Dunya Bhar K Raastay Waastay - Article No. 1055

Dunya Bhar K Raastay Waastay

دنیا بھر کے راستے واستے - تحریر نمبر 1055

کسی بھی منزل تک پہنچنے کی اوّلین شرط ہے راستہ۔ شہروں میں راستے اِس لیے بنائے جاتے ہیں کہ وقت بے وقت کھدائی کے لیے کوئی معقول جگہ میسر ہو، اَور۔۔۔

نادر خان سرگروہ منگل 17 مئی 2016

کسی بھی منزل تک پہنچنے کی اوّلین شرط ہے راستہ۔ شہروں میں راستے اِس لیے بنائے جاتے ہیں کہ وقت بے وقت کھدائی کے لیے کوئی معقول جگہ میسر ہو، اَور حادثوں کا کوئی بہانہ ہو! راستہ پار کرنا بھی ایک فن ہے۔ بڑے شہروں میں رہنے والے لوگ اِس فن میں تاک ہوتے ہیں۔ یہ تو اُن کی بائیں ٹانگ کا کھیل ہوتا ہے۔
راستہ پار کرنے کی دوسری شرط یہ ہے کہ راستے پر گاڑیاں ہوں۔
اور پہلی شرط یہ ہے کہ راستہ ہو! گاؤں میں راستہ رینگتے ہوئے اورلوٹ لوٹ کر بھی پار کیا جا سکتا ہے۔ گاؤں میں توراستہ پار کرنے سے پہلے راستہ ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ اوراگر راستہ ہو بھی تو وہ راستہ پار کرنے والوں کی راہ تکتا ہے۔ شہر میں راستہ پار کرتے وقت دائیں بائیں اور سامنے بھی دیکھنا پڑتا ہے۔ سامنے اِس لیے کہ آج کل شہروں کی آبادی اتنی بڑھ گئی ہے کہ آپ اکیلے راستہ پار نہیں کرتے۔

(جاری ہے)

ایک شہرِ پریشاں آپ کے ساتھ راستہ پار کر تا ہے۔ کیا پتا کوئی اپنی دُھن میں مخالف سمت سے آکر، مسائل سے بھرے اپنے سَرسے آپ کو ٹکر مار دے۔ اگر کسی وجہ سے وہ چُوک جائے تو آپ جا کر مار دیں۔ راستہ پار کرتے وقت سامنے دیکھنے کے علاوہ اپنی ’ نگاہِ بلند ‘ نیچی رکھنا بھی ضروری ہے۔ نیچے دیکھے بغیر آ گے جانے کی کوشش میں ہو سکتا ہے آپ کو بہت نیچے جانا پڑے۔
کھلے منہ والا کوئی مین ہول آپ کو ثابت نگل جائے اور آپ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں۔
کسی بھی مین ہول کا ہمہ وقت کھلا رہنا اشد ضروری ہے، تاکہ کسی آنکھ والے کی آنکھ چُوکے اور وہ اُس میں جا اُترے توبے چارے کادَم نہ گھٹے۔ اسی لیے کچھ خیر اندیش ایک ایک کر کے شہر کے تمام مین ہولز کے ڈھکن دن دہاڑے اُڑالے جاتے ہیں۔ اِتنے بھیڑ بھڑَ کّے میں ایسے ایسے بھاری بھرکم ڈھکن اُٹھا کر گدھے کے سَر سے سینگ کی طرح غائب کردینا کوئی شریف بچوں کا کھیل نہیں۔

ہمارے کرم فرما پُرجوش پُوری (جو Manhole کو Main-hole کہتے ہیں ) کا کہنا ہے کہ اِتنی نفاست سے تراشے گئے لوہے کے قیمتی ٹکڑے کو کسی گندے نالے کے بد بُو دار منہ کا ڈھکن نہیں ہونا چاہیے۔ لوہا منوانے کی جگہیں اور بھی ہیں۔ یوں بھی اِن ڈھکنوں کی وجہ سے راہ گیر د ھوکا کھا جاتے ہیں۔ وہ اِن پر پورے اعتماد کے ساتھ قدم جما کر رکھتے ہیں اور یہ اچانک پیروں کے نیچے سے زمین کی طرح نکل کر دغا دیتے ہیں۔

اِن سَر پوش کنوؤں کے علاوہ ہمارے ہاں راستوں میں چھوٹے چھوٹے تالاب بھی بنے ہوتے ہیں۔ اِن کی ابتدا معمولی گڑھوں سے ہوتی ہے۔ آگے چل کر اِن میں بارش اور نالیوں کا زائد پانی ذخیرہ ہوتا رہتا ہے۔ اِن ذخائر میں سالہا سال پانی کی کمی نہیں دیکھی جاتی۔ اِن میں سے گاڑیاں جھٹکے کھا کر گزرتی ہیں اور گاڑی چلانے والے ہر جھٹکے پر گالیوں کی قے کرتے اور لوگوں پر کیچڑ اُچھالتے ہوئے گزرتے ہیں۔
’وہ ‘ غسل دیتے ہیں کہ نہانے والوں پر غسل واجب ہو جاتا ہے!
ہمارے شہروں میں تو یہ راستے کچھ بے گھر لوگوں کی خواب گاہیں بھی ہوتی ہیں۔ رات گئے تک وہ انتظار کرتے ہیں کہ کب دکان والے اپنا بکھیڑا سمیٹیں اور کب اِن کا بستر خالی ہو۔ پھر جب یہ سوتے ہیں تو ہر گزرنے والی گاڑی اُن کی مفلسی پر تیز روشنی ڈالتی ہے اوراُن کے خوابوں پر سڑک پر بنے تالابوں کا پانی پھیر دیتی ہے۔

کہتے ہیں، جاپان میں ایک کے اوپر ایک راستے بنے ہوئے ہیں۔ جاپانیوں نے راستہ بنانے کا کوئی راستہ نہیں چھوڑا۔ وہ دسویں منزل کے اپنے پُر تعیش فلیٹ سے نکل کر سیدھے راستے پر آسکتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی لوگ دسویں منزل سے راستے پر آسکتے ہیں، مگر کاروبار میں بھاری نقصان اُٹھانے کے بعد۔
دنیا میں سب سے زیادہ پُل جاپان میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔
وہاں ہر پَل ایک نیا پُل نظر آتا ہے۔ جاپان کی ترقی میں اِن ہی پُلوں کا ہاتھ ہے، جب کہ ہمارے ملک کی ترقی میں اِن پُلوں کی ٹانگ ہے! یہ ایسی جگہ بنائے جاتے ہیں کہ لگتا ہے حکومت ترقی کی راہ میں ٹانگ اَڑا رہی ہے۔ جاپان کی نوّے فیصد آبادی ملک کے بیس فیصد رقبے پر آباد ہے، اِسی لیے وہاں کا ہر شہر بھیڑ سے لبریز ہے، لیکن کیا مجال کہ چھلک جائے۔
بھیڑ میں رہنا اور چلنا پھرنا شاید جاپانیوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھیڑ کو مزید دلچسپ بنانے کے لیے وہاں سُومو پہلوان بھی تیار کیے جاتے ہیں۔ اُن کی ترقی کا راز بھی اسی میں ہے کہ فاصلے کم سے کم ہوں اور وقت کا استعمال زیادہ سے زیادہ ہو۔ جاپان کے زیادہ تر شہر سمندر کے ساحل پر بسائے گئے ہیں تاکہ بحری راستے سے بھی اُن کو آپس میں جوڑا جائے۔
سمندر کا استعمال سن باتھ، باتھ روم ویسٹ، ریکلیمیشن (Reclamation) اور پرائیویٹا ئزیشن (Privatization)کے علاوہ بھی ہو۔
راستوں سے ہوتے ہوئے بات جب پُل پر آ ہی گئی ہے تو آئیے کچھ پُل کی تعریفوں کے پُل باندھے جائیں۔ شہر میں جب بھی کوئی نیا پُل بنتا ہے تو ہم اُس کی عظمت کو دُور سے ہی سلام کرتے ہیں۔ پتا نہیں کب کس کروٹ بیٹھے۔ جب اچھا خاصا ٹریفک اُس پُل کی چھاتی کُوٹ کر گزر جاتا ہے تو ہم اُس پر ( پھونک پھونک کر ) قدم رکھتے ہیں۔
انگریزوں نے ہمارے ملک میں جو پُل بنائے تھے وہ آج بھی پُل کا کام دے رہے ہیں، کیوں کہ اُن کے پاس لوگوں کو مارنے کے اور بھی طریقے تھے،یوں بھی اُن کا دَور پُل کے بنتے ہی اُسے گرانے کی’جدید تکنیک‘سے محروم تھا۔
ہم نے جب سوچ کے پُل پر ذہن کے گھوڑے دوڑائے تو گِرتے پڑتے اِس نتیجے پر پہنچے کہ دنیا کا پہلا پُل کسی ندی کے اوپر بنایا گیا ہوگا۔
کچھ تیرنے والے حضرات کسی طرح ندی کے اُس پار گئے ہوں گے اور اُن لوگوں نے یہ چاہا ہوگا کہ جنہیں تیرنا نہ آتا ہو ، وہ بھی آ کر دیکھیں کہ دوسرے کنارے سے اُن کا اپنا کنارا کیسا نظر آتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنے لوگوں کو یہ یقین دلانا چاہتے ہوں کہ ہمارا اپنا کنارا پَرلے کنارے کے مقابلے میں زیادہ خوب صورت نظر آتا ہے۔ آپ بالکل صحیح سوچ رہے ہیں ! اِس کام کے لیے وہ کشتی بھی توبنا سکتے تھے۔
پُل کیوں بنایا؟
خیر !… پُل سے اُتر کردوبار ہ کچھ راستوں کا بیاں ہوجائے:
یورپ اور اَمریکا میں بڑے لمبے چوڑے راستے ہوتے ہیں۔ پھر بھی اُن چوڑے راستوں پر گاڑیاں کسی نہ کسی کو ڈھونڈ ڈھانڈکر ٹکر مار ہی لیتی ہیں۔ اِن ملکوں کے راستے؛ تیسری دنیا والوں کے لیے آسانی سے نہیں کھلتے۔ پر یہ دنیا کے ہر ملک میں، بلکہ دل و دماغ میں بھی بآسانی راستہ بنا لیتے ہیں۔

