Ount Paharray K Neechay - Article No. 1056

Ount Paharray K Neechay

اُونٹ پہاڑے کے نیچے - تحریر نمبر 1056

دو … ایکم دو، دو دُونی چار، دو تِیا چھ، دو چَوک … کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں (یوں بھی میں کبھی کبھی ہی سوچتا ہوں) کہ ہمیں یہ پہاڑے کیوں رٹائے جاتے ہیں؟

نادر خان سرگروہ منگل 17 مئی 2016

دو … ایکم دو، دو دُونی چار، دو تِیا چھ، دو چَوک … کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں (یوں بھی میں کبھی کبھی ہی سوچتا ہوں) کہ ہمیں یہ پہاڑے کیوں رٹائے جاتے ہیں؟ پہاڑوں کا دوسرا نام ذہنی ضرب ہے، یعنی چیخ چیخ کر ’فرشِ محلہ‘ ہلانا اور ذہن پر ضرب لگانا، جس کا حاصلِ ضرب=کچھ بھی نہیں۔
صبح صبح اسکول پہنچتے ہی آنکھ، کان اور دماغ کا کھلنا ضروری ہوتا ہے، اِسی لیے شاید بچوں سے کھوپڑی چٹخانے والی آواز میں پہاڑے پڑھوائے جاتے ہیں۔
روز روز کی رٹائی سے بچے اِتنے عادی ہو جاتے ہیں کہ ’چار نَوا چھتیس ‘ او ر ’نَو چوک چھتیس ‘ میں کوئی فرق ہی نہیں سمجھتے۔ رٹائی کی اِس کثرت اور کسرت سے اسکول کے آس پاس کے لوگ پہاڑ جیسے دن کا سامنا کرنے سے پہلے پہاڑوں کے مخصوص راگ … ’راگ پہاڑی ‘ کا اچھی طرح ریاض کرلیتے ہیں۔

(جاری ہے)


پہاڑوں اور گنتی کا اگر تقابلی جائزہ لیا جائے توگنتی کی حیثیت پہاڑے کے سامنے ایسی ہے جیسے …پہاڑ کے آگے رائی۔

گنتی ہے رینگتا ہوا کچھوا اورپہاڑے ہیں چوکڑیاں بھرتے ہِرن.~~~~
بچپن میں مجھے پہاڑوں سے بہت ڈر لگتا تھا۔ وہ اِس لیے کہ اِن میں ڈاکو چھپے رہتے ہیں۔ پہاڑوں سے پچاس پچاس کوس دُور شام گڑھ میں جب کوئی بچہ روتا ہے تو ماں کہتی ہے، ” بیٹا سو جا! نہیں تو پہاڑوں سے ’گبّر‘ آ جائے گا۔ وہ دس مارے گا ، ایک گِنے گا۔ بیس مارے گا، دو گِنے گا۔
اور جو وہ مارے گا ناں! سب کی سب گولیاں ہوں گی۔ وہ پہاڑے نہیں رٹتا۔ پہاڑوں سے آتے ہی پہاڑ ڈھاتا ہے۔“
اب تو پہاڑوں میں ’گِنتی ‘ کے ہی ڈاکو رہ گئے ہیں۔ گئے وہ دن جب ’جنابِ گبّر‘ پہاڑوں میں خلیل خان والی فاختائیں اُڑایا کرتے تھے۔ اب تویہ سب ’قصّہٴ پہاڑِینہ‘ ہو چکے۔ لیکن پہاڑ جیسا دِکھنے والا امریکا کہتا ہے کہ اِن پہاڑوں میں دہشت گرد چُھپے ہوئے ہیں، مگر اُسے ٹھیک ٹھیک نہیں پتا کہ کن کن پہاڑوں میں۔

میں بات کر رہا تھا بچپن کی۔ بچپن میں جب مَیں بڑا ہوا تو پہاڑوں کا ڈر بھی نکل گیا۔ آپ کو یقین ہو نہ ہو، میں دو سے دَس تک کے پہاڑوں سے آنکھیں موند کر ٹکر لیتا تھا۔ لیکن اِس سے آگے، گیارہ ، بارہ ، تیرہ کے اُونچے اُونچے پہاڑوں کی ڈانْک مجھ سے کاٹی نہیں جاتی تھی۔ یہاں پہنچ کر میری حالت فرہاد سے بھی بد تر ہوجاتی تھی۔ فرہاد کے ہاتھ میں تو ایک عدد تیشہ بھی تھا۔
اور بدلے میں اُسے شیریں بھی ملنے والی تھی۔ میں نے بچپن میں یہی سُنا تھا کہ شیریں کو فرہاد نے پہاڑوں کو کاٹ کر ہی حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ میرے دوست پُرجوش پُوری کہتے ہیں، ”بڑی بات نہیں کرتا، بچپن میں میرے سامنے بھی ایسی ہی پیشکش رکھی جاتی تھی۔ میرے ایک دُور کے چچا اکثر کہتے، ”بیٹا! پہاڑے سناوٴ! تمہیں شیرینی ملے گی۔“ گردشِ ایّام نے آج مجھے اُن کا داماد بنا دیا ہے۔
قسم پہاڑوں کی، میں اِتنا بے وقوف آج تک نہیں بنا۔ سب جوڑیاںآ سمانوں میں بنتی ہیں، میراجوڑپہاڑوں میں بنا۔ “
چلیں پھر بات کرتے ہیں بچپن کی … پہاڑوں کی۔ وہ پہاڑوں کے دن بھی کیا دن تھے۔ اُن دِنوں میرا ایک ہم جماعت تھا، جوپہاڑوں کا طوطا تھا اور پہاڑے کی چوٹی پر تھا۔ پہاڑے اُس کے لیے ایسے تھے ، جیسے رُوئی کے پہاڑ۔ ظالم دُھنک کر رکھ دیتا تھا۔
میں اکثر اپنی کمزوری چھپانے کے لیے اُس کے بغل میں کھڑا ہو جایا کرتا تھا اور اُس کے سُر میں سُر ملاتا تھا۔ پھر ہوتا یوں کہ وہ گُلوکار اور مَیں موسیقار~~~کبھی کبھار تو ایسا بھی ہوتا کہ میں موسیقی میں اِتنا مگن ہوجاتا تھا کہ گُلوکاری تھم جاتی تھی، مگر میرا راگ نہ تھمتا تھا۔ اُس کے بعد تو مجھ پر پہاڑ ٹوٹتا تھا۔ پہاڑ جیسے استاد کو یہ سمجھتے دیر نہ لگتی تھی کہ یہ پہاڑے، ریت کے پہاڑوں جیسے ہیں۔
پھرکیا ہوتا؟ مت پوچھیے! سزا کے طور پر اُستاد مجھے سوا، ڈیڑھ، پونے دو اور ڈھائی کے پہاڑے پڑھواتے تھے۔ ڈھائی ایکم ڈھائی، ڈھائی دُونی پانچ ، ڈھائی تِیا ساڑھے سات۔ اب بتائیں! مجھ سے سیدھے سیدھے پہاڑے نہیں پڑھے جاتے تھے ، یہ گھوڑے کی چال والے پہاڑے کیا پڑھتا۔ سچ کہتا ہوں، میں تو ایسا اُونٹ ہوں جو کبھی پہاڑے کے نیچے آیا ہی نہیں۔
پہاڑے … اصل زندگی میں ہمیں بہت کچھ سکھاتے ہیں۔
اِن پہاڑوں میں تو بڑے بڑے خزانے پوشیدہ ہیں۔ دو … ایکم دو، دو دُونی چار ، دو تِیا چھ ، دو چوک آٹھ۔ اِسی طرح چھلانگ لگتی ہے۔ اور جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے ہیں، یہ چھلانگ ~~~ اور بھی لمبی ہوتی جاتی ہے۔ گنتی کو چھوڑ کر پہاڑوں کے اُصول پر عمل کر کے ہم چھوٹی چھوٹی کوششوں کو چھوٹی چھوٹی کامیابیوں سے ضرب دے کر بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں۔ بس ذرا … پہاڑوں کی رٹائی چھوڑ کر چڑھائی شروع کرنا ہو گی اور اُونٹ کو پہاڑ کے اوپر لانا ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( اکتوبر، دو ہزار چھ )

Browse More Urdu Literature Articles