Gautam Buddha 483 To 563 Qabal Masih - Article No. 943

Gautam Buddha 483 To 563 Qabal Masih

گوتم بدھ483ء تا563قبل مسیح - تحریر نمبر 943

گوتم کااصل نام شہزادہ سدھارتھ تھا ‘ وہ بدھ مت کابانی ہے ، جو دنیائے عظیم مذاہب میں سے ایک ہے ۔ سدھارتھ کپل وستو کے راجہ کا بیٹا تھا ‘ جو نیپال کی سرحدوں کے نزدیک شمالی ہندوستان کا ایک شہر ہے۔

ہفتہ 22 اگست 2015

گوتم کااصل نام شہزادہ سدھارتھ تھا ‘ وہ بدھ مت کابانی ہے ، جو دنیائے عظیم مذاہب میں سے ایک ہے ۔ سدھارتھ کپل وستو کے راجہ کا بیٹا تھا ‘ جو نیپال کی سرحدوں کے نزدیک شمالی ہندوستان کا ایک شہر ہے ۔ سدھارتھ ( جس کی ذات ” گوتم بدھ “ اور قبیلہ ” شاکیہ “ تھا ) نیپال کی موجودہ سرحدوں کے بیچ لمبائی کے مقام پر 563قبل مسیح میں پیدا ہوا۔
سولہ برس کی عمر میں اس کی پرورش ہوئی ‘ تاہم وہ خود اس ماحول کا خوگر نہیں ہوا ۔ وہ بے کل رہتا تھا ۔ اس نے مشاہدہ کیاکہ بیشتر انسان غریب ہیں اور اس محرومی کے سبب مسلسل ابتلاؤں میں گھر رہتے ہیں ۔ حتیٰ کہ اہل ثروت بھی اکثر مایوس اور ناخوش رہتے ہیں ۔ نیز ہر شخص بیماری کا شکار ہوتا اور آخر کار مرجاتا ہے ۔ قدرتی طور پر سدھارتھ نے غور کیا کہ کوئی ایسی کیفیت بھی ہے جو ان عارضی مسرتوں سے ‘ جوبالاخرموت اور بیماری سے پامال ہو جاتی ہیں ‘ معریٰ ہو۔

(جاری ہے)


انتیس برس کی عمر میں جب اس کے بچے کی پیدائش ہوئی ‘ گوتم نے فیصلہ کیاکہ وہ اپنی موجودہ زندگی سے کنارہ کشی اختیار کرلے اور خود کو سچ کی تلاش کے لیے وقف کردے ۔ وہ محل سے روانہ ہوگیا ‘ اس نے اپنی بیوی ‘ اپنے نومولود بچے اور تمام دنیاوی آسائشات کو ترک کر دیا ۔ وہ ایک مفلس یوگی بن گیا۔ کچھ عرصہ اس نے اس دور کہ مشہور یوگی علماء سے حصول علم کیا ‘ ان کے افکار کی مکمل آگہی حاصل ہوجانے کے بعد اس انسان کے غیر اطمینان بخش مسائل کے اپنے حل وضع کیے ۔
یہ خیال عام ہے کہ انتہا درجہ کاذہن سچ کے راستہ کو ہموار کرتا ہے ۔ گوتم نے خود بھی ایک سنیاسی بننے کی کوشش کی ‘ کئی سال وہ مسلسل فاقہ کشی اور خود ذیتی کے مراحل سے گزرا۔ پایان کار اسے سچ کی قربت نہ دے سکی ۔ دینے سے ذہن میں ابہام پیدا ہوتاہے ‘ اسی لیے یہ ریاضت اسے سچ کی قربت نہ دے سکی ۔چنانچہ اس نے پھر سے باقاعدہ خوراک لینی شروع کی اور فاقہ کو ترک کر دیا ۔

خلوث میں اس نے انسانی موجودگی کے مسائل پر استغراق کیا ۔ آخر ایک شام جب وہ ایک عظیم الجثہ انجیر کے درخت تلے بیٹھا تھا ‘ اس چیستان کے سبھی ٹکڑے باہم یکجا ہوئے محسوس ہوئے ۔ سدھارتھ نے تمام رات تفکر میں بتائی ‘ صبح ہوئی تو اسے منکشف ہوا کہ اس نے حل پالیا تھا اور یہ کہ وہ اب ” بدھ “ بن گیا تھا جس کے معنی ایک ” اہل بصیرت “ کے ہیں ۔
تب اس کی عمر پینتیس رس تھی ۔ زندگی کے باقی پینتالیس برس اس نے شمالی ہندوستان میں سفر کرنے میں گزارے ۔ وہ ان لوگوں کے سامنے اپنے خیالات کا پر چار کرتا جو اسے سننے آتے تھے ۔ 483قبل مسیح میں اپنے وفات کے سال تک وہ اپنے ہزاروں پیرو کار بنا چکاتھا۔ ہر چند کہ اس کے افکار تب لکھے نہیں گئے تھے ۔ اس کے چیلوں نے اس کا حرف حرف یاد رکھا ۔ یہ حروف نسل درنسل زبانی طورپر ہی سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے رہے ۔

بدھ کی بنیادی تعلیمات کو بدھوں کے الفاظ میں ” چار اعلیٰ سچائیاں “ کے عنوان سے سمیٹا جاسکتا ہے اول انسانی زندگی اپنی جبلی حیثیت میں دکھوں کا مسکن ہے ۔ دوئم اس ناخوشی کا سبب انسانی خود غرضی اور خواہش ہے ۔ سوم اس انفرادی خود غرضی اور خواہش کو ختم کیا جاسکتا ہے اور ایسی کیفیت پیدا کی جاسکتی ہے جس میں خواہشات اور آرزوئیں فنا ہو جاتی ہیں ۔
اسے اصطلاحا” نروان “ کہا جاتا ہے ۔ ( اس کے لغوی معنی ” پھٹ پڑنے “ یا ” تنسیخ “ کرنے کے ہیں ) ۔ چہارم اس خود غرضی اور خواہش سے فرار کاذریعہ “ آٹھ راست راہیں “ ہیں ۔ یعنی راست نظر راست سوچ ‘ راست گوئی ‘ راست بازی ‘ راست طرزبودوباش راست سعی اور راست ذہن اور راست تفکر اور یہ بات بھی ہے کہ بدھ مت ہر کسی کے لیے اپنی آغوش واکیے ہوئے ہے ‘ نہ نسل کا مسئلہ ہے اور نہ ہندوؤں کے برعکس یہاں ذات برادری ہی کچھ اہمیت رکھتی ہے ۔

گوتم کی وفات کے بعد ایک عرصہ تک یہ نیا مذہب ذراست رفتاری سے پھیلا ۔ تیسری صدی قبل مسیح میں عظیم ہندوستانی شہنشاہ اشوک نے بدھ مت اختیار کرلیا ۔ اس کی پشت پناہی سے ہندوستان بھر میں بدھ مت کے اثرات تیزی سے پھیلے ‘ بدھ مت ہندوستان سے باہر بھی مقبول ہوا ۔یہ جنوب میں سیلون تک پھیلا اور مشرق میں برما تک ۔ وہاں سے بڑھ کر جنوبی ایشیا میں اس نے اپنے قدم جمائے اور ملایا تک پھیلا اور پھر آگے علاقے میں سرایت کرگیا ہے ۔
جسے اب انڈونیشیا کہا جاتا ہے ۔ بدھ مت کے اثرات شمالی علاقوں میں بھی مرتسم ہوئے ‘ یہ تبت پہنچااور آگے شمال کے طرف افغانستان اور وسطی ایشیا تک اس کے پیرو کار پھیل گئے ۔ اس نے چین میں بھی جگہ بنائی جہاں اسے بڑی پذیرائی ملی ۔ یہاں سے آگے جاپان اور کوریا میں اس نے اپنے پیرو کار پیدا کیے ۔ لیکن ہندوستان میں ہی یہ مذہب 500ء کے بعد تنزل کاشکار ہونے لگا اور 1200ء تک یہ سمٹ کر بہت مختصر طبقے تک باقی رہ گیا ۔
دوسری جانب چین اور جاپان میں بدھ مت ایک بڑے مذہب کی حیثیت موجود رہا ۔ تبت اور جنوبی ایشیا میں کئی صدیوں تک اس کی اہمیت میں چنداں تخفیف نہ ہوئی ۔ بدھ کی موت کے کئی صدیوں بعد تک اس کی تعلیمات کو ضابطہ تحیریر میں نہیں لایا گیا ۔ قدرتی طور پر یہ مختلف مسالک میں منقسم ہونے لگا ۔ اس کی دو شاخیں اہم ہیں ۔ ”تھروید “ جو جنوبی ایشیا ء میں مقبول ہے اور جسے مغربی حکماء بدھ کی حقیقی تعلیمات کے قریب ترین مانتے ہیں ۔
دوسری ساخ ” مہایانا “ کہلاتی ہے جس کے پیرو کار تبت ‘ چین اور شمالی ایشیا میں اکثریت میں ہیں۔
دنیا کے عظیم مذاہب میں سے ایک کے بانی کی حیثیت سے بدھ کو اس فہرست کے ابتدائی ناموں میں جگہ ملنی ہی چاہیے تھی ۔ اس وقت دنیا بھر میں قریب 200ملین ” بدھ“ موجود ہیں ۔ اس کے مقابلے میں مسلمانوں کی تعداد 500ملین اور عیسائیوں کی ایک ملین سے بھی زیادہ ہے ۔
اس سے یہ امر مترشح ہوتا ہے کہ بدھ نے ( حضرت) محمد  اوریسوع کی نسبت کم لوگوں کو متاثر کیا ۔ تاہم پیروں کاروں کی تعداد میں اختلاف غلط فہمیاں پیدا کر سکتا ہے ۔ ہندوستان میں بدھ مت کے بے اثر ہوجانے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہندومت نے اس کے کئی ایک نظریات اور اصول خود اپنا لیے ۔ چین میں بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد جو خود کو بدھ مت کی پیرو کار نہیں کہلواتی ‘ بدھ مت کی تعلیمات سے متاثر ہے ۔
عیسائیت یااسلام سے قطع نظربدھ مت ایک بہت مضبوط امن پسندانہ اصرار کاحامل مذہب ہے ۔ عدم تشدد پر بدھ مت کے اصرارنے ” بدھ “ ملکوں کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے ۔ اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ اگر یسوع زمین کی طرف لوٹ آئے تو وہ ان متعدد رسومات وعبادات پر ششدرہوجائے گا جو اس کے نام کی آڑ میں روارکھی جارہی ہیں ۔مسیحیت کے پیرو کار کہلائے جانے والے افراد کے مسالک کے بیچ خونی فسادات دیکھ کر وہ خوف زدہ ہو جاتا ۔
بدھ بھی یہاں آکر ان متعدد نظریات پر حیران ہوگا ‘ جواس کے نام سے منسوب کیے جارہے ہیں ‘ جبکہ بدھ مت کے متعدد مسالک ہیں اور یہ ایک دوسرے سے شدید اختلافات رکھتے ہیں ‘ لیکن بدھ مت کی تمام تاریخ ان خونی مذہبی جنگوں کی تومثال نہیں ملتی جو مسیحی یورپ میں وقوع پذیر ہوئیں ۔ اس حوالے سے گوتم بدھ کی تعلیمات نے اپنے پیروکاروں کو عیسائیت کے پیرو کاروں کی نسبت زیادہ شدت سے متاثر کیا ۔

گوتم بدھ اور کنفیوشس نے دنیا پر ابرابر طور پر اپنے اثرات چھوڑے ۔ دونوں کا دور بھی ایک ہی بنتا ہے ۔ نہ ہی ان کے پیروکاروں کی تعداد میں کچھ زیادہ فرق ہے ۔ میں نے بدھ کو کنفیوشس سے ایک درجہ زیادہ دینے کا فیصلہ اس بنیاد پر کیا ہے کہ اول چین میں اشتمالیت پسندی کے عروج نے گویا کنفیوشس مت کے اثرات کو ختم ہی کردیا ۔ دوم کنفیوشس مت کے چین سے باہر تیزی سے نہ پھیل سکنے کی تاریخی حقیقت کی بنیاد پر ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس نے پہلے سے موجود چینی عوام کے رویوں پر کس قدر کمزور اثرات مرتب کیے ۔
دوسری طرف بدھ کی تعلیمات کسی بھی لحاظ سے سابقہ ہندوستانی فلسفہ کااعادہ نہیں تھیں ۔ گوتم بدھ کے تصورات کی گہرائی کے سبب ہی بدھ مت ہندوستانی حدود سے باہر تک پھیلا ۔ اور اس کے فلسفہ نے قبول خاص وعام کی سند حاصل کی ۔

Browse More Urdu Literature Articles