Pardees K Rang - Article No. 878

Pardees K Rang

پردیس کے رنگ - تحریر نمبر 878

۔قانون شکن اور غیر منظم معاشرے سے نکل کر جب میں لاہور ہائیکورٹ بار کے وفد کے ہمراہ مانچسٹر ائیرپورٹ پر اترا تونظم و ضبط اور انگریزوں کی اصول پرستی کی شکل میں انقلاب کی اصل صورت دکھائی دی۔کہنے کو تو ہمارا تعلق ایسے خطے سے تھا جہاں دہشت گردی کا راج ہے

Abdur Rehman عبدالرحمن بدھ 15 اکتوبر 2014

انقلاب باتوں سے نہیں آیا کرتے بلکہ اسکے لئے عملی جدوجہد کے کٹھن راستے پر چل کرمنزل حاصل ہوتی ہے۔قانون قدرت ہے کہ جب تک انصاف کا بول بالا نہ ہو اور قانون کی بالدستی کو قائم نہ کیا جائے حقیقی انقلاب برپا نہیں کیا جا سکتا۔قانون شکن اور غیر منظم معاشرے سے نکل کر جب میں لاہور ہائیکورٹ بار کے وفد کے ہمراہ مانچسٹر ائیرپورٹ پر اترا تونظم و ضبط اور انگریزوں کی اصول پرستی کی شکل میں انقلاب کی اصل صورت دکھائی دی۔
کہنے کو تو ہمارا تعلق ایسے خطے سے تھا جہاں دہشت گردی کا راج ہے مگریہ بات بھی امیگریشن کاونٹر پر موجود انگریز کے چہرے کی مسکراہٹ کوختم نہ کر سکی،ضروری کاروائی کے بعد ہمارے پاسپورٹ ہمیں واپس کر کے آگے بڑھنے کو کہا گیا تو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ نہ تو ائیرپورٹ پر کوئی ہائی الرٹ ہے نہ ہی کوئی پولیس اہلکار موجود ہے ،سکیورٹی کی ساری ذمہ داری خفیہ کیمروں کے سپرد ہے مگر اس کے باوجود ہر شہری کو امان میں ہونے کا احساس ہے اور یہ احساس انکے چہروں کی طمانیت سے جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔

(جاری ہے)

