Ishq Main Mehwiat K Baais Be Bas O Mazoor Hain - Article No. 1112
عشق میں محویت کے باعث بے بس ومعذور ہیں - تحریر نمبر 1112
ایک نہر کے کنارے اونچی دیوار تھی جس پر ایک مصیبت کامارا ہوا پیاسا بیٹھا تھا۔ یہ ایک مست اور بے چین عاشق تھا جو پیاس اور پانی کی طلب سے کمزور لاغرہوچکا تھا
جمعہ 18 نومبر 2016
حکایت رومی رحمتہ اللہ علیہ :
ایک نہرکے کنارے اونچی دیوار تھی جس پر ایک مصیبت کامارا ہواپیاسا بیٹھاتھا۔ یہ ایک مست اور بے چین عاشق تھا جو پیاس اور پانی کی طلب سے کمزور لاغرہوچکا تھا۔ یہ دیوار جس پر وہ بیٹھا تھا پانی کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی تھی حالانکہ پانی کے لئے وہ مچھلی کی طرح تڑپ رہاتھا۔ اس کی وہ دیوار پانی کی آڑ تھی اور پانی کے لئے اس کی دردناک فریاد آسمان تک جاپہنچی ۔ اچانک اس نے پانی میں ایک اینٹ پھینکی۔ طلب میں شدت تھی اس لئے اس کے کان میں پانی کی ایسی آواز گونجی جس طرح کوئی دوست میٹھی اور پرلطف گفتگو کررہا ہو۔ پانی کی طلب میں پانی کی اس آواز نے ہی اسے بے خود کردیا اور وہ آواز کوسننے کی کوشش میں اس دیوار سے اینٹیں اکھاڑ اکھاڑ کر پانی میں پھینکنے لگا۔
پس اس حکایت کو بیان کرنے کا مقصد یہی ہے کہ آب حیات جس تک تم پہنچنا چاہتے ہو وہ اپنے نفس کی دیوار کو گرانے کے بعد ہی ممکن ہوسکے گا۔ جس شخص میں محبوب کی طلب سچی ہوگی وہ اپنے نفس کی اس دیوار کی اینٹوں کو یونہی اکھاڑتا رہے گا اور جواپنے محبوب کی آرزو میں سچا ہوگا وہ اس کی آواز پر زیادہ عاشق ہوگا یہاں تک کہ محبوب کی راہ میں حائل دیوار گرجائے گی پھر اس کے اور محبوب کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہونے پائے گی ۔ جوانی کا وقت ایسا وقت ہے جب مجاہدوں سے زمین سرسبز ہوجاتی ہے اور برے اخلاق ورکاوٹوں کی اینٹیں اکھاڑ دینی چاہئیں اس لئے ریزہ ریزہ ہوجانے والی سست زمین بن جانے کی حالت سے پہلے ہی عمل کرلینا چاہئے ۔ جب ہر بنی ہوئی چیز اپنے بنانے والے کی ذات کی دلیل ہے تو کوئی موجود شے غیر موجود سے کیونکر وجود حاصل کرسکتی ہے ۔
تمام موجودات اسی باغ سے غذا حاصل کرتے ہیں خواہ براق ‘ عربی گھوڑے یا گدھے ہی کیوں نہ ہوں ۔ بات یہ ہے کہ اپنے نفس کے اندھے گھوڑے کو لگام دو جوباغ کو نہیں دیکھا سکتا۔ جس نے گردش زمانہ اسباب عالم کو بحر حقیقت یعنی من جانب اللہ نہ جانا وہ ہر دم نئے قبلہ کی تلاش میں رہتا ہے اور اس کا حال ایسا ہے جیسے اس نے شیریں دریا سے بھی کھارا پانی ہی پیا ہو ۔ مجبوری یہ ہے کہ ہم شمس دین (رحمتہ اللہ علیہ) کے عشق میں محویت کے باعث بے بس ومعذور ہیں ورنہ ہم اس حق ناشناس کو بینا کردیتے ۔
مقصود بیان :
مولانا محمد جلال الدین رومی رحمتہ اللہ علیہ یہاں اپنی دلی کیفیت بیان کرتے ہیں کہ جب سے ان کی ملاقات حضرت شاہ شمس تبریز رحمتہ اللہ علیہ سے ہوئی ہے انہوں نے عشق کے اسرارو رموز سے واقفیت حاصل کی ہے اوراب وہ اس میں اس قدر محوہوگئے ہیں کہ انہیں اپنے حال کی کچھ خبر نہیں ہے ۔
ایک نہرکے کنارے اونچی دیوار تھی جس پر ایک مصیبت کامارا ہواپیاسا بیٹھاتھا۔ یہ ایک مست اور بے چین عاشق تھا جو پیاس اور پانی کی طلب سے کمزور لاغرہوچکا تھا۔ یہ دیوار جس پر وہ بیٹھا تھا پانی کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی تھی حالانکہ پانی کے لئے وہ مچھلی کی طرح تڑپ رہاتھا۔ اس کی وہ دیوار پانی کی آڑ تھی اور پانی کے لئے اس کی دردناک فریاد آسمان تک جاپہنچی ۔ اچانک اس نے پانی میں ایک اینٹ پھینکی۔ طلب میں شدت تھی اس لئے اس کے کان میں پانی کی ایسی آواز گونجی جس طرح کوئی دوست میٹھی اور پرلطف گفتگو کررہا ہو۔ پانی کی طلب میں پانی کی اس آواز نے ہی اسے بے خود کردیا اور وہ آواز کوسننے کی کوشش میں اس دیوار سے اینٹیں اکھاڑ اکھاڑ کر پانی میں پھینکنے لگا۔
(جاری ہے)
پانی سے اس پیاسے سے کہا کہ مجھ پر اس طرح اینٹیں مارنے سے تجھے کیا حاصل ؟
پیاسے نے کہا کہ میرے اس میں دوفائدے ہیں اس لئے میں اس کام سے باز نہ آؤں گا۔
پس اس حکایت کو بیان کرنے کا مقصد یہی ہے کہ آب حیات جس تک تم پہنچنا چاہتے ہو وہ اپنے نفس کی دیوار کو گرانے کے بعد ہی ممکن ہوسکے گا۔ جس شخص میں محبوب کی طلب سچی ہوگی وہ اپنے نفس کی اس دیوار کی اینٹوں کو یونہی اکھاڑتا رہے گا اور جواپنے محبوب کی آرزو میں سچا ہوگا وہ اس کی آواز پر زیادہ عاشق ہوگا یہاں تک کہ محبوب کی راہ میں حائل دیوار گرجائے گی پھر اس کے اور محبوب کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہونے پائے گی ۔ جوانی کا وقت ایسا وقت ہے جب مجاہدوں سے زمین سرسبز ہوجاتی ہے اور برے اخلاق ورکاوٹوں کی اینٹیں اکھاڑ دینی چاہئیں اس لئے ریزہ ریزہ ہوجانے والی سست زمین بن جانے کی حالت سے پہلے ہی عمل کرلینا چاہئے ۔ جب ہر بنی ہوئی چیز اپنے بنانے والے کی ذات کی دلیل ہے تو کوئی موجود شے غیر موجود سے کیونکر وجود حاصل کرسکتی ہے ۔
تمام موجودات اسی باغ سے غذا حاصل کرتے ہیں خواہ براق ‘ عربی گھوڑے یا گدھے ہی کیوں نہ ہوں ۔ بات یہ ہے کہ اپنے نفس کے اندھے گھوڑے کو لگام دو جوباغ کو نہیں دیکھا سکتا۔ جس نے گردش زمانہ اسباب عالم کو بحر حقیقت یعنی من جانب اللہ نہ جانا وہ ہر دم نئے قبلہ کی تلاش میں رہتا ہے اور اس کا حال ایسا ہے جیسے اس نے شیریں دریا سے بھی کھارا پانی ہی پیا ہو ۔ مجبوری یہ ہے کہ ہم شمس دین (رحمتہ اللہ علیہ) کے عشق میں محویت کے باعث بے بس ومعذور ہیں ورنہ ہم اس حق ناشناس کو بینا کردیتے ۔
مقصود بیان :
مولانا محمد جلال الدین رومی رحمتہ اللہ علیہ یہاں اپنی دلی کیفیت بیان کرتے ہیں کہ جب سے ان کی ملاقات حضرت شاہ شمس تبریز رحمتہ اللہ علیہ سے ہوئی ہے انہوں نے عشق کے اسرارو رموز سے واقفیت حاصل کی ہے اوراب وہ اس میں اس قدر محوہوگئے ہیں کہ انہیں اپنے حال کی کچھ خبر نہیں ہے ۔
Browse More Urdu Literature Articles
پانی کا تحفہ
Paani Ka Tohfa
بڑھیا کی بلی
Burhiya Ki Billi
ضمیر کی آواز
Zameer Ki Awaz
بیٹی کی شادی
Beti Ki Shaadi
Urdu AdabAdab Nobal PraizPakistan K Soufi ShaairOverseas PakistaniMushairyInternational Adab
Arabic AdabGreek AdabBangal AdabRussian AdabFrench AdabGerman AdabEnglish AdabTurkish AdabJapanes AdabAfrican AdabEgyptian AdabPersian AdabAmerican Adab
National Adab
ApbeetiAfsanaMazmoonInterviewsAdab NewsBooks CommentsNovelLiterary MagazinesComics WritersAik Kitab Aik Mazmoon100 Azeem AadmiHakayaatSafarnamaKahawatainAlif Laila Wa LailaTaqseem E Hind