Ishq Aur Khauf Main Bohat Faraq Hai - Article No. 1032

Ishq Aur Khauf Main Bohat Faraq Hai

عشق اور خوف میں بہت فرق ہے - تحریر نمبر 1032

انسان کو ہمیشہ وہ بات کرنی چاہئے جس کی تائیداس کا عمل کرسکے۔ کفار زبان سے تو اللہ عزوجل کے وجود کا اقرار کرتے ہیں لیکن ان کا عمل یہ ہے کہ وہ وبتوں کی پوجا کرتے ہیں۔

ہفتہ 26 مارچ 2016

حکایات رومی رحمتہ اللہ علیہ:
انسان کو ہمیشہ وہ بات کرنی چاہئے جس کی تائیداس کا عمل کرسکے۔ کفار زبان سے تو اللہ عزوجل کے وجود کا اقرار کرتے ہیں لیکن ان کا عمل یہ ہے کہ وہ وبتوں کی پوجا کرتے ہیں۔ ایک زہد کے مدعی کی خوبصورت بیوی تھی اور اس کی ایک لونڈی بھی حسین تھی۔ بیوی ہمیشہ شوہر کی نگرانی کرتی اور اسے کبھی تنہا اس لونڈی کے پاس نہ چھوڑتی تھی۔
تقدیر کا حکم ہوا اور بیوی حمام میں تھی کہ اسے یاد آیا کہ وہ طشت گھر بھول آئی ہے۔ لونڈی سے کہا کہ فوراََ گھر جاؤ اور جاکر وہ طشت لے آؤ۔ وہ حسین لونڈی بھی اپنے آقا کو پسند کرتی تھی جب وہ گھر پہنچی تو اس نے آقا کو خلوت میں پایا۔ شہوت کے جوش میں وہ دروازے کے کنڈی لگانا بھول گئے۔بیوی نے سوچا کہ میں نے تو روئی اور آگ کو خود اکٹھا کردیا وہ تیزی سے گھر کی جانب بھاگی۔

(جاری ہے)

بی بی اور لونڈی کے بھاگ رہی تھی۔
یہی کیفیت عارف اور زاہد کی سیرالی اللہ کی ہے۔ عارف کی سیر عاشقانہ اور زاہد کی سہر جہنم کے خوف کی وجہ سے ہے۔ بسط اور قبض اللہ عزوجل کی قدرت میں ہیں۔ عارف کا تھوڑا سا وقت عشق کے تحت بڑے بڑے کام کرجاتا ہے اور وہ قرب کے مقام جو زاہد پچاس سال میں طے کرتا ہے عاشق ایک ہی دن میں طے کرجاتا ہے۔
بسط وقبض کا یہ معاملہ عشق ووہم سے سمجھ نہیں آسکتا۔
انسان شہوت اور بھوک کا غلام ہے اس کی صفت خوف ہے۔ اللہ عزوجل کی صفت عشق ہے۔ قرآن مجید میں ہے کہ وہ اللہ کرتے ہیں اور اللہ ان سے محبت کرتا ہے۔ اس فرمان سے معلوم ہوتا ہے کہ محبت اللہ عزوجل کی صفت ہے اور اللہ عزوجل کی ہر صفت کمال سے متصف ہے۔ محبت کے کمال کو ہی عشق کہاجاتا ہے اس لئے عشق بھی اللہ عزوجل کی صفت ہوا۔ انسان میں اگر عشق ہے تو وہ اس صفت خداوندی کاپرتو ہے اصل نہیں ہے۔

عشق اور خوف میں بھی بہت فرق ہے۔ اللہ عزوجل کی صفت عشق غیر محدود ہے اور خوف یعنی قیامت تک کازمانہ محدود ہے۔ غیر محدود محدود میں نہیں سماسکتا۔ لہٰذا عشق خداوندی کابیان قیامت تک بھی ممکن نہیں ہے۔ زاہد کے خوف کی سیر پاؤں کے ذریعے ہوتی ہے اور عارف کی پرواز پانچ سو پروں والے عاشق کے ذریعے۔ زاہدعشق کی گرد تک نہیں پہنچ سکتا گر اللہ عزوجل کو نورزاہد کی دستگیری کرے تو پھر اس کو بھی عاشقانہ سیر حاصل ہوسکتی ہے۔
عشق سے جذب پیدا ہوتا ہے اور جذب جبرواختیار سے بالاتر ہے۔
مقصود بیان:
مولانا محمد جلال الدین رومی رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ زاہد کا زہداپنی جگہ مگر عارف چونکہ اللہ عزوجل کے عشق سے سرشار ہوتا ہے اس لئے عشق کی منازل طے کرنا اس کے لئے مشکل نہیں اور وہ اپنے اسی جذبہ عشق کی بدولت وہ مقام جوزاہد پچاس سالوں میں بھی طے نہیں کرسکتا ایک لمحہ میں طے کرجاتا ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles