Speeda E Sahar - Article No. 1010

Speeda E Sahar

سپیدہٴ سحر - تحریر نمبر 1010

آج کی رات سلیقہ بیگم پر بہت بھاری تھی۔یہ نہیں تھا کہ آج کی رات کے کسی پہر کوئی ایسا فیصلہ ہونا تھا جس سے دنیا بدل جانا تھی، جس سے وقت ٹھہرجانا تھایا پھر کوئی خواب بکھرجانا تھا۔

جمعہ 19 فروری 2016

عمار مسعود:
آج کی رات سلیقہ بیگم پر بہت بھاری تھی۔یہ نہیں تھا کہ آج کی رات کے کسی پہر کوئی ایسا فیصلہ ہونا تھا جس سے دنیا بدل جانا تھی، جس سے وقت ٹھہرجانا تھایا پھر کوئی خواب بکھرجانا تھا۔ایسا نہیں تھاپھر بھی کشادہ برآمدے میں شدید سردی کے موسم میں سیاہ شال لپیٹے، بغیر میک اپ کے چہرہ لیے، آنکھوں میں موتی سجائے، سلیقہ بیگم سوچ رہی تھیں کہ آج کی رات بہت بھاری ہے۔

آج کی رات اُن کی شادی کو بائیس سال ہوگئے تھے۔بائیس سال بہت عرصہ ہوتا ہے۔اس عرصے میں بچہ جوان ہوجاتا ہے،جوانوں کے بالوں میں چاندنی اترآتی ہے۔ زندگی بہت سے رُوپ دیکھ چکی ہوتی ہے۔ جذبوں کو قرار آجاتا ہے۔ جسم کی حِدّت سرد ہونے لگتی ہے۔وقت بیل گاڑی پر بیٹھ چکا ہوتا ہے۔

(جاری ہے)


سلیقہ بیگم نے زندگی میں جو کچھ چاہا وہ پایا۔وہ ایک رئیس خاندان کی نورِ نظر تھیں۔

جہاں اُن کی ہر خواہش زبان پر آنے سے پہلے پوری ہوئی تھی، ہر وہ چیز ملی،جس کو سوچا تھا۔اُ ن کی تعلیم و تربیت ایسی تھی کہ جب وہ جوان ہوئیں تو سب انہیں کسی ایسے مغل خاندان کی شہزادی سمجھتے تھے کہ جس کے حُسن و عقل کا گرویدہ ایک عالم تھا۔زندگی میں انہیں خواب دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں پیش آئی۔ حقیقت اس قدرخوشنما اور خوش رنگ تھی کہ گمان کی ضرورت ہی نہ رہی۔
قدرت نے اُن کو ہر نعمت سے اس قدر مالا مال کیا تھا کہ خوشیاں ہر لمحہ اُن کے گرد رقص کرتیں۔ مسرتوں کا انتخاب وہ اپنی مرضی سے کرتیں۔
ہر رات کا اپنا اسرار ہوتا ہے اور ہر رات میں ایک ایسا لمحہ ضرور ہوتا ہے جب صرف سچ کی عمل داری ہوتی ہے۔جھوٹ اندھیرے میں گم ہوجاتا ہے سچ طلوع ہوتا ہے۔گُھپ اندھیرے میں جہاں کہیں یہ روشنی جگمگاتی ہے، تادیر رہتی ہے، تاحیات مسکراتی ہے، مگر آج کی ساری رات میں کوئی ایک لمحہ بھی ایسا نہیں تھا اور یہ سلیقہ بیگم بھی جانتی تھیں۔

آج سے بائیس برس پہلے آج ہی کی رات جب سلیقہ بیگم کی شادی ہوئی تھی تو سب کچھ ایسی دھوم دھام سے ہوا تھا کہ سارا شہر ششدر رہ گیا تھا۔وہ رنگ برسے، وہ روشنی بکھری کہ رات سمے اجالا ہوگیا۔نرم پتّیوں کی طرح سُرخ لباس میں لجائی ہوئی اپنی دلہن کو آفاق میاں نے جب دیکھا تو جیسے کچھ دیر کے لیے وقت ہی تھم گیا ہو۔ وہ خود بہت خوش شکل، خوش اخلاق اور خوبصورت شخص تھے۔
مگر حُسن کے اس معجزے کو دیکھ کر وہ وقت کے ساتھ ہی ٹھہر گئے تھے۔انہوں نے آج پہلی بار سلیقہ بیگم کو دیکھاتھا۔وہ بات کرنا چاہتے تھے، اپنے بارے میں بتانا چاہتے تھے مگر الفاظ اس شاہکار کے آگے کچھ ایسے بے معنی ہوئے کہ دیر تک کچھ نہ کہہ سکے۔پہلے تو وہ صرف دیکھتے رہے اور پھر تمام عمر پوجتے رہے۔
وہ رات اور اس کا ایک ایک لمحہ سلیقہ بیگم کے بدن پر اس طرح ثبت ہوا کہ آج بھی اس رات کی یاد میں اُن کو اپنے بدن سے وہی مدہوش سی مہک آتی تھی۔
سردیوں کی برف جیسی اُس رات میں بدن کچھ اس حِدّت سے پگھلے کہ چاندنی سی بکھرگئی۔ وہ رات کتنی خوبصورت رات تھی۔آج کی رات سے کتنی مختلف۔آج رات تو بس اندھیرے کا راج ہے۔روشنی کی کوئی کرن دور تک نہیں دکھائی دیتی۔آج تو وقت کا سفر ہی رُک گیا ہے۔یہ وہ رات نہیں کہ جس کی زلفیں بڑے ارمان سے انہوں نے سنواری تھیں۔یہ رات تو بس بھاری ہے اور بہت بھاری ہے۔

