John F Kennedy 1962 To 1917 - Article No. 947

John F Kennedy 1962 To 1917

جان ۔ ایف۔ کینیڈی1962ء۔1917ء - تحریر نمبر 947

جان فٹزگرالڈکینیڈی ” ماسا چوسٹ “ میں بروک لین “ میں 1917ء میں پیدا ہوا ۔ وہ 20جنوری 1961ء سے28 نومبر 1962ء تک امریکہ کا صدر رہا۔ تاآنکہ ٹیکساس میں ڈلاس کے مقام پر اسے قتل کر دیا گیا۔۔۔

جمعرات 27 اگست 2015

جان فٹزگرالڈکینیڈی ” ماسا چوسٹ “ میں بروک لین “ میں 1917ء میں پیدا ہوا ۔ وہ 20جنوری 1961ء سے28 نومبر 1962ء تک امریکہ کا صدر رہا۔ تاآنکہ ٹیکساس میں ڈلاس کے مقام پر اسے قتل کر دیا گیا ۔ میں نے کینیڈی سے متعلق متعدد دیگر سوانحی کوائف نظر انداز کردیے ہیں ۔ کچھ اس لیے کہ یہ معلومات یوں عام ہیں اور کچھ اس باعث کہ کینیڈی کی بیشتر ذاتی اور سیاسی مصروفیات میں سے کم ہی اس کی اس کتاب میں شمولیت کی بنیاد بنی ہیں ۔
آج سے ہزار برس بعد ” امن فوج “ (Peace Corps) ” اتحاد برائے ترقی “ (Alliance for Progress) وغیرہ کسی کویاد نہیں رہے گا ۔ نہ ہی یہ بات اہم رہے گی کہ ٹیکساس یاعوامی حقوق کی قانون سازی سے متعلق کینیڈی کی پالیسیاں کیا رہیں۔ جان ۔ ایف ۔ کینیڈی کو اس فہرست میں فقط ایک ہی بنیاد پر جگہ ملی ہے ‘ کہ وہی شخص اپالو خلائی منصوبہ (Apollo Space Program) کی استواری کا ذمہ دار ہے ۔

(جاری ہے)

اگر مستقبل میں نوع انسانی نے اپنی ناعافیت اندیشی سے خود کو ہلاک نہ کرلیا ‘ تو مجھے یقین ہے کہ پانچ ہزار سال بعد بھی چاند کا ہمارا سفر ایک یاد گار واقعہ کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا ۔ یہ انسانی تاریخ کا ایک سنگ میل ہے ۔
میں چاند کے سفر کے منصوبہ پر مزید گفتگو کروں گا ۔ پہلے تو میں اس سوال پر بات کروں گا کہ آیاجان ایف کینیڈی ہی وہ شخص ہے جسے حقیقتاََ اس تمام منصوبہ کے لیے اصل ذمہ دار ٹھرایا جائے ۔
کیا اس اعزاز کا اصل مستحق آرم سٹرانگ یا ایڈون ایلڈرن نہیں ہیں ‘ جنہوں نے چاند پہلا انسانی قدم رکھا ؟ اگر ہم لوگوں کو ان شہرت کے حوالے سے یہاں شمار کریں تو پھر یہی بہتر ہوگا کیونکہ میراخیال ہے کہ آج سے پانچ ہزار سال بعد جان ایف کینیڈی کی نسبت نیل آرم سٹراگ لوگوں کے ذہنون میں زیادہ تازہ ہوگا ‘ لیکن اپنے اثرات کے حوالے آرم سٹرانگ اور ایلڈرن قطعی غیر اہم ہیں ۔
اگر بدقسمتی سے یہ دونوں افراد اپالو دوئم “ کی روانگی سے دو ماہ پہلے فوت ہوجاتے تو ایسے تربیت یافتہ اور اہل خلانوردوں کی تعداد تب بھی کم نہیں تھی جو ان کی جگہ لیتے ۔
تو کیا یہ سہراورنہروان براؤن یاکسی دوسرے سائنس دان یاانجینئر کے سر بندھنا چاہیے ‘ جس نے خلائی سفر کے علم میں اہم اضافے کیے ۔ اس بات میں شک کی گنجائش نہیں ہے کہ ورنہروان براؤن نے خلائی سفر کو ممکن بنانے میں اپنے حصہ سے زیادہ اضافہ کیا ( جیسا اس کے چند اہم پیش روؤں کا نسٹانٹن تسیل کو وسکی ‘ رابرٹ ایچ گوڈرڈ اور ہرمان اوبرتھ وغیرہ نے کیا ) جب ایک بار ” اپالو “ منصوبے کی سیاسی طور پر منظوری دی گئی توکوئی سائنس دان تب اس کی کامیابی کے لیے پر امید نہیں تھا ۔
چاند کے اس سفر کے لیے اصل اہم واقعہ کوئی سائنسی پیش رفت نہیں تھی ‘ بلکہ آگے بڑھنے اور اس منصوبہ پر جوبیس بلین ڈالر صرف کرنے کا سیاسی فیصلہ تھا ۔
آکر یہ سیاسی فیصلہ کیا تھا ؟ کیا اگر جان ایف کینیڈی نہ ہوتا یہ فیصلہ بھی نہ ہوتا ؟ مجھے کچھ شک ہے ‘ کہ اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کوئی نہ کوئی حکومت ضرور چاند پر انسان بردار خلائی جہاز اتارنے کے لیے مالی اعانت کا فیصلہ کر لیتی ۔
دوسری طرف نہ ہی عوام کی طرف اس گراں قیمت منصوبہ کے حق میں اصرار کا اظہار ہوا تھا ۔ اگر 1959ء یا 1960میں امریکی کانگریس اپالو منصوبہ اور اس پراٹھنے والے اخراجات کی منظوری دے دیتی اور اگر تب صدر ایسن ہاور اس تجویز کو نامنظور کرتا تو پھر یہ کہا جاسکتا تھا کہ کینیڈی نے فقط رائے عامہ کے باعث ایسا فیصلہ کیا ۔ اصل حقائق البتہ یکسر مختلف ہیں ۔
بیشتر امریکی اس قسم کے خلائی کے حق میں تھے لیکن ایسے بڑے منصوبے کے لیے عوامی سطح پر کوئی خاص جوش وخروش موجود نہیں تھا ۔ حتیٰ کہ اپالو دوئم کی کامیابی کے بعد یہ عوامی مباحث چھڑ گئے تھے کہ کیا اس منصوبہ کے اخراجات کایہ کامیاب مداواکرپاتی ہے ؟ 1969ء کے بعد ناسا (NASA) کا بجٹ بہت زیادہ کم ہوا ۔
تاہم یہ واضح ہے کہ یہ جان ایف کینیڈی کی قیادت ہی تھی جو اس اپالو منصوبہ کے اجراء کا باعث بنی۔
کینیڈی نے ہی مئی 1961ء میں امریکہ کے لیے یہ طے کیا تھا کہ ” کینیڈی ہی تھا جس نے کانگریس سے اس منصوبہ کے لیے منظوری حاصل کی اور اسی کی سرگردگی میں منصوبہ کا آغاز ہوا ۔ یہ سوچا جاسکتا ہے کہ جلد یا بدیر چاند کے سفر کا منصوبہ بہرکیف مشکل ہوہی جاتا ( گو اس بارے میں بھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا ) تاہم کینیڈی ہی وہ شخص تھا ‘ جس نے پہاڑ سرکیا ۔
کچھ احباب کی ہنوزیہ رائے ہے کہ ” اپالو “ کے منصوبے پر کثیرلاگت آتی تھی سویہ غیر اہم منصوبہ تھا ۔ تاہم اس بارے میں بھی کاوشیں ہورہی ہیں کہ 20جولائی کے دن کو (جب 1969ء میں چاند پر پہلا انسان بردار جہاز اترا تھا ) قومی تعطیل کا اہتمام کیا جائے ۔ دوسری طرف ہمیں یہ بھولنا نہیں چاہیے کہ اگرچہ سولہویں صدی میں ‘ کولمبس کا دن ‘ نہیں منایا جاتا تھا ‘ لیکن آج اسے نئے دور کے ظہور کے طور پر منایا جاتا ہے ۔

اگر اپالو منصوبہ کے حوالے سے سالانہ جشن نہ منایا جائے ‘ اس صورت میں بھی اسے انسانی تاریخ میں ایک عظیم کامیابی کے طور پر یاد رکھا جائے گا ۔ میرا خیال ہے کہ ایک روز اپالو منصوبہ کی اہمیت کو سرکاری وعوامی سطح پر تسلیم کر لیا جائے گا ‘ اور ماضی کی نسبت مستقبل کی تعمیر میں خلائی مہم جوئی کی وقعت کہیں زیادہ ہوگی ۔ ہماری اگلی نسلیں اس طرح محسوس کریں گی کہ بحراقیانوس کے پار کولمبس کے سفر کی طرح اپالو دوئم کا سفر بھی انسانی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles