Mazhabi Aur Dunyavi Nizam E Taleem Ki Behas - Article No. 1100

Mazhabi Aur Dunyavi Nizam E Taleem Ki Behas

مذہبی اور دنیاوی نظام تعلیم کی بحث - تحریر نمبر 1100

مغربی ممالک اور مسلمان ممالک کے درمیان تعلیم کا یہ فرق 1440ء میں شروع ہوا جب جرمنی میں گٹن برگ نے چھاپہ خانہ ایجاد کیا۔ اس ایجاد کے ساتھ ہی یورپ میں لاکھوں کی تعداد میں کتابیں شائع ہونے لگیں اور اگلی دوتین صدیوں میں اسی فیصد(80%) سے زیادہ لوگ خواندہ ہوگئے۔

جمعہ 7 اکتوبر 2016

فاروق خان:
جمہوری کلچر کے بعد کسی بھی ملک کے حال، مستقبل اور ترقی کا دارومدار تعلیم پر ہے۔ ہمارے لیے دنیوی تعلیم ضروری ہے، اس لیے کہ اسی کے ذریعے ہم دوسری اقوام کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے لیے مذہبی تعلیم بھی ضروری ہے، اس لیے کہ یہ ہماری سوچ اور تہذیب کا مرکز ومحور ہے۔ قرآن مجید میں علم اور تعلیم کے الفاظ چار سو پچیس سے زیادہ مرتبہ آئے ہیں۔
چند ہی ایسے الفاظ ہوں گے جو اس سے زیادہ تعداد میں آئے ہوں گے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا دین تعلیم پر کتنا زیادہ زور دیتا ہے۔ اس وقت ترقی یافتہ صنعتی جمہوری ممالک میں تعلیم کی شرح سو فیصد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سو فیصد لوگوں نے کم ازکم پہلے بارہ برس کی تعلیم حاصل کی ہے۔

(جاری ہے)

اس کے مقابلے میں مسلمان ممالک میں تعلیم کی شرح بلحاظ مجموعی چالیس فیصد سے بھی کم ہے۔

پاکستان کے اندر بھی یہ شرح افسوس ناک حد تک کم ہے۔ واضح رہے کہ یہ جو چالیس فیصد کی شرح بتائی جاتی ہے، اس کا معیار یہ نہیں ہے کہ بارہ برس کی تعلیم مکمل کی جائے۔ بلکہ اس کا معیار یہ ہے کہ جو انسان بھی دستخط کرسکتا ہے اور اردو کے دوچار الفاظ پڑھ سکتا ہے، اسے تعلیم یافتہ مان لیا جاتا ہے۔ اگر ترقی یافتہ ممالک کے معیار کو سامنے رکھا جائے تو پاکستان کے اندر تعلیم کی شرح دس فیصد سے زیادہ نہیں بنتی۔
اس صورت حال میں بھلا یہ کیسے تصور کیا جاسکتا ہے کہ ہم ترقی یافتہ ممالک کا مقابلہ کرسکیں گے۔
مغربی ممالک اور مسلمان ممالک کے درمیان تعلیم کا یہ فرق 1440ء میں شروع ہوا جب جرمنی میں گٹن برگ نے چھاپہ خانہ ایجاد کیا۔ اس ایجاد کے ساتھ ہی یورپ میں لاکھوں کی تعداد میں کتابیں شائع ہونے لگیں اور اگلی دوتین صدیوں میں اسی فیصد(80%) سے زیادہ لوگ خواندہ ہوگئے۔
یہ چھاپہ خانہ ساڑھے تین سو برس کے بعد کہیں جاکر مسلمان دنیا میں اْس وقت پہنچا جب 1730ء میں ترکی میں پہلا پریس لگا۔ تاہم اْس وقت بھی پریس کو ایک شیطانی آلہ سمجھا جاتا تھا اور ترکی کے شیخ الاسلام نے یہ پابندی لگائی کہ پریس میں مذہبی کتابیں نہیں چھاپی جائیں گی۔
برصغیر ہندوپاک میں کسی مسلم حکمران نے تعلیم کو اپنی ترجیح نہیں بنایا۔
کچھ علماء نے اپنے بل بوتے پر مدارس قائم کیے، مگر ان کی تعداد اتنی کم تھی کہ ان میں سے کسی کا ذکر نہیں کیا جاسکتا۔یہی وجہ ہے کہ مغل حکمرانوں کے دور میں محلات، مقبروں، یادگاروں، قلعوں اور باغات کی طرف تو بہت توجہ دی گئی اور یہ سب کارنامے تاریخی ریکارڈ میں محفوظ بھی ہیں، لیکن اس پورے دور میں کسی ایک تعلیمی ادارے کا نام بھی پیش نہیں کیا جاسکتا۔
اْس زمانے کی تمام تر تعلیم افراد کی مرہونِ منت تھی۔ اْس کا طریقہ یہ تھا کہ ایک عالم نجی طور پر کچھ شاگردوں کو پڑھاتا تھا اور پھر یہی شاگرد دوسرے لوگوں کو پڑھاتے تھے۔ اس طرح ہر مسجد ایک چھوٹے سے مدرسے کاکام بھی کرتی تھی۔ اس پورے زمانے میں صرف اورنگزیب عالمگیر کے وقت میں لکھنو میں”فرنگی محل“ نامی ایک مدرسے کا تذکرہ ملتا ہے جس کے ساتھ اورنگزیب نے اپنے عہدِ اقتدار کے اکتالیسویں برس میں کچھ مالی مدد کی تھی۔
یہ وہ زمانہ تھا جب یورپ میں سکول، کالج اور یونیورسٹیاں ہزاروں کی تعداد میں بن رہی تھیں اور لاکھوں طلبہ اس میں تعلیم حاصل کررہے تھے۔ اسی تعلیم کی بدولت یورپ کو اس زمانے میں پوری دنیا پر غلبہ ملا۔
مغلوں کے زمانے میں برصغیر کے اندر ساری تعلیم پرائیویٹ تھی اور عام طو رپر فارسی میں دی جاتی تھی۔ جب انگریز یہاں آئے تو ان کے لیے یہ ترجیح بن گئی کہ انگریزی کو ذریع تعلیم بنادیا جائے، کیونکہ فارسی ان کی کچھ کام کی نہ تھی۔
اس وقت مسلمانوں کے ہاں دومتوازی رویوں نے جنم دیا۔ ایک روئے کے بانی سرسید احمد خان تھے جنہوں نے یہ سوچا کہ مسلمانوں کے لیے انگریزی تعلیم حاصل کرنا نہایت ضروری ہے۔ دوسرے روئے کے بانی مولانا محمد قاسم ناتوتوی تھے جنہوں نے یہ سوچا کہ مسلمانوں کے دین وایمان کو بچانے کے لیے مذہبی تعلیم انتہائی ضروری ہے۔ چنانچہ 1857ء میں جنگ آزادی کی ناکامی کے تقریباً بیس برس بعد ان دونوں بزرگوں نے اپنے اپنے خیال کو عملی جامہ پہنایا۔
