Dil Se Maangi Dua - Article No. 1140

Dil Se Maangi Dua

دل سے مانگی دعا - تحریر نمبر 1140

غریب لڑکی کی غیرت جاگی اور باس کو کھری کھری سنادیں

پیر 2 جنوری 2017

تسنیم حامد صدیقی :
ہم لوگوں کے بارے میں بہت جلد رائے قائم کرلیتے ہیں، حالانکہ اکثر یہ رائے غلط ہوتی ہے ۔ ایسا ہی ایک سچاواقعہ میری بھانجی فرزانہ کے ساتھ پیش آیا ہے جو میں اسی کی زبانی قلمبند کررہا ہوں۔
میں ایف اے کرنے کے بعد بڑی مشکل سے ایک پرائیوٹ فرم میں ملازمت حاصل کرپائی تھی ۔ ہماری کمپنی کااصول تھا کہ کسی بھی افسر کے ایک سال تک رہنے کے بعد دوسرا افسر آجاتا تھا اور میں چونکہ پرائیوٹ سیکرٹری تھی ، جو بھی افسرآتا مجھے ان کی سب چیزوں کاخیال رکھا پڑتاتھا۔
اس ملازمت کے دوران مجھے کئی افسران سے پالا پڑا۔ ہرشخص کاالگ مزاج اور کردار تھا۔ کئی افسران مجھے اپنے کمرے میں بلا کر غیر ضروری باتیں کرتے ، جس سے میری ان کے بارے میں یہ رائے بن گئی کہ تمام افسر ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

اورماتحت لڑکیوں کے احترام کاخیال نہیں رکھتے
وقت گزرتا گیا، پھر ایک صاحب کراچی کمپنی سے ترقی پاکرلاہور ہماری فرم میں میرے باس مقرر ہوئے وہ بہت مغرور اور اصول پرست تھے ، کسی کو دفتر میں اپنے کسی عزیز یادوست کے ساتھ ملاقات کرنے کی اجازت نہیں تھی ۔

وہ خو دبھی اس اصول پر کاربند تھے ۔ مجھے بھی ضروری کام سے بلاتے اور مختصرسی بات کرنے کے بعد کہتے ” جائیں اپنی سیٹ پر جاکر یہ لیٹر جو میں نے تحریر کیا ہے اس کو چیک کرکے ہیڈآفس روانہ کردیں۔ ایک روز میری ایک بچپن کی سہیلی راحیلہ کی شادی کاکارڈ لیکر آئی تو میں نے اس کے لئے چائے کاآرڈردیا۔ ان کو نجانے کیسے معلوم ہوگیااور انہوں نے مجھے فوراََ اندر بلالیا․․․․․․ یہ کون ہے جو دفتری اوقات کار میں آپ سے ملنے آئی ہے ۔

میں نے احترام سے جواب دیا ’سرمیری بچپن کی سہیلی اپنی شادی کا کارڈ دینے آئی ہے ، چائے پی کی چلی جائے گی ۔
محترمہ یہ دفتر ہے گھر نہیں،آج تو میں آپکو زبانی وارننگ دے رہا ہوں۔ آئندہ کوئی عزیزہ یاسہیلی آپ سے ملاقات کرنے آئی تو کود کوملازمت سے فارغ تصور کرنا۔
کچھ عرصہ بعد کاذکر ہے ۔ میری والدہ جودل کی مریض ہیں، انکی تیمارداری میں دیر ہوگئی اور میں آفس لیٹ پہنچی تو حسب روایت وہی ہوا، مجھے سر نے بلالیا․․․․․ محترمہ آپ پورا ایک گھنٹہ لیٹ ہیں، میں نے پہلے آپ کو زبانی وارننگ دی تھی لیکن آپ کو کوئی اثر نہیں ہوا۔
اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتی انھوں نے فوراََ چپراسی کے ذریعے اکاؤنٹنٹ کوبلایااور کہا ” مسٹران کوایک ماہ کی ایڈوانس تنخواہ دیکر ملازمت سے فارغ کردیں۔
سریقین کریں میری والدہ بہت سخت بیمار ہیں، ان کی وجہ سے مجھے دیر ہوئی ہے ۔ میرے علاوہ ان کی دیکھ بھال کرنے کاگھر مالی نظام چلانے والا کوئی نہیں ہے ۔ مجھ پر رحم کیجئے، میں انکے پاؤں گرکر معافی مانگنے لگی۔
میرا اور اپنا وقت یہ ڈرامہ بازی کرکے ضائع مت کیجئے ، جائیں ا ور یہاں سے میری نظروں سے دور ہوجائیں۔
غریب لڑکی کی غیرت جاگی اور میں جذبات سے مغلوب ہوکر پکاراٹھی ․․․․․․ سر! آپ بھی صرف باس ہیں، اس دفتر میں ․․․․․․ رزق میرے خداکے پاس ہے ، آپ جیسے ظالم اور فرعون نما انسان کے ہاتھ میں نہیں ہے ․․․․․․․ہاں میں ڈرامہ کر رہی ہوں، ایک غریب لڑکی ڈرامہ ہی کرسکتی ہے ، میری ماں بیمار نہیں میں بہانے بنارہی ہوں․․․ میں دیوانہ وار بولے جارہی تھی ۔
مجھے نہیں چاہیے آپ کی ایڈوانس تنخواہ ․․․․․․ خدا بڑا غفورورحیم ہے ، وہ صرف آپکا ہی نہیں ہم سب کا خدا ہے ․․․․ اور یہ کہہ کرغصے سے دفتر سے باہر آگئی۔
پھر جب جوش ٹھنڈا ہواتوسوچنے لگی کہ گھر کا نظام کیسے چلے گا؟ اور سارا دن مختلف دفاتر میں نوکری کی تلاش میں دھکے کھاتی رہی۔ آج کل ایم اے پاس سڑکوں پر آوارہ پھررہے ہیں۔ مجھ جیسی ایف اے پاس لڑکی کوکون ملازمت دیتا! تھک ہار کرواپس گھر آکر نماز پڑھی اور دعاکیلئے ہاتھ اٹھائے اور سچے دل سے دعامانگی کراے پروردگار توجانتا ہے میں سچ بول رہی تھی ․․․․․․ میری مدد فرما۔
ابھی تھوڑی ہی دیرگزری تھی کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔ واقعی بعض اوقات اللہ تعالیٰ مجھ جیسے گناہ گاروں کی دعا بھی فوراََ قبول کرلیاتا ہے دروازہ کھلا توسامنے میرے پاس عثمانی صاحب کھڑے تھے اور اُن کے ساتھ میری ساتھی نجمہ تھی جو اکثر میرے گھر آتی رہتی تھی ۔ ان کے ساتھ کمپنی کے ڈاکٹرصاحب بھی موجود تھے ۔
میرے منہ سے نکلا” سرآپ !
ہاں میں اندر آنے کو نہیں کہوگی ؟
آئیں سر! میرا غصہ ٹھنڈا ہوچکا تھا۔

