Jaun Elia - Article No. 1062
جون ایلیا۔۔۔ - تحریر نمبر 1062
نادرِ روزگار تھے ہم تو: (حصہ اول)
جمعرات 26 مئی 2016
عرفان ستّار:
جون ایلیا کی تخلیقی شخصیت پر ہمیشہ اُن کی ذاتی شخصیت کا غلبہ رہا۔ادبی دنیا کی اُن کے ساتھ ایک Love-Hate Relationship رہی۔ نتیجہ یہ ہُوا کہ ان کی شخصیت تو موضوع ِ گفتگو رہی، مگر ان کی شاعری کو کبھیobjectively پڑھا ہی نہ گیا۔ میں دعویٰ کر سکتا ہوں کہ بیشتر نقادوں اور زیادہ تر شعرا کو جون ایلیا کے دس پندرہ سے زیادہ اشعار نہ یاد ہیں نہ انھوں نے کبھی یہ سوچا ہے کہ کتنا بڑا آدمی ان کے سامنے سے ہو کر گزر گیا۔
(جاری ہے)
خیر جو ہُوا سو ہُوا۔ جون ایلیا اچھا شاعر نہیں ہے۔
میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میرے ان جملوں پر بہت سے لوگ یہ کہیں گے کہ ”حد ہوگئی۔ جون ایلیا اور بڑا شاعر؟ ایک چھوٹے سے دائرے میں گھومنے والی شاعری اور بڑی؟ کیا بیوقوفی کی بات ہے۔“ اس پر میرا جواب یہ ہے کہ جون کی شاعری ایک چھوٹے سے دائرے میں نہیں گھومتی۔ آپ کا ذہن گھومتا ہے۔ آپ نے جون ایلیا کا ایک خاکہ اپنے ذہن میں بنا رکھا ہے جس میں دس پندرہ اشعار فٹ ہوتے ہیں۔ باقی پر آپ غور کرنے کی یا تو صلاحیت نہیں رکھتے یا ہمت سے محروم ہیں۔
ہمت کی بات کہاں سے آگئی؟ ہمت ہی کی تو بات ہے۔ وہ تمام نقاد اور شاعر جو جون ایلیا کے ہم عصر ہیں، ان سب سے میرا یہ مضمون ایک سوال کررہا ہے۔ اور سوال یہ ہے کہ جناب جون ایلیا جیسے شاعر کو اس کا جائز مقام نہ دینا آپ کی مصلحت تھی، یا شعر فہمی اور بصیرت کی کمی؟کیا آپ کے خیال میں اس سوال کا جواب آسان ہے؟ آسان نہیں ہے۔ یہ ان نام نہاد سکّہ بند نقادوں اور بزعم ِ خود صاحبان ِ علم سے تقاضہ ہے کہ یا تو جون ایلیا کو اس مسند ِ فضیلت پر بٹھائیں جو ان کے لیے بنی تھی، یا یہ ثابت کریں کہ جون ایلیا اس مسند کے قابل نہیں ہے، یا اپنا جرم قبول کریں۔ بہرصورت جواب دینا اُن کا فرض ہے۔
چلیے اب یہ طے کیجیے کہ بڑا شاعر کون ہوتا ہے؟میرے نزدیک بڑی شاعری کے چار بنیادی عناصر ہیں۔ بڑی شاعری کے عناصر ِ اربعہ کہہ لیجیے۔
۱۔ زبان کی درستی، ذخیرہٴ الفاظ اور الفاظ کو برتنے کا سلیقہ
۲۔ مضمون آفرینی اور ندرت ِ خیال
۳۔ قدرت ِ اظہار
۴۔ شعریت
ان چار عناصر کی موجودگی ہی کسی شاعر کی بڑی شعری روایت سے وابستگی، اس کے اپنے عہد پر اثرات، اور اس کے بعد آنے والوں کے تخلیقی سفر میں ان کی رہنمائی کو یقینی بناتی ہے۔
یہاں تک لکھا تھا کہ جون صاحب کی ایک بات یاد آگئی اور میری انگلیاں ٹائپنگ کرتے ہوئے اچانک جم سی گئیں۔۔۔
”جانی… اگر کہیں مجھ سے محبت کرنے والے جمع ہوں تو تیرا صرف ایک کام ہے، انھیں میرے شعر سنانا۔ جیسے تُو میرے شعر پڑھتا ہے، ویسے انھیں کوئی نہیں سنا سکتا۔ تیرا جون بھائی مقالوں کا موضوع نہیں ہے۔ مقالہ نگاروں کے لیے تو جون ایلیا ہمیشہ ایک مسئلہ شاعر رہے گا۔ انھیں اس مسئلے سے اُلجھنے دے۔ تُو میرے شعر سنایا کر۔ میں اپنی شاعری میں زندہ ہوں۔ اسے زندہ رکھ تو سمجھ کہ میں زندہ رہوں گا۔“
بات سمجھ آگئی۔ جون بڑا شاعر اس لیے نہیں کہ وہ ان تمام کسوٹیوں پر کھرا اتر سکتا ہے جو صدیوں کی شعری روایت اور تنقیدی معیارات کے تحت قائم ہوئی ہیں۔ جون بڑا شاعر اس لیے ہے کہ شاعری کے سب سے بڑے موضوع، یعنی انسان کی جذباتی اور نفسیاتی کیفیات پر جیسے اشعار جون ایلیا نے کہے ہیں، اردو شاعری کی روایت میں اُس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ جون ایلیا بڑا شاعر اس لیے ہے کہ کیفیت کو ایک شدید ترین احساس کی صورت میں قاری یا سامع تک منتقل کرنے کی جو صلاحیت جون کے یہاں ہے، اردو شاعری میں اس کی مثال صرف میر# کے یہاں ملتی ہے۔
جون ایلیا کے ساتھ دو بڑے ظلم ہوئے۔ اوّل یہ کہ انھیں ”شاید“ کے بعد اپنا کلام منتخب کرنے کا موقع نہ ملا، اور نتیجتاً ان کا نسبتاً کمزور کلام بھی ان کے مجموعوں میں شامل ہوگیا۔ جون صاحب بہت زُود گو شاعر تھے اور روز بہت کچھ کہتے تھے۔ مگر ان کو یہ نہیں معلوم تھا کہ ان کاوہ کلام بھی شائع کردیا جائے گا جو ان کے لیے مشق، تجربے، یا بسا اوقات محض وقت گزاری کے ایک مشغلے کے ضمن میں آتا ہے۔ جون سراپا شاعر تھے اور شاعری کے سوا کچھ کرنا انھیں نہیں آتا تھا۔ لہٰذا وہ ہمہ وقت کچھ نہ کچھ لکھتے تھے۔ کبھی پھاڑ دیتے، کبھی رکھ چھوڑتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ”شاید“ کے مقابلے میں ان کے باقی تمام مجموعے نسبتاً کمزور لگتے ہیں۔ دوسرا ظلم یہ ہوا کہ انھیں اچھا قاری تو ملا مگر اچھا نقاد نصیب نہ ہوا۔ ان کے سینئرز اور ہم عصر نقادوں نے زبانی کلامی تو انھیں بہت سراہا، مگر ان کے کلام کی بڑائی کا تحریری طور پر اعتراف نہ کیا۔ آج بھی ایسا اکثر ہوتا ہے کہ کوئی صاحب جون صاحب کے دس پندرہ ”ناف پیالہ“ والے اشعار پکڑ کر انھیں ایک بیمار، برا، اور نیم پاگل شاعر قرار دے کر تالیاں بجواتے نظر آتے ہیں۔
رابرٹ فراسٹ نے کہا تھا کہ Poetry is what is lost during translation. آخر کیوں؟ ایسا کیا ہے جو الفاظ میں منتقل ہونے سے رہ جاتا ہے؟ اس کا جواب ہے کیفیت۔ وہ کیفیت جو شعر کے الفاظ اور ان کے معانی میں نہیں، ان کے باہم ملاپ سے پیدا ہونے والی ایک ایسی حقیقت ہے جسے سمجھایا نہیں جا سکتا، صرف محسوس کروایا جا سکتا ہے۔ آج میں آپ کو جون ایلیا کے احساس میں شریک
کرنے کی کوشش کروں گا۔ یہ وہ اشعار ہیں جو رابرٹ فراسٹ کے بیان کردہ معیار کا کامل نمونہ ہیں۔ ان کی تشریح میں وہ کیفیت آ ہی نہیں سکتی جو ان اشعار کے دو مصرعوں میں موجود ہے۔ ان اشعار کو سن کر اگر آپ کے منہ سے واہ اور دل سے آہ نکلے تو سمجھئے جون ایلیا زندہ ہے، اور زندہ رہے گا۔ اشعار کے انتخاب کا معیار میرا حافظہ ہے۔ جون ایلیا ان شاعروں میں سے نہیں جن کے یہاں اچھے اشعار ڈھونڈنے کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے۔ جون کے یہاں تو ایک انبار لگا ہوا ہے ایسے اشعار کا جن میں سے ایک ایک کے ساتھ پوری پوری رات گزاری جا سکتی ہے۔ آئیے اور میرے ساتھ جون ایلیا کی شاعری سے اپنے احساس کو مہمیز کریں۔
کیا ستم ہے کہ اب تری صورت
غور کرنے پہ یاد آتی ہے
کسی سے محبت کرنے کے لیے اس سے زیادہ روح فرسا کیفیت اور کیا ہوگی کہ اس کے محبوب کے خال و خط اُس کے حافظے میں دھندلانے لگیں۔ اور پھر اس کا ایسا اظہار کہ ”کیا ستم ہے۔۔۔۔“ ایسے دل میں جا گڑے کہ منہ سے بے اختیار آہ نکلے۔ یہ کیفیت نئی ہرگز نہیں ہے۔ اس کیفیت کا ایسا اظہار صرف جون ایلیا کے یہاں ملتا ہے۔
Browse More Urdu Literature Articles
کتنے یگ بیت گئے
Kitne Yug Beet Gaye
پروین شاکر کی حادثاتی موت کی نامکمل تحقیقات
Parveen Shakir Ki Hadsati Maut Ki Namukammal Tehqiqat
جلتی ہوا کا گیت
Jalti Hawa Ka Geet
ماں اور پروین شاکر
Maan Aur Parveen Shakir
پروین شاکر کا رثائی شعور
Parveen Shakir Ka Rasai Shaoor
ریت
Rait
لا حاصل از خود
La Hasil Az Khud
فقیرن
Faqeeran
داستان عزم
Dastaan E Azm
محمد فاروق عزمی کا پرعزم اور پر تاثیر قلمی سفر
Mohammad Farooq Azmi Ka PurAzam Aur PurTaseer Qalmi Safar
حلیمہ خان کا تقسیم 1947 کے شہداء کو سلام
'Walking The Divide: A Tale Of A Journey Home'
جہیز
Jaheez