Shareef - Article No. 886

Shareef

شریف - تحریر نمبر 886

شریف نے تاسف سے سوچا! خالی برتن صاف ستھرا باورچی خانہ اس کی گواہی دے رہاتھا۔ مرے مرے قدموں سے وہ نکڑ والی دوکان سے پاوٴ بھر دودھ لینے چلد یا۔ برسات کی نمی سے گھلتے ہوئے دو رس دودھ میں ڈبوتے ہوئے اپنی ماں بُری طرح یاد آئی۔

ہفتہ 18 اپریل 2015

آج بھی کچھ نہیں پکایا؟
شریف نے تاسف سے سوچا! خالی برتن صاف ستھرا باورچی خانہ اس کی گواہی دے رہاتھا۔ مرے مرے قدموں سے وہ نکڑ والی دوکان سے پاوٴ بھر دودھ لینے چلد یا۔ برسات کی نمی سے گھلتے ہوئے دو رس دودھ میں ڈبوتے ہوئے اپنی ماں بُری طرح یاد آئی۔” صبر والی تھی“ اس کے دل سے ہوک اُٹھی۔
دودھ رس کے ساتھ زندگی کی کڑواہٹ نگلتے نگلتے اس کی آنکھیں نم ہو گیئں۔

پیالی دھو کہ وہ آسیہ کے اصرار پر خریدے گئے قسطوں والے سیکنڈ ہینڈ بیڈ پہ اس کے پاس جا بیٹا۔ ” کب تک ناراض رہوگی؟ تکیے سے آتی سرسوں کے تیل کی بدبو سے گبھرا کر اس نے آسیہ سے پوچھا:
جب تک تم میری خواہش پوری نہیں کرو گے تب کہ، آسیہ کچھ اور ادھر کو سِرکی سنو۔۔۔ !وہ دلگرفتہ تھا۔
مجھے ہاتھ بھی مت لگانا جب تک میری بات نہیں مان لیتے آسیہ اور تنکی
میرا پیار کیا کافی نہیں تمہیں؟شریف نے اسے منانے کی ناکام کوشش کی
نہیں کافی۔

(جاری ہے)

۔۔! وہ اور اینٹھی
کہاں سے لے آوٴں اتنے پیسے؟
جہاں سے ساری دنیا لاتی ہے ! وہاں سے لاوٴ۔۔۔ ایک انگوٹھی ہی تو مانگی ہے کونسا ہیرے کے سیٹ مانگ لیے ہیں۔سارے ارمان ساری امنگیں لوگ شادی کے بعد کے لئے رکھتے ہیں تم نے تو ایک چھلکے جیسا چھلا بھی نہ لے کر دیا مجھے کبھی۔ بس اب انگوٹھی مجھے چاہیے۔ نہیں تو ساری برادری میں کہیں نہیں نکلوں گی کبھی تمہارے ساتھ بس۔
۔!
بات تو سنو۔۔۔!
پرے ہٹو۔۔!شریف کا ہاتھ بے دردی سے جھٹکتے ہوئے آسیہ دل ہی دل میں ہنسنے لگی۔ دیکھتی ہوں اب کیسے نہیں مانے گا بات۔
تیل کی ناگوار بد بو سے پیچھا چھڑانے کی کوشش میں شریف نے زور سے آنکھیں میچیں۔ اس بدبو سے اسے ابکائی محسوس ہوتی تھی مگر پتہ نہیں کیسے جونک جیسی یہ اس کی جان کو چمٹ گئی تھی۔ دھوپ لگوا لو ۔۔۔سرہانے دھلوالو یہ جاتی ہی نہیں تھی۔

کیا مصیبت ہے ۔۔۔کیا کروں۔۔۔!بد بو سے لڑتے لڑتے وہ تنگ آنے لگا۔
جو مرضی کرو، ڈاکا ڈالو، جاوٴ مارو کسی کو مگر مجھے سونے کی انگوٹھی ملے گی تو میں تمہیں مِلوں گی، کہہ دیا میں نے ۔ سارے محلے میں کہہ بھی دیا ہے ہے کہ تم مجھے انگوٹھی لے دینے والے ہو میری ناک کٹ جائے گی کتنی کھِلّی اڑے گی میری اگرتم نے انگوٹھی نہ لے کر دی تو۔آسیہ کی وہی ایک رٹّ
جو کماتا ہوں۔
۔ لا دیتا ہوں۔ کچھ بچا لیا کرو
اُف یہ بد بو ۔۔۔شریف نے اپنا سر پٹخا ۔
کماتے ہی کتناہو جس میں سے بچا ؤں؟؟؟ہیں؟؟؟ بولو۔۔! جو تم کمائیاں کر کے لاتے ہو ،ہونہہ۔
شریفوں کی کمائی اتنی ہی ہوتی ہے ، حلال نہیں راس آتا تجھ کو۔۔!
شریف دلگرفتہ تھا۔
میں نے ایک مرد سے شادی کی تھی شریف سے نہیں مرد میں کوئی شریفی یا بدمعاشی نہیں ہوتی ،شرافت اور تیرے شریف ہونے کا میں نے اچار ڈالنا ہے ؟ شرافت کوئی نہیں دیکھتا یہاں۔
ہاں۔۔!
پتہ نہیں یہ باہر دھوپ لگواتی بھی ہے بستروں کو یا نہیں؟
شاید ایسے ہی کہہ دیتی ہے۔۔۔جھوٹ بولتی ہے یقیناً
وہ مسلسل سوچے جا رہا تھا اور وہ مخصوص بد بو ہتھوڑے کی طرح اس کے حواسوں پربرس رہی تھی ۔
ہاں اب رکھ لو چپ کا روزہ میں بکواس جو کر رہی ہوں جانور ہو ں جو لا کر باند کر رکھ دیا ہے گھر میں۔ میرے ماتھے پہ لکھوا دو شریف آدمی کی بیوی ہوں نہ اچھا کھا سکتی ہوں نہ زیور پہن سکتی ہوں عمر بھر۔

کتنا تکبر بھر ہے اس عورت میں ۔۔۔!نا شکری۔۔۔ کمینی عورت۔۔۔ آہ۔۔۔!
معاشرے میں مرد کی شرافت کوئی نہیں دیکھتا۔ لوگ کمائی دیکھتے ہیں مرد کی ۔اپنی شرافت کا اتنا ہی پاس ہے تو ایک عورت کو تو خوش کرکے دکھاوٴ۔ گھر چھوڑ کر چلی جاوٴں گی وہ وہ الزام لگاوٴں کی کہ یاد رکھو کے تم بھی اور تمہاری شرافت بھی ۔
عزت تو مرد کی بھی ہوتی ہے ۔۔
۔ہوتی ہے کہ نہیں؟ کیا کروں دلاگیری کروں جا کر۔۔۔ اپنی ابکائی روکتے روکتے وہ نڈھال ہونے لگا۔
جو جی میں آئے کرو۔ ! یہ عزت شرافت مجھے نہ سناوٴ بس۔ آسیہ پتہ نہیں کتنی دیر تک اس کو کوستی ہی رہی تھی اور باسی رس اور دودھ بھری الٹی روکنے کی جدوجہد میں شریف آ خر سو گیا تھا۔
یہ لے انگوٹھی۔۔۔ ! تیسرے دن چپ چاپ شریف نے ایک سونے کی انگوٹھی رنگ اُڑے لکڑی کے میز پر رکھ دی۔

ہائے شریف۔۔! اصلی ہے۔۔؟
شریف کی حالت سے بے خبر آسیہ انگوٹھی ایک سے دوسری اور پھر تیسری انگلی میں پہنتی رہی۔
اس کی ڈبی نہیں ملی ساتھ۔؟
وہ مخمل والی آسیہ نے اس سارے وقت میں پہلی بار شریف کو دیکھا۔
نہیں۔!
پہنی ہوئی لگتی ہے۔
ہاں” ۔۔۔سیکنڈ ہینڈہے “ کہتے ہوئے اس نے کمرے میں چاروں اطراف نظر دہرائی جہاں تقریباََ ہر چیز ہی سیکنڈ ہینڈ تھی۔

کتنی بار نہانا ہے تم نے۔۔۔؟
کھانے کی ٹرے اندر لاتے ہوئے آسیہ نے ناگواری سے شریف کو دیکھا۔ جب سے آئے ہو کوئی تیسری دفعہ نہائے ہو۔ ! تم روٹی کھا لو میں ذرا سامنے کنیز باجی کو انگوٹھی دکھا لاوٴں تیار دانتوں والا برش لے کر دھوئی ہے سرف ڈال کر ۔ دیکھ اب چمک رہی ہے نا۔۔!
ہاں۔۔! انگوٹھی پر نظر ڈالتے ہی شریف کو ابکائی آگئی۔
بستر پر بیٹھتے ہی شریف کی آنکھوں میں وہ منظر گھومنے لگا۔
دفتر میں سنیئر پوسٹ پر بیٹھنے والی اس عمر رسیدہ عورت کے اشارے جو وہ نظر انداز کرتا تھا آج ان کے سامنے ہار مان گیا تھا۔ ہوٹل کے کمرے سے نکلتے ہوئے اس نے اپنے لیے چھوڑے گئے ہزار ہزار نوٹ کے نوٹ اٹھانے کی بجائے اس عورت کی انگوٹھی چرائی تھی۔
میں نے سرہانے دھو دیئے آج۔ آسیہ نے اس کے قریب آتے ہوئے سرگوشی کی۔۔!
ہاں۔ آج سرہانے سے تیل کی بدبو نہیں آرہی ۔
شریف نے گہری سانس بھرتے ہوئے محسوس کیا۔
تم کتنے اچھے ہو۔۔! میری ہر بات مان لیتے ہو۔ انگوٹھی لا کر نہ دیتے تو گھر چھوڑ دیتی میں شریف مرد تم جیسے ہی ہوتے ہیں۔جسے گھر کی عزت کا پاس ہوتا ہے۔۔۔! آسیہ اٹھلاتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ اپنی قربت کا احساس دلاتے ہوئے آسیہ جیسے ہی اس پر جھکی تھی ۔شریف کو بہت زور سے ابکائی آگئی تھی۔

Browse More Urdu Literature Articles