Chotay Moton Ka Bachpan - Article No. 1097

Chotay Moton Ka Bachpan

چھوٹے موٹوں کا بچپن - تحریر نمبر 1097

کسی اخبار میں یہ خبر پڑھی تھی کہ ایک معروف گلوکار نے اپنا وزن ستّر کلو ( 70kg)گھٹا لیا۔ ہم اگر ایسا کریں تو ہمار ا کُل وزن گھٹ کر منفی پانچ کلو، یعنی minus 5kg رہ جائے۔ بات سوچنے کی ہے۔ آپ ہی سوچیں …

بدھ 28 ستمبر 2016

نادر خان سَرگِروہ:
کسی اخبار میں یہ خبر پڑھی تھی کہ ایک معروف گلوکار نے اپنا وزن ستّر کلو ( 70kg)گھٹا لیا۔ ہم اگر ایسا کریں تو ہمار ا کُل وزن گھٹ کر منفی پانچ کلو، یعنی minus 5kg رہ جائے۔ بات سوچنے کی ہے۔ آپ ہی سوچیں …
موٹے طور پر دیکھا جائے تو موٹاپا خود ایک موٹی بیماری ہے اور اِسے دُور کرنے کے لیے روزانہ کم اَز کم آدھا گھنٹہ تیز تیز قدموں سے چہل قدمی کرنا ضروری ہے۔
ویسے یہ کام موٹاپا آنے سے پہلے کرنا چاہیے، کیوں کہ بغیر بوجھ کے آدھا گھنٹہ چلنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ موٹاپے کے ساتھ آدھا گھنٹہ چلنے کے لیے آپ کو پورا ایک گھنٹہ درکار ہوگا اور اُس پر تیز قدم چلنے سے فربہ اندام کمر کے لچک جانے کا بھی موٹا امکان ہے۔ یوں تو آج کل ایک خاص طبقے میں چہل قدمی کا چلن چلا ہے، لیکن اُس میں چہل قدمی کم اور ’ چُہل قدمی‘ زیادہ ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

اور جب دو خواتین مِل کر چہل قدمی کرتی ہیں تو وہ چہل قدمی … سَہْل قدمی بن جاتی ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ انسان ہوتے ہوتے موٹا ہوتا تھا ۔ لیکن اب؟… ہوتے ہی موٹا ہوتا ہے۔ موٹاپے کا بوجھ اب بچوں پر بھی آن پڑ نے لگا ہے۔ وہ اپنے ’ بچپن کے دشمن ‘ میاں موٹاپے کو پَل پَل اُٹھائے پھرتے ہیں اور ہر پَل اُسے اُتار پھینکنے کے لیے بے چین بھی رہتے ہیں۔
یوں تو موٹاپے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ موٹاپا کچھ بچوں کو وراثت میں بھی ملتا ہے۔ بعض والدین جائداد کا بٹوارہ کرنے سے پہلے بچوں میں موٹاپے کا بٹوارہ کر دیتے ہیں۔ بڑے میاں سو بڑے میاں، چھوٹے میاں سبحان اللہ!
کچھ بچوں کو یہ موٹاپا اُن کے کَرتُوت کی وجہ سے بھی ملتا ہے۔ ویڈیو گیمز میں اُچھلنے کودنے والے اور جَنک فُوڈ کھانے والے آج کل کے یہ بچے نہ تو اسکول میں دوڑتے ہیں نہ گھر میں ہلتے ڈُلتے ہیں۔
اگر اِن سے کوئی چیز لانے یا بڑھانے کو کہو تو ٹَس سے مَس نہیں ہوتے۔ اور ایک ہم تھے کہ دوڑ کر اسکول جایا کرتے تھے اور اکثر بھاگ کر آجایا کرتے تھے۔ پھر ہر دوسرے دن مُرغا بھی بنتے تھے۔ ایک تو بھاگو دوڑو اور اُس پر مُرغا بھی بنو۔ گھر میں جب ہمیں کوئی سَودا لانے کو کہتا تو ہم خوش ہوتے کہ اِس بہانے ہمیں گھر کی قید سے ’ باشرارت بَری‘ ہونے کا موقع ملتا اور اُوپر کی کمائی الگ ہوتی۔
ساتھ ہی ہم گھر سے بازار تک اور بازار سے گھر تک لَم…با چکّر کاٹ کر آتے۔ لگے ہاتھوں راستے میں محلّے کے لڑکوں کے چلتے کھیل میں گُھس کر، دو تین داؤ بھی کھیل لیتے اور جاتے جاتے کھیل بگاڑنے کی پاداش میں ر فقاء کے ساتھ ہاتھا پائی میں پَٹخَنیاں بھی کھاتے۔ راستے میں اگر کوئی درخت ہماری طرف آتا دکھائی دیتا تو اُس کی جھکی ہوئی ڈال سے لٹک کر جھولا جھولتے۔
کسی کُتے کے پِلّے کو دوڑا کر اُس کے پیچھے دوڑتے، یہاں تک کہ وہ شاطر پِلّا ہمیں بڑے بڑے کتوں کے جم گھٹ میں لا کر چھوڑ دیتا۔ پھر وہ سب مل کر ہمیں اُلٹے پاؤں د وڑاتے۔ اور ہم پیچھے دیکھے بغیر دُم دبا کر بھاگتے۔ یہاں تک کہ ہما را گھر دوڑ کر ہمارے پاس آ جاتا۔ اب بتائیں ! ایک چھوٹی سی مُہم میں ہم اِتنے سارے کام بھگتا کر لوٹتے تھے، تو بھلا! موٹاپے کی کیا مجال جو ہما رے آ س پاس بھی پھٹکتا۔

کوئی بچہ اپنا بستہ بڑی مشکل سے اُٹھا پاتا ہے۔ اسکول جاتے وقت بستے کے بوجھ سے کمر جھکی جھکی جاتی ہے (اسکول سے لوٹتے وقت بھی جھکتی ہے، مگر اُتنی نہیں ) جب کہ ایک موٹا تازہ بچہ جو دَس، بیس کلو … چربی دار گوشت اپنی نرم و نازک ہڈیوں پر، چلتے پھرتے، اُٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے اُٹھاتا ہے۔ اگر اُتنا ہی گوشت کسی عام بچے سے، گوشت کی دُکان سے روزانہ منگوایا جائے تو سوچیں! اُس بے چارے کا کیا حال ہوگا۔

بچپن …پلک جھپکتے گزر جاتا ہے۔ اِس مختصر سے عرصے میں کھیلنا، اُچھلنا، کود نا ہر بچے کا حق ہے۔ اور موٹاپا اُن کا یہ حق دَبا دیتا ہے۔ ہم تو ہمیشہ یہ دعا کرتے ہیں کہ کسی دشمن کے بچے کو بھی موٹاپا نصیب نہ ہو۔ دوست کے بچے کو تو ہو ہی نا! اُس کو کھِلانے پِلانے اور گود میں اُٹھانے میں ہی ہمارا حال پتلا ہوگا۔ سو … اپنے تمام دوستوں کو ہمارا یہ نہایت ہی کم وزن مشورہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو موٹاپے کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہیں کہ اُن سے یہ دوستی نبھائی نہ جائے گی۔ اُن سے یہ بوجھ اُٹھایا نہ جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( مارچ ، دو ہزار آٹھ)

Browse More Urdu Literature Articles