خوش اخلاقی ،نظم و ضبط کی پابندی اورریاست سے وفاداری ہر انگریز کی جبلت میں شامل ہے۔اپنا ہو یا پرایاصبح ،دوپہر اور شام کا سلام کرنا ان پر واجب ہے۔انگریز وں نے مذہب کو ریاستی معاملات سے الگ کر کے اپنے صدیوں کے تجربات سے جو کچھ حاصل کیا اسے نہ صرف نافذ کیا بلکہ اس پر کاربند ہو گئے۔مانچسٹر میں ایسویسی ایشن آف پاکستانی لائرز برطانیہ کے چئیرمین بئیرسٹر امجد ملک اور لاہور ہائیکورٹ بار کے وفد کونجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں مدعو کیا گیا۔
نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں لاہور ہائیکورٹ بار کے صدر شفقت محمود چوہان نے پاکستان کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی جبکہ بئیرسٹر امجد ملک نے سمندر پار پاکستانیوں کے مسائل کو دردمندانہ انداز میں پیش کیااور ان مسائل کے خاتمے کے لئے ا پنی خواہش کا اظہار کیا۔اگلے روز وفد نے مانچسٹر کے علاقے ہیلڈم کے ہوٹل میں ہونے والی تقریب میں شرکت کی۔
درحقیقت یہ تقریب بئیرسٹر امجد ملک کی پاکستان سے والہانہ محبت کا اظہار تھا۔پرائے دیس میں اپنوں کا اتنا بڑھا اکٹھ دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔تقریب میں برطانیہ کے مختلف شہروں میں بسنے والے پاکستانیوں کوخاص طور پر مدعو کیا گیا تھا۔بئیرسٹر عنصر چوہدری سمیت بہت سے پاکستانی ہائیکورٹ بار کے وفد سے ملاقات کے لئے طویل سفر کر کے لندن سے مانچسٹر تشریف لائے۔
تقریب میں آنے والے ہر پاکستانی کو ملک میں جاری سیلاب،دھرنے اور ڈرون حملوں کی صورتحال پر دل گرفتہ اور رنجیدہ دیکھا گیا۔دیار غیر میں رہتے ہوئے کم مائیگی کا احساس بڑھ جانا فطری بات ہے مگر ہمارے جیسے معاشرے سے بہتر مستقبل کی خاطر بیرون ملک جانے والے پاکستانی اس لئے زیادہ کرب کا شکار ہوتے ہیں کہ اگر ملک میں نظام عدل اور میرٹ کا بول بالا ہوتااور طبقاتی تقسیم نہ ہوتی تو انہیں کبھی بھی اپنا پیارا وطن نہ چھوڑا پڑتا۔
تقریب کے آغاز میں بئیرسٹر امجد ملک نے وفد کو برطانیہ آمد پر خوش آمدید کہا۔ انہوں نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سمندر پار پاکستانی خاص طور پر برطانیہ میں مقیم لاکھوں کشمیری ہر محاذ پر پاکستان کا نام روشن کررہے ہیں اور خون پسینہ ایک کر کے اربوں روپے زرمبادلہ کی صورت میں پاکستان بھجواتے ہیں مگر ان پاکستانیوں اور کشمیریوں کو اپنے ہی ملک میں بے پناہ مسائل کا سامنا ہے۔
ان مسائل کے خاتمے کے لئے اوور سیز پاکستانی فاونڈیشن میں الگ سے ڈیسک قائم کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔انہوں نے بتایا کہ حصول تعلیم کے لئے پاکستان سے برطانیہ آنے والے طالبعلموں کوصحت اور نوکری جیسے مسائل کا سامنا ہے یہاں انکے لئے ہیلتھ انشورنس کا اہتمام نہیں ہے جبکہ بعض طلبا جعلی کالجوں میں داخلے لے کر یہاں پہنچ جاتے ہیں مگر ان کامستقبل سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔
ایسے مسائل کے خاتمے کے لئے پاکسنانی سفارتی حکام تو سوئے پڑے ہیں مگر وہ ایسویسی ایشن آف پاکستانی لائرز برطانیہ کے پلیٹ فارم سے قانونی جدوجہد میں مصروف عمل ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ بار کے صدر شفقت محمود چوہان نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی عدلیہ کی آزادی کے نتیجے میں معاشرے پر پڑنے والی اثرات سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی اوریقین دلایا کہ واپس جا کر سمندر پار پاکستانیوں کے مسائل کو ہر سطح پر اٹھایا جائے گا۔