ڈاکٹر نے اچھی طرح والد ہ کا چیک اپ کیا اور پھر عثمانی صاحب نے ڈاکٹر کی فیس یہ کہتے ہوئے ادا کی کہ میری والدہ کمپنی کی ملازمہ نہیں ہیں اور پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوئے ” فرزانہ ! میں ان سب کے سامنے ہاتھ جوڑ کر تم سے معافی مانگتا ہوں․․․․․․“ سر آپ میرے باس ہی نہیں بلکہ میرے انکل بھی ہیں مجھے گناہ گار مت کیجئے ۔
میں ا ور میری کولیگ نجمہ باورچی خانے میں آگئے ۔
نجمہ نے مجھے بتایا کہ میرے آفس سے جانے کے بعد باس نے نجمہ کو بلا کر میری بابت پوچھا تھا۔ جب اُس نے بتایا کہ واقعی فرزانہ کی والدہ دل کی مریض ہیں اور اس کے علاوہ کوئی انھیں سنبھالنے والا اور گھر کا کفیل نہیں ہے تو کہنے لگے ” اچھا شام کو میں ڈاکٹر کے ساتھ جاؤ لگا، تم میرے ساتھ آنا۔ اور پھرشام کو انھوں نے گھر آکر سب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا۔
اگلے روز میں اپنی سیٹ پردوبارہ ڈیوٹی سرانجام دے رہی تھی ۔
پھر کچھ عرصہ بعد میری شادی کی تاریخ مقرر ہوگئی اور میں نے عثمانی صاحب کو کارڈ دیتے ہوئے کہا آپ نے بھا بھی سمیت آنا ہے کیونکہ ان کی بیگم اور بیٹاابھی تک کرچی میں تھے انہوں نے مالی طور پر میرا ساتھ دینے کے علاوہ شاپنگ کرنے میں بھی میری مدد کی۔
اُن دنوں باس کی بیگم نسرین اور ان کا بیٹاشادی میں شرکت کیلئے لاہور آئے ہوئے تھے ۔
شادی گلشن اقبال پارک کے قریب مون مارکیٹ کے ایک شادی ہال میں تھی۔ چونکہ میں اچھرہ میں رہتی تھی اور مون مارکیٹ ہمارے گھر کے نزدیک تھی اس لئے شادی ہال وہاں پربک کیاتھا۔
ان کی بیگم اور میری سہیلی راحیلہ مجھے ایک بیوٹی پارلر لے کرگئیں ۔ انکا بیٹا اس جوسات سال کا بہت معصوم سا بچہ تھا، اس نے عثمانی سے ضد کی کہ یہاں پاس ہی گلشن اقبال پارک ہے ، میرے سب دوت جو لاہور آتے ہیں یہاں سیرکرکے جاتے ہیں۔
عثمان صاحب بولے ٹھیک ہے میں راحیلہ صاحبہ اور بیگم کو بھی اسد کے ساتھ سیرکرانے گلشن اقبال لیکر جارہاہوں ، بارات آنے میں ابھی دیر ہے ۔ پھر میرے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے میں بارات آنے سے پہلے واپس آجاؤ گا۔
مجھے ایسا لگا جیسے ان سے میری آخری ملاقات ہے۔ اور تھوڑی دیر میں خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ گلشن اقبال میں زوردار دھماکہ ہوا اور بہت سے لوگ جاں بحق ہوگئے ۔
خبر سن کر مجھے کوئی ہوش نہیں رہا جب ہوش آیا تو میں ہسپتال میں پڑی تھی ۔ اور میرے محسن عثمانی صاحب انکا بیٹااور میری آنٹی نسرین ہم سب کوچھوڑکر اس دنیا فانی سے رخصت ہوچکے تھے اور پھر میں نے اس کمپنی میں ازخودعلیحدگی اختیار کرلی کیونکہ انکی کمی میں برداشت نہیں کرسکتی اللہ تعالیٰ مجھے صبرجمیل عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین

Browse More Urdu Literature Articles