ممبئی شہر میں راستے پر چلنا ایسا ہے جیسے قطار میں چلنا۔ ایک دوسرے کے دھکّے سے ہی پورا شہر چلتا ہے۔ وہاں تو گاڑیاں بھی پیدل چلتی ہیں۔ وہاں کے راستوں پر چلو تو شانے سے شانہ چِھلتا ہے۔ ممبئیا بولی میں اگر کہا جائے تو ’ شیانے ‘ سے ’ شیانا ‘ چِھلتا ہے۔ ممبئی میں شارٹ کٹ مارکر بھی آپ وقت سے پہلے نہیں پہنچ سکتے، کیوں کہ ہر دوسرا ا ٓدمی … تیسرے سے بڑھ کر ’شیانا ‘ ہوتا ہے۔
’بولے تو ‘ سب کے سب شارٹ کٹ مارتے ہیں۔
چِین کے راستے دنیا کے راستوں کے مقابلے میں ذرا چَین کا سانس لیتے ہیں۔ اُن پر گاڑیوں کے اِتنے ظلم نہیں ڈھائے جاتے۔ ایک کار کی جگہ چار چار، پانچ پانچ سائیکلیں چلتی ہیں۔ چین والوں نے دشمنوں کے راستے میں لمبی چوڑی دیوار کھڑی کی اور اَب اُسی کو راستہ بنا دیا۔ چین کے نقشے میں بھی دیوارِ چین کے نقش کسی راستے سے کم نظر نہیں آتے۔
شاید آپ کو علم نہ ہوکہ چین کے تمام راستے ’ میڈ اِن چائنا‘ ہیں۔
چین پر ہماری باتیں سُن کر پُرجوش پُوری چِیں بہ جبیں ہوکر کہتے ہیں، ”یار!تم بڑے نکتہ چِیں ہو، ہمیشہ چین کے پیچھے پڑے رہتے ہو“۔ ہمارا جواب ہوتا ہے ، ” جب چین اِتنا آگے نکل رہا ہے تو ہم پیچھے ہی ’پڑے‘ رہیں گے نا! “
پُوری صاحب نہیں جانتے کہ ہم چین کے بارے میں کیا کچھ علم رکھتیہیں، ہم تو اُس پر ایک کتاب لکھنے کا اِرادہ رکھتیہیں ، جس کا نام ہوگا ... ... ’ محبت اور بے جِنگ میں سب جائز ہے۔

قاہرہ میں تو راستے نظر ہی نہیں آتے۔ راستوں پر گاڑیاں اور اِنسانی سَر بچھے ہوئے نظرآتے ہیں۔ قاہرہ میں لوگ راستہ پار نہیں کرتے، بلکہ گاڑیاں لوگوں کو پار کرتی ہیں۔ کسی مصری سے راستہ پوچھنا، راستے سے بھٹکنے کے مترادف ہے۔ اگر اُسے راستہ پتا نہ بھی ہو تو وہ کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکال لے گا۔ ایک مصری ،کسی دوسرے مصری پر بھروسا نہیں کرتا۔
وہ دوسرے مصری سے راستہ پوچھ کر آگے بڑھتا ہے اور فوراً ہی کسی تیسرے مصری سے اُس کی تصدیق کرتا ہے۔ یعنی پہلا مصری، دوسرے مصری پر بھروسا نہیں کرتا، بلکہ تیسرے مصری پر بھروسا کرتا ہے۔ پہلا مصری، دوسرا ، تیسرا … اُووووف ! ہم تو اُلجھ گئے۔
کسی بنگلا دیشی سے راستہ پوچھنے کا تجربہ کسی امتحان سے کم نہیں ہوتا۔ اگر آپ اُس سے راستہ پوچھیں تو گول مول لہجے میں اُس کا سب سے پہلا سوال یہ ہوگا کہ آپ کہاں سے آ رہے ہیں؟ اُس کے بعد سوالات کا ایسا سلسلہ شروع ہوگا کہ آپ کہیں گے، ”اُووووف! حجت ِ بنگال! میں تو بھول ہی گیا، مجھے جانا کہاں ہے۔

بنگلا دیش کے راستوں کو یہ شرف حاصل ہے کہ اُن میں کَشتیاں بھی چلتی ہیں۔ اور جب کَشتیاں نہ چل رہی ہوں، تب اُن راستوں پر دو سیاسی پارٹیوں میں آئے دن ’ کُشتیاں ‘ چلتی ہیں۔ ’ کُشتیاں ‘ اگر نہ ہوں تو ’ کَشتیاں ‘ چلنے کی نوبت ہی نہ آئے۔
ہمارے ہاں کچھ راستوں کے بارے میں یہ فیصلہ کر نا مشکل ہو تا ہے کہ اُنہیں کیا سمجھا جائے! دنیا بھر کے کام اِن ہی راستوں پر ہوتے ہیں۔
کاریں اور بسیں چلتی ہیں۔ بڑے بڑے ٹرک خرّاٹے مار کر گزرتے ہیں۔ اِن کے بیچ میں جو خلا بنتا ہے، اُن میں سے آٹو رکشا اور ٹیکسیاں سمٹ سمٹ کر گزرتی ہیں۔ موٹر سائیکل کے کرتب باز، دائیں بائیں، آڑے ترچھے ہو کر اپنی دانست میں اُڑے اُڑے جاتے ہیں۔ ہاتھ گاڑیاں اور ٹھیلے بھی جدید سواریوں کی رفتار سے رفتار ملا کر چلتے ہیں اور اِن سب کے بیچ پِس پِس کر چلتا ہے پیدل انسان۔

اِن سب کے علاوہ اِ ن راستوں پر جلوس بھی نکلتے ہیں۔ سیاست داں اِن ہی راستوں پر تِتر بِتر بھیڑ اِکٹھا کر کے طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنی راہ لیتے ہیں۔ اِن ہی راستوں پر گھوڑی پر سوار دولہے کی ’آخری بارات‘ بھی نکلتی ہے (آخری بارات اس لیے کہ بعد میں اُس کی عقل ٹھکانے آ جاتی ہے، یعنی عقل گھوڑی سے بڑی ہو جاتی ہے)۔ اِتنی کھلبلی میں کچھ لوگ اِن راستوں پر اکیلے میں بھی ملتے ہیں۔
اور تعجب ہے کہ اِتنا کچھ ہونے کے باوجود لوگوں کو تھوکنے اور کوڑے کے ڈھیر لگانے کی بھی جگہ مل جاتی ہے۔ اور تو اور، کتے بلیاں اورکچھ مخصوص قسم کے جانور دُم ہلا ہلا کر اپنے حال اور مستقبل سے بے پروا اپنی تمام عمراِن ہی راستوں پر گزار دیتے ہیں۔
ہمارے کلون پلانر# (Clone Planner ) کا کہنا ہے، ” راستے انسانی زندگی پر اَثرانداز ہوتے ہیں۔
ایک عام آدمی اپنے کام کے اَوقات میں اتنا نہیں تھکتا، جتنا اِن راستوں پر آمدورفت میں تھک جاتا ہے، جس کا اثر اُس کی نفسیات اور گھریلو زندگی پر بھی پڑتا ہے۔ راستوں کے مسائل اگر وقت پر نہ حل کیے جائیں تو یہ مزید پیچیدہ ہوتے جاتے ہیں۔ “
پلانر# کا کہنا بالکل درست ہے، مگربہتری اُس صورت میں ممکن ہوگی جب سسٹم میں تبدیلی آئے گی۔ چاہے ہم اور آپ بھی اقتدار میں آجائیں، تب بھی کچھ نہیں بدلے گا۔
ہم بڑی بڑی باتیں کرنے والے بھی سسٹم کے غلام بن کر رہ جائیں گے۔ سب کچھ بدلنے کا عزم رکھنے والے جب خود ہی بدل جائیں توپھرتبدیلی صرف خوابوں میں ہی دیکھی جا سکتی ہے۔ اور خواب ہی ایک عام آدمی کواِن حالات میں زندہ رہنے پر مجبور کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہماری بات تو ختم ہوئی، مگر… راستے ختم نہ ہوئے … اور کوئی راستہ بھی سُجھائی نہ دیا۔
(جولائی ، دو ہزار سات )

Browse More Urdu Literature Articles