تقریب سے ہائیکورٹ بار کے نائب صدر عامر جلیل صدیقی ،فنانس سیکرٹری میاں اقبال ،سابق ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شاہد خان رانا ناصر ایڈووکیٹ ،بئیرسٹر عنصر چوہدری اور دیگر پاکستانیوں نے بھی خطاب کیا۔ تقریب کے اختتام پرمانچسٹر کے سابق لارڈ مئیر اور بئیرسٹر امجد ملک نے وفد کے اراکین کو سرٹیفیکیٹس اور تحائف دئیے اورپرتپاک انداز سے رخصت کیا۔
مانچسٹر کی تقریب سے فارغ ہوتے ہی ہم لندن کے لئے روانہ ہو گئے۔
ہر دل عزیزرانا ناصر ایڈووکیٹ نے کمال مہربانی کرتے ہوئے ڈرائیونگ کے فرائض سنبھالے اور ہمیں لندن پہنچا دیا۔مانچسٹر سے لندن کے سفر کے دوران رانا ناصر نے برطانیہ میں گزارے اپنے کئی سالوں کے تجربات اور مشاہدات ہم تک پہنچانے کی کوششیں جاری رکھی مگر شاہد خان اپنے روائتی انداز میں ان تجربات کو ہم تک منتقل ہونے سے روکنے کے لئے بھرپور طور پر اپوزیشن کا کردار ادا کرنے میں مصروف رہے۔
لندن پہنچ کر ہم نے شہر کی سیر کی اور انڈر گراونڈ ریلوے جیسا عجوبہ دیکھا۔برطانوی پارلیمنٹ اوربرطانوی وزیر اعظم کی رہائش گاہ ٹین ڈوننگ سٹریٹ پر شہریوں کی چہل پہل دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ماضی میں دنیا پر حکمرانی کرنے والے ملک میں نہ تو کوئی پروٹوکول ہے اور نہ ہی سیکورٹی کے نام پر شہریوں کو ڈرا کر رکھا گیا ہے۔برطانیہ میں وزیر اعظم حاکم نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں عوام کا خادم ہے جبکہ ملکہ کو انصاف کی علامت سمجھا ہی اس لئے جاتا ہے کہ اس نے پورے ملک میں قانون کی حکمرانی کو قائم کرنے کے لئے جو نظام دیا اسی نظام کے ثمرات ہیں کہ آج پورے برطانیہ میں کوئی بھی قانون شکنی کا تصور نہیں کر سکتا۔
اسی نظام کی کرامت ہے کہ قیام برطانیہ کے دوران ہمیں نہ تو کوئی تھانہ نظر آیا نہ جگہ جگہ ناکے دکھائی دئیے۔لندن میں چہل قدمی کے بعد سو میل دور برائٹن شہر کا رخ کیا اور ساحل سمندرکی سیر کی۔برطانیہ میں مقیم پاکستانی تاجر فیض الحسن فیضی صاحب کو ہمارے برطانیہ میں آمدکی اطلاع ملی تو انہوں نے کہیں سے ہمارے موبائل نمبر کا پتہ چلا یااوراپنے ہاں آنے کی دعوت دے ڈالی۔
ہم نے اپنی مصروفیت کا بہانہ بنا کر انہیں ٹالنے کی بار بار کوشش کی مگربرائٹن شہر سے واپسی کی اگلی صبح فیضی صاحب خود ہی ہمیں لینے لندن آن پہنچے،انہوں نے ہمیں گاڑی میں ساتھ بٹھایااور لندن سے چالیس میل کے فاصلے پر موجود لیوٹن شہر اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔لندن سے قریب تر ہونے کی بناء پر پاکستانی کمیونٹی میں لیوٹن کو لندن کا شیخوپورہ بھی کہا جاتا ہے۔
لندن کے مضافات میں واقعہ اس چھوٹے سے خوبصورت شہر میں زیادہ تر پاکستانی ہی رہائش پذیر ہیں۔فیضی صاحب کے گھر پہنچے تو ان کے بیٹوں نے ہمارا استقبال کیاجبکہ بھابی لوسی نامی ایک انگریز بچی کو کھلانے میں مصروف دکھائی دیں۔فیضی صاحب نے بتایا کہ انکی بیگم نے گھر میں اپنی مصروفیت کے لئے ڈے کئیر سینٹر کھول رکھا ہے انگریز والدین اپنی نوکری پر جانے سے قبل اپنے بچے انکے ہاں چھوڑ جاتے ہیں جبکہ واپسی پربچے انکے حوالے کر دئیے جاتے ہیں۔
چائے پیتے ہوئے خوبصورت لوسی کو پاکستانی ماں کے پاس زیر تربیت دیکھ کر میں خیالوں میں گم ہو گیا۔میں سوچ رہا تھا کہ ہماری ماوں کی تربیت میں کوئی کمی ہوتی تو انگریز اپنے بچوں کو کبھی بھی پاکستانی ماں کے سپرد نہ کرتے۔ہمارے معاشرے میں پھیلی انارکی ،ناانصافی،رشوت،چور بازاری ،میرٹ کی خلاف ورزی میں ہماری ماوں کی تربیت کا کوئی قصور نہیں بلکہ یہ نطام میں پائی جانے والی خامیاں اور پیشہ ورسیاست دانوں کی چال بازیاں ہیں جنہوں نے ہمیں اور ہمارے معاشرے کوتباہی کے دہانے پر پہنچایا۔
