Har Jootay K Din Phirtay Hain - Article No. 1058

Har Jootay K Din Phirtay Hain

ہر جُوتے کے دِن پھرتے ہیں - تحریر نمبر 1058

(پہلے یاد کیجیے ، سابق امریکی صدر بُش کی پریس کانفرنس۔پھر عراقی صحافی ؛ منتظرالزیدی اور اُس کا دس نمبر کا جُوتا۔ اب آگے پڑھیے )

نادر خان سرگروہ جمعرات 19 مئی 2016

ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ جوتوں پر کچھ لکھیں گے۔ اور بے حمیّت سیاست دانوں کو پڑنے کے بعد تو جوتے اِس قابل ہی نہیں رہے کہ اُن پر کچھ لکھا جائے۔ لیکن جب ہم نے بُش کو جوتے پڑنے کے بعد سب قلم کاروں کی جوتوں پر لکھنے کی اِشتہا دیکھی تو ہمارے پیٹ میں بھی جُوتے دوڑنے لگے۔ چاروناچار ہمیں بھی جوتوں کی شان میں قصیدہ گوئی کا قصد کرنا پڑا۔
یوں تو اَب سے پہلے بھی بے شمار سیاست دانوں کی شہرت میں جوتوں سے چار چاند(کے دھبّے )لگے ہیں، لیکن بُش پر ہوئی جوتوں کی غُلہ باری (نشانہ بازی)کو میڈیا اور اَدبی حلقوں نے عراق پر ہوئی گولہ باری سے زیادہ اُچھالا ۔ لیکن اُس کی ڈھٹائی دیکھیے کہ:
جُوتیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا
ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ایک صحافی نے کسی کی ’ جوتے سے خبر لی ہو ‘۔

(جاری ہے)

اُس صحافی نے سابق امریکی صدر پر جوتے اُچھال کر ، شعرا اور اُدبا کی طرف ایک نیا موضوع اُچھال دیا۔ پھر سب نے جوتوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور اُس کے بعد سَر پر اُٹھا لیا۔ جہاں دیکھو تِہاں جوتے اُڑائے جا رہے ہیں۔ اب تو حال یہ ہے کہ جوتوں کے پاوٴں زمین پر نہیں پڑ رہے ہیں۔ ہر قلم کار ہاتھ کا کام طاق پر رکھ کر جوتوں کے پیچھے ہاتھ پاوٴں دھو کر پڑ گیا ہے۔
۱پنی دانست میں سب لکھنے والے کاغذ پر جوتے چلا کر ایسے خوش ہیں، گویا اُنہوں نے ہی بُش پر جوتے چلائے ہوں۔ اُن کی خوشی عراقی صحافی سے بھی کچھ زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ اُس صحافی کو تو اَپنے چرمی جوتوں سے ہاتھ دھونا پڑا اور امریکی فوج کی گرفت میں آکر اپنی کھال سے بھی، جب کہ شعرا اور اُدبا جوتے چلا چلا کر داد بٹور رہے ہیں اور اپنی کھال میں پھُولے نہیں سما رہے۔

بات اُس پریس کانفرنس کی نکلی توہم نے اپنے ہمدمِ دیرینہ پُرجوش پُوری سے کہا، ” ہم اگراُس صحافی کے جوتوں میں ہوتے If I were in his shoes) ( تو ملٹری شُوز (Military shoes) میں ہوتے، جس کے نیچے موٹی سی گھوڑے کی نعل بندھی ہوتی۔ اور پھر…“
”ملٹری شُوز کی بات کرتے ہو ! “ انہوں نے ہماری بات کاٹتے ہوئے کہا، ” پہلے وہ جوتا تم سے اُٹھ پاتا ، تب نا چلا پاتے! ہم اگر اُس کی جگہ ہوتے “ پُوری نے (جوسب کو اپنی جُوتی اور مُونچھوں کی نوک پر مارتے ہیں) اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا، ” ہم اُس کی جگہ ہوتے تو ایک منصوبے کے تحت جوتوں کی بوری لے جاتے اور اُنہیں دونوں ہاتھوں سے لُٹاتے۔
سب فتنہ گروں کو یہ دِکھا دیتے کہ ہم جوتے بیچ کر سو نہیں رہے ہیں۔“
جوتے کی تو اَپنی کوئی حیثیت نہیں ہوتی، لیکن اِس کے پہننے سے… پہننے والے کی حیثیت کا تعین ہوتا ہے۔ کبھی کبھار شخصیت کے سبب جوتے کی قیمت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ ایسا دونوں صورتوں میں ہوتا ہے۔ یعنی، جوتا پیر میں ہو تب بھی اور سَر پر ہو تب بھی ۔کسی سیانے نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ کسی کی اوقات دیکھنا ہو تو اُس کے جوتے دیکھو اور کسی کو اُس کی اوقات دکھانا ہو تو … اُس کو جوتا دکھا وٴ!
جوتے دیکھنے اور دکھانے سے پُوری صاحب کی ایک بات یاد آگئی، وہ کہتے ہیں، ”جوتوں کی اہمیت کا اندازہ ہمیں اپنی شادی کے موقع پر ہوا، جب ہم پہلی مرتبہ ’ بَن ٹھَن‘ کر سُسرال گئے تھے۔
وہاں ہم نے دیکھا کہ سُسرال والوں کی نظر ہمارے جامے اور سَراپے سے زیادہ ہمارے جوتوں پر تھی۔ اُس وقت ہمیں اپنی اور جوتوں کی اوقات کا فرق صاف نظر آیا۔ ہمارے احباب کو بھی ہم سے زیادہ ہمارے جوتوں کے ’ہاتھ‘ سے نکل جانے کی فکر تھی۔ بقول اُن کے، ہم تو شادی کے بعد ہاتھ سے نکل ہی گئے تھے۔ … یادِ ’ شادی‘ عذاب ہے یارب !“
ہم نے اور پُرجوش پُوری نے جب ایک نئی جہت میں سوچنا شروع کیا تو ہم پر یہ آشکار ہوا کہ ہر آدمی کو جوتے چلانے کی مشق کرنا چاہیے۔
نہ معلوم کب ضرورت پڑ جائے اور نا تجربہ کاری کے سبب نشانہ چُوک جائے۔ اِس کے لیے ہم نے یہ طریقہ ڈھونڈ نکالا کہ آپ اپنی ’فراغت کی مصروفیت‘ میں سے تھوڑا سا وقت نکال کر اَپنے گھر کی دیوار پر اَپنے علاقے کے کسی ناکارہ سیاسی لیڈر کی تصویر چسپاں کر دیں۔ پھر ایک فاصلے پر چند پرانے اور کٹے پھٹے جوتے لے کر کھڑے ہو جائیں۔ لیکن اپنے ہدف پر نشانہ سادھنے سے پہلے وہ تمام مسائل، جن سے آپ دوچار ہیں، ذہن میں دُہرائیں۔
مثلاً، مہنگائی، لوڈ شیڈنگ، خستہ حال سڑکیں۔ ایک لمبی فہرست ہے جو یقینا آپ کو اَزبر ہوگی۔ جتنا زیادہ کرب ہوگا اور جتنا شدید غصّہ ہوگا، جوتا مارنے میں اُتنا ہی لطف آئے گا، اُتنی ہی راحت ملے گی۔ لیکن غصّہ ایک حد تک قابو میں ہونا چاہیے ورنہ نشانہ خطا بھی ہوسکتا ہے۔ یاد رَہے کہ جوتا چلاتے وقت تصویر میں موجود وہ سیاسی لیڈر معصوم بن کرآپ کو اَپنا ارادہ بدلنے پر مجبور نہ کر دے۔
جذبات کو قابو میں رکھیے، ورنہ آپ اُن جوتوں سے اپنا ہی سر پِیٹ لیں گے۔
ہماری اِن باتوں کا جب ہمارے کلون (Clone)کو علم ہوا تو وہ ہمیشہ کی طرح جذباتی ہو گئے اور کہا ،” کیا ہوگااِن سب باتوں سے؟ بہت خوش ہیں آپ ایک طاقتور ملک کے صدر پر جوتے اُچھال کر۔ فلسطینی … نصف صدی سے اسرائیلی فوجیوں اور ٹینکروں پر پتھر اُچھال رہے ہیں۔ کیا اب اپنے گھر میں بے گھر عراقی باشندے قابض افواج کو جوتوں سے جواب دیں گے؟ کیا ایسے بے اثر ردّعمل سے مسائل کا حل نکل آئے گا؟ وہ جس نے جوتے چلائے ، ذرا خود کو اُس کی جگہ رکھ کر سوچیے۔
بحیثیت عراقی اور ایک صحافی، اُس کی آنکھوں نے کیسے کیسے دل دہلا دینے والے مناظر دیکھے ہوں گے۔ سہمی ہوئی آنکھوں میں ٹھہرے ہوئے مستقبل دیکھے ہوں گے۔ سنگ دل فوج کے جوتوں کی ٹھوکر میں اپنوں کے سَر دیکھے ہوں گے۔ ہم وطنوں کے بے حِس و حرکت جسموں پر ظلم کی تحریریں پڑھی ہوں گی۔ جانے کتنے جنازوں کو خون کے غسل کے بعد خون آلودہ کفن میں دفناتے دیکھا ہوگا۔
معصوموں کی آہ و بکا سنی ہو گی۔ موت کی نیند سو رَہے بچوں کوجھنجھوڑ کر جگاتی، روتی بلکتی مائیں دیکھی ہوں گی۔ عصمتوں کے پردے چاک ہوتے دیکھے ہوں گے۔ گھٹنوں میں سر دِیے، گزرے ہوئے لمحوں کو کوستی ، زندگی کی قیدسے آزاد ہونے کو تڑپتی ، کچھ نوچی گئی زندہ لاشیں دیکھی ہوں گی۔
یقینا وہ جوتے چلا کر خوش نہیں ہوا ہوگا۔ وہ ہزار جوتے چلا کر بھی خوش نہ ہوتا۔
پورا عراق مل کر بھی جوتے چلا لے، تب بھی کچھ نہیں بدلے گا۔ پریس کانفرنس میں جوتے پھینکے جانے کے واقعے کی تہہ میں اُس کڑوے سچ کو نہ دبائیے، ورنہ ہمارے مسائل پر ’خوش فہمی ‘ او ر ’ بے حسی‘ کے خول چڑھتے جائیں گے اور ہم اپنی بے بسی کا اظہار بھی نہ کر پائیں گے۔ جوتے چلا کر بھی نہیں، اپنے سر پِیٹ کر بھی نہیں۔ “
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( جنوری، دو ہزار نو)

Browse More Urdu Literature Articles