آفاق میاں نے پہلی رات سے آج تک تمام خوشیاں اُن کی گود میں کچھ اس طرح بھردیں کہ وہ ہمہ وقت نہال رہتی تھیں۔مسرتوں سے مخموررہتی تھیں۔ ان بہت سے سالوں میں غم کا سایہ بھی انہیں چُھو کر نہیں گزرا تھا۔ تلخی ٴ آلام سے وہ روشناس ہی نہیں تھیں۔ اُن کی زندگی پر زمانہ رشک کرتا تھا۔ سلیقہ بیگم اپنی کائنات کو اس طرح سجائے رکھتیں کہ روشنی اُن کے وجود سے پھوٹتی تھی۔
یہ ٹھیک ہے کہ خدا نے اُنہیں اولاد کی نعمت سے نہیں نوازا تھا۔اُن کی گود خالی تھی۔ مگر وہ اور آفاق زندگی میں اس طرح مگن تھے کہ محرومی کی کوئی صدا اُن کی سماعت تک رسائی حاصل نہ کرپائی تھی۔
ہر رات کی تاثیر دوسری رات سے مختلف ہوتی ہے۔ ہر رات کا اپنا ایک اعجاز ہوتا ہے۔ اختیار ہوتا ہے۔ رات دراصل فیصلے سناتی ہے۔ کسی کی زندگی کو جگمگاتی اور کسی کو رُلاتی ہے۔
رات کے پہروں میں وقت نہیں لمحے اہم ہوتے ہیں۔ ہر لمحہ ایک نئی کہانی کو وجود میں لاتا ہے۔ کچھ لوگ رات کو عبادت کرتے ہیں۔ رات تو خود عبادت ہوتی ہے۔ مسجود کرتی ہے۔مقصود کو بلاتی ہے۔رات کا یہ لمحہ ہر کسی کو کب نصیب ہوتا ہے اور رات جب اجتناب کرتی ہے تو بے حساب کرتی ہے۔ رات کے اس انداز سے سلیقہ بیگم آج پہلی دفعہ روشناس ہوئی تھیں۔
اِن بہت سے سالوں میں آفاق نے انہیں ہر وہ خوشی دی جو ایک عورت کا خواب ہوتی ہے۔
اُنہیں تقدیر سے صرف یہ گلہ تھا کہ وہ آفاق کو ایسی خوشی سے محروم رکھے ہوئے ہیں جو اُن کا حق تھا۔ حالانکہ آفاق نے کبھی اس کا گلہ نہیں کیا تھا مگر وہ جانتی تھیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ آفاق دھیمے سے ہوگئے تھے۔ زندگی اُن کو کچھ بے ثمر سی لگنے لگی تھی۔ وہ اب بھی سلیقہ بیگم کو اُسی طرح چاہتے تھے مگر اب زندگی کی امنگ ان کے وجود میں راکھ بننے لگی تھی۔
سلیقہ بیگم اس کو اپنا قصور مانتی تھیں۔ڈاکٹر بھی یہی کہتے تھے۔ آفاق اکثر اُن کو سمجھاتے کہ زندگی میں کبھی کوئی کہانی مکمل نہیں ہوتی۔ محرومی کا دریچہ کھلا رہے تو انسان ولی بننے سے بچ جاتا ہے۔ کشٹ کاٹنے تپسیا کرنے کے عذاب سے نہیں گزرتا۔ کسی حساب سے نہیں گزرتا۔
رات وحی بھی ہوتی ہے، نازل ہوتی ہے۔ فیصلے کرتی ہے، ہونی اور ان ہونی کی تفریق مٹا دیتی ہے۔
نیند میں ڈوبے انسان کو کیا سے کیا بنا دیتی ہے۔جب کوئی حکم رات کے لمحے میں صادر ہوتا ہے تووہ مکمل ہوتا ہے۔رات آپ کو اعترا ض کا حوصلہ نہیں دیتی۔ اٹل بات کرتی ہے، حتمی اعلان سناتی ہے۔اس اندھیری رات کا یہی اعلان آج سلیقہ بیگم کے ایوان میں گونج رہا تھا۔
بائیس برس گزر گئے نہ آفاق نے انہیں گلے کا موقع دیا نہ انہوں نے کبھی شکایت کی۔ زندگی کچھ اس اطمینان سے آگے چلتی رہی کہ گزرتے وقت نے رفتار کا احساس ہی نہ ہونے دیا۔
اس خوش رنگ زندگی میں اچانک ایک رات آفاق میاں کے سینے میں درد اُٹھا، سلیقہ بیگم تڑپ سی گئیں۔آناً فاناً سارے شہر کے ڈاکٹر الرٹ ہوگئے۔ہسپتالوں میں گویا ایمرجنسی نافذ ہوگئی ہو۔ یوں لگتا تھا جیسے ساری دُنیا آفاق میاں کی نبض کی رفتار میں سما گئی ہو۔ سلیقہ بیگم ایمرجنسی روم میں اُن کے ماتھے سے پسینہ پونچھتی زاروقطار روئے جارہی تھیں، انہیں زندگی کا شیرازہ بکھرتا دکھائی دے رہا تھا،وہ کمرے کے باہر جائے نماز بچھا کر بیٹھ گئیں۔
دیر تک اُن کی پلکیں آنسوؤں سے وضو کرتی رہیں۔ اُس رات انہوں نے خدا کے حضوراس طرح گڑگڑا کر التجا کی کہ صبح سلیقہ بیگم کی دنیا روشن ہوگئی۔ آفاق میاں کو ہوش آگیا۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ دل کا دورہ تھا لیکن اب حالت خطرے سے باہر ہے۔ وہ جب برستی آنکھوں سے آفاق میاں کے کمرے میں داخل ہوئیں تو وہ بھی جیسے تھکی تھکی نگاہوں سے اُنہی کا انتظار کررہے تھے۔
اُنہوں نے سلیقہ بیگم کا ہاتھ تھامااور دھیرے سے بولے ”سلیقہ کاش ہماری کوئی اولاد ہوتی، مجھے کچھ ہوگیا تو تمہارا کیا بنے گا؟“
رات بہت ظالم ہوتی ہے، ظلم ڈھاتی ہے، محروم کرتی ہے، مجبور کرتی ہے، اپنے کیے پر پچھتا نے کا موقع دیتی ہے، ڈرا دیتی ہے۔اس کے گھپ اندھیرے میں وسوسے پلتے ہیں، وہم تشکیل پاتے ہیں۔ رات اظہار کو منجمد کرتی ہے۔
سسکیاں سلب کرلیتی ہے، غضب کردیتی ہے۔
آفاق میاں کی صحت یابی کے بعد سلیقہ بیگم پربس یہ دُھن سوارہوگئی کہ کسی طرح وہ آفاق میاں کی دوسری شادی کروادیں، کسی طرح اُن کے اولاد ہوجائے۔اب وہ محرومی کے سفر کا سارا الزام خود کو دینے لگی تھیں۔ وہ اب راستے سے ہٹنا چاہتی تھیں۔جس نے انہیں سب کچھ دیا اُسے عطا کرنا چاہتی تھیں۔ سلیقہ بیگم نے خود ہی جھٹ پٹ لڑکی تلاش کی، خود ہی اس دلہن کو اپنے ہاتھ سے سجایا، آفاق میاں نہ نہ کرتے رہے مگر سلیقہ بیگم نے اُن کی شادی کروا کرہی دم لیا۔

آج رات آفاق میاں کی دوسری شادی کی سہاگ رات تھی۔ آج تمام رات سلیقہ بیگم بڑے سے برآمدے میں شدید سردی میں،سیاہ شال لپیٹے،آنکھوں میں ستارے سجائے، جانے کس کعبے کا طواف کرتی رہیں۔بھاری رات کا عذاب جھیلتی رہیں۔ صبح جب آفاق میاں کمرے سے نکل کر تیزی سے سلیقہ بیگم کے کمرے کی طرف بڑھے تووہ بڑے اطمینان سے اپنے بستر پر سانس روکے آنکھیں کھولے لیٹی ہوئی تھیں۔ کاجل سی اُن آنکھوں میں صبح کے وقت وہ رات اُتر چکی تھی کہ جس کی سحر ممکن نہیں تھی۔

Browse More Urdu Literature Articles