Undalas Or Hum - Article No. 908

Undalas Or Hum

اندلس اور ہم - تحریر نمبر 908

پچھلے دنوں مجھے سپین جانے کا اتفاق ہوا- سپین گھومتے ہوئے مجھے یوں لگا کہ ان کہانیوں کا مقصد صرف مسلمان نوجوان نسل کو اس تاریخی خود فریبی میں مبتلا رکھنا ہے جس کا موجودہ مسلمان ممالک کی اکنامک سوشل اور سٹریٹجک قوت کے ساتھ دور دور تک کوئی تعلق نہیں

منگل 16 جون 2015

محمد واجد طاہر
مسلمانوں نے سپین پر آٹھ سو سال تک حکومت کی - کشتیاں جالا دو کیونکہ آج یا تو فتح تمہارا مقدر بنے گی یا پھر موت- یہ فقرے اس ولولہ انگیر کہانی کا آغازکرتے ہیں جو آج بھی مسلمان معاشروں میں ہر سطح پرلوگوں کو انکی تاریخ یاد دلانے اور انکا خون گرمانے کے لیے سنائی جاتی ہے -اس امید پر کہ آج بھی کوئی مسلمان طارق بن زیاد بن کر مسلمانوں کی تاریخ کو دہرا ئے اور دوبارہ مسلمان نہ صرف سپین پر بلکہ پوری دنیا پر اپنی طاقت کا لوہا منوا سکیں- میں یہ بات سمجھ ہی نہیں پاتا کہ طاقت کا حصول اور دوسرں کو اپنا محکوم بنانا کہاں سے اسلامی تعلیمات کا حصہ بنا - وہ تعلیم جو میرے حصے میں آئی ہے اس سے تو مجھے کہیں بھی حاکمیت اور خود کو دوسروں سے بہتر سمجھنے کا ادراک نہیں ہوا-اور حقیقتا یہ اسلامی تعلیمات تو ہر گز نہیں ہو سکتیں کیونکہ وہ تومحبت عزت برابری اور بھائی چارہ کو فروغ دیکر دوسروں کے دل جیتنے پر زور دیتی ہیں نہ کہ طاقت کے بل پر-
پچھلے دنوں مجھے سپین جانے کا اتفاق ہوا- سپین گھومتے ہوئے مجھے یوں لگا کہ ان کہانیوں کا مقصد صرف مسلمان نوجوان نسل کو اس تاریخی خود فریبی میں مبتلا رکھنا ہے جس کا موجودہ مسلمان ممالک کی اکنامک سوشل اور سٹریٹجک قوت کے ساتھ دور دور تک کوئی تعلق نہیں-سپین میں داخل ہونے تک دوران سفر ایسی ہی کہانیوں نے میرے اندربھی سوچوں کا طلاطم برپا کیے رکھا- جو تاریخ میں نے پڑھی تھی اس کے مطابق آج بھی سپین کی سوسائیٹی پر مسلمانوں کی حکومت کا عکس واضع ہے- حتی کہ سپین کی ماضی کی فتوحات اور موجودہ ترقی دونوں ہی مسلمانوں کی رکھی ہوئی بنیاد کی مرہون منت بتائی جاتی تھیں-پڑھی اور سنی ہوئی کہانیوں کے سائے تلے میں نے یہ سوچنے سے بھی گریز نہ کیا کہ کاش آج بھی کوئی مسلمان جبرالٹر کے ساحل پر آئے اور طارق بن زیاد کی طرح لشکر کشی کر کے سپین کو اپنے زیرنگہوں کر لے تاکہ پھر یہاں اسلام کا بول بھالا ہو جائے اور سپین مزید ترقی کی طرف بڑھے - لیکن ایک دم میں خیالوں سے نکل کر حقیقت میں آ گیا -
جب میں سپن میں داخل ہوا تو پتا چلا کہ کیسے ذرائع آمدورفعت ملکوں کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں- سب سے پہلے سڑکوں کے مظبوط اور وسیع و عریض جال نے میری پہلی غلط فمہی دور کر دی کیونکہ اگر آج کا سپین مسلمانوں حکومت کے تابع ہوتا تو یہاں بھی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ہوتیں جو کہ بہت سے مسلم ممالک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالے ہوئے ہیں-دوسری غلط فہمی تب دور ہوئی جب یہ پتا چلا کہ یہاں فرقہ وارانہ جھگڑے نہیں ہوتے - اگرچہ چرچ بھی فرقوں میں بٹا ہوا تھا مگر دین ایک انفرادی معاملہ قرار دیا جا چکا تھا اس لیے اس کی بنیاد پر مسلم ممالک کی طرح نہ تو یہاں امن ناپید تھا اور نہ ہی روزانہ کی بنیاد پر قتل وغارت کا بازار گرم رہتا تھا-تیسری غلط فمہی تب دور ہوئی جب یہ علم میں آیا کہ ہر شہر اپنے ترقیاتی پلان خود بناتا ہے اور اپنی آمدن کو اپنی مرضی سے استعمال کرتا ہے اور اس کے لیے یہ شہر صرف انکم ٹیکس پر اکتفاہ نہیں کرتے بلکہ وہاں مختلف انواع کے میلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے جو ہزاروں کی تعداد میں انٹرنیشنل ٹورسٹ کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں اور بیش بہا ذرمبادلہ کا موجب بنتے ہیں - لیکن اگر یہ کوئی آج کا مسلم معاشرہ ہوتا تو ایسی سرگرمیوں پریا تو پابندی عائد ہوتی یا پھر امن وامان کی صورتحال ایسی سرگرمیوں کی اجازت ہی نہ دیتی-چوتھی غلط فمہی بھی دور ہو گئی جب بیش بہا پاکستانیوں اور دوسرے مسلم ممالک سے آئے ہوئے پناہ گزینوں کو سپین کے مختلف شہروں میں کام کرتے ہوئے دیکھا تو حیرت ہوئی کہ ہم نے تو انگریزوں کو آزادی حاصل کرنے کے بعد مکمل طور پراپنے ملک سے نکال دیا تھا لیکن ان سپینش لوگوں نے تو آج بھی مسلمانوں کو اپنے دامن میں جگہ دے رکھی ہے جو وہاں پر نہ صرف اپنے کنبہ کا پیٹ پال رہے تھے بلکہ اپنے ممالک کو لاکھوں کا ذرمبادلہ بھی بھیج رہے تھے- جب مختلف شہروں میں جانے کا موقع ملا توآنکھیں امن خوشحالی اور ترقی دیکھ کرخیرہ ہو گئیں- سب سے دلچسپ چیز یہ لگی کہ اس ترقی کا عیسائیت یا اسلام سے کوئی تعلق نہیں تھا- صرف انسانیت اس کی بنیا د تھی-
ہمارا پہلاقیام سین سبستیان میں تھا جو کہ سپین کا ساحلی شہر تھا - اس شہر کی خوبصورتی کو دیکھ کر ایسے گمان ہوتا تھا کہ جیسے ہم ناران اور کاغان کی وادیوں میں گھوم رہے ہوں مگر سمندر کی موجودگی نے ہمیں حقیقت سے فورا ہی آشنا کر دیا۔

(جاری ہے)

حسب توقع یہاں بھی پاکستانی آباد تھے جو کہ یا تو فیکٹریوں میں کام کرتے تھے یا پھر حکومت کے رحم وکرم پر پل رہے تھے -ہمارے ساتھ مقامی لوگوں کا رویہ بس واجبی سا تھا شاید ہماری سپینش زبان سے ناواقفیت آڑے آتی تھی - رات کے بارہ بجے تک ذرائع آمدورفعت میسر رہتے تھے- ساحل سمندر پر ہوٹل اور ڈسکو بنے ہوئے تھے مگر پاکستانی یا انڈین ہوٹل نہ ہونے کے برابر تھے-آرکیٹیکچ بہت ہی عمدہ تھا گھر ایک ترتیب سے تعمیر کیے گئے تھے اور مناسب فاصلہ پر کمیونٹی پارکس بنے ہوئے تھے مزید خوبصورتی کے لیے سڑکوں کے کناروں پر ہرے بھرے درخت لگائے گئے تھے- شہر کے آس پاس گاؤں کو دیکھ کر پوش کالونیوں کا گمان ہو رہا تھا-ان گاؤں میں سکول سے لیکر ہسپتال تک زندگی کی ہر بنیادی سہولت میسر تھی- ایک ہفتہ گزارنے کے بعد ہم بارسلونا کی طرف روانہ ہو گئے-
بارسلونا دن اور رات دونوں کا شہر تھا- یہ سحری کے چار بجے بند ہوتا اور دن کے چھ بجے پھر کھل جاتا تھا- ہر طرف لوگ تھے ایسا لگتا تھا کہ ہر ملک کا باشندہ یہاں آباد ہے یاکم ازکم گھومنے ضرور آیا ہوا ہے-معزز اقوام اپنے ہیروز کی یادوں کو اور نایاب واقعات کو محفوظ رکھتی ہیں - اس چیز کا تجربہ ہرکولیس کا مجسمہ اور اولمپک سٹیڈیم اورشاہی قلعہ دیکھ کر ہوا- تینوں جگہیں سیاحوں کے لیے بے پناہ توجہ کا باعث تھیں- ساحل سمندر دلفریب نظارہ پیش کررہا تھا لیکن چونکہ موسم ابھی تھوڑا سرد تھا اس لیے ساحل والی رونکیں ابھی دور تھیں - بڑا شہر ہونے کے باوجود ٹریفک کا رشن نہیں تھا- سٹی سنیٹر مختلف انواع کی دوکانوں سے بھرا پڑا تھا جو کہ رات گئے کھلا رہتا تھا- رات کے وقت شہر کے ہر چوک پر پاکستانی نوجوانوں کو کھڑے پایا جو کہ مختلف مشروبات اور برگرز بیچ رہے تھے - یہ سب وہ نوجوان تھے جو کہ دل میں یورپ کی رنگینیوں اور پیسے کے خواب لیکرآ ئے تھے مگر ہمارے کریدنے پر صرف کف افسوس ہی ملتے پائے گئے-مگر وہ پاکستانی جو کئی سالوں سے یہاں آباد تھے انہوں نے بارسلونا کے بازاروں میں موبائل فونز کی دوکانیں ڈال رکھی تھیں اور یاپھر انٹرنیٹ کیفے چلا رہے تھے-یہ لوگ ہمارے ملک کے کے امبیسیڈر تھے ا س لیے انکی زندگی گزارنے کا انداز ہمارے ملک کے بارے میں ایک رائے ضرورقائم کرتا ہو گا یہ وہ سوال تھا جو کہ بارسلونا نے دل پر چھوڑ دیا - دو دن کے قیام کے بعد ہم بارسلونا سے ویلنسیا روانہ ہو گئے-
یہ شہر میلوں کی مناسبت سے مشہور تھا یہاں ہر دو سے تین مہینوں کے بعد میلے لگتے تھے جو کہ پوری دنیا سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچ کرلاتے تھے- ہماری یہاں آمد کی وجہ بھی ایک میلہ ہی تھا جو کہ تین دن پر مشتمل تھا- اس میلے میں مقامی لوگ اپنی گلیوں کے چوراہوں پر موم سے بنے ہوئے بڑے بڑے مجسمے آویزاں کرتے ہیں- ہر مجسمہ کسی سیاسی سماجی یا کھیلوں کی مشہور شخصیت کا ہوتا ہے- اس جگہ کو رنگ برنگی بتیوں سے