سرسید نے علی گڑھ میں کالج قائم کیا اور مولانا محمد قاسم نے دیوبند میں دارالعلوم قائم کیا۔ ان دونوں اداروں کی دیکھا دیکھی مزید بہت سے ادارے وجود میں آگئے۔ آج کے سارے عام تعلیمی ادارے دراصل سرسید ہی کے نقش قدم کی پیروی میں بنائے گئے ہیں۔ اسی طرح آج پاکستان میں موجود اٹھارہ ہزار کے لگ بھگ دینی ادارے دیوبند تحریک ہی کے زیراثر وجود میں آئے ہیں۔
چنانچہ ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم تعلیم کے ان دونوں نظاموں کا تنقیدی جائزہ لیں اور یہ دیکھیں کہ ان دونوں کے مثبت اور منفی نکات کیا ہیں۔
پاکستان کے اندر موجود تعلیمی ادارے تین واضح گروپوں میں تقسیم ہیں۔ پہلے گروپ میں سرکاری انتظام کے تحت چلنے والے سکول اور کالج شامل ہیں جن میں ذریعہ تعلیم اردو ہے۔ دوسرے گروپ میں کم فیسوں والے پرائیویٹ تعلیمی ادارے ہیں جہاں ذریعہ تعلیم انگریزی ہے لیکن اساتذہ کی قابلیت محض واجبی ہے۔
تیسرے گروپ میں زیادہ فیسوں والے تعلیمی ادارے آجاتے ہیں جہاں ذریعہ تعلیم انگریزی ہے اور جہاں پڑھائی کا معیار اچھا ہے۔ یہ تینوں گروپ پاکستان کی سوسائٹی کو تین معاشرتی اور کلچرل رویوں میں تقسیم کررہے ہیں۔ یہ تقسیم تقریباً ہر جگہ دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ تقسیم طبقاتی بنیادوں پر بھی اور تہذیبی بنیادوں پر بھی ہے۔ کسی بھی قوم کے یک جان اور یک رنگ ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کا ایک ہی نظام تعلیم ہو، لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے، چنانچہ یہ خلیج روزبروز گہری ہوتی چلی جارہی ہے اور بسا اوقات یہ ایک طرف احساسِ محرومی اور نفرت میں ڈھل جاتی ہے اور دوسری طرف اس کا ظہور احساس برتری اور غرور کی شکل نکلتا ہے۔
اس نظامِ تعلیم کی دوسری خامی یہ ہے کہ اس میں سارا زور رٹے (cramming)پر دیا جاتا ہے اور طالب علم کی صلاحیتوں کو بیدار کرنے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ اس سے طلبہ کی تخلیقی صلاحتیں دب کر رہ جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں شاذونادر ہی ہی کوئی اعلیٰ پائے کا سائنس دان وجودمیں آیا ہے۔ اس نظامِ تعلیم کی تیسری خامی یہ ہے کہ اس میں ایک طالب علم کی بحیثیت مسلمان دینی ضروریات کی فراہمی کا انتظام انتہائی ناقص ہے۔
پہلی جماعت سے لے کر بارہویں جماعت تک گھسے پھٹے انداز میں اسلامیات کا مضمون اس طریقے سے پڑھایا جاتا ہے کہ بس ایک رسم پوری ہوجائے۔ اس سے ایک طالب علم کو نہ تو قرآن و سنت سے صحیح واقفیت حاصل ہوتی ہے اور نہ اس کو ان سوالات کا جواب ملتا ہے جو اس کے گردوپیش میں ہر طرف پھیلے ہوئے ہوتے ہیں۔ درج بالا تینوں خامیوں کی وجہ سے ہمارا دنیوی نظامِ تعلیم طلبہ اور طالبات کو اعلیٰ پائے کے انسان اور مسلمان نہیں بنا سکا۔

