Saint Augustine 354 To 430 - Article No. 922

Saint Augustine 354 To 430

سینٹ آگسٹائن 430ء۔354ء - تحریر نمبر 922

سلطنت روما کے زوال کے برسوں میں سینٹ آگسٹائن پیدا ہوا۔ وہ ااپنے دور کا عظیم ترین ماہر الہیات تھا۔ اس کی تحریروں نے قرون وسطیٰ میں عیسائی عقائد اور رویوں پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

جمعہ 3 جولائی 2015

سلطنت روما کے زوال کے برسوں میں سینٹ آگسٹائن پیدا ہوا۔ وہ ااپنے دور کا عظیم ترین ماہر الہیات تھا۔ اس کی تحریروں نے قرون وسطیٰ میں عیسائی عقائد اور رویوں پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ہنوزان اثرات کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔
ء میں آگسٹائن بڑے ساحلی قصبے ہیو( موجودہ نام ”انابا“) سے قریب پینتالیس میل کی دوری پر ایک قصبہ تگاسٹا جو الجیریا میں واقع ہے اور سوک اہراس کہلاتا ہے) میں پیدا ہوا۔
اس کا باپ پرست تھا جبکہ والدہ ایک کٹر عیسائی تھی۔ بچپن میں اس کا پیستمہ نہ کروایا گیا۔
بلوغت کی عمر میں اس کی بے پناہ ذہانت کااظہار ہونے لگا تھا۔ سولہ برس کی عمر میں وہ حصول علم کے لیے کارتھیج گیا۔ وہاں ایک داشتہ سے اس کا ایک بچہ ہوا۔ وہ انیس برس کا تھا جب اس نے فلسفہ کے مطالعہ کا فیصلہ کیا۔

(جاری ہے)

جلد ہی اس نے مانی مت قبول کر لیا جسے قریب 240میں مانی نے قائم کیا تھا۔

نوجوان آگسٹائن کو عیسائیت میں بڑی قباحتیں محسوس ہوئیں۔ جبکہ مانی مت اس کے عقلی معیارات پر پورا اترتا تھا تاہم اگلے نوبرسوں میں وہ بتدریج مانی مت سے بدظن ہوگیا۔ جب اس کی عمر انتیس برس تھی وہ روم چلا آیا۔ تھوڑے ہی عرصہ بعد وہ شمالی اٹلی میں میلان گیاجہاں وہ علم خطابت کا استاد بن گیا۔ وہاں اس کی نیو فلاطونیت (Neoplatonism) سے شناسائی ہوئی جو افلاطون کے افکار کی ایک ترمیم شدہ صورت تھی۔
جسے تیسری صدی عیسوی میں فلاطینوس نے متشکل کیا تھا۔
تب میلان کا اسقف سینٹ ایمبروس تھا ‘آگسٹائن نے اس کے چند خطبات سنے۔ جنہوں نے اس پر عیسائیت کے چند نفیس اور نئے پہلوواکیے۔ بتیس برس کی عمر میں اس نے عیسائیت اختیار کی اور اس جیسا متشکک عیسائیت کا ایک جوش حامی بن گیا۔ 387ء میں آگسٹائن نے ایمبروس سے اپنا یپسمتہ کروایا۔ اس کے فورأٴ بعد وہ اپنے آبائی قصبے تاگا سٹا چلا آیا۔

391ء میں آگسٹائن ہپو کے اسقف کا معاون کاربن گیا۔ پانچ سال بعد اسقف کا انتقال ہوا تو آگسٹائن کی عمر بیالیس برس تھی۔ وہ ہیو کانیااسقف بن گیا۔ باقی تمام زندگی وہ اسی عہدے پر رہا۔
اگرچہ ہپو ایک اہم شہر نہیں تھا لیکن آگسٹائن اپنی خداداد ذہانت کے باعث جلد ہی کلیسا کے اہم ترین قائدین میں شمار ہونے لگا۔ اس کے پاس سہولیات کی کمی تھی۔
تاہم ایک سٹینو گرافر کی معاونت سے اس نے بڑی تعداد میں مذہبی تحریریں لکھوائیں۔ اس کے پانچ سو کے قریب خطبات باقی بچے ہیں دو سو خطوط اس کے علاوہ ہیں۔
اسکی کتابوں میں دو سے زیادہ اہم اثرانگیز ثابت ہوئیں۔ (1) شہرخدا“(2) ”اعتراضات“ موخرالذ کرکتاب خود نوشت سوانح حیات کی فہرست میں دنیا میں کی سب سے مشہور کتاب مانی جاتی ہے۔ یہ کتاب اس نے عمر کی چوتھی دہائی میں تحریر کی۔

آگسٹائن کے متعدد خطوط اور خطبات میں بڑی شدومد سے مانی چین‘ دوناتیوں ایک بدعتی مسیحی فرقہ اور پیلاگیوں (اس دور کا ایک دوسرا بدعتی مسیحی فرقہ) کے عقائد تنقید کی گئی ہے۔ پیلاگیوں سے شدید اختلافات نے آگسٹائن کے مذہبی نظریات کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ پیلاگس ایک انگریز راہب تھا جو400ء میں روم گیا۔ وہاں اس نے متعدد دلچسپ الہیاتی نظریات بیان کیے۔
اس نے دعویٰ کیا کہ ہم بنیادی گناہ سے پاک ہیں اور خیردشر میں انتخاب کی مکمل آزادی رکھتے ہیں۔ پارساطرز معاشرت اور نیک اعمال سے ہر فرد نجات حاصل کر سکتا ہے۔
کسی حد تک سینٹ آگسٹائن کی تحریروں کے اثرتلے پیلا گیس کو بدعتی قرار دیا گیا۔ اسے روم سے نکال دیا اور کلیسائی حقوق سے محروم کر دیا گیا۔ آگسٹائن کے مطابق تمام انسان آدم کی معصیت سے داغدار ہیں۔
انسان فقط اپنے نیک افعال اور مساعی خیر سے اپنی نجات حاصل کرنے کے قابل نہیں ہے اس لیے رحمت ایزدی ضروری ہے۔ ایسے ہی خیالات کا پہلے بھی اعداہ کیا جاتا رہا تھا۔ تاہم آگسٹائن نے ان سابقہ بیانات کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا۔ اس کی تحریروں نے ان امور پر کلیسا کی حیثیت کو مستحکم بنایا۔
آگسٹائن نے لکھا کہ خدا کو قبل ازوقت علم ہے کہ کون نجات پائے گا اور کو اس سے محروم رہے گا۔
ہم سے چند ایک کی قسمت میں نجات لکھ دی گئی ہے۔ لوح تقدیر کے اس خیال نے بعد کے ماہرین الہیات پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ جیسے سینٹ تھامس ایکیانس اور جان لالون وغیرہ۔
تاہم تقدیر کے نظریہ سے کہیں زیادہ اہم آگسٹائن کا جنس (sex) کے حوالے سے رویہ ہے۔ جب وہ عیسائیت کی جانب راغب ہوا تو اس نے فیصلہ کیا کہ جنس سے کنارہ کشی اختیار کرنا ضروری ہے (اس نے لکھا کوئی دوسری شے جنسی تعلقات سے زیادہ قابل احتراز نہیں ہے) ۔
خود شینٹ آگسٹائن کے لیے اسے واقعتا ترک کر دنیا مشکل ثابت ہوا۔ اس موضوع پر اس کی داخلی کاوش اور نقطہ نظر کو اس کی کتاب اعتراضات“ میں بالتفصیل بیان کیا گیا ہے۔ اس نے جو خیالات پیش کیے وہ اس کی گراں قدر ساکھ کے باعث دور وسطیٰ میں جنس کے متعلق عمومی رویے پر شدید اثراانداز ہوئے۔ آگسٹائن کی تحریروں نے ہی ابدی گناہ اور جنسی خواہش کے نظریہ کو باہم ملایا۔

آگسٹائن کی زندگی میں ہی سلطنت روما شتابی سے روبہ تنزل ہونے لگی تھی۔410ء میں روم کے شہر کو الارک کی زیر قیادت “ ویزی گوتھوں نے تہ وبالا کردیا قدرتی طور پر روم کے بقیہ بت پرستوں نے دعویٰ کیا کہ رومیوں کو یہ سزا اپنے قدیم دیوتاؤں سے انحراف کرکے عیسائیت قبول کرلینے کے جرم میں ملی ہے۔ آگسٹائن کی سب سے معروف کتاب شہر خدا “ ایک اعتبار سے اسی الزام کے خلاف عیسائیت کے دفاع پر مبنی ہے۔
تاہم کتاب میں تاریخ کا مکمل فلسفہ بھی موجود ہے جس نے یورپ میں بعد میں ہونے والی ترقی پر گہرے اثرات قائم کیے۔ آگسٹائن نے اس نقطہ نظر کا پرچار کیا کہ سلطنت روما کسی بنیادی اہمیت کی حامل نہیں ہے۔ نہ ہی شہر روم اور نہ ہی کوئی دوسرا زمینی شہر۔
جوبات اہم ہے وہ آسمانی ”شہر کی بڑھوتری ہے بالفظ  دیگر انسانیت کی روحانی ترقی۔ جبکہ اس ترقی کا پہیہ ”کلیسا“ ہے (کلیسا سے باہر کہیں نجات ممکن نہیں ہے)۔
اس سے یہ ثابت ہوا کہ شہنشاہ چاہے وہ بت پرست ہوں یا عیسائی ہوں اہم نہیں ہیں۔ اصل اہمیت کاحامل پوپ اور کلیسا ہے۔
اگرچہ آگسٹائن نے خود کبھی کوئی حتمی قدم نہ اٹھایا۔ تاہم اس کے براہین کی طاقت نے لوگوں کو یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور کیا کہ ان عارضی فرمانرواؤں کوپوپ کے ماتحت ہونا چاہیے۔ دور وسطیٰ کے پقپ یہ نتیجہ اخذ کر کے خوش ہورہے جبکہ انہی خیالات نے بعدازاں کلیسا اور ریاست کے بیچ طویل تنازعات برپا کیے جن سے کئی صدیوں تک یورپی تاریخ آلودہ رہی۔

آگسٹائن تحریروں نے یونانی فلسفہ کے چند پہلوؤں کو دور وسطیٰ کے یورپ میں سرایت کر جانے کا موقع دیا۔ خاص طور پر نوافلاطونیت نے آگسٹائن کی پختہ فکر بہت متاثر کیا۔اور آگسٹائن کے توسط سے ہی یہ مسیحی فلسفہ پر اثرانداز ہوئی۔ یہ امر قابل دلچسپی ہے کہ آگسٹائن نے قدرے مختلف الفاظ میں وہی خیال پیش کیا جو دیکارت نے بیان کیا تھا کہ میں سوچتا ہوں اس لیے میں موجود ہوں۔

آگسٹائن تاریک ادوار کے آغاز سے قبل آخری عظیم ماہر الہیات تھا۔ اس کی تحریروں نے کلیسا کے عقائد کو قدرے خام انداز میں ہی سہی مگر ان بنیادی خطوط پر استوار کردیا۔ جن پریہ ازمنہ وسطیٰ کے دوران قائم رہے وہ لاطینی کلیسا کا ایک اہم ترین پوپ تھا۔ اہل کلیسا اس کی تحریروں کو بڑے دھیان سے ملاحظہ کرتے تھے۔ نجات جنس ابدی معصیت اور متعدد دیگر موضوعات پر اس کے نظریات نہایت متاثر کن ثابت ہوئے۔
سینٹ تھا مس ایکیوینز‘ ‘ لو تھر اور کالون جیسے پروٹسٹنٹ مذہبی قائدین پر ان تحریروں کے اثرات خاصے نمایاں ہیں۔
چھہتر برس کی عمر میں سینٹ آگسٹائن430ء میں ہپو میں فوت ہوا۔ یہ وہ دور تھا جب ایک وحشی قوم” ویندال“ نے سلطنت روما کو نہس کر کے ہپو کامحاصرہ کر رکھا تھا۔ چند ماہ بعد انہوں نے قصبے پر قبضہ کر کے اسے جلا کر خاکستر کردیا۔ تاہم آگسٹائن کا کتب خانہ اور” کیتھڈرل“ اس تباہ کاری سے محفوظ رہے۔

Browse More Urdu Literature Articles