔پپا میری بات نہیں مانیں گئے۔
انہوں نے کبھی میری بات نہیں مانی۔
دیکھو ان کی طرف سے تم بد گمان مت ہو۔وہ بھی شاید ٹھیک ہو ں گے۔کل تمھیں میرے ساتھ دیکھ کر تمھارے بھائی کا غصہ میں آجانا فطری تھا ۔میں نے ان سے بات کی ہے۔یہ بتانے کے لیے کہ تم میرے ساتھ نہیں جانا چاہ رہی تھی میں تمھیں زبردستی لے گیا تھا۔
لیکن تمھارے بھائی کا غصہ ٹھنڈا ہو ہی نہیں رہا۔میں باقی بات کیسے کہوں گا انہیں۔

میرا تو تمھارے بغیر دل ہی نہیں لگے گا۔میں کہاں جاؤں گا؟اس نے اپنی ہنسی روکتے ہوئے کہا
ایسا مت کہو عامر۔۔
عامر اسے تسلیاں دیتے اسے بہلاتے ہوئے تھوڑی دیر میں فون بند کر دیا ۔فون بند ہونے کے بعد وہ ایک بار پھر رو دی۔کوئی نہیں تھا جو اسکے درد کو سمجھتا۔
آخر وہ کب تک خود کو کمرے میں بند کر لیتی ۔کمرے سے باہر آنے کے بعد پپا نے اس سے کوئی بات نہیں کی تھی۔
اور مما نے اسے سمجھانے کی بہت کوشش کی۔
دلاور بھی اس سے ناراض تھا۔عامر سے بات کرن ے کے بعد وہ مزید غصے میں رہتا تھا۔اور جب مما نے کہہ ہی ڈالا کہ حنیہ کی شادی کردیں تو تب دلاور جیسے پتھر کا بن گیا۔
مما یہ کیا کر رہی ہیں آپ۔۔۔؟پاگل تو نہیں ہو گئیں آپ؟
ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہوں۔آخر کب تک ہم حنیہ کو یوں رکھیں گئے۔عامر سے بولو کہ اپنے ممی پپا کو بھیجے اور ہم ان کی بات طے کرتے ہیں۔

کبھی نہیں۔۔۔اس نے صاف انکار کیا۔وہ انسان میری بہن کے قابل نہیں۔حنیہ کی شادی عامر سے نہیں ہو گی۔اس نے فیصلہ کیا
اور واقعی ایسا ہی ہوا۔جب پپا نے مما کی بات سنی تو انہیں بھی غصہ آگیا
کیسی پاگلوں جیسی باتیں کرتی ہو تم۔انہوں نے بیگم کو ٹہوکا
دلاور نے مجھے بتایا ہے وہ کیسا لڑکا ہے۔میں اپنی بیٹی کسی ایرے غیرے لڑکے سے کبھی نہیں بیاہ سکتا۔

حنیہ سے کہہ دو اسے دیکھنے مسٹر علوی اور ان کی بیگم آرہی ہیں۔میری خواہش کے مطابق شادی ہو گی حنیہ کی۔اور مجھے امید ہے تمھیں بھی مسٹر علوی کا بیٹا شاہ زیب ضرور پسند آئے گا۔اصل فیصلہ تو یہ تھا۔
#۔۔۔۔۔#
جس دن کے نا آنے کی دعا حنیہ نے پل پل کی تھی وہ دن آچکا تھا۔آج اسکی شادی کادن تھا۔
ابھی ابھی وہ پارلر سے تیار ہو کر آئی تھی ۔
کمرے میں مکمل سناٹا چھایا ہوا تھا۔
اچانک آواز آئی۔بارات آگئی۔
اسکا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ابھی کچھ ہی دیر میں اسے کسی اور کا ہو جانا تھا۔لوگ حنیہ کی قسمت پہ رشک کر رہے تھے۔اور وہ۔۔۔۔چپ چاپ بیٹھے ہوئی تھی کہ اچانک دروازے پہ آہٹ ہوئی تو وہ ساکت رہ گئی۔
کیا اتنی جلدی بھول گئی مجھے یا پہچان ہی نہیں پا رہی۔۔۔؟عامر اسکے قریب آتا ہو ابولا
حنیہ کو اپنا دل بند ہو امحسوس ہوا۔
تم۔۔۔تم ۔۔۔یہاں کیسے۔۔۔؟وہ گھبرا گئی
بس۔۔۔تمھیں ایک بار دیکھنا چاہتا تھا دلہن کے روپ میں۔۔
پاگلوں جیسی حرکت مت کرو۔۔چلے جاؤ یہاں سے۔۔۔بھائی نے دیکھ لیا تو۔۔۔اس بھائی کا ڈر تھا۔بھائی تمھیں جان سے مار ڈالیں گئے ۔وہ بیڈ سے اٹھتے ہوئے بولی
میں تو مرنے کو تیار ہوں۔عامر نے بے فکری سے جواب دیا
ایسے مت کرو۔۔۔تمھاری وجہ سے مجھے یہ شادی کرنی پڑ رہی ہے۔

میں نے کب منع کیا ہے شادی سے؟تم خوش رہو اس لڑکے کے ساتھ۔وہ تمھیں خوش رکھے یہی دعا ہے میری۔اب مجھ میں تمھیں کھونے کا حوصلہ نہیں۔وہ ایک بار پھر مکاری دکھانے لگا
جاؤ یہاں سے۔۔۔حنیہ گھبرا کر بولی تو وہ مسکرا اٹھا
مجھے تم سے شادی کرنی ہے ۔اس نے حنیہ کا ہاتھ پکڑ لیا
تم۔۔۔وہ ہکلا گئی
کیا تم ابھی اور اسی وقت میرے ساتھ چلو گی؟
لیکن۔
۔۔باہر بارات۔۔۔۔
تم جانتی ہو اگر تم تین سال بعد بھی میرے پاس آؤ گئی تو تمھارا بھائی نہیں آنے دے گا ۔اپنے بھائی کا ڈر دل سے نکال دو۔اور میرے ساتھ چلو۔۔۔
نن۔۔۔اس نے انکار کرنا چاہا۔لیکن چاہت نے مات دے دی اور وہ اس کے ساتھ چل دی۔یہ سوچے بغیر کہ اس کے بھائی اور پپا کی عزت کو وہ خود روند کر چلی آئی ہے محض اپنی محبت کے لیے۔
۔۔۔۔#
دلاور کو لگ رہا تھا جیسے کسی نے اسکے پیروں تلے سے زمین ہی سر پر سے آسمان بھی کھینچ لیا ہو۔ملازم کے ہاتھ بھیجے گئے پیغام کو دیکھ کر وہ حنیہ کے کمرے میں آگیا تھا لیکن وہاں حنیہ نہ تھی ۔
تم نے کہا تھا نا میں کبھی تم سے جیت نہیں سکتا لیکن آج میں تمھیں ہرانے میں کامیاب ہو گیا ہوں زندگی بھر کی بدنامی بہت،بہت مبارک ہو۔۔۔عامر
کیسے ہوا یہ سب۔
۔؟وہ ممی کی طرف متوجہ ہوا۔
سارا گھر مہمانوں سے بھرا پڑا ہے کیسے بتائیں ہم ان کو۔۔۔؟اسے اپنی آواز اپنی لگ ہی نہ رہی تھی۔
حنیہ یہ سب کر تو نہیں سکتی۔۔۔ضرور اسے اکسایا گیا ہے۔یہ سوچ بھی اسکو درست لگ رہی تھی۔
پپا کو یہ سب کیسے بتایا جاتا۔۔۔؟انہیں فیس کرنا انتہائی مشکل کام تھا۔
میں پہلے ہی کہتی تھی حنیہ کی شادی اسی لڑکے سے کروا دینی چاہیے تھی کم از کم یہ دن تو نہ دیکھنا پڑتا۔
۔۔
پپا نے مسٹر علوی کو کمرے میں بلا کر انہیں ساری سچوئشن سے آگاہ کردیا۔وہ حیران وساکت تھے۔یہ سب کیسے ہو گیا؟
سب چپ چاپ بیٹھے ہوئے تھے۔آخر مسٹر علوی کے خاندان میں عزت تھی ۔وہ ان سے کیا کہتے؟
دلاور چند دیر بعد کمرے سے باہر جا چکا تھا۔اس کا خون کھول رہا تھا۔اس نے گاڑی اسٹارٹ کی اور فل اسپیڈ سے چلانے لگا۔۔وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کدھر جا رہا ہے۔

