Napoleon Bonaparte 1769 To 1821 - Article No. 920

Napoleon Bonaparte 1769 To 1821

نپولین بونا پارٹ 1821ء۔1769ء - تحریر نمبر 920

عظیم فرانسیسی سپہ سالار اور شہنشاہ نپولین اول 1769ء میں کورسیکا کے شہر اجاسیو میں پیدا ہوا۔ اس کا اصل نام نپولین بوناپارٹ تھا۔۔۔

منگل 30 جون 2015

عظیم فرانسیسی سپہ سالار اور شہنشاہ نپولین اول 1769ء میں کورسیکا کے شہر اجاسیو میں پیدا ہوا۔ اس کا اصل نام نپولین بوناپارٹ تھا۔ اس کی پیدائش سے صرف پندرہ ماہ قبل ہی کورسیکا“ رفرانس کی قلمرو میں شامل ہوا تھا۔ اپنی نوجوانی میں نپولین پر کروسیکی قومیت پر ستی کاجذبہ طاری تھا اور وہ فرانس کو غاصبین تصور کرتا تھا۔ نپولین کو فرانس میں عسکری اداروں میں بھیجا گیا جہاں 1785ء میں اس نے سولہ برس کی عمر میں گریجوایشن کی اور فرانسیسی فوج سیکنڈلیفٹیننٹ بن گیا۔

چار سال بعد انقلاب فرانس کا آغاز ہوا۔ اگلے چند برسوں میں نئی فرانسیسی حکومت متعدد بیرونی طاقتوں سے برسر پیکار ہوگئی۔ خود کو نمایاں کرنے کا پہلا موقع نپولین کو 1793ء میں تولون کے محاصرہ کے موقع پر ملا جس میں فرانسیسیوں نے انگریزوں سے شہر کو آزاد کروا لیا۔

(جاری ہے)

اس محاذ پر وہ توپ کو فرانسیسی باشندہ تصور کرنے لگا تھا۔ تولون میں اس کی کامیابیوں کے صلے میں اسے بریگیڈئر جزل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔


1796ء میں اسے اٹلی میں فرانسیسی فوج کی کمان سونپی گئی۔ وہاں 7۔1796ے میں نپولین نے شاندار فتوحات حاصل کیں۔ پیرس واپسی پر اس کا ہیرو کی طرح استقبال ہوا۔
1798ء میں نپولین نے مصر میں فرانسیسی یلغار کی قیادت کی اسے مات ہوئی خشکی پر نپولین کی فوجوں نے فتح حاصل کی لیکن لارڈ نیلسن کی قیادت میں برطانوی بحریہ نے فرانسیسی بیڑے کو تباہ کردیا۔
1799ء میں نپولین مومیں اپنی فوج سے علیحدہ ہوکر فرانس واپس آگیا۔
فرانس واپسی پر اسے اندازہ ہوا کہ فرانسیسی مہم میں اس کی ناکامی کے باوصف فرانسیسی عوام اٹلی میں اس کی فتوحات کے قصے کو بھولی نہیں تھی۔ اسی اعتماد کے سہارے اپنی واپسی کے ایک ماہ بعد ہی نپولین نے ابی سیز وغیرہ کے ساتھ فوجی انقلاب میں حصہ لیا۔ یہ جنگ ایک نئی حکومت کے قیام کی صورت میں منتج ہوئی۔
جو حکام ثلاثہ پر مشتمل تھی۔ نپولین اول حاکم کے عہدے پر فایز تھا۔ اگرچہ ایک تفصیلی آئین اپنایا گیا اور عوام کی رائے حاصل کر کے اس کی توثیق بھی کروائی گئی لیکن یہ محض نپولین کی عسکری آمیت کو سوانگ دینے کا عمل تھا جس نے جلد ہی اپنے دیگر حریفوں پر برتری حاصل کر لی۔
نپولین کا اقتدار پر قابض ہونے کا عمل بڑاسبک روتھا۔ اگست 1793ء میں تولون کے محاصرے سے پہلے وہ چوبیس برس کا ایک گمنام معمولی افسر تھا جس کا جائے پیدائش بھی فرانس سے باہر تھا۔
محض چھ سال کے عرصہ میں جبکہ نپولین کی عمر فقط تیس برس تھی وہ فرانس کا ایک غیر متنازعہ حکمران بن گیا۔جس عہدے پر وہ اگلے چودہ برس فائزرہا۔
اپنے دور اقتدار میں نپولین نے فرانس کے انتظامی ڈھانچے اور قانونی نظام میں بنیادی ترامیم کیں۔ مثال کے طورپر اس نے مالیاتی اور عدالتی نظام میں اصلاح کی۔ اس نے فرانس کے بنک اور یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھا۔
انتظامیہ کو وفاق سے ملایا۔ اگرچہ ان میں سے ہر اقدام نپایت وقیع اور چند ایک مثالوں میں زور اثر بھی تھا لیکن فرانس سے باہر دنیا پر ان کے اثرات غیر اہم تھے۔
نپولین کی اصلاحات میں سے ایک کے اثرات البتہ فرانس کی حدود سے پرے تک پھیل گئے۔ یہ فرانسیسی دیوانی ضابطہ کی تشکیل تھی۔ اسے Code Napoleon”نپولین کا ضابطہ کہا جاتا ہے۔ متعدد حوالوں سے اس ضابطہ میں انقلاب فرانس کے بہت سے خوابوں کی تعبیر موجود تھی۔
مثلأٴ ضابطہ کے تحت کسی کو پیدائشی مراعات حاصل نہیں تھیں۔ قانون کی نظر میں ہر شخص برابر تھا۔ساتھ ہی ساتھ ضابطہ فرانسیسی قوانین اور روایات سے ہم آہنگ ہونے کے ناطے فرانسیسی عوام اور قانونی طبقہ کے لیے بھی قابل وقبول تھا۔ من حیث المجموع یہ ضابطہ معتدل اور مربوط تھا اور اسے لائق تحسین ایجاز اور غیر معمولی صراحت کے ساتھ قلم بند کیا گیا تھا نتیجتأٴ ہر ضابطہ نہ صرف فرانس میں لاگو ہوا( موجود فرانسیسی دیوانی ضابطہ نپولین کے اصل ضابطہ سے حیرت انگیز طور پر مماثل ہے) بلکہ یہ مقامی ترامیم کے ساتھ ممالک میں بھی قبول کیا گیا۔

یہ اصرار نپولین کی حکمت عملی کا ہمیشہ ایک حصہ رہا کہ وہ انقلاب کا محافظ ہے۔1804ء میں اس نے خود کو فرانس کا شہنشاہ قرار دیا۔ اس نے اپنے بھائیوں کو بھی دیگر یورپی ریاستوں میں تعینات کیا۔ ان اقدامات سے بلاشبہ چند فرانسیسی ریاستوں میں اس کے خلاف ناپسندیدگی کا تاثرپیداکیا کیونکہ عوام کے لیے ایسے اقدامات انقلاب فرانس کی اصل روح کے منافی تھے۔
تاہم اس کی اصل مشکلات اس کی بیرونی یورشوں کے نتیجے میں پیدا ہوئیں۔
1802ء میں امنیز کے مقام پر نپولین نے انگلستان کے ساتھ ایک امن معاہدے پر دستخط کیے جس سے قریب ایک داہائی جاری رہنے والے جنگ جدوال کے بعد فرانس کو سکھ کا سانس نصیب ہوا۔ لیکن اگلے ہی برس اس معاہدے کی تنسیخ کردی گئی اور فرانس کی انگلستان اور اس کے حلیفوں سے طویل جنگیں شروع ہوئیں۔
نپولین کی فوجوں کو زمینی جنگوں میں مسلسل کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ لیکن انگلستان کو شکست دینے کے لیے اس کی بحریہ کو نپولین پر ایک نمایاں فتح حاصل ہوئی۔ بعدازاں پانیوں پر انگلستان کی حکمرانی مسلم ہوگئی۔ ٹرافلگر کی شکست کے فقط چھ ماہ بعد ہی نپولین کو آسٹرلائنز کے مقام پر آسٹریا اور روسی فوجوں کے خلاف ایک نمایاں کامیابی حاصل ہوئی تاہم یہ اس کی بحری شکست کا مداوانہ ہوسکی۔

1808ء میں نپولین نے قدرے ناعاقبت اندیشانہ انداز میں خود کو جزیرہ ہائے ابیرین کے ساتھ طویل جنگ میں الجھا دیا۔ جس میں فرانسیسی فوجیں برسوں مصروف رہیں۔ تاہم نپولین کی سب سے بڑی بیوقوفی اس کی روسی مہم تھی۔ 1807ء میں نپولین کی زار سے ملاقات ہوئی۔ ٹلسٹ کے معاہدہ میں انہوں نے دوستی کا پیمان کیا۔ لیکن بتدریج یہ اشتراک شکست قریخت کاشکار ہوا۔
جون 1812ء میں نپولین اپنی فوجوں کے ساتھ روس میں داخل ہوگیا۔
نتائج سے ہم سبھی آگاہ ہیں ۔ روسی فوجوں نے نپولین سے لڑنے میں احتراز کیا اور سے تیزی سے پیش ودمی کا موقع دیا۔ ستمبر تک اس نے ماسکو پر قبضہ کر لیا ، تاہم روسیوں نے شہر کو آگ لگا کر اسے تباہ کردیا۔ ماسکو میں پانچ ہفتے انتظار کرنے کے بعد ( اس بے ثمرامید کے تحت کہ روسی امن کے لیے التماس کریں گے) نپولین نے واپسی کا فیصلہ کیا۔
لیکن تب بہت دیر ہوچکی تھی۔ روسی فوج روسی موسم سرما اور فرانسیسی فوج کی ناکافی رسد کے اشتراک نے اسی واپسی کو شکست کی ہزیمت میں بدل دیا۔ پوری فرانسیسی فوج کا دس فیصد سے بھی کم حصہ روس سے واپس آنے میں کامیاب ہوا۔
دیگر یورپی ممالک جیسے آسٹریا اور پروشیا وغیرہ نے جان لیا کہ ان کے پاس اب فرانسیسی غلامی کاجوااتار پھینکنے کا بہترین موقع ہے۔
انہوں نے نپولین کے خلاف اتحاد قائم کیا۔ نتیجتأٴ اکتوبر 1813ء میں لیپ زگ کی جنگ میں نپولین کو مزید ایک شکست فاش کاسامنا ہوا۔ اگلے برس اس نے استعفیٰ دیا اور اٹلی کے سرحدی علاقے میں ایک چھوٹے سے جزیرے البا میں جلاوطن ہوگیا۔
1815ء میں وہ البا سے فرار ہو کر فرانس واپس آیا جہاں اسے خوش آمدید کہا گیا اور وہ اقتدار پر قابض ہوگیا۔ فورأٴ ہی دیگر یورپی ممالک نے جنگ کا اعلان کردیا۔
اس کی بحالی کے سودنوں کے بعد ہی اسے ”واٹر لو“ میں مکمل شکست سے دوچار ہونا پڑا ”واٹر لو “ کی جنگ کے بعد برطانوی فوج کو سینٹ ہیلینا میں قید کردیا۔ جو بحر اوقیانوس روس کے جنوب میں ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے۔ وہاں وہ کینسر کے عارضہ میں لاحق ہوکر1821ء میں جاں بحق ہوا۔
نپولین کی عسکری زندگی میں تناقضات کاطومار موجود ہے ۔ اس کی شاطرانہ چالوں کاوصف حیران کن تھا۔
اس بنیاد پر اس کے قد کا ٹھ کا تعین کیا جائے تو وہ تاریخ میں سب سے بڑا سپہ سالار ثابت ہوتا ہے۔ لیکن وسیع ترجنگی حکمت عملی اختیار کرنے میں اس نے غیر معمولی طور پر سنگین غلطیاں بھی کیں جیسے مصر اور روس پر اس کے حملے۔ اس کے عسکری فیصلے اس قدر خطا کن ہیں کہ نپولین کسی طور پر فوجی قائدین کی صف اول میں شمار نہیں کیا جاسکتا ۔ تاہم یہ بات میرے خیال میں غیر مناسب ہے۔
بے شک کسی بھی سپہ سالار کی عظمت کا ایک معیار اس کی غلطیوں سے احتراز کرنے کی اہلیت بھی ہے۔ دراصل آخری جنگوں میں نپولین کو شکست ہوئی۔ سو اس کی تمام بیرونی فتوحات سربع الزوال ثابت ہوئیں۔ 1815ء میں اس کی آخری شکست کے بعد فرانس کے قبضہ میں ان علاقوں کا بہت کم حصہ باقی رہ گیا جو1789ء میں انقلاب کے وقت اس میں شامل تھا۔
نپولین ایک خود پرست انسان تھا۔
اس کا موازنہ عموما ہٹلر سے کیا جاتا ہے۔ لیکن ان دونوں میں ایک اہم اختلاف بھی ہے۔ ہٹلر کی تحریک کابنیادی محرک ایک ہولناک فلسفہ تھا۔ نپولین تو ایک پر جوش انسان تھا ایسے خون ریزہنگامے بپا کرنے میں اسے کبھی دلچسپی نہیں رہی۔ نہ ہی نپولین کے دور میں ہٹلر کی عقوبت گاہوں جیسی کوئی شے تھی۔
نپولین کی بے پایاں مقبولیت اس کی اثرانگیزی سے متعلق غلط رائے قائم کرنے کا امکان پیدا کرتی ہے۔
اس کے قلیل المعیاد اثرات بے بہا ہیں۔ غالبا سکندر اعظم سے بھی کہیں زیادہ۔ لیکن یہ ہٹلر سے بہرکیف کم ہیں ( یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ تقریبأٴ پانچ لاکھ فرانسیسی فوجی نپولین کی جنگوں میں ہلاک ہوئے اس حوالے سے نپولین کے اقدامات نے ہٹلر کی نسبت اپنے ہم عصروں کی زندگیوں میں کہیں کم انتشار پیدا کیا۔
طویل المعیار اثرات کے حوالے سے نپولین کی اہمیت ہٹلر سے زیادہ ہے گو سکندر سے بہت کم۔
نپولین نے فرانس میں وسیع انتظامی تبدیلیاں کیں۔لیکن فرانس دنیا کی آبادی کے سترواں (70) حصے سے بھی کم ہے۔کسی بھی وقوعہ میں ان انتظامی تبدیلیوں کو ایک مناسب تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ ان کے فرانسیسیوں کی انفرادی زندگیوں پر آخری دوصدیوں میں ہونے والی بے انتہا تکنیکی تبدیلیوں کی نسبت کہیں کم اثرات ہیں۔
یہ رائے دی گئی ہے کہ نپولین کے دور نے انقلاب فرانس کے دوران ہونے والی تبدیلیوں کو مضبوط بنیادوں پر استوار ہونے کا چارہ کیا اور فرانسیسی بر ژواطبقہ کے حاصلات ایک ٹھوس حقیقت بنے۔
1815ء میں جب فرانسیسی بادشہت کی ازسر نوبحالی ہوئی۔یہ تبدیلیاں یوں ٹھوس بنیادوں پر قائم ہوچکی تھیں کہ قدیم دور کے سماجی نظام کی استوارئی نو محال تھی تاہم انتہائی اہم تبدیلیاں نپولین سے پہلے ہی وقوع پذیر ہوئیں۔1799ء میں جب نپولین نے اپنا عہدہ سنبھالا تو یہ استواری واقعتا غیر ممکن معلوم ہوتی تھی۔خود نپولین میں شہنشاہ بننے کی شدید خواہش موجود تھی۔
لیکن اس نے انقلاب فرانس کے تصورات کو یورپ بھر میں پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔
نپولین نے گوبالواسطہ انداز میں ہی مگر لاطینی امریکی تاریخ پر بڑے گہرے اثرات چھوڑے سپین پر اس کے حملے نے ہسپانوی حکومت کو اس درجہ کمزور کردیا کہ آئندہ کئی برسوں کے لیے وہ لاطینی امریکہ میں اپنی کالونیوں پر اپنی گرفت کھو بیٹھی۔اسی دور میں لاطینی امریکہ میں خود مختاری کی تحاریک کاآغاز ہوا۔

نپولین کے اقدامات میں سے ایک اقدام جس نے اغلبا انتہائی دور رس اور اہم نتائج بپا کئے اس کے تمام بنیادی منصوبوں سے قریب غیر متعلق تھا۔1803ء میں نپولین نے ایک بڑا خطہ اراضی امریکہ کو فرخت کیا۔اس نے اندازہ لگایا کہ شمالی امریکہ میں فرانسیسی مقبوضات کو برطانوی حملوں سے محفوظ رکھنا دشوار ہوگا۔نیزیہ کہ وہ کم نفع بخش بھی تھیں۔لاؤسیانا کی فروحت غالبا تاریخ عالم میں کسی بھی خطے کا سب بڑا پر امن انتقال تھا۔
اس انتقال نے امریکہ کو ایک براعظم کے حجم کی قوم بنا دیا۔ یہ کہنا دشوار ہے کہ اس لاؤ سیانا فروخت کے بغیر آج امریکہ کی صورت حال کیا ہوتی۔لیکن بہر طور موجود صورت حال یقینا بہت مختلف ہوتی۔یہ امر بھی مشتبہ ہے کہ آیا اس فروخت کے بغیر امریکہ ایک عظیم طاقت بن سکتا تھا یا نہیں؟
بلاشبہ لاؤ سیانا فروخت کے لیے نپولین واحد ذمہ دار نہیں تھا۔امریکی حکومت نے بھی ایک بین کردار ادا کیا۔دراصل فرانسیسی پیشکش ایسی معقول تھی کہ کوئی بھی حکومت ہوتی وہ اسے قبول کر لیتی لاؤ سیانا خطے کی فروخت کا فیصلہ جس واحد شخص کی سوچ کامر ہون منت ہے وہ نپولین بونا پارٹ ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles