Guglielmo Marconi 1874 To 1937 - Article No. 925

Guglielmo Marconi 1874 To 1937

گگلیلمو مار کونی 1937ء۔ 1874ء - تحریر نمبر 925

ریڈیو کا موجود گگلیلمو مارکونی 1874ء میں اٹلی کے شہر بولوگنا میں پیدا ہوا ۔ اس کا خاندان خاصا آسودہ حال تھا۔

جمعرات 30 جولائی 2015

ریڈیو کا موجود گگلیلمو مارکونی 1874ء میں اٹلی کے شہر بولوگنا میں پیدا ہوا ۔ اس کا خاندان خاصا آسودہ حال تھا ۔ نجی اساتذہ نے اس کی تعلیم کی ۔ 1894ء میں جب وہ بیس برس کا تھا مارکونی نے ہنرچ ہرٹز کے تجربات کے بارے میں پڑھا جو اس نے چندسال قبل کیے تھے ۔ ان تجربات سے واضح طور پر غیر مرئی برقی مقناطیسی لہروں کی موجودگی کا ثبوت ملا تھا جو ہوا میں روشنی کی رفتار سے سفر کرتی ہیں ۔
اس خیال سے مارکونی کو تحریک ہوئی کہ ان لہروں کو تار کے بغیر طویل فاصلوں پر پیغام رسانی کے لیے استعمال کیا جاسکتا تھا ۔ اس سے پیغام رسانی کے ایسے امکانات روشن ہوئے جو تار برقی نظام کے ذریعے ظاہر نہیں ہوسکے تھے۔ مثال کے طور پر اس طریقہ سے سمندر میں بحری جہاز تک پیغامات پہنچائے جاسکتے تھے ۔

(جاری ہے)


1895ء میں پانچ برس کی محنت شاقہ کے بعد مارکونی ایک قابل استعمال آلہ تیار کرنے میں کامیاب ہوا ۔

1896ء میں اس نے اس آلے کا انگلستان میں مظاہرہ کیا اور اس ایجاد کی سند حقوق حاصل کی ۔ جلد ہی اس نے ایک ادارہ قائم کیا جبکہ اولین مارکونی گرام ( پیغامات) 1898ء میں ارسال کیے گئے۔ اگلے ہی برس وہ ان بے تار پیغامات کو انگلستان سے پرے بھیجنے میں کامیاب ہوگیا ۔ اگرچہ اسے سب سے اہم سندحق ایجاد 1900ء میں حاصل ہوئی ۔ تاہم وہ اپنی ایجادات میں متعدد اضافوں کے ساتھ ساتھ اسناد حقوق لیتا رہا ۔
1901ء میں وہ بحر اوقیانوس پرے یعنی انگلستان سے نیوفاؤنڈ لینڈ تک اپنے پیغامات بھیجنے لگا ۔
1909ء میں اس نئی ایجاد کی اہمیت ڈرامائی انداز میں ثابت ہوئی ۔ جب S,S, Repuhlic تباہ اور سمندر میں غرق ہوگیا۔ ریڈیو کے پیغامات کے ذریعے امداد حاصل کی گئی ۔ اور چھ کے علاوہ سبھی لوگوں کو بحفاظت باہر نکال لیا گیا ۔ اسی برس مارکونی کو اپنی ایجاد کے لیے نوبل انعام ملا ۔
اگلے سال وہ آئرلینڈ سے ارجنٹائن تک پیغام رسانی کرنے میں کامیاب ہوا ۔ یہ فاصلہ چھ ہزار میل طویل تھا ۔ یہ تمام پیغامات مورس کوڈ کے نقطے اور لکیر کے نظام کے تحت ارسال کیے گئے تھے ۔ یہ توسبھی کو معلوم ہے کہ آواز کو ریڈیو کے ذریعے بھی منتقل کیا جاسکتا ہے ۔ لیکن ریڈیو 1906ء تک ایجاد نہ ہوسکا ۔ تجارتی بنیادوں پر ریڈیو نشریات کا آغاز 1920ء کی دہائی کے اوائل میں ہوا ۔
تاہم اس کے بعد اس کی شہرت اور افادیت میں سرعت سے اضافہ ہوا۔
ایسی ایجاد کے لیے سند حقوق کا حصول انتہائی قابل وقعت تھا کہ اس سے قانونی تنازعات نے جنم لیا ۔ تاہم 1914ء تک ان غیر قانونی چپقلشوں کا خاتمہ ہوگیا ۔ جب عدالت نے مارکونی کے حقوق کو تسلیم کر لیا ۔اس کے بعد کے برسوں میں مارکونی نے مختصر سے مختصر ترین لہروں کے ذریعے پیغام رسانی پر تحقیق کی ۔
1937ء میں وہ روم میں چل بسا ۔
مارکونی کی وجہ شہرت ایک موجد کی حیثیت سے تھی اس کی اصل اہمیت ریڈیو اور اس کی طویل فاصلوں کی نشریات کے سبب استوار ہوئی ۔ ( مارکونی نے ٹیلیویژن ایجاد نہیں کیا ، تاہم ریڈیو کی ایجاد ، ٹیلیویژن کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ۔ سو ٹیلیویژن کی ایجاد میں بھی مارکونی کو کچھ اعزاز کا مستحق قرار دینا جائز ہے ) ْ۔ جدید دنیا میں نے تار ذرائع ابلاغ کی اہمیت نہایت زیادہ ہے ۔
یہ ذرائع خیروں کی ترسیل تفریحی اور فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ انہیں سائنسی تحقیق اور پولیس کی سرگرمیوں اور دیگر مقاصد کے لیے بھی بروئے کار لایا جاتا ہے ۔ چند مقاصد کے لیے توبے تار ترقی نظام کو ( جواس سے قریب نصف صدی قبل ایجاد ہوا تھا ) ہنوزاستعمال میں لایا جاتا ہے ۔ تاہم زیادہ تر مقاصد کے لیے ریڈیو سے بہتر کوئی متبادل نہیں ہے ۔
اس کے دائرہ کار میں گاڑیاں بحری جہاز ہوائی جہاز اور حتیٰ کہ خلاء میں موجود جہاز بھی شامل ہیں ۔ یہ ٹیلیفون سے کہیں زیادہ وقیع ایجاد ہے کیونکہ جو پیغام ٹیلیفون کے ذریعے ارسال کیا جاتا ہے ، وہ ریڈیو سے بھی ممکن ہے ۔جبکہ ریڈیو کے ذریعے ان جگہوں پر بھی رسانی ممکن ہے جو ٹیلیفون کی حد پرواز سے پرے واقع ہیں ۔
مارکونی کو اس فہرست میں الیگزینڈر گراہم بیل سے زیادہ بلند درجہ دیا گیا ہے ۔
اس لیے کہ بے تار پیغام رسانی کے نظام کی ایجاد ٹیلیفون کی ایجاد سے کہیں زیادہ وقیع ہے ۔ میں نے ایڈیسن کو البتہ مارکونی سے پہلے یہاں شمار کیا ہے کیونکہ اس کی ایجادات کی تعداد بہت زیادہ ہے گوان میں سے کوئی ایک بھی اپنے طور پر ریڈیو جتنی اہمیت کی حامل نہیں ہے ۔ چونکہ ریڈیو اور ٹیلیفون مائیکل فیراڈے اور جیمزکلارک میکس ویل افراد سے کم درجہ دیا جائے اور پھر یہ بھی ایک پہلو ہے کہ فقط چند ایک سیاسی شخصیات نے ہی انسانی تقدیر پر مارکونی سے زیادہ گہرے اثرات مرتب کیے ہیں ۔ اسے اس فہرست میں ایک نمایاں اور بلند درجہ تفویض کیا جائے۔

Browse More Urdu Literature Articles