Charles Darwin 1809 To 1882 - Article No. 918

Charles Darwin 1809 To 1882

چارلس ڈارون 1882ء۔1809ء - تحریر نمبر 918

فطری انتخاب کے طریقے سے ہونے والے عضویاتی ارتقاء کا نظریہ پیش کرنے والا چارلس ڈارون 12 فروری 1809ء کو انگلستان کے چہر شیروز بری میں پیدا ہوا۔۔۔

جمعرات 25 جون 2015

فطری انتخاب کے طریقے سے ہونے والے عضویاتی ارتقاء کا نظریہ پیش کرنے والا چارلس ڈارون 12 فروری 1809ء کو انگلستان کے چہر شیروز بری میں پیدا ہوا عین اسی روز ابراہام لنکن کی بھی پیدائش ہوئی۔سولہ برس کی عمر میں وہ طب کے مطالعہ کے لیے ایڈن برگ یونیورسٹی میں داخل ہوا۔تاہم اسے طب اور علم الاعضاء دونوں ہی بے کیف علوم محسوس ہوئے۔ تھوڑے ہی عرصہ بعد وہ کیمبرج منتقل ہوگیا۔
کیمبرج میں اسے گھڑسواری اور چاند ماری جیسے مشاغل پڑھنے سے کہیں زیادہ موافق معلوم ہوئے تاہم وہ اپنے ایک پروفیسر کو اتنا متاثر کرنے میں کامیاب ہوگیا کہ ایچ۔ایم۔ایس۔بیگل کے تحقیقی دورے میں ماہر علم طبیعیات کی حیثیت سے اس کا تقر ہوگیا۔ اس تقرری کو قبول کر لینے پر چارلس کے باپ نے اس کی مخالفت بھی کی۔

(جاری ہے)

اس کا خیال تھا کہ اس طرح کا سیر سپاٹا نوجوان کو کسی بھی سنجیدہ کام کے آغاز کو موخر کردینے کا بہانہ فراہم کرے گا۔

