Jaun Elia - Article No. 1075

Jaun Elia

جون ایلیا۔۔۔ - تحریر نمبر 1075

نادرِ روزگار تھے ہم تو: (حصہ سوم)

پیر 18 جولائی 2016

شوق کا رنگ بجھ گیا، یاد کے زخم بھر گئے
کیا مری فصل ہو چکی، کیا مرے دن گزر گئے
یہ بحر جون صاحب کی مرغوب ترین بحر ہے اور اردو اور فارسی ملا کر بھی دیکھیں تو اس بحر میں اتنی غزلیں کسی نے نہیں کہیں، جتنی جون صاحب نے کہی ہیں۔ اور اس بحر میں ان کا تخلیقی وفور اپنے عروج پر نظر آتا ہے۔ اب ذرا شعر کی نازکی پر غور کیجیے۔
شوق کا رنگ بجھ گیا؟ یاد کے زخم بھر گئے؟
کیا مری فصل ہو چکی؟ کیا مرے دن گزر گئے؟
یہ کسی اور سے سوال ہے یا خود کلامی؟ اتنا دھیما لہجہ اور ایسا کاٹ دار؟ نازک ہے بہت کام صاحب… سینہ کوبی کیجیے یا سر دیوار سے دے ماریے۔
اس سے کم داد کا مستحق یہ شعر نہیں۔
شام ہے کتنی بے تپاک، شہر ہے کتنا سہم ناک
ہم نفسو، کہاں ہو تم، جانے یہ سب کدھر گئے؟
کون ہیں جو کہتے ہیں کہ جون ایلیا سہل ِ ممتنع کا شاعر ہے۔

(جاری ہے)

جناب شام کی بے تپاکی، شہر کی سہم ناکی… یہ اتنی پیچ دار صورت ِ حال ہے کہ جدید حسیّت کے تمام دعویدار اپنی دکانیں بڑھا کر جون ایلیا کے حجرے کی دربانی کریں تو انہیں معلوم ہو کہ جدید حسیّت کسے کہتے ہیں۔

سہل ِ ممتنع تک جون صاحب کو محدود سمجھنے والوں کے لیے چند اور اشعار
خیرہ سرانِ شوق کا، کوئی نہیں ہے جنبہ دار
شہر میں اس گروہ نے کس کو خفا نہیں کیا؟
جس کو بھی شیخ و شاہ نے، حکمِ خدا دیا قرار
ہم نے نہیں کیا وہ کام، ہاں بخدا نہیں کیا
۔۔۔۔
تُو کبھی سوچنا بھی مت، تُو نے گنوا دیا مجھے
مجھ کو مرے خیال کی موج بہا کے لے گئی
۔
۔۔۔
بند رہے جن کا دروازہ ایسے گھروں کی مت پوچھو
دیواریں گر جاتی ہوں گی آنگن رہ جاتے ہوں گے
میرا سانس اُکھڑتے ہی سب، بین کریں گے، روئیں گے
یعنی میرے بعد بھی یعنی، سانس لیے جاتے ہوں گے؟
۔۔۔۔
ہم نے خدا کا رد لکھا، نفی بہ نفی لا بہ لا
ہم ہی خدا گزیدگاں تم پر گراں گزر گئے
میں تو صفوں کے درمیاں کب سے پڑا ہوں نیم جاں
میرے تمام جاں نثار، میرے لیے تو مر گئے
۔
۔۔۔
عجب ہے ایک حالت سی ہوا میں
ہمیں جیسے گنوایا جا رہا ہے!
ایسے کتنے ہی اشعار ہیں جن کے موضوعات بھی بہت گہرے اور گنجلک ہیں اور جن میں جون صاحب کی قدرتِ کلام اس اوجِ کمال پر ہے کہ اس پر گفتگو ایک مکمل کتاب کا موضوع ہے۔
اس بار وہ تلخی ہے کہ روٹھے بھی نہیں ہم
اب کے وہ لڑائی ہے کہ جھگڑا نہ کریں گے
ایسی تلخی کہ روٹھنا اور جھگڑنا ایک تعلق کی تجدید لگے، یہ بالکل جدید طرزِ احساس بھی ہے اور طرزِ اظہار بھی۔
یہ اتنی افراط اور کاملیت کے ساتھ صرف جون ایلیا کے یہاں پایا جاتا ہے۔
جانے تری نہیں کے ساتھ، کتنے ہی جبر تھے کہ تھے
میں نے ترے لحاظ میں، تیرا کہا نہیں کیا
کون ہوگا جو اس شعر سے سرسری گزر جاتا ہوگا؟ کیا اسے یہ احساس ہے کہ کتنا بڑا شعر اس نے سرسری گزار دیا؟ میں نے ترے لحاظ میں تیرا کہا نہیں کیا؟ سبحان اللہ۔
کل دوپہر عجیب سی اک بے دلی رہی
بس تیلیاں جلا کے بجھاتا رہا ہوں میں
بے دلی کی کیفیت کا ایسا نادر بیان مجھے پوری اردو شاعری میں دکھا دیجیے تو میں اپنے اس دعویٰ سے دست بردار ہونے کو تیار ہوں کہ جون ایلیا ایک بہت اچھا نہیں، بہت بڑا شاعر ہے۔

دل کو تری ہوس سے کسی دم نہیں قرار
ہلکان ہو گیا ہوں تری دلکشی سے میں
ایک لفظ سے کیفیت کو شدید ترین احساس بنا دینا اور ایسا احساس جس کی شدت پڑھنے والے کو پوری پوری محسوس ہو، کوئی معمولی بات نہیں۔ ہلکان کا ایسا برتاوٴ کہ اس کی جگہ کوئی لفظ نہ لے سکے، مجھے تو کہیں نہیں ملا۔ ذرا دلکشی سے ہلکان ہونے کا تصور تو اپنے حواس پر طاری کیجیے اور اگر وجد میں آئیے تو جون ایلیا کو یاد کیجیے
یہ حشرِ ناز کہ بس، اور یہ تیز تیز نفس
تمہیں سیلقہٴ انکار تک نہیں آتا
کیسی منظر کشی ہے۔
ایک قتّالہ سامنے صاف دکھائی پڑتی ہے، اپنی تمام تر حشر سامانیوں اور تیز تیز چلتی ہوئی سانسوں کے ساتھ۔ اور اس پر یہ شدید مصرع کہ… تمہیں سلیقہٴ انکار تک نہیں آتا… یہ شاعری ہے صاحب، خالص شاعری۔
مستقل بولتا ہی رہتا ہوں
کتنا خاموش ہوں میں اندر سے
سہل ِممتنع؟ چھوٹے سے دائرے کا شاعر۔ یہ چھوٹا سا دائرہ ہے تو بڑا کیا ہوتا ہوگا؟ انسان کی نفسیاتی پیچیدگی کا ایسا اظہار اس قابل ہے کہ اس شعر کے خالق پر یونیورسٹیوں میں مقالہ در مقالہ کام کیا جا رہا ہو۔
کہاں ہو رہا ہے وہ کام؟ کون لکھ رہا ہے جون ایلیا پر؟ آج ان کے انتقال کو کئی برس گزرنے کے بعد بھی کوئی ایک قابلِ ذکر مضمون کہیں شائع ہوا ہو تو میرے علم میں نہیں ہے۔
بولنے ہی سے ہیں جو رشتے ہیں
تُو عجب ہے کہ بولتا ہی نہیں
عمرانیات کے ماہرین کو ایسا شعر ہاتھ لگ جائے تو جون کی دست بوسی کریں۔ مگر پڑھے تو کوئی ذہن کھول کر پہلے اس شاعر کو۔

عجیب ہے مری فطرت کہ آج ہی مثلاً
مجھے سکون ملا ہے ترے نہ آنے سے
کیا کسی شاعر نے آج تک انسانی فطرت کی اس نفسیاتی پیچیدگی پر شعر کہا ہے؟ یہ ایک بالکل نیا شعری رویہ ہے جس کا آغاز بھی جون صاحب نے کیا اور اسے ایسے کمال پر پہنچا دیا کہ اب ان کی تقلید کرنا شاید ہی کسی کے لیے ممکن ہو سکے۔
اُس گلی نے یہ سن کے صبر کیا
جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں
کسی غیر انسانی وجود کو احساس بخش دینا جون ایلیا کا کمال ہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا تھا کہ آپ ایک گلی کے غم کو اپنی روح کی گہرائی میں محسوس کرسکتے ہیں؟ کیسے ایک گلی ایک پوری انسانی برادری کا استعارہ بن گئی ہے؟ مذاق نہ باشد۔

Browse More Urdu Literature Articles