Yaar E Mann Baya - Article No. 999

Yaar E Mann Baya

یارِ من بیا - تحریر نمبر 999

جب ہم دونوں پہلی بار ملے تو اس وقت تک دونوں ہی اپنی زندگی کی پہلی پہلی محبت بھگت چکے تھے۔ محبت کے سفر میں ٹوٹے ہوئے لوگ ایک دوسرے کو ایسے پہچان لیتے ہیں جیسے ستارے جل بجھنے سے پہلے دوسرے ستاروں کا حال جان لیتے ہیں۔

جمعہ 5 فروری 2016

عمار مسعود:
جب ہم دونوں پہلی بار ملے تو اس وقت تک دونوں ہی اپنی زندگی کی پہلی پہلی محبت بھگت چکے تھے۔ محبت کے سفر میں ٹوٹے ہوئے لوگ ایک دوسرے کو ایسے پہچان لیتے ہیں جیسے ستارے جل بجھنے سے پہلے دوسرے ستاروں کا حال جان لیتے ہیں۔ محبت کا ابتدائی گھاؤ اس سُرعت سے وار کرتا ہے کہ سارے منظر ایک نظر میں عیاں ہوجاتے ہیں۔
دل میں چھپایا ہوا زخم ایک واشگاف سچائی کی طرح ایسے نوشتہٴ دیوار بن جاتا ہے کہ دیکھنے والے پر سارا حال واضح ہوجاتا ہے۔ مگر یہ نظر ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔ ٹوٹنے والے کا دُکھ وہی جانتا ہے جو کبھی خود ٹوٹ کر بکھرا ہو۔ ایسے لوگوں کے سامنے جب دل کی بات، لفظ بنتی ہے تو کتنی بے وقعت سی لگتی ہے۔ میرے ساتھ جو ہوا جانے اُس نے کیسے پہلی ہی نظر میں جان لیاتھا۔

(جاری ہے)


بڑھی ہوئی شیو، بکھرے ہوئے بال اور گورنمنٹ کالج کی سیڑھیاں۔ میں ہاتھ میں کورس کی ایک ایسی کتاب تھامے جس کے تمام حروف میرے لیے اجنبی تھے، اُس ایک محبت کا ماتم کررہا تھا جسے کھونے کے بعد یوں لگتا تھا کہ اب صفحہ ٴ زیست پر کسی اور عبارت کی گنجائش نہیں رہ گئی ہے۔ میرا وجود جس زلزلے سے دوچار ہوا تھااس نے میرے اندر بڑی توڑ پھوڑ کی تھی۔
میرے اس حال سے واقف صرف میں تھا محبت کا یہ سوگ مجھے اتنا عزیز تھا کہ میں اس میں کسی اور کو شریک نہیں کرسکتا تھااور کوئی شریک ہوبھی کیسے سکتا تھا۔ جب راکھ صرف اندر اُڑ رہی ہوتو پھر اس کے ذرے ہوا میں نہیں بکھرتے۔ میں اب اس مقام پر تھاجہاں نہ میرے پاس کوئی سوال تھا، نہ جواب، نہ راستہ، نہ جستجو اور نہ ہی منزل۔ راکھ کا یہ ڈھیر ہی میرا حاصل تھا۔
مجھے اب تمام عمر اسی کا طواف کرنا تھا۔
اُسی لمحے اُس نے میرے شانے پر ہاتھ رکھ کردھیرے سے کہا ” تمہارے خیال میں دوسری دفعہ محبت ہوجاتی ہے ؟“۔ سیاہ بیل باٹم اور نیلے کرتے میں ملبوس بے ترتیب سے بالوں والی اس زرد لڑکی سے یہ میرا پہلا مکالمہ، پہلا تعارف تھا۔ میں نے پلٹ کر جب دیکھا تو نئے فیشن کے کٹے بال، شوخ لپ اسٹک اور اندر دھنسی چھوٹی چھوٹی آنکھیں کچھ اور ہی سچ بول رہی تھیں۔