خوش قسمتی سے باپ کو اس امر پر راضی کر لیا گیا کہ وہ اسے سفر پر جانے کی اجازت دے۔ بعد ازاں یہ بحری دور مغربی دنیا کی سائنس کی تاریخ گراں بہا ثابت ہوا۔
1831ء میں بائیں برس کی عمر میں ڈارون بیگل کے ساتھ سفر پر روانہ ہوا۔ اگلے پانچ برسوں میں بیگل نے دنیا کے گرد چکر لگایا۔ بڑے سکون کے ساتھ وہ جنوبی امریکہ کے ساحلوں پر کنارے کنارے چلتا رہا۔
دور دراز گلاپگوز جزیروں پر تحقیقی کام کیا بحرالکاہل کے دیگر جزیروں کی سیر کی۔ وہ بحیرہ عرب اور جنوبی بحراوقیا نوس بھی گیا۔ اس طویل وقفہ کے سفر میں ڈارون نے بڑے فطری عجائبات کا مشاہدہ کیا قدیم قبائل سے ملاوقات کی بڑی تعداد میں فوسلز دریافت کیے اور بے انتہاء انواع کے پودوں اور حیوانوں کا مشاہدہ کیا۔ مزید برآں وہ اپنے مشاہدات کو تفصیلا لکھتا رہا۔
ان حوالہ جات نے اس کی بعد کی تمام تحریروں کے لیے ایک اساس مہیا کی۔ انہی سے اس نے اپنے کئی ایک بنیادی نظریات کو وضع کیا۔ انہی سے اسے وہ ٹھوس شواہد بھی فراہم ہوئے جنہوں نے اس کے نظریات کو اس درجہ مقبول عام بنایا۔
1836ء میں ڈارون گھر لوٹا۔ اگلے بیس برسوں میں اس نے کتابوں کا ایک سلسلہ تحریر کیا جنہوں نے انگلستان میں اسے ممتاز ماہرین حیاتیات کی صف میں لاکھڑا کیا۔
1837ء کے اوئل میں ہی ڈارون اس خیال پر متفق ہوگیا کہ حیوانی اور نباتاتی انواع غیر لچک پذیر نہیں بلکہ یہ طبقات الارض کی تاریخ میں طویل عرصہ میں ارتقاء پذیر ہوئیں۔ اس دور میں اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس ارتقاء کے نتائج کیا ہوسکتے تھے؟ 1838ء میں اس نے تھا مس مالتھس کا مقالہ بعنوان آبادی کے قوانین پر ایک مقالہ پڑھا۔ اس مضمون سے اسے اس نظریہ کا اشارہ ملا کہ تنازع اللبقاء کے نتیجے میں فطری انتخاب عمل میں آتا ہے۔
تاہم فطری انتخاب کے اصول کی تشکیل سازی کے باوجود اس نے اپنے نظریات کی اشاعت میں عجلت نہ برتی اسے احساس تھاکہ اس نظریہ سے شدید تنازعات پیدا ہوجائیں گے سواس نے ایک طویل عرصہ احتتاط سے شواہد اکٹھے کرنے اور اپنے مفروضہ کے حق میں دلائل کو ترتیب دینے میں صرف کیا۔
1842ء کے اوائل میں اس نے اپنے نظریہ کا ایک خاکہ لکھا۔ 1844ء تک ایک کتاب لکھتا رہا تاہم جون1858ء میں جب ڈارون ابھی اپنی عظیم کتاب میں ترمیم اور اضافے کررہا تھا اسے الفرڈرسل ویلاس کا ایک مسودہ موصول ہوا۔
وہ مشرقی انڈیز میں مقیم ایک انگریز ماہر طبیعیات تھا۔ ویلاس نے ارتقاء اپنا نظریہ بیان کیا تھا۔ کسی اعتبار سے ویلاس کا نظریہ ڈارون سے مختلف نہیں تھا۔ ویلاس نے اپنا نظریہ کلیتا آزادانہ طور پر وضع کیا تھا اور مسودہ چھپوانے سے پہلے ایک ممتاز سائنسدان کی رائے لینے کی غرض سے اسے بھجوایا تھا۔ یہ ایک پریشان کن صورت حال تھی۔ جو بہت آسانی سے سبقت لے جانے کی کشمکش میں تبدیل ہوسکتی تھی۔
اگلے مہینے ویلاس کے مقالے اور ڈارون کی کتاب کے خاکے کو ایک مشترکہ مضمون کی صورت میں ایک سائنسی تنظیم کے روبروپیش کیا۔
اس مشترکہ پیشکش پر کسی نے کوئی خاص توجہ نہ دی ۔ تاہم اگلے برس ڈارون کی کتاب ’آفرینش انواع شائع ہوئی۔ جس نے ایک انقلاب برپا کیا۔ سائنسی موضوعات کے ساتھ موضوع بحث بنیا۔ ان لوگوں میں سائنسدان بھی شامل تھے اور عوام بھی۔
بحث کے موضوعات کچھ یوں تھے ( 1) فطری انتخاب کے توسط سے آفرینش انواع‘ یا(2) تنازع اللبقاء میں منتخب انواع کا ارتقاء۔ 1871ء میں مباحث کی گرما گرمی ابھی زوروں پر تھی جب ڈارون نے انسان کا زوال اور انتخاب بلحاظ جنس کے عنوان سے کتاب شائع کی۔ اس کتاب نے جس میں یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ انسان کا ارتقاء بندر نما مخلوق سے ہوا ان مباحث میں جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا۔

اپنے نظریات پر ہونے والے ان عوامی مباحث میں ڈارون نے کوئی حصہ نہ لیا۔ جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ بیگل کے سفر سے واپسی کے بعد سے اس کی صحت درست نہیں رہی تھی یہ عارضہ اسے جنوبی امریکہ میں ننھے کیڑوں کے کاٹنے سے لاحق ہوا تھا۔ ارتقاء کے نظریہ کے حامیوں کے پاس تھا مس ۔ ایچ ہکسلے کی صورت میں ایک مشتاق وقت اہم سائنسدانوں کی اکثریت ڈارون کے نظریات کی درستی پر ایمان لاچکی تھی۔

ڈارون انواع کے ارتقاء کے نظریہ کا بانی نہیں تھا چند احباب اس سے قبل یہ مفروضہ کر چکے تھے۔ جن میں فرانسیسی ماہر طبیعیات ژاں لیمارک اور چارلس کے دادا‘ اراسمس ڈارون شامل تھے۔ لیکن ان مفروضات نے سائنسی دنیا میں کبھی قبول عام حاصل نہ کیا کیونکہ ان کے داعی کبھی ان احوال کی قابل اطمینان توضیح نہ پیش کر سکے جن کے تحت ارتقاء کا عمل ہوا۔
ڈارون کا کارنامہ اصل میں یہ تھا کہ اس نے نہ صرف فطری انتخاب کا پورا انظام پیش کیا جس کے ذریعے ارتقاء وقوع پذیر ہوا بلکہ اپنے مفروضے کے حق میں کافی زیادہ دلائل وبراہین بھی فراہم کیے۔
یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ ڈارون نے اپنے نظریہ کی تشکیل علم خلق(Geneties) سے استفادہ یا یوں کہئے کہ اس سے کچھ آگاہی حاصل کیے بغیر کی ۔ڈارون کے دور میں کوئی اس بارے میں کچھ علم نہیں رکھتا تھا کہ کس عجیب طریقے سے خاص اوصاف ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتے ہیں ۔
ہر چند کہ انہی برسوں میں جب ڈارون اپنی ہنگامہ خیز کتابیں لکھ اور چھاپ رہا تھا گریگر مینڈل نے وارثت کے قوانین پر کام شروع کردیا تھا۔مینڈل کا کام جو ڈارون کے کام سے بے انتہا موافق تھا 1900ء تک اہل علم کی توجہ حاصل نہیں کر سکا۔ جبکہ تب ڈارون کے نظریات نے ہر طرف دھوم مچادی تھی۔ سوارتقاء کے متعلق ہمارا جدید علم جو وراثت کے خلقی مراحل کو فطری انتخاب کے عمل سے مربوط کرتا ہے ،ڈارون کے تجویز کردہ نظریہ سے کہیں زیادہ مکمل ہے۔

انسانی فکر پر ڈارون کے اثرات بہت گہرے ہیں۔ خالصتا سائنسی نقطہ نگاہ سے اس نے حیاتیات کے علم میں انقلاب بپا کر دیا۔ فطری انتخاب ایک عالمگیر اصول ہے اس اصول کو دیگر میدانوں میں بھی منطبق کرنے کی سعی کی گئی جیسے علم آثار قدیمہ‘ عمرانیات سیاسیات اور معاشیات۔
تاہم اس کے سائنسی اور عمرانیاتی مفہوم سے کہیں زیادہ اہم بات وہ اثرات ہیں جو ڈارون کے نظریات نے مذہبی فکر پر ثبت کیے۔
ڈارون کے دور میں اور اس کے بعد کئی سالوں تک بیشترراسخ العقیدہ عیسائیوں کا خیال تھا کہ ڈارون کے نظریات کی قبولیت سے مراد مذہبی عقائد کی بے حرمتی ہے۔ ان کا خوف غالبا باجواز تھا حالانکہ یہ واضح ہے کہ مذہبی جوش وجذبہ کے عمومی انحطاط میں اس کے علاوہ بھی متعدد عوامل نے اہم کردار ادا کیا۔ (ڈارون خودلاادری بن گیا)۔
ایک لادینی سطح پر بھی ڈارون کے نظریات نے دنیا کے متعلق انسانی نقطہ نظر میں عظیم تغیرات برپا کیے۔
بنی نوع انسان کو من حیث المجموع اشیاء کے فطری نظام میں شمار انواع حیات میں سے ایک نوع تھے۔ ہمیں اس امکان سے صرف نظر نہیں کرنا چاہیے کہ کسی روز کوئی نوع ہم پر برتری حاصل کر سکتی ہے۔ ڈارون کی تحریروں کے نتیجے میں ہیر یکلیتس کے اس مقولہ نے کہ سوائے تبدیلی کے کوئی شے حتمی نہیں ہے قبول عام حاصل کیا۔انسان کے آغاز سے متعلق عمومی توضیح کی حیثیت سے ارتقاء کے نظریہ کی کامیابی نے اس عقیدے کو زیادہ مضبوط بنیادوں پر استوار کیا کہ سائنس میں تمام طبیعی سوالات کا جواب دینے کی اہلیت موجود ہے (لیکن افسوس کہ سبھی انسانی مسائل کا جواب نہیں)۔
ڈارون کی اصطلاحات جیسے بقائے اصلح(Struggle for Survival) اور بقا برائے بہترین ہماری عمومی لغت کا حصہ بن گئیں۔
ظاہر ہے اگر ڈارون پیدا نہ بھی ہوتا یہ نظریات تب بھی معرض وجود میں آجاتے۔ درحقیقت ویلاس کی مثال ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کی بنیاد پر یہ بات کسی بھی دوسری عظیم شخصیت کی نسبت ڈارون پر زیادہ صاد آتی ہے۔ بہر کیف یہ ڈارون کی تحریریں ہی تھیں جنہوں نے حیاتیات اور علم آثار قدیمہ میں انقلابی ترامیم پیدا کیں اور دنیا میں انسان کے مقام وکردار کو بدل کر رکھ ڈالا۔

Browse More Urdu Literature Articles