Bhatkay Qadam - Article No. 1144

Bhatkay Qadam

بھٹکے قدم - تحریر نمبر 1144

وہ کہنے لگی ” مجھے زہر لادیں میں خود کشی کرنا چاہتی ہوں

ہفتہ 7 جنوری 2017

جاوید راہی :
میرے سامنے پندرہ سولہ سال کی نوجوان معصوم نازک سی ننھی پری بیٹھی رو رہی تھی ۔ میرے مشفقانہ روئیے سے اُس کے اندر غم کاسیلاب پھوٹ پڑا تھا۔ اُس کے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے تھے ۔ کچھ دیر بعد اُس کے اعصاب بحال ہونے لگے ۔ اُس کے جسم کا لرزنا آہستہ آہستہ کم ہورہا تھا۔ دراصل خوف نے اُس کی ہڈیوں تک رسائی حاصل کرلی تھی وہ عقل وفہم سے محروم ہوچکی تھی ۔

معصوم پری شاید پہلی بار گھر سے نکلی تھی ۔ وہ جو بچپن سے آج تک ماں بھائی یا والد کی انگلی تھام کر نکلتی تھی آج پہلی بار کسی پارک میں اکیلی بیٹھی تھی ۔ اوباش نوجوان اُس سے چھیڑخانی کررہے تھے ۔ وہ جو عزت کی پوٹلی تھی آج اُس کے نازک جسم اورچہرے پرگندی نظریں پڑیں تووہ اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھی ۔

(جاری ہے)

اُس نے آج تک اس طرح کے حالات نہیں دیکھے تھے وہ اگرکبھی رات کو اٹھتی تھی تو والدوالدہ اُس کے ساتھ اٹھ جاتے ۔

آج وہ اپنی زندگی کی سب سے تلخ اورخوفناک تجربے سے گزری تھی ۔
اُس کی حالت اور پھوٹ پھوٹ کررونا مجھ سے برداشت نہیں ہورہا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ نوجوانی میں قدم رکھتے ہی بابل کی یہ معصوم چڑیاں بابل کی وہلیز سے باہر قدم نکالنے وقت یہ بالکل بھی نہیں سوچتیں کہ دنیا میں خدا کے بعد ماں باپ ہی اُس کے سب سے زیادہ حمایتی وفادار اور جان دینے والے ہیں، جو ان کے لیے اپنی ضرورتوں کاگلا گھونٹ دیتے ہیں ان کی تمام ضروریات پوری کرتے ہیں۔
رات کو اگر کسی بچے کے اوپر کپڑا نہ ہوتو فوری کپڑا دیتے ہیں۔ اگربچہ بیمار ہوتو ساری رات اُس کے سرہانے بیٹھ کر اُس کو دوائی دیتے ہیں۔ اور اگر خدا نہ کرے کبھی بیماری لمبی ہوجائے تو ایک ڈاکٹر سے دوسرے ڈاکٹر حکیموں بابوں مزاروں پر کس طرح دیوانہ وار جاکر ماتھار گڑتے ہیں۔ خود کپڑے نہیں لیتے ان کو نئے کپڑے لے کر دیتے ہیں خود ساری عمر پیدل یالوکل ، بسوں ویگنوں پر سفر کرتے ہیں ان کوکارلے کردیتے ہیں۔
روزانہ صبح سویرے اٹھ کر ان کوتیار کرانا ناشتہ کرانا اور خود سکول چھوڑ کرآنا اور اگر کبھی دوپل کے لیے بھی یہ بچے نظروں سے اوجھل ہوجائیں ان کافون بند ہوجائے یاسکول سے لیٹ ہوجائیں تو وہ دیوانوں کی طرح ننگے پاؤں گھر سے نکل پڑتے ہیں۔
ان کی ہر پریشانی پر خداکے سامنے ایک ہی دعا کرتے ہیں کہ اللہ میاں اس کی پریشانی اور بیماری مجھے دے دو اس کو آرام دو اس کی پریشانی بیماری ختم کردو، ان کے منہ سے نکلی ہوئی ہربات پوری کرتے ہیں۔