سوال کرنے والی، خود سوال سی کھڑی، جانے کب سے جواب ڈھونڈ رہی تھی۔ وہ میرے قریب آکر اس بے تکلفی سے بیٹھ گئی کہ اس کے بدن سے اٹھنے والی مہک میری سانسوں میں اترنے لگی۔ اس نے میرا ہاتھ تھام کر جب وہی سوال دہرایا تو مجھے یوں لگا جیسے وہ یہ سوال مجھ سے نہیں،خود سے کررہی ہے۔ وہ یہ پوچھتے ہوئے میرے قریب تھی مگر شاید صدیوں کے فاصلے سے گزر رہی تھی۔
وہ اس مقام پر کھڑی تھی جب روپ، جسم اور محبت اس کو اپنی کہانی ایک دفعہ سنا چکے تھے۔ ہم دونوں ایک ہی گاڑی کے مسافر تھے۔ مسئلہ صرف یہ تھا کہ ٹرین جاچکی تھی۔
ساری زندگی میں ہم صرف چند ہی بار ملے تھے۔ مگر اُس کے سوال نے ہمیں ایک ایسے رشتے سے باندھ دیا تھا جس کی لڑی ٹوٹے ہوئے ستار وں سے ملتی تھی۔ وہ مجھ سے ہمیشہ بے غرض، بے مطلب اور بے وجہ ملتی رہی۔
ہم دونوں کو ایک ہی جواب کی تلاش تھی۔ ہمارے لیے وقت، جسم اور زندگی بے معنی اور بے مقصد تھے۔ ساتھ ساتھ رہتے ہوئے بھی ہمارا ملاپ ممکن نہیں تھا۔ اس لیے کہ ہماری کشش کے سیّارے مختلف تھے۔
وہ مجھ سے اکثر کہتی کہ پہلی محبت ریل گاڑی کی طرح ہوتی ہے۔وقت کی پٹڑی پر خوب شور مچاتی،دھواں اڑاتی اور چنگاریاں بکھیرتی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ یہ اپنی رفتار خود بڑھاتی جاتی ہے۔
ٹرین میں بیٹھے مسافر کو سارے مناظر اس طرح پیچھے کی جانب بھاگتے نظرآتے ہیں کہ اپنی رفتار کا احساس ہی نہیں رہتا۔آہنگ اس قدر بلند ہوتا ہے کہ اپنی آواز ہی نہیں سنائی دیتی۔مسافر کو منزل پر پہنچنے کا ہوش ہی نہیں رہتا۔ پھر ایک دن یہ ٹرین کسی سنسان سے اسٹیشن پر مسافر کو اتار دیتی ہے۔ جہاں صرف مسافر کے سامنے روانگی کا منظر ہوتا ہے۔ شور، دھواں، چنگاریاں، رفتار سب تھم جاتے ہیں۔
خاموشی ہوجاتی ہے، سناٹا چھا جاتا ہے۔ میں اکثر اسے سمجھاتا کہ کوئی بھی مسافر ہمیشہ اسٹیشن پر گزری ہوئی گاڑی کا انتظار نہیں کرتا۔وقت مسافروں کو نئے سفر پر لے جاتا ہے۔ نئی منزلیں دکھاتا ہے، نئے خواب سناتا ہے، پھر کوئی اور گاڑی آتی ہے اُسی طرح شور مچتا ہے، دھواں اڑتا ہے،وہی ہنگامہ، وہی روشنی پھر سے ہوجاتی ہے۔ وہ دھیرے سے میرا ہاتھ چومتے ہوئے اپنے دل پر رکھ کر کہتی ” یار اب یہاں شور نہیں ہوتا، بس خاموشی سی رہتی ہے “۔