وہ جانت اتھا کہ وہ حنیہ کو لے کر اپنے فلیٹ پہ ہی گیا ہو گا۔کیونکہ یہ سبھی دوست وہاں ہی پائے جاتے تھے۔
اور اس کا شک درست نکلا تھا۔وہ اسے وہیں لے کر گیا تھا۔عامر کی پلائنگ کے حساب سے وہ حنیہ کو یہاں تقریبا دو تین رکھے گا اور پھر وہ خود انگلینڈ کے لیے روانہ ہوجائے گا۔حنیہ چاہے تو یہاں رہے یا پھر اپنے گھر واپس چلی جائے۔
اس کے دوست جنید کو اس پہ غصہ آرہا تھا کہ اس نے جلد بازی میں یہ قدم کیوں اٹھایا۔
۔۔؟
دلاور نے گاڑی سے اتر کر اتنی زور سے دروازہ بند کیا کہ حنیہ جو پتھریلی نظروں سے دیکھ رہی تھی چونک گئی۔
دلاور کے ہاتھ میں ریوالور دیکھ کر وہ بھاگتی ہوئی ان کے قریب آئی۔پلیز بھائی مت کریں ایسا۔۔۔
دلاور نے پوری قوت سے اسکے گال پہ تھپڑ مار ا وہ لڑکھڑاتی ہوئی نیچے گِر گئی۔
اس کمینے شخص کی وجہ سے تم ہماری عزت کو مٹی میں ملا آئیں۔
دلاور اسے مارنے لگا۔
یہ سب دیکھ کر عامر کو کچھ ہو اتھا۔اس کا دوست اسکے قریب آیا۔
عامر بچاؤ اسے ۔۔اس سے پہلے وہ کچھ کر ڈالے۔
میں اسے نہیں چھوڑوں گا۔۔۔دلاور آگے بڑھا تھا لیکن حنیہ نے اسے روکنے کی بہت کوشش کی اور روکتے روکتے وہ زمیں پہ لڑکھڑا سی گئی اور ایسے میں ریوالور اسکی جانب مڑ گیا۔
ہوا میں ایک ارتعاش پیدا ہوا تھا۔
گولی حنیہ کی ٹانگ کو چھوتی ہوئی گزر گئی۔ اس سے پہلے زمیں پہ گرتی عامر دوڑتا ہوا اسکے قریب آیا اور اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا۔
دلاور کے دل کو کچھ ہو اتھا۔یہ سب کیا ہو گیا تھا۔بے ہوش حنیہ عامر کی بانہوں میں ۔۔۔
دلاور دوڑتا ہوا اسکے قریب آیا۔یہ سب تمھاری وجہ سے ہوا ہے۔وہ اس پہ چینخا تھا۔عامر خاموش رہا۔اسکی تو جان ہی نکل گئی تھی حنیہ کو ایسی حالت میں دیکھ کر۔
۔۔
اس نے دلاور سے بدل تو لے لیا ھا جیسے اس نے سوچا تھا لیکن یہ سب اسکے پلان میں شامل نہیں تھا ۔وہ حنیہ کو خود سے دور نہیں کر سکتا تھا۔یہ ایک پل کی سوچ تھی اور اسی ایک پل کی سوچ میں اسے اس سے محبت ہو گئی تھی جب حنیہ نے اسکے ساتھ جانے کا فیصلہ ایک پل میں کیا تھا۔اور وہ پل عامر کی زندگی میں محض ایک پل بن گیا تھا ۔اب اسے حنیہ کی فکر تھی۔
وہ تو خود ہار گیا تھا حنیہ کی سچی محبت کے سامنے۔
دلاور شاک کی سی کیفیت میں دیکھ رہا تھا۔کہیں یہ احساس بھی ہلکورے لے رہا تھا کہ حنیہ عامر کی زندگی کی بھیگ مانگ رہی تھی ۔اپنی اس بہن کو اس نے کبھی کچھ نہیں دیا تھا،کبھی پیار سے اسکے سر پر ہاتھ نہیں رکھا تھا بدلہ اور انتقام جیسے فلسفے اسکے سامنے بے معنی ہو چکے تھے۔وہ زندگی بھر اسے کچھ نہ دے سکا ۔
قصور وار عامر نہیں تھا۔اس نے اگر ان کے گھر نقب لگائی تھی تو اسکے ذمہ دار وہ خود تھے کے جنھوں نے گھر کی بنیادوں کو اتنا کمزور کرڈالا تھا کہ کوئی بھی ذرا سی کوشش ان کے گھر کی در ودیوار کو ہلا سکیں۔کیا واقعی عامر اس سے محبت کرتا ہے۔
حنیہ۔۔۔حنیہ اٹھو۔۔۔تم مجھے یوں چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔وہ اسے جھنجھوڑ رہا تھا اس کے دوست نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر اسے حوصلہ دیا ۔
وہ اسکی کیفیت اچھی طرح سے سمجھتا تھا۔
حنیہ تمھیں بہت چاہتی ہے اسکی محبت کی قدر کرو۔۔۔یہ بات جنید نے بہت پہلے کی تھی اس سے۔اس کا احساس اسے آج ہو اتھا۔
اس نے اسے اپنی بانہوں میں اٹھا لیا اور گاڑی کی طرف رُخ کر دیا کیونکہ اسے حنیہ کی جان سب سے پیاری تھی۔اور پھر اسے اپنی محبت کا یقین بھی دلانا تھا ۔شاید حنیہ مجھے معاف کردے۔یہ سوچتے ہوئے اس نے گاڑی اسٹارٹ کر دی اور دلاور اسے جاتا دیکھ کر واپس اپنی گاڑی میں آگیا۔۔۔
ختم شد

Browse More Urdu Literature Articles