بھی سجایا جاتا ہے - گلیوں کے چوراہوں پر اسٹیج بنایا جاتا ہے ا ور دن رات مختلف انواع کے پروگرام تشکیل دیئے جاتے ہیں- میلے کے آخری دن ان مجسموں کا جالا جاتا ہے- مجسموں کو جالانے کے لیے اسی محلے کے ایک فرد کا قراء اندازی سے انتخاب کیا جاتا ہے- منتخب فرد پھر ساری زندگی اس کھیل میں حصہ نہیں لے سکتا -دنیا بھر کے لوگ ان خوبصورت مجسموں کو دیکھنے اور ان سے منسلک تفریح کا مزہ لوٹنے ویلنشیا آتے ہیں- ایسے بہت سے میلوں سے اس شہر کی آمدن حاصل ہوتی ہے-اورسب سے حیرت انگیز بات یہ تھی کہ کسی بھی طبقہ فکر کو اس میلے کے انعقاد پر کوئی اعتراض نہیں تھاسب اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے-
وہاں سے ہم قرطبہ روانہ ہوئے گو کہ سفر کچھ گھنٹوں پر مشتمل تھا مگر مسجد قرطبہ دیکھنے کا اشتیاق ہر گزرتے ہوئے منٹ کو طویل سے طویل تر کرتا جا رہا تھا -مسجد بس سٹینڈ سے چند کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع تھی جو کہ ایک قلعہ میں واقع تھی -یقینا یہ قلعہ مسلمان حکمرانوں کے زیر استعمال رہا ہو گا-موجودہ سپین نے اس قلعہ اور اردگرد کے علاقہ کوانتہائی توجہ اور خوبصورتی سے محفوظ رکھا ہوا تھا - ایسا گمان ہوتا تھا جیسا کہ ہم اکیسویں صدی سے ٹائم مشین پہ بیٹھ کر مسلمانوں کے دورحکومت میں چلے گئے ہوں- جیسے جیسے مسجد قریب آ رہی تھی دل کی ڈھرکن بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی- آخر کار ہم مسجد کے دوازے پر پہچ گئے اور فورا ہی اندر داخل ہو گئے- مگر یہ کیا وہاں پر توکلیسا نسب تھا اور اس جگہ کو میوزیم کا درجہ دے دیا گیا تھا-پڑھی اور سنی ہوئی کہانیاں پھر سے سامنے آ گئیں اور دل میں شکست کی تلخیاں ابھر آئیں -لیکن یہ دکھ بھی عجیب تھا میں توایک پاکستانی تھا اور شکست کھانے والے عرب اور افریکی مسلمان تھے- مگر دکھ میں تب کمی ہوئی جب دیکھا کہ مسجد کا منبر اور اسکے اردگرد کی جگہ ویسے ہی محفوظ تھی - پہلی خواہش یہی ابھری کہ یہاں نماز پڑھی جائے مگر پتا چلا کہ نماز پر تو پابندی عائد ہے-خواہش حسرت ہی رہ گئی - مگر مسجد کی بناوٹ اور اس میں جھڑے ہوئے پتھر ا س وقت کے کاریگروں کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت تھے- لیکن جس طرح سپین نے ان عمارات کو محفوظ کیا ہوا تھا وہ بھی قابل تعریف تھا۔
خیر بوجل دل کے ساتھ ہم مسجد سے باہر نکل آئے اور میڈرڈ کا رخ کیا-
میڈرڈ میں زندگی بستی تھی -جینا کسے کہتے ہیں وہ میڈرڈ میں لوگوں کے انداز زندگی سے بخوبی پتا چل رہا تھا-تاریخی عمارات فٹبال سٹیڈیمز نائیٹ کلبزبارزمیوزیم سب ہی اس شہر کی زندگی کا منہ بولتا ثبوت تھے - لوگوں کا ایک ہجوم برپا تھا جن میں بہت سارے سیاح شامل تھے- شہر میں سٹی ٹور کے لیے بس چلتی ہے جس کے دو روٹس ہیں - ہم نے پورے دن کا ٹکٹ لیا اور بس پر سوار ہو گئے - اس بس کی خاصیت یہ ہے کہ آپ جس سٹاپ پر چاہیں اتر جائیں اردگرد سیر کریں اور پھر اگلی بس پر بیٹھ کر دوسری سمت روانہ ہو جائیں -یہ بس ان ساری جگہوں پر جاتی ہے جو سیاح میڈرڈ میں دیکھنے آتے ہیں- اس بس کی بدولت ہم نے پورا میڈرڈ دیکھ ڈالا- یہاں پر بنگلہ دیشی بہت زیادہ تعداد میں رہائش پزیر تھے جن میں سے اکثر غیر قانونی بنیادوں پر رہ ہے تھے- سٹی سینٹر سائیل کے نام سے مشہور ہے جسکی معنی سورج کے ہیں اور سورج کی کرنوں ہی کی طرح بیشمار گلیاں یہاں سے نکل کر پورے میڈرڈ میں پھیل جاتی ہیں جو کہ اس شہر کی بہت بڑی خاصیت ہے- یہاں سے ہم نے واپسی کا راستہ لیا-
سپین سے واپسی کو روانہ ہو تے ہوئے دل میں یہ خیال آ یا کہ اگر آج بھی مسلمان یہاں پر حاکم ہوتے تو کیا سپین ایسا ہی ہوتا- اس کا جواب سوائے شرمندگی کے کچھ نہ تھا - جب سپین پر مسلمانوں نے قبضہ کیا تھا تو اس وقت سپین بھی ایسے ہی حالات سے دوچار تھا جن سے آج بہت سے مسلم ممالک ہیں- آپس کی انارکی اور بے اتفاقیاں ہی سپین کے عیسائیوں کی مسلمانوں کے ہاتھوں شکست کی وجہ بنی تھیں-وہ بھی اپنے چرچ میں لڑتے جھگڑتے تھے- دین کو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے استعمال کرتے تھے- ان کے سب ہی قبائل میں حکومت کرنے کا جنون سوار تھا- تعلم پر کوئی خاص توجہ نہیں تھی -معیشت بہت حد تک ناتواں ہو چکی تھی- ایسے حالات میں کچھ قبائل نے مراکش کے مسلمانوں کو مدد کی درخواست کی - مسلمان حکمران جو کہ پہلے ہی ساری صورتحال کو دیکھ رہے تھے انہوں نے سپین پر لشکر کشی کا فیصلہ کر لیا اور کیونکہ اس وقت مسلمان متحد تھے اور سپین کی نسبت بہتر کلچر کو فروغ دے رہے تھے - اس لیے کامیابی انکا مقدر بنی اور انہوں نے کئی صدیوں تک سپین پر حکومت کی- تاریخ کا یہ پہلو ہماری ملکی تعلیم میں پوشیدہ رکھا جاتا ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ اسلام سپین کی فتح کا موجب بنا- جبکہ صحیح کہانی یہ ہے کہ اس وقت کے مسلمان آج کے مسلمانوں سے بہت مختلف تھے - انہوں نے اپنے ممالک میں ایسے طرز حکمرانی تشکیل دیے تھے کہ جنکو دیکھ کر غیر مسلم رشک کیا کرتے تھے- ان ہی اقدار کی وجہ سے انکو دینا میں عروج حاصل تھا- موجودہ سپین دیکھ کر دل ہی دل میں خوش ہوا اچھا ہے کہ آج سپین میں مسلمان حکمران نہیں ہیں ورنہ یہ بھی دوسرا پاکستان ہی ہوتا-

Browse More Urdu Literature Articles