پھر میں نے اُسے سالوں بعد ایک ادبی تقریب میں بیٹھے دیکھا۔ وہ آخری رو میں اکیلی سی بیٹھی ناک پر عینک سجائے، بالوں کو بے ترتیبی سے باندھے، فائل پر نگاہ جمائے اب بھی کسی تلاش میں دِکھتی تھی۔میں دھیرے سے جاکر اس کے ساتھ والی کرسی پربیٹھ گیا، مجھ پر نگاہ پڑتے ہی اُس نے کہا ”نہیں ہوتی نا، میں نے کہا تھا نا کہ دوسری بارمحبت نہیں ہوتی“۔
میں نے بِنا کچھ کہے اُس کا ہاتھ تھاما اور باہر لا کر بینچ پر بٹھاد یااورگزشتہ سارے برسوں کی جیسے بھڑاس نکال دی۔ اُسے بہت کچھ بتایا کہ میرے یہ سال کیسے بیتے۔ میں نے کیا کھویا، کیا پایا، میری بیوی کیسی ہے،میرے بچے کتنے بڑے ہوگئے ہیں، میری نئی گاڑی کا رنگ اور ماڈل کون سا ہے، میں اُسے کتنا یاد کرتا ہوں، میری ساری باتوں کے دوران وہ مجھے خالی خالی نگاہوں سے دیکھتی رہی پھر اُس نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اپنے گھر لے گئی۔
گھر پہنچ کر ہم چپ رہے۔ دیر تک ہمارے بدن بولتے رہے۔بدن کی مشقت سے ہلکان جب میں نے پسینے سے شرابور اس کے جسم کی طرف دیکھا تو وہ میری نظر سے بے خبر انجانے میں بولی ” نہیں ہوتی نا دوسری بارمحبت نہیں ہوتی“۔
وہ جسم کی بے وقعتی پر بہت بولتی تھی۔ وہ مٹی کے اس ڈھیر کی ذرا بھی قائل نہیں تھی۔ وہ کہتی تھی کہ مٹی کا ڈھیر تو کہیں بھی لگایا جاسکتا ہے مگر محبت کی کونپل ہر جگہ نہیں پھوٹتی۔
میں یہ بات سن کر ہمیشہ اس کے بالوں کو چومتا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر کہتا کہ مٹی بھی تو وجو د ہوتی ہے۔ زمین کی یہ امانت اپنے اندر کئی خزانے رکھتی ہے۔ ہر کلی کا وجود اس کے دم سے ہوتا ہے۔ یہ نہ ہوتو کچھ نہیں ہوتا۔ مگر شاید وہ ”کچھ ہونے کی“ منتظربھی نہیں تھی۔
وہ جب بھی مجھے ملتی اپنی پہلی محبت کی کہانی اس شدّ ومد سے سناتی کہ میں اس کے قریب ہوتے ہوئے بھی منظر سے گم ہوجاتا۔
اس قصے کو سناتے ہوئے اس کے روئیں روئیں سے محبت پھوٹ رہی ہوتی۔ جوش سے اس کا جسم لرز رہا ہوتااور ناک کے نیچے ہونٹوں کے اوپر پسینہ آجاتا۔ یہ بات سناتے نہ وہ تھکتی تھی اور نہ ہی اسے وقت کا احساس ہوتاتھا۔میں اس کے لیے صرف اظہار کا وسیلہ تھا۔ کیونکہ وہ صرف مجھ سے اپنی محبت کی بات کرتی تھی۔
میں نے ایک دفعہ اس سے پوچھ ہی لیا ” کیا تم مجھ سے محبت کرتی ہو؟“ یہ سن کر وہ باتیں کرتے کرتے اچانک چپ سی ہوگئی۔
اس کی آنکھوں میں وہ بے یقینی تھی کہ جیسے اسے مجھ سے اس سوال کی توقع ہی نہیں تھی۔ اس نے دھیرے سے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ سے چھڑا لیا اور پھر اچانک بے تحاشا ہنسنے لگی۔میں اس کو قائل کرنا چاہتا تھا تمام تر ثبوت دینا چاہتا تھا مگراس بے تحاشا ہنسی نے مجھے اتنا چھوٹا کردیا تھا کہ پھر میں کبھی اپنا سوال نہیں دہرا سکا۔ اس دن کے بعد وہ بہت عرصے تک مجھ سے نہیں ملی۔

برسوں کے بعد جب میں لندن میں آکسفورڈ سٹریٹ پر مارکس اینڈ سپینسر کے سٹور کے سامنے والے بینچ پر بیٹھا خالی خالی نظرو ں سے بھرے بھرے جسموں کو دیکھ رہا تھا تو وہ اچانک مجھے اس ہجوم میں نظرآئی۔ میری آواز پہنچنے سے پہلے وہ میری نظر سے اوجھل ہوچکی تھی۔ میں اس کے پیچھے بھاگا اور بہت دیر اسے تلاش کیا۔ مگر وہ غائب ہوگئی تھی۔ تھک ہار کر جب میں واپس اس جگہ پہنچا تو وہ اُسی بینچ پر بیٹھی میرا ہی انتظار کررہی تھی۔
مجھے دیکھتے ہی بولی ” کسے تلاش کررہے ہو، کہہ جو دیا نہیں ملتی“۔ چھوٹے سکرٹ اور ٹائٹ سی شرٹ میں ملبوس وہ مجھ پر ہنس رہی تھی۔ اُس کی آنکھیں مزید اندر کو دھنس گئی تھیں اور جسم پہلے سے زیادہ لاغر ہوگیا تھا۔ لباس میں وہی بے ترتیبی اور آواز میں وہی تلاش تھی۔ اُس نے اپنے ہاتھ میں دبے سگریٹ کا کش لگایا اور پھر سارا دھواں میری آنکھ میں بھردیا۔
میں نے اپنی آنکھ سے بہتے پانی کو روکنا چاہا تو وہ مسکرانے لگی۔
ہم دونوں تمام شام ایک ایسی بار میں بیٹھے رہے جہاں کوئی کم ہی آتا تھا۔ وہ میرے سامنے بیٹھی بہت دیر تک میری آنکھوں میں جھانکتی رہی۔ پھر اجنبی سی آواز میں کہنے لگی ”تمہیں پتہ ہے جب اُس نے مجھے پہلی دفعہ چوما تھا تو میرے ہونٹ رس سے بھر گئے تھے تم شاید نہیں مانو گے مگرمجھے آج بھی اس کے پسندیدہ سگریٹ کا ذائقہ اپنے ہونٹوں پر محسوس ہوتا ہے۔
مجھے یوں لگتا ہے کہ وہی ایک لمحہ تھا جو مجھے اس نے عطا کیا تھا۔ پھر اس کے بعد تو میں پیچھے بھاگتی رہی وہ مجھ سے آگے دوڑتا رہا۔ پتہ ہے بعض لمحے کتنے غضب کے ہوتے ہیں؟ کتنی دیر تک ساتھ رہتے ہیں؟ یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم ساری عمر ایک لمحے کی گرفت میں رہتے ہیں۔ زندگی ویسی ہی ہوتی ہے بس محوربدل جاتا ہے۔اندر کوئی تبدیلی ہوتی ہے۔ کیمسٹری بدل جاتی ہے۔
سمت بھول جاتی ہے۔
میری آنکھوں سے جانے کیوں آنسو بہہ رہے تھے۔ میں نے آنسو پونچھے بغیر اس سے کہا ”سمت کا تعین“ نہ بھی ہو، رستہ بہت اہم ہوتا ہے، زندگی اس طرح نہیں کٹتی،کوئی ساتھی کوئی ہمسفرچاہیے ہوتا ہے۔ کسی ہاتھ کے سہارے کی خواہش ہوتی ہے اس نے دھیرے سے اپنا ہاتھ مجھ سے چھڑایا اور کہنے لگی” تمہیں پتہ ہے میں روز اس کو خواب میں دیکھتی ہوں مجھے اپنا وہ خواب اتنا پیارا ہے کہ میں صرف اس کو دیکھنے کے لیے نیند کی آغوش میں چلی جاتی ہوں“۔
یہ کہہ کراس نے سگریٹ کا آخری کش لگایا اور اچانک اُٹھ کر چلی گئی۔
وہ مجھ سے اکثر یہ سوال کرتی تھی کہ محبت ایک تکون میں کیوں سفر کرتی ہے ؟ سب کنارے آپس میں مل کیوں نہیں جاتے ؟ ایک دفعہ کے بعد دل کا سارا علاقہ کسی اور کے نام کیوں نہیں ہوجاتا؟ فاصلے کیوں بڑھتے جاتے ہیں ؟ خواب کیوں سچے نہیں ہوتے؟ میں اس کو جواب دیتا کہ محبت دائرے کی طرح ہوتی ہے۔