یہی حال ہمارے مذہبی نظامِ تعلیم کا ہے۔ اس کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ یہ نظام فرقہ بندی اور مسلکی بنیاد پر قائم ہے۔ دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، جماعت اسلامی اور اہلِ تشیع کے سارے ادارے خالصتاً مسلکی بنیادوں پر قائم ہیں۔ ان میں سے ہر مسلک کے علیحدہ امتیازی نشانات، لباس، نماز پڑھنے کا طریقہ اور معاشرتی روئے ہیں۔ کسی بھی دینی طالب علم یا اساتذہ کے لباس کو دیکھ کر باآسانی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کا تعلق کس فرقے سے ہے۔
ہر ادارے کے اندر سارے اساتذہ کا تعلق اسی خاص مسلک سے ہوتا ہے۔ چنانچہ جب ایک طالب علم آٹھ برس کسی ایک دینی درس گاہ میں گزار دیتا ہے تو مسلک پرستی پر مبنی سوچ اور روئے اس کے ذہن میں پوری طرح راسخ ہوچکے ہوتے ہیں۔ پھر وہ اپنے مسلک والوں کو ایک عینک سے دیکھتا ہے اور دوسرے مسالک کو کسی اور عینک سے دیکھتا ہے۔ گویا یہ مدارس ہمارے ملک کے دینی طلبہ کو پانچ ناقابلِ عبور حصوں میں تقسیم کررہے ہیں۔
ان مدارس کی دوسری خامی یہ ہے کہ ان میں داخل ہونے والے طالب علم کو عام طور پر اپنے پورے ماحول سے کاٹ دیا جاتا ہے۔ کئی مدارس میں بچوں کو بالکل ابتدائی عمر سے ہی لے لیا جاتا ہے۔ ایسے اداروں میں عام دنیوی تعلیم یا تو سرے سے دے ہی نہیں جاتی۔ اور اگر دی بھی جاتی ہے تو طالب علم کو اپنے پورے ماحول میں کاٹ دیا جاتا ہے۔ بعض اداروں میں آٹھویں جماعت یا میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو لے لیا جاتا ہے، چونکہ وہاں بھی ان کو اپنے ماحول سے مکمل طور پر کاٹ دیا جاتا ہے، اس لیے یہ لوگ سوسائٹی کے اندر ایک بالکل علیحدہ طبقہ بن جاتے ہیں۔
اس نظام تعلیم کی تیسری خامی یہ ہے کہ اس میں حقیقی دینی تعلیم بہت کم دی جاتی ہے۔ آٹھ برس کے پورے دور میں قرآن مجید کی تعلیم کو پانچ فیصد وقت بھی نہیں دیا جاتا۔ اِس وقت مدارس میں قرآن مجید کی دینی تفاسیر میں صرف ایک تفسیر ”جلالین“ پڑھائی جاتی ہے جو انتہائی مختصر تفسیر ہے۔ اس کے تفسیری فقرے خود قرآن کریم کے فقروں سے بھی کم ہیں۔
اس کے علاوہ بعض اداروں میں بیضاوی کاپہلا پارہ بھی پڑھا یا جاتا ہے۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دینی مدرسے کی ابتدا بھی قرآن مجید سے ہوتی۔ اس کے سارے نصاب کو قرآن مجید کے گرد گھومنا چاہیے تھا۔ کسی دینی مدرسے میں آٹھ برس تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم کو قرآن مجید کے چند فقہی احکام کی تفصیل کے علاوہ مزید کسی مضمون سے کوئی آگہی نہیں ہوتی۔
نہ اْسے تقابلِ ادیان پڑھایا جاتا ہے، نہ اسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کا فکرو فلسفہ کیا ہے، اسلامی دعوت کیا ہے، اس دعوت کے پھیلانے کے اصول کیا ہیں۔ اسی طرح اس میں غیر مسلموں سے تعلق اور قتال وغیرہ کے قوانین بھی کبھی زیر بحث نہیں آتے۔ قرآن مجید کے بعد سب سے زیادہ اہمیت حدیث کو ملنی چاہیے، تاکہ طالب علم میں یہ صلاحیت بیدار ہوجائے کہ وہ حدیث کے سارے ذخیرے کو قرآن کی روشنی میں تحقیقی نظر کے ساتھ دیکھ سکے۔
لیکن اس کے برعکس دینی مدارس میں صرف ان احادیث پر زیادہ وقت صرف کیا جاتا ہے جن کا تعلق اختلافات سے ہوتا ہے اور اس ساری بحث میں مقصد یہی ہوتا ہے کہ اپنے مسلک کو برحق ثابت کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح حدیث کی تعلیم قطعاً تسلی بخش نہیں ہوسکتی۔ دینی اداروں کے طلبہ کا آدھے سے زیادہ وقت ان مضامین کے مطالعے میں صرف ہوتا ہے جن کا دین سے کوئی کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے اور جو کتابیں پڑھائی جاتی ہیں وہ بھی آج سے کئی سو برس پہلے کی تحریر کردہ ہیں، جن میں دی گئی مثالوں کا آج کے دور سے کوئی تعلق ہی نہیں بنتا۔
مثلاً فقہ کی اکثر کتابوں میں ہر دوسری مثال غلاموں اور لونڈیوں سے متعلق ہے، کیونکہ یہ کتابیں ایسے دور میں لکھی گئی تھی جس دور میں سب سے بڑی تجارت غلاموں اور لونڈیوں کی ہوتی تھی۔ درج بالا تین بڑی خامیوں کی وجہ سے پاکستان کے مذہبی اداروں کو درحقیقت مسلکی ادارے کہنا چاہیے جن کا سارا زور دراصل اپنے مسلک کو برحق ثابت کرنے پر ہوتا ہے۔

گویا پاکستان کے اندر تعلیم کے ضمن میں دو بڑی تقسیمیں تو ایسی ہیں جو سوسائٹی کے اندر ناقابل عبور فاصلے پیدا کررہی ہیں اور سوسائٹی کو Water tight Compartments میں تقسیم کررہی ہیں۔ اور اگر ساری تقسیموں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستانی سوسائٹی اپنے نظام ہائے تعلیم کی وجہ سے کم ازکم آٹھ طبقات میں تقسیم ہورہی ہے۔ ایسے طبقات جن کے ہاں ایک دوسرے کے لیے محبت واتفاق کم ہے اور نفرت وتفریق زیادہ۔
اس نظامِ تعلیم کی وجہ سے نہ تو ہم ترقی یافتہ دنیا کے ہم پلہ بن سکتے ہیں اور نہ ہم اچھے انسان اور اچھے مسلمان بن سکتے ہیں۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ پاکستان کے اندر ایک ہی نظامِ تعلیم ہو جو طلبہ وطالبات کی صلاحیت کو بیدار کرے اوروہ اپنے اپنے شعبوں میں مہارت حاصل کرنے کے علاوہ اچھے انسان اور مسلمان بھی بن سکیں۔
چنانچہ اس تجزئے کے بعد ہمارے سامنے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے نظامِ تعلیم کی بہتری کے لیے کون سے بنیادی نکات ہونے چاہئیں۔
اس راقم کے نزدیک سب سے پہلا نکتہ یہ ہے کہ دینی ودنیوی نظام ہائے تعلیم کی تفریق اور اسی طرح دنیوی تعلیمی اداروں کے اندر تعلیمی نصابِ کے فرق کو ختم کردیا جائے۔ پہلی جماعت سے لے کر بارہویں جماعت تک کی تعلیم کا نصابِ سب کے لیے یکساں ہوں۔ یہ تعلیم مفت اور لازمی ہو۔ اگر کوئی ادارہ اس نصابِ تعلیم کے ساتھ ساتھ کچھ اور بھی پڑھانا چاہے تو اس پرکوئی پابندی نہ ہو، تاہم یکساں نصابِ تعلیم سب کے لیے لازم ہونا چاہیے۔
اگرچہ یہ بہت بڑا قدم ہے، لیکن صرف اسی طریقے سے ہم اپنے ملک کے باشندوں کو مختلف طبقات اور گروہوں میں تقسیم ہونے سے بچا سکتے ہیں۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ بارہویں جماعت کے بعد جس طرح ایک طالب علم میڈیکل یا انجنےئرنگ کی تعلیم کے لیے کسی درس گاہ میں جاتا ہے، بالکل اسی طرح ایک طالب علم دینی علوم کی درس گاہ میں جائے۔ وہاں چاربرس کی تعلیم کے بعد اسے بیچلرز کی ڈگری دی جائے، اور پھر اگر وہ چاہے تو کسی بھی دینی شعبے میں تخصیص حاصل کرنے کے لیے ایم اے اور پھر پی ایچ ڈی میں داخلہ لے سکتا ہے۔
اس طرح ہمارے ملک میں دین کے ایسے جید علماء پیدا ہوں گے جو دین ودنیا دونوں پر عبور رکھتے ہوں گے اور یوں عوام وخواص کی بہتر رہنمائی کرسکیں گے۔ اس راقم کی یہ بھی تجویز ہے کہ باقی سب مضامین مثلاً اردو، تاریخ اور کیمسٹری وغیرہ کے لیے بھی ایف۔اے، ایف۔ایس۔سی کے فوراً بعد اختصاصی تعلیم شروع کردی جائے تاکہ ایک طالب علم اپنے میدان میں چار برس گزارنے کے بعد اس کاحقیقی عالم بن سکے۔
اس طرح موجودہ بی۔اے اور بی۔ ایس۔سی لیول کا خاتمہ ہوجائے گا۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ بالکل ابتداہی سے سب معاشرتی مضامین کی تعلیم اردو میں ہو، سائنسی مضامین کی تعلیم انگریزی میں ہو اور پہلے دن سے ہی قرآن مجید کے عربی الفاظ طالب علم کو ذہن نشین کروانے شروع کردیے جائیں۔ اس طرح ایک طالب علم پہلے دن سے ہی اردو، انگریزی اور قرآنی عربی کو ایک ساتھ پڑھ سکے گا۔
جو صوبے ضرورت محسوس کریں وہ اپنے حالات کے مطابق پہلی چھ جماعتوں تک صوبائی یا کسی مقامی زبان کی تدریس بھی لازمی قرار دے سکتے ہیں۔
چوتھا نکتہ یہ ہے کہ سائنسی تعلیم کا نصاب بالکل وہی ہونا چاہیے جو اس وقت سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملکوں میں رائج ہے۔ اگرچہ یہ ایک مشکل کام ہے، لیکن صرف اسی طریقے سے ہم ترقی یافتہ اقوام کے ہم پلہ بن سکتے ہیں۔
پانچوں نکتہ یہ ہے کہ صرف ایف اے اور ایف ایس سی کے لیول پر وفاقی امتحان لیا جائے۔ یہ امتحان ترقی یافتہ ملکوں کے امتحان کی طرز پر ہو اور اس کے لیے پرائیویٹ اداروں کی خدمات حاصل کی جائیں تاکہ بدعنوانی کم سے کم ہوسکے

Browse More Urdu Literature Articles