چائے نوش کرنے کے بعد فیضی صاحب نے ہمیں اپنا دفتر دکھایا،چھوٹے سے خوبصورت دفتر کے وسطی ٹیبل پراردو میں لکھے ہوئے اقوال زریں دکھائی دئیے جبکہ دفتر کے داخلی دروازے کے اندرونی طرف حقیقت پر مبنی شعریہ جملہ لکھا نظر آیا۔قدراں مک جاندیاں ،جدوں غرضان مک جاندیاں
فیضی صاحب ہمیں لیوٹن کے دیہاتی علاقوں کی طرف گھمانے لے گئے ،بل کھاتی سڑکوں پر قرینے سے بنے خوبصورت مکانات اور کھیتوں کھلیانوں میں سے گزر کر ہم وائبرن سفاری پارک جا پہنچے جہاں شیر،چیتے،بندر،زرافے اور طرح طرح کے جانور کھلے عام گھوم رہے تھے۔
سفاری پارک میں یہ بات قابل توجہ تھی کہ یہاں جانوروں کے لئے قدرتی ماحول فراہم کرنے کی پوری سعی کی گئی تھی، جانوروں کو متحرک رکھنے کے لئے چھوٹی جیپوں پر موجود عملہ ان جانوروں کے پیچھے پیچھے گاڑی گھما رہا ہے تاکہ وہ انسانوں کے درمیان رہ کر سست نہ پڑ جائیں۔سفاری پارک کے قریب موجود جھیل پر پہنچ کر ہم نے خوب تصاویر اتاریں اور واپس فیضی صاحب کے گھر پہنچ کر بھابی کے ہاتھوں کے بنے ہکوان سیر ہو کر کھائے۔
فیضی صاحب نے مہمان نوازی سے بڑھ کر ہماری خدمت کی اور ہم نے فیضی صاحب کے ہمراہ لندن واپسی کی راہ لی۔ بئیرسڑ عنصر چوہدری نے پورے وفد کے اعزاز میں لندن میں موجود پاکستانی ریسٹورنٹ میں عشائیہ کا اہتمام کر رکھا تھا۔ہم بھی فیضٰ صاحب کے ہمراہ مقررہ وقت پر دئیے گئے پتہ پر موجود پاکستانی ریسٹورنٹ جا پہنچے۔بئیرسٹر عنصر چوہدری نے ہمیں اپنے درمیان پا کر خوشی کا اظہار کیا اور ہماراوالہانہ استقبال کیا۔
عشائیہ کے موقع پرکھانا کھاتے ہوئے ہمارے درمیان مختلف موضوعات زیر بحث آتے رہے۔عشائیہ سے فارغ ہو کر گروپ فوٹو کے بعد ہم نے عنصر چوہدری کا شکریہ ادا کیا اور واپس ہو لئے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ سارا دن ہم نے گھوم پھر کے گزار دیا مگر اس دن کی تاریخی حیثیت کو برطانیہ کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔اسی دن سکاٹ لینڈ کی برطانیہ سے علیحدگی کے حق میں ریفرنڈم جاری تھا مگر دونوں فریقین کے درمیان یہ بات طے پا چکی تھی کہ ریفرنڈم کے سرکاری نتائج آنے تک میڈیا کوئی بھی غیر سرکاری نتائج جاری نہیں کرئے گا۔
ریاست کے مفادمیں برطانوی میڈیا نے واضح طور پرذمہ داری کا ثبوت دیا اور کسی بریککنگ نیوز کے چکر میں شہریوں کی جانوں کو داو پر نہیں لگایا اور نہ ہی ملک میں افراتفری کو فروغ دیا۔نہ تو کسی چینل نے اپنی رینگ بڑھائی نہ ٹاک شو میں گلے پھاڑنے والوں کو مدعو کیا۔ریفرنڈم سے اگلے روز طے شدہ پروگرام کے مطابق صبح دس بجے سرکاری طور پر ریفرنڈم کے نتائج کا اعلان کیاگیا۔
ریفرنڈم کے بعددونوں فریقین نے کھلے دل سے نتائج کو تسلیم کیا اور نظام میں ایک منٹ کا خلل لائے بغیر تمام شہری دوبارہ اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے۔سرکاری نتائج آنے کے بعدبرطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے تاریخی خطاب میں اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا اور اصلاحات لانے کا بھی اعلان کیا۔کسی سیاست دان نے دوسرے کی ٹانگ کھینچی نہ دھرنا دیا بلکہ اپنی اپنی غلطیوں کو تسلیم کر کے ان غلطیوں کی اصلاح میں مصروف ہو گئے۔

Browse More Urdu Literature Articles