ہر مقام سے مرکز کا فاصلہ ایک جتنا ہوتا ہے۔ساری بات مرکز سے اپنے مقام کے فاصلے کو طے کرنے کی ہوتی ہے۔ مرکز پر پہنچنے کے سینکڑوں راستے ہوتے ہیں۔ سب کا فاصلہ برابر ہوتا ہے۔ دور سے سب ایک سے ہوتے ہیں۔ میں اُس کو مزید سمجھاتا کہ سنسان سے سنسان اسٹیشن پر بھی گاڑی دوسری دفعہ ضرور آتی ہے۔ مسافروں کو سفر کرنا پڑتا ہے۔ ایک گاڑی چھوٹ جانے کے بعد دوسری پرسوارہوناپڑتا ہے۔
میری باتوں سے بے خبر وہ بے جان سی یوں لیٹی رہتی جیسے سفر کی ہر تکان سہہ چکی ہو۔آخری گاڑی اسٹیشن سے جاچکی ہو۔
آخری دفعہ جب مجھے اس کی کال آئی تو وہ میرے ہی شہر میں تھی۔ اُسے کچھ پیسوں کی ضرورت تھی۔ میں جب بریف کیس تھامے اس کے دئیے ہوئے پتے پر گیا تو وہ ایک پرانے گھر کے بوسیدہ سے کمرے میں بستر پر لیٹی دروازے ہی کی طرف دیکھ رہی تھی۔
اُس کا رنگ سنولا چکا تھا۔ آنکھوں کے نیچے حلقے اتنے واضح ہوچکے تھے کہ آنکھیں میچی ہوئی دکھائی دیتی تھیں۔ جسم اس قدر کمزور ہوگیا تھا کہ اب وہ ایک بے ترتیب بالوں والی لاغرسی بڑھیا دکھائی دیتی تھی۔ پرانے کھدر کے بوسیدہ لباس میں اُجڑی اُجڑی سی وہ اب بھی اُسی ستارے کی منتظر لگتی تھی۔میں نے اُس کا ہاتھ تھاما اور قریب ہی بیٹھ گیا۔ میرے لائے ہوئے ڈھیروں روپوں میں سے اس نے کچھ روپے نکالے اور اپنے سرہانے کے نیچے رکھ لیے۔
میرا شکریہ ادا کئے بغیر اس نے بات شروع کی۔ ”تمہیں پتہ ہے میں نے اُسے دیکھا تھا، اسی شہر میں۔ کچھ مہینوں پہلے وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ بہت خوش دکھائی دے رہا تھا۔پنک شرٹ کے ساتھ سیاہ سوٹ پہنے وہ میرے بہت قریب کھڑا تھا۔ اس نے بلیو اور اورنج کلر کی ٹائی لگارکھی تھی۔ سیاہ چمک دار جوتے اور موزے پہنے تھے۔ مجھے پتہ ہے اس نے کون سا پرفیوم لگایا تھا۔
میں اس کے قریب نہیں گئی مگراس کی خوشبو کو محسوس کرسکتی تھی۔ اس نے سگریٹ کا برانڈ بھی بدل لیا ہے۔ دیکھو یہ ٹکڑا اس نے زمین پر پھینک کر مسل دیا تھا۔ میں اسے اپنے ساتھ لے آئی ہوں۔کئی بار اسے چوم چکی ہوں۔ تم مجھے صرف یہ بتاؤ کہ آدمی اگر چاہے تو برانڈ بدل جاتا ہے ؟ کوئی دوسری چیز، کوئی نیا ذائقہ اچھا لگنے لگتا ہے ؟ بتاؤ ناں ؟ یہ تم ہر بات پر رونے کیوں لگتے ہو؟
یہ سوال پوچھ کر وہ ایک دم خاموش ہوگئی۔
جیسے تھک کر لیٹ گئی ہو۔ اُس نے آنکھیں بند کرلیں گویا وہ میرے جانے کا انتظار کررہی ہو۔ میں دھیرے سے اُٹھا، اس کے زردماتھے پر پیار کیا اور کمرے سے باہر نکل آیا۔ سوال کے جس رشتے سے ہم دونوں بندھے تھے یہ رشتہ آج بھی اسی طرح قائم تھا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ ہم دونوں کے پاس اتنے برسوں کے بعد اُس ایک سوال کا جواب مختلف تھا۔

* یہ کہانی اردو ادب کے عظیم ناول ”راجہ گدھ“ سے متاثر ہوکر ایک تخلیقی وفور کے تحت لکھی گئی ہے۔ کہانی کی اس مماثلت کا انکشاف مجھ پر اس لمحہٴ تخلیق کے گزرنے کے بعد ہوا۔ اگر آپ کو بھی ایسا لگے تو میں اس مشابہت کو اپنی خوش بختی سے تعبیر کروں گا۔

Browse More Urdu Literature Articles