حیرت ہوتی ہے ایسے بچوں پر جب وہ دن کی دوستی کے لیے اپنی ماں باپ سے نافرمانی کرتے ہیں اور یہ بیٹیاں جن پربابل جان دیتا ہے جب یہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی ہیں تو وہ ماں باپ کی تمام خدمات کس طرح ایک سکینڈ میں بھول کر چند دن کے دوست یا چند فون کالوں پر بھول جاتی ہیں۔ اور پھرزمانے بھر کی ٹھوکریں کھاتے اپنی عزت تارتار کر کے واپس بابل کی طرف آتی ہیں تو وہ سراپارحمت پھران کو اپنی آغوش میں لے لیتا ہے۔
کاش یہ معصوم پریاں بابل کی دہلیز پھلانگنے سے پہلے ایک بارسوچ لیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ اگر کوئی وفادار جانثار ہیں تویہ والدین ہیں جن کو یہ ٹھوکر مارکربھاگ جاتی ہیں۔ اُس شخص کے لیے جوان کوذلیل کرتا ہے، گالیاں دیتا ہے اوراکثر چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے یاکسی کے ہاتھ بیچ دیتا ہے یاپھر جان چھڑانے کیلئے ماردیتا ہے ۔
میں اپنی سوچوں میں گم تھا سیکورٹی گارڈ نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا ”جناب رات ہو گئی ہے اندھیرے نے چاروں طرف قبضہ جمالیا ہے اب اس لڑکی کاکیا کرتا ہے ۔
ننھی پری رورو کرچپ کر گئی تھی اور نظریں جھکائے بیٹھی تھی۔ میں نے اُس سے پوچھا” بیٹھی آپ کہاں سے آئی ہو آپ کے والد کا کیا نام ہے۔ تو اس نے انکارکر دیا کہ اگر وہ گھر گئی تو اس کے گھروالے اس کومار دیں گے ۔ وہ کہنے لگی آپ مجھے کہیں سے زہرلا دیں۔ خود کشی کرنا چاہتی ہوں یامیرا گلاگھونٹ دیں میں نے اس جگہ سے اب کہیں نہیں جانا۔ میں باربار اس کاایڈریس پوچھ رہاتھا لیکن وہ بتانے پربالکل بھی تیار نہیں تھی۔
اب میں نے اسے پولیس کاخوف دلایا کہ تم کوتھانے بند کرادیتا ہوں تو وہ تھوڑاسا ڈرگئی ۔ اب میں نے کہا ” ٹھیک ہے تم اپنے گھر نہ جاؤ کسی دوست رشتے دار کانمبردو۔ وہ اس بات پر راضی ہوئی اور اپنی دوست کانمبر دیا۔ میں نے تھوڑی دور جاکر اس کانمبر ملایا جومل گیا تو اُس سے اس لڑکی کے باپ کانمبر لیا۔ اب میں نے فوری طور پر اُس کے باپ کوفون کیا۔
اس کاباپ تقریباََ 50 کلومیٹر دور چھوٹے شہر میں رہتا تھا اور صبح سے پاگلوں کی طرح اس کوڈھونڈ رہاتھا۔ میں نے اُسے کہا ”میں اسکو اس کی دوست کی طرف لا رہا ہوں آپ ادھر آجاؤ ۔ اب بڑی مشکل سے لڑکی کو منایامکہ آپ اپنی دوست کی طرف چلو تو وہ مان گئی ہم اب کار میں اُس لڑکے سے پندرہ دن پہلے بات چیت شروع ہوئی تو میں خوابوں کی دنیا سجائے اس سے ملنے آگئی ۔
سارا دن اُس کے پاس رہی ۔ شام سے پہلے وہ مجھے یہاں چھوڑ کر چلاگیا اور اپنا موبائل بندکردیا۔ بس ایک بارفون کرکے کہا ” واپس چلی جاؤ میں تو تم سے مذاق کررہاتھا مجھے تم سے کوئی محبت نہیں ہے ۔
اس کے سارے خواب ریزہ ریزہ ہوکر بکھرگئے اب یہ خوفزدہ تھی کہ باپ بھائی اس کوقتل کردے گا اپنی باتوں میں ہم اُس کے شہرپہنچ گئے اُس کی دوست کے گھر جاکر ڈرائینگ روم میں بیٹھے تواُس کے والدین بھی آگئے پہلے تو وہ بہت خوفزدہ حیران ہوئی لیکن جب باپ نے رو رو کرگلے لگایا پیار کیاتونا رمل ہوئی ماں باپ کی آنکھوں سے خوشی کے آنسوؤں کاسیلاب جاری تھا اور وہ ہاتھ جوڑے شکریہ ادا کررہے تھے لاہور واپسی پر میں سوچ رہاتھا کہ بابل کاآنگن چھوڑنے والی یہ ننھی پریاں بھول جاتی ہیں۔
کہ باہروحشی جنسی درندے اُن کاانتظار کر رہے ہیں۔ اللہ سب کی عزتیں محفوظ رکھے آمین ۔

Browse More Urdu Literature Articles