Qin Shi Huangdi 210 To 259 Qabal Masih - Article No. 919

Qin Shi Huangdi 210 To 259 Qabal Masih

شی ہوانگ تی 259 تا 210 قبل مسیح - تحریر نمبر 919

عظیم چینی شہنشاہ شی ہوانگ تی 210 تا 238 قبل مسیح تک چین پر حکمران رہا اس نے عسکری قوت سے چین کو متحدکیا اور متعدد جامع اصلاحات کیں۔

ہفتہ 27 جون 2015

عظیم چینی شہنشاہ شی ہوانگ تی210تا238قبل مسیح تک چین پر حکمران رہا اس نے عسکری قوت سے چین کو متحدکیا اور متعدد جامع اصلاحات کیں۔ ان اصلاحات نے چین کے تہذیبی اتحاد کے قیام میں بنیادی کرداردادا کیا جو ہنوزوہاں موجود ہے۔
شی ہوانگ تی(اسے چین میں سی ہوانگ تی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے)۔259قبل مسیح میں پیدا ہوا۔210قبل مسیح میں اس کی وفات ہوئی۔
اس کے قدکاٹھ کے تعین کے لیے اس دور کے تاریخی پس منظر سے متعلق کچھ آگاہی حاصل کرنا ضروری ہے۔وہ چاؤ خاندان کے دور اقتدار کے اواخر میں پیدا ہوا جو1100قبل مسیح میں شروع ہوا تھا۔اس کے دور ست صدیوں قبل چاؤ حکمران اپنا اثرورسوخ کھو بیٹھے تھے اور چین بہت سی جاگیردار نہ ریاستوں میں تقسیم ہوگیا تھا۔
یہ جاگیردار فرمانروا عموما باہم برسر پیکار رہتے۔

(جاری ہے)

