Intazar Ki Raat - Article No. 1129

Intazar Ki Raat

انتظار کی رات - تحریر نمبر 1129

اسکے بیٹے ہی اسکی متاع حیات تھے

منگل 20 دسمبر 2016

مجید احمد جائی :
وہ ایک سہانی صبح تھی ۔ بادلوں کی گھن گرج ، کڑکتی آسمانی بجلی نے خوف ساپیدا کررکھا تھا۔ صبح ہوتے ہی ہر طرف اندھیرے کی چادرتن گئی تھی ۔ ہوائیں زروپتوں کو روئی کے گالوں کی طرح اُڑاتی پھرتی تھیں ۔ رم جھم پھوارنے برساتی بارش کاروپ دھارلیا تھا۔ ہر طرف پانی ہی پانی ، چڑیاں ، کوے ، لالیاں بارشی پانی میں نہارہی تھیں۔
بارش کے پانی میں اپنے پروں کو پھڑپھڑا کرپانی کے چھینٹے اُڑارہی تھیں ۔ پھر بارش رک گئی تھی اور پانی کے قطرے سے سورج کی ہلکی ہلکی روشنی میں سنہرے موتیوں کی طرح چمکنے لگے۔ درختوں کی چھوٹی بڑی شاخیں مست ہواؤں میں جھوم رہی تھیں ۔ ہر طرف مستی کی فضا چھائی تھی لیکن دینو بابا گاؤں سے شہر جاتی پکی سڑک کے کنارے آلتی پالتی مارے سڑک کو تک رہا تھا۔

(جاری ہے)


یہی سڑک تھی جس نے اُسے کرب کی تپتی ریت پہ بیٹھا دیا اور اُسے وقت سے بہت پہلے بوڑھا کر دیا تھا ۔
دینو گاؤں کثیر آبادی پر مشتمل تھا۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب دین محمد عرف دینو جوان تھا۔ قدکاٹھ لمبا سینہ چوڑا، خوبصورت نین نقش بھر بھرا جسم ، سادہ لباس ، طبیعت میں دیہاتی پن ، سرپہ روایتی پگڑی اُس کی شخصیت کونکھارتی تھی ۔ ملنسار اور مہمان نواز تھا۔
حسن وجمال اُس کے انگ انگ سے ٹپکتا تھا ۔ جب بولتا تو لفظوں میں مٹھاس ہوتی۔ کسی نے اُسے لڑتے نہیں دیکھاتھا ، ہرایک سے محبت سے ملتا تھا۔ غصہ تو اُس سے دور بھاگتا تھا۔
دینو کا والد اُس کے بچپن میں فوت ہوگئے تھے ۔ماں اُس وقت چھوڑگئی تھی جب دینو جوانی کی پہلی سیڑھی چڑھ رہا تھا۔ماں باپ کے مرنے کے بعد عزیز واقارب ایسے غائب ہوئے جیسے خزاں سے پہلے بہار جاتی ہے ۔
ماں باپ کااکلوتا تھا۔ باپ نے واثت میں پانچ ایکڑزمین چھوڑی تھی ۔
دینوبابا پڑھنا لکھنا نہیں جانتا تھا۔ گاؤں میں سکول کی سہولت نہیں تھی ۔ پورا گاؤں پسماندہ تھا۔ سکول نہ ہسپتال ، صفائی کا بھی کوئی انتظام نہیں تھا۔ گاؤں شہرسے رابطہ بالکل نہیں تھا۔ غربت میں پستایہ گاؤں اپنی مدد آپ کے تحت زندگی کی گاڑی کو دھکیلنے میں مصروف عمل تھا ۔
گاؤں والوں کی فصلیں کھیتوں میں پڑی پڑی گل سڑجاتی ۔ منڈیوں تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے رزمبادلہ مل نہ سکتا تھا۔ جواناج استعمال ہوتا وہ کرتے باقی کھیتوں میں خراب ہوتارہتا ۔
دینو ہر کسی کے کام آتا۔ جذبہ انسانیت اُس میں کوٹ کوٹ کربھراہوا تھا۔ یہ بھی برسات کا موسم تھا۔ بارش تھم گئی تھی، عورتیں بالٹیاں ، پراتیں لے کر اپنے اپنے گھر کے صحن سے بارش کاپانی نکال رہی تھیں کہ ایک دم شور اٹھا ۔
شرفو کا مکان گرگیا ۔ بچاؤ․․․․․ بچاؤ․․․․․ کی آوازیں زور پکڑ گئیں ۔
دینو اپنے گھر سے دھوتی باندھے ، بدن کوبنیان سے ڈھانپے ہوئے باہر کی طرف بھاگا اور شرفو کے گھر پانی میں چھما چھم کرتے پہنچ گیا۔ وہاں گاؤں والوں کا ہجوم جمع تھا۔ کوئی گسی سے اینٹیں ہٹا رہا ہے توکوئی کچھ ملبے تلے جسم سسک رہے تھے ۔ ریسکیو کی سہولت نہ فضائی امداد ۔
ایسے لگتا اس گاؤں کا ہر طرف سے رابطہ منقطع ہے ۔ گاؤں کے چاروں طرف پانی ہی پانی تھا۔ دینو نے گاؤں والوں کے ساتھ مل کر شرفو کی فیملی کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ مگر ہونی کوکون ٹال سکتا ہے ۔ شرفو ، اُس کی بیوی اور اُس کاکم سن بیٹامکان گرتے ہی ہلاک ہوگئے تھے اور صرف شرفو کی بیٹی بختوملبے تلے سے زندہ سلامت نکل سکی ۔
روتے دھوتے وقت سرک گیااور گاؤں والوں کی رضا مندی سے بختو کو دینو کے نکاح میں دے دیاگیا ۔
یوں دینو اور بختو۔ میاں بیوی کے بندھن میں بندھ کرایک چھت کے نیچے زندگی کی گاڑی کو دھکیلنے لگے ۔
انسان کتنا کم ظرف ہے ۔ لمحوں کی خوشی میں برسوں کے درد وغم بھول جاتا ہے اور اس طرح دولت کے نشے میں رشتے داروں ، ساتھیوں کو بھول جاتا ہے ۔ جس طرح دینو کے رشتے دار منہ موڑ گئے تھے ۔ لیکن حیران کن بات تو یہ ہے کہ انسان کتنی ہی نافرمانیاں کرے، کتنی ہی گستاخیاں کرے، کتنے گناہ کرے وہ ذات جوسب کی تقدیر کی مالک ہے منہ نہیں موڑتی بلکہ اس انتظار میں رہتی ہے کہ کب میرابندہ میری طرف لوٹتا ہے ۔
انسان گناہ پہ گناہ کیے جاتا ہے اور وہ رحمان رحمتوں ، نعمتوں سے نوازتا جاتا ہے ۔ جو بندہ رب کا ہوجاتا ہے رب بھی اُس کا ہوجاتا ہے ۔
دینو اور بختو مثالی میاں بیوی ثابت ہوئے ۔ دینو کی طرح بختو بھی اُن پڑھ تھی لیکن حسن وجمال کی ملکہ تھی میک اپ نام کی کوئی چیز نہیں تھی پھر بھی وہ چٹی گوری تھی ۔ قدرتی حسن میں پری نمالگتی تھی ۔
زندگی کے مہ وسال گزرتے رہے اوراللہ تعالیٰ نے اُن کے آنگن میں پھول کھلادیئے ۔
سلیمان اور کامران کی صورت میں ۔ دونوں بہت پیارے اورہردل عزیز تھے ۔ ان دونوں کی وجہ سے آنگن میں رونقیں لوٹ آئیں اور دینو جب بھی کھیتوں سے گھرلوٹتا ، دونوں بچوں کو بانہوں میں بھرلیتا ۔ دن بھر کی تمام تھکاوٹ دور ہوجاتی ۔ بچوں کی قلقاریاں اُس کی روح تک سرشار کردیتیں اور دینو بچوں کے ساتھ کود بھی بچہ بن جاتا، اُن کے ساتھ کھیلتا۔ کچے صحن میں اُن کی سواری بن جاتا اور سلیمان اور کامران اُس کی پیٹھ پہ سوار ہوکر صحن بھر کی سیر کرتے ۔
دینو کے دونوں بچے جان تھے توبختو اُن پہ جان چھڑکئی تھی ۔
دن گزرتے رہے اورسلیمان اور کامران بچپن سے لڑکپن سے ہوتے جوانی کی دہلیز پہ قدم جمانے لگے دینو اور بختو کے بالوں میں چاندی اُترنے لگی اور ہڈیاں کمزور ہونے لگیں ۔ بڑھاپا سرچڑھ کر بولنے لگا۔
کئی بہاریں آئیں اور لوٹ گئیں ۔ ساون رت آئی تودل کے تاربج اٹھتے ۔ یہ بھی انہی برساتی دنوں کی بات ہے ۔
الیکشن سرپہ آئے تو سیاسی لیڈروں نے اس پسماندہ گاؤں کی طرف رخ کیا۔ کھوکھلے وعدے ہوئے ، جھوٹ پہ جھوٹ بولے گئے ۔ لیکن پھر ایک سیاسی پارٹی کے لیڈرنے صداقت دکھائی ۔ گاؤں میں پکی سڑک کی اُمیددلائی اور الیکشن کے بعد یہ وعدہ وفا کردکھایا۔ گاؤں کوشہر کے ساتھ ملایاگیا۔ پکی سڑک بن گئی ۔ گاؤں میں بجلی ، گیس آگئی ، پکی نالیاں بن گئیں ۔ گاؤں کی قسمت بدل گئی ۔
تبدیلی آگئی گاؤں والوں کی منڈیوں تک رسائی ہوگئی تو لوگوں کے دل تنگ ہونے لگے ۔ زبان پہ شکوے ، دلوں میں نفرتیں عود کرآئیں۔ نگاہوں میں بے شرمی اور گفتار میں بدتمیزی آگئی ۔ اس ماحول کااثرگاؤں کے ساتھ ساتھ دینو کے بیٹوں سلیمان اور کامران پر بھی ہونے لگا۔ گاؤں ترقی کی طرف گامزن ہوگیا ۔ اونچے اونچے محل تعمیر ہونے لگے۔ گیٹ بڑے بڑے بننے لگے تو دل کے دروازے چھوٹے ہوگئے محبتیں ناپید ہوتی گئیں گاؤں میں جراثیم شروع ہوگئے ۔
گاؤں میں اسکول ، ہسپتال بن گئے ۔ ہرسہولت میسر ہونے لگی ۔
دینو نے سلیمان اور کامران کو اسکول داخل کروایا۔ وہ گاؤں کے ماحول سے نکل کرشہر میں کالج یونیورسٹی تک پہنچ گئے ۔ اب وہ جوان ہوگئے تھے اور دینو اور بختو بڑھاپے میں جاپہنچے تھے اورپھر ایک شام قدرت خداوندی کی طرف سے بختو کا بلاوہ آگیا اوردینو پھر سے تنہاہوگیا۔
سیانے سچ ہی کہتے ہیں کہ جب بڑجاپا آتا ہے تو بیوی ہی شوہر کا سہارا ہوتی ہے دکھ سکھ کی ساتھی ، دینو، بختو کودیا کرکے پہروں روتا۔
گھر کا صحن ویران اور درودیوار وحشت زدہ ہوگئے ۔ وہ گھر جہاں خوشیاں تھیں ، مسکراہٹیں تھیں کانٹنے کو آتا۔ خوشیاں لوٹ گئی تھیں ، اب صرف اُداسی ، مایوسی کے سائے منڈلاتے تھے ۔ وحشت زدہ گھر تھااور دینو ۔ دونوں بیٹے ماں کے مرنے پہ آئے تھے اور ماں کے لاشے کو کندھے تو آکر دیئے اور پھر ایسے شہر کی طرف گئے کہ پھرگاؤں کا رخ تک نہ کیا۔
وینو ان کے سروں پہ سہرے سجانے کے خواب دیکھ رہا تھا اور سلیمان اور کامران کچھ اور سوچ رہے تھے۔
دونوں یونیورسٹی میں اپنی کلاس فیلوز کی محبت میں گرفتار ہوئے ۔ دونوں بھائیوں نے کورٹ میرج کرکے اپنے اپنے گھر شہر میں بسا لئے اور باپ کوبھول گئے ۔ اُس باپ کو جس نے گھر کے کچے صحن میں انگلی پکڑ کر پاؤں پاؤں چلنا سیکھایا تھا۔
بختو کو فوت ہوئے دوسال ہوگئے تھے اور یہ دوسال کس کزب ، درد ، مشکلات میں گزرے ، یہ تو کوئی دینو باباسے پوچھے۔
دینو اب دینو بابا ہوگیا تھا۔ زمانے کی ہوانے اُسے نہیں بدلا تھا۔ موبائل آبھی گئے لیکن دینو کو موبائل کااستعمال نہ آیااورپھر دونوں بیٹوں کو کوئی اتاپتا نہ لگ سکا۔ دینو صبح سے شام تک گاؤں کی اُس پکی سڑک پہ بیٹھتا ہے جس سڑک نے گاؤں کو شہر سے ملایاہے ۔ اس سرک پہ بیٹھا بیٹوں کی راہ تکتا ہے لیکن بیٹے اپنی دنیا میں گم ہیں دینو پکی سڑک کو ہاتھوں سے کھرچتا رہتا ہے اور سوچوں کی وادی میں گم ہوجاتا ہے ۔
دینو سوچتا ہے کہ کاش یہ سڑک نہ بنتی تومیرے بیٹے میرے پاس ہوتے ۔ یہ سڑک ہی میری دشمن ہے جس نے میرے لخت جگر چھین لئے ہیں۔ جس دن گاؤں سے شہرتک سڑک بن رہی تھی گاؤں والوں کی خوشی دیدنی تھی ۔ لیکن دینواُس وقت کو یاد کرکے روتا ہے جب سیاسی لیڈر کوگاؤں سے شہرتک پکی سڑک بنانے کا کہاتھا۔

Browse More Urdu Literature Articles