Haqeeqi Nafa - Article No. 1113

Haqeeqi Nafa

حقیقی نفع - تحریر نمبر 1113

سلطان قزل ارسلان ایک ایسے مضبوب قلعہ میں رہتا تھا جسے کوئی دلیر سے فوج بھی فتح کرنے کی ہمت نہ رکھتی تھی ۔ اس قلعہ کی بلندی کوہ الوند سے برابری کا دعویٰ کرتی تھی اور ۔۔۔

پیر 21 نومبر 2016

حکایت سعدی رحمتہ اللہ علیہ :
سلطان قزل ارسلان ایک ایسے مضبوط قلعہ میں رہتا تھا جسے کوئی دلیر سے فوج بھی فتح کرنے کی ہمت نہ رکھتی تھی ۔ اس قلعہ کی بلندی کوہ الوند سے برابری کادعویٰ کرتی تھی اور یہ قلعہ مضبوطی کے علاوہ اپنی تعمیر میں بھی نہایت دلفریب اور خوش منظر تھا۔ اس قلعہ کی روئے زمین پر کوئی مشل نہ تھی ۔
یہ قلعہ اردگرد کے مناظر کے اعتبار سے ایسای معلوم ہوتا تھا جیسے سبز طباق میں کوئی انڈار رکھا ہوا ہو۔
ایک مرتبہ ایک درویش سیاحت کرتا ہوااس قلعہ کی جانب سے آنکلا۔ اس درویش کو سلطان قزل ارسلان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ سلطان قزل ارسلان نے اس درویش سے سوال کیا کہ تم نے دنیا دیکھی ہے اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے کیا تم نے روئے زمین پر اس طرح کا مضبوط اور خوش نما قلعہ کہیں دیکھا ہے ؟ تمہاری اس قلعہ کے متعلق کیا رائے ہے ؟ کیا کوئی ایسا ہے جو اس قلعہ کو فتح کرسکے ؟
اس درویش نے جب سلطان قزل ارسلان کی بات سنی توہنس پڑا اور بولا کہ تیرا یہ قلعہ بلاشبہ اچھا ہے لیکن میں اس بات کو ہرگزتسلیم نہیں کرسکتا کہ یہ مضبوط بھی ہے ۔

(جاری ہے)

کیاتو جانتا نہیں کہ تجھ سے پہلے جو لوگ اس میں رہتے تھے یہ قلعہ موت سے ان کی حفاظت نہیں کرسکا۔ اسی طرح یہ قلعہ تیری موت سے حفاظت نہیں کر سکے گااور تیرے بعد یقینا اس میں اور لوگ آبادہوں گے ۔
پھر اس درویش نے سلطان قزل ارسلان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اے سلطان ! تو اپنے باپ کے دور حکومت کو یاد کر اور اس بات کو دل سے باہر نکال پھینک کے تو ہمیشہ اس قلعہ میں رہنے والا ہے ۔

مقصود بیان :
حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ اپنی اس حکایت میں دنیا سے انسان کے حقیقی تعلق کو بیان کررہے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ ہر شخص ایک مقررہ وقت تک اس دنیا میں اپنا وقت گزارتا ہے۔ انسان اپنی ساری زندگی اسی جستجو میں بسر کردیتا ہے کہ وہ اپنے لئے زیادہ سے زیادہ آزمائش اور پرتعیش زندگی کا سامان اکٹھا کر لے۔ موت انسان کے سر پر منڈلارہی ہوتی اور پھر جب وہ اس کاانجام بن کر اس کے سامنے آتی ہے تو اسے یہ بات تسلیم کرنا پڑتی ہے کہ جن چیزوں کو وہ حقیقت سمجھتا رہاان کی حیثیت کچھ بھی نہیں تھی ۔

حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ کا اس حکایت کو بیان کرنے کا یہ مقصد ہرگزنہیں کہ انسان دنیا کو ترک کر دے بلکہ آپ رحمتہ اللہ علیہ تو انسان کو یادکروارہے ہیں کہ جس دنیا کو وہ اپنا سب کچھ سمجھ بیٹھا ہے اس کی کچھ حقیقت نہیں ہے اور جو لوگ دنیا کو اپنا سب کچھ سمجھ لیتے ہیں وہ خود کو ہلاکت میں مبتلا کردیتے ہیں۔ حقیقی نفع وہی حاصل کرسکتے ہیں جو دنیا کوآخرت کی کھیتی سمجھتے ہیں ۔

Browse More Urdu Literature Articles