متعدد چھوٹے حکمران آہستہ آہستہ ختم ہوتے گئے۔ چند انتہائی طاقت ور جنگجو ریاستوں میں سے ایک چن ریاست بھی تھی جو ملک کے مغربی علاقے میں واقع تھی۔ چن حکمرانوں نے چینی فلاسفہ کے شریعت پرست مکتبہ کے خیالات کو ریاستی حکمت عملی کی تشکیل سازی کے لیے رہنما بنا لیا تھا۔ کنفیوشس نے یہ تلقین کی تھی کہ انسانوں کو ایک اچھے حکمران کی اخلاقی مثال کو پیش نظر رکھ کر حکمرانی کرنی چاہیے۔
تاہم شریعت کا نقطہ نظریہ تھا کہ بیشتر لوگوں پر اس انداز سے حکومت نہیں کی جاسکتی نہ ہی انہیں ایسے ٹھوس اور غیر جانبدارانہ انداز میں عائد کیے گئے قوانین کے تحت منظم کیا جاسکتا ہے۔ قوانین حکمران خود بناتا ہے اور ریاستی حکمت عملی کے تحت اس کی منشاء کے مطابق انہیں تبدیل بھی کیا جاسکتا ہے۔
شاید اس لیے کہ وہ شریعت پسندوں کے ہم خیال تھے یا شاید اس لیے ان کے جفرافیائی حالات مختلف تھے یا شاید اس لیے کہ چن حکمران نہایت اہل تھے۔
یہ خاص ریاست چینی ریاستوں میں انتہائی طاقت وربن گئی یہی زمانہ تھا جب چنگ (جوبعدازاں شی ہوانگ تی کہلایا)پیدا ہوا۔یوں تو تیرہ برس کی عمر میں 246قبل مسیح میں وہ برسراقتدار آیا۔تاہم فی الحقیقت 238قبل مسیح تک اس کے ساتھ ایک قائم مقام بادشاہ حکمرانی کرتا رہا۔حتیٰ کہ وہ خود بلوغت کو پہنچا۔ نئے حکمران نے قابل سپہ سالارملازم رکھے اور بقیہ جاگیردارانہ ریاستوں سے شدید جنگوں کا سلسلہ جاری کیا۔
221قبل مسیح تک یہ تمام مفتوح ہو گئیں۔ اس نے خود کو تمام چین کا واحد فرمانروا قراردیا۔ ماضی سے ہر تعلق کے مکمل انقطاع پر اپنے اصرار کے تحت اس نے ایک نیا نام اختیار کیا۔ اپنے لیے شی ہوانگ تی ،نام منتخب کیا۔ جس کا مطلب اولین شہنشاہ تھا۔
شی ہوانگ تی نے فوری طور پر بڑی تعداد میں اہم اصلاحات کے لیے کمر باندھی۔ انتشار کے احتمال کے مکمل خاتمے کے لیے جو چاؤ حکومت کے زوال کا سبب بنا اس نے تمام حکومتی جاگیردارانہ نظام کی تنسیخ کردی۔
تمام سلطنت کی چھتیس 36صوبوں کی صورت میں ازسر نودرجہ بندی ہوئی۔ ہر صوبے کا ایک گونر ہوتا جسے شہنشاہ خود متعین کرتا۔ شی ہوانگ تی نے یہ فرمان بھی جاری کیا کہ صوبائی گورنر کا عہدہ وراثتی بنیادوں پر تفویض نہ کیا جائے۔ اس سے یہ سلسلہ چلا کہ چند برسوں بعد ہی گورنروں کو ایک صوبے سے دوسرے میں منتقل کیا جانے لگا۔ تاکہ اس امکان کا قلع قمع کیا جاسکے کہ کوئی پر جوش گورنر اپنے طور پربا اختیار ہونے کی کوشش نہ کرے۔
ہر صوبے کا علیحدہ ایک سپہ سالار ہوتا جسے شہنشاہ منتخب کرتا اور اپنی منشاء سے سبکدوش بھی کر سکتا تھا۔ سوم یہ کہ وفاتی حکومت ہی کی طرف سے اہل کارمتعین ہوتے جو انتظامی اور عسکری شعبوں میں توازن قائم رکھنے کے ذمہ دار ہوتے۔ ملک بھر میں عمدہ سڑکوں کا ایک جال بچھا دیا گیا جو دارالخلافہ کو صوبوں سے جوڑتا اور جن سے یہ امریقینی ہوگیا کہ اگر کسی وقت کسی صوبے میں خانہ جنگی شروع ہوتو وفاتی فوجیں بروقت امداد کے لیے وہاں پہنچ سکیں۔
شی ہوانگ تی نے ایک اصلاح یہ بھی کی کہ سابقہ اشرافیہ کے بقیہ اراکین کا باسن ہانگ منتقل کروادیا جو اس کا درالحکومت تھا اور جہاں وہ ان پر نظر رکھ سکتا تھا۔
تاہم شی ہوانگ تی ملک میں فقط سیاسی اور عسکری یکجائی پر ہی قانع نہ ہوا۔ اس نے تجارتی شعبے کو بھی منظم کیا۔ اس نے ملک بھر میں اوزان اور پیمانوں کا ایک متحد نظام رائج کیا۔ سکوں کو معیار بخشا مختلف اوزاروں اور چھکڑوں کے دھروں کو بہتر بنایا۔
سٹرکوں اور نہروں کی تعمیر کی نگرانی کی۔ اس نے تمام چین میں منظم قوانین کا ضابطہ لاگو کیا اور تحریری زبان کو معیاری بنایا۔
شہنشاہ کا سب سے معروف (یابدنام ترین) فعل اس کا یہ اقدام تھا کہ 213قبل مسیح میں ایک فرمان کے تحت چین میں تمام کتابوں کو جلادیا گیا۔ البتہ استثناء ان چند تاریخ سے متعلق تھیں اور شریعت پسند مصنفین کی فلسفیانہ تحریروں پر مشتمل تھیں۔
تاہم دیگر تمام مکاتب فلسفہ بشمول کنفیوشس سے متعلق تحریروں کو تباہ کر دیا گیا۔ اس سخت گیر فرمان سے جو غالبا کتابوں پر امتناع کی واحد بڑی تاریخی مثال ہے شی ہوانگ تی تمام حریف فلسفوں کے اثرات کی تنسیخ کرنا چاہتا تھا خاص طور پر کنفیوشس مکتبہ فکر کے خیالات کی۔ تاہم اس نے حکم جاری کیا کہ تمام ممنوعہ کتب کی جلدیں شاہی کتب خانے میں محفوظ رکھی جائیں ، جو دارالخلافہ میں واقع تھا۔

اسی طور شی ہوانگ تی کی خارجہ حکمت عملی بھی تندخوتھی۔ اس نے ملک کے جنوبی علاقے میں وسیع فتوحات حاصل کیں۔ یوں جن علاقوں پر وہ قابض ہوا وہ آہستہ آہستہ چین کا ہی حصہ بن گئے۔ شمال اور مغرب میں بھی اس کی فوجوں نے کامیابیاں حاصل کیں ۔ لیکن وہ ان علاقوں کے باشندوں کے دلوں کو تسخیر نہیں کر سکا۔ اس نے ان لوگوں کے چین پر ممکنہ دھاوؤں کے سدباب کے لیے چین کی شمالی سرحدوں پر پہلے سے موجود متعدد مقامی دیواروں کوا یک عظیم الجشہ دیوار کی صورت میں جوڑدیا۔
وہ یہی عظیم دیوار چین ہے جو آج بھی موجود ہے۔ان تعمیراتی منصوبوں اور ساتھ ساتھ ہونے والی غیر ملکی جنگوں نے شہنشاہ کو عوام پر محصولات کا بار بڑھانے پر مجبور کیا اور وہ اپنی عوامی مقبولیت کھو بیٹھا۔ چونکہ اس کی آہنی حکومت کے خلاف بغاوت ناممکن تھی سواس کے قتل کی سازشیں ہونے لگیں جو بار آور نہ ہوئیں۔ شی ہوانگ تی 210قبل مسیح میں اپنی فطری موت مرا۔

اس کی جگہ اس کے دوسرے بیٹے نے لی جس نے اپنا نام ایرہ شی ہوانگ تی اختیار کیا۔ لیکن وہ اپنے باپ سااہل نہیں تھا۔ جلد ہی بغاوں نے سراٹھایا۔ چار سال بعد ہی اسے قتل کر دیا گیا۔ محل اور شاہی کتب خانہ کو جلادیا اور چن خاندان کا مکمل صفایا کر دیا گیا۔
لیکن جو کام شی ہوانگ تی نے شروع کیا تھا وہ جاری رہا۔ چینی خوش تھے کہ اس کی آمرانہ حکومت اختتام پذیر ہوئی لیکن ایک بڑی تعداد اسی سابقہ حکومت کے احیاء کی خواہاں بھی تھی ۔
اگلے ہان خاندان نے چن شی ہوانگ تی کے قائم کردہ انتظامی نظام کو ہی قائم رکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اکیس صدیوں تک چینی سلطنت ان خطوط پر ثابت قدمی سے منظم رہی جو اس نے استور کیے تھے۔ اگرچہ چن کے درست قوانین کو ہان شہنشاہوں نے نرم بنا دیا اور اگرچہ تمام شریعت پسندانہ فلسفہ کو کالعدم قراردے کر کنفیوشس مت کوریاستی فلسفہ کے طور پر بحال کیا گیا لیکن وہ تہذیبی اور سیاسی اشتراک جو شی ہوانگ تی نے تخلیق کیا تھا بدستور قائم رہا۔

چین اور من حیث المجموع دنیا کے لیے شی ہوانگ تی کی نافذانہ اہمیت اب واضح ہے۔ مغربی اقوام چین کے بے پناہ حجم سے ہمیشہ مرعوب رہی ہیں۔ لیکن تاریخ کے بیشترا دوار میں چین کبھی یورپ سے زیادہ گنجان آباد نہیں تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ یورپ ہمیشہ چھوٹی ریاستوں میں منقسم رہا جبکہ چین ایک بڑی ریاست کی صورت میں متحد ہے۔ یہ امتیاز جغرافیائی حالات کی بجائے سیاسی اور سماجی عوامل کے باعث قائم ہوا جبکہ داخلی بندش جیسے مختلف سلسلہ ہائے کوہ چین میں بھی اسی درجہ نمایاں تھے جتنے یورپ میں رہے۔
لیکن چین کے اتحاد کو مکمل طورپر شی ہوانگ تی سے ہی منسوب نہیں کیا جاسکتا ۔ متعدد دیگر افراد جیسے سوئی وین تی وغیرہ نے بھی اہم کردار اداد کیا۔ شی ہوانگ تی کے مرکزی کردار پر بھی کوئی کلام نہیں کیا جاسکتا۔
شی ہوانگ تی پر کوئی گفتگو اس کے ذہین اور قابل قدر وزیراعظم لی سو کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی ہے۔ شہنشاہ کی حکمت عملیوں پر لی مسو کی فکر کے اثرات اس درجہ گہرے ہیں کہ یہ جاننا مشکل ہے کہ اس دور کی عظیم اصلاحات کے لیے تحسین وپذیرائی کو دونوں میں کس شرح سے تقسیم کیا جائے؟ یہی کیا جاسکتا ہے جیسا کہ میں نے کہا کہ سہراشی ہوانگ تی کے سر باندھا (کیونکہ چاہے رائے لی مسو کی ہو حتمی فیصلہ تو شہنشاہ کا ہی ہوتا تھا)۔

اکچھ اس لیے کہ اس نے کتابوں کو جلایا تھا ۔ بعد کے کنفیوشس مت کے مصنفین نے شی ہوانگ تی کو لعن طعن کی ہے۔اسے آمر تو ہم پرست بداندیش حرامی بچہ اور اسط درجے کا انسان قراردیا گیا۔ جبکہ دوسری طرف چینی اشتمالیت پسندوں نے اس کی ایک ترقی پسند مفکر کی حیثیت سے تحسین کی۔مغربی مصنفین عموما شی ہوانگ تی کا موازنہ نپولین سے کرتے ہیں۔ تاہم اس سے کہیں بہتریہ ہے کہ اس کا موازنہ آگسٹس سیزر سے کیا جائے جو سلطنت روما کا بانی تھا وہ سلطنتیں جوانہوں نے استوار کیں کم وبیش ایک جیسے حجم اور آبادی والی تھیں تاہم سلطنت روما کہیں کم مدت تک برقرار رہی۔
آگسٹس کی سلطنت تاویر اپنا داخلی اتحاد برقرار نہیں رکھ سکی جبکہ شی ہوانگ تی کی سلطنت تاویر قائم رہی۔ اسی بنیاد پر اسے اول الذکر سے کہیں زیادہ موثر قرار دیا جاسکتا ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles