Shayir E Awab Habib Jalib Ki Walida Ki Kahani - Article No. 917

Shayir E Awab Habib Jalib Ki Walida Ki Kahani

شاعر عوام حبیب جالب کی والدہ کی کہانی - تحریر نمبر 917

حبیب احمد ان کے تیسرے بیٹے تھے جو24مارچ1928ء کو عیدالفطر کے دن پیدا ہوئے۔۔۔

بدھ 24 جون 2015

انور سدید:
والدہ کے جلال کی وجہ یہ تھی کہ ہمارا خاندان غریب تھا اور والدہ چاہتی تھیں کہ حبیب بھی اپنے بڑے بھائی مشتاق کی طر ح خاندان کا کفیل بنے اور محنت مزدوری کرے آوارہ گردی نہ کرے۔ ابتدا میں وہ حبیب کی شاعری کی قدردان نہیں تھیں۔ اس ضمن میں ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایک بار ایک مخبر نے والدہ کو بڑی پکی خبردی کہ آج رات پرانی نمائش کراچی کی وسیع وعریض گراؤنڈ میں ایک شاندار مشاعرہ منعقد ہوگا اور ان کا صاحبزادہ حبیب جالب بھی وہاں اپنا کلام سنائے گا۔
اماں اور ابارات کو مشاعرہ گاہ میں پہنچ گے اماں نے اوڑھی ہوئی چادر میں ڈنڈا چھپارکھا تھا۔ دونوں مشاعرہ گاہ میں کھڑے رہے۔ اسٹیج سیکرٹری نے اعلان کیا آپ جو اں سال شاعر حبیب جالب اپنا کلام پیش کریں گے۔

(جاری ہے)

اماں اور ابا نے دیکھا کہ ان کا بیٹا حبیب احمد اپنا پرسوزاور دل آویزترنم میں سنا رہا ہے۔

آج اس شہر میں کل نئے شہر میں ‘ بس اسی لہر میں
اڑتے پتوں کے پیچھے اڑاتا رہا شوق آوارگی

غزل ختم ہوگئی اور اماں بھی شوق آوارگی پر شدید برہم اسٹیج کے قریب پہنچ چکی تھیں، ادھر حبیب جالب اسٹیج سے اترے ادھر اماں نے کھنچ کے ڈنڈا حبیب جالب کی پیٹھ پر دے مارا۔

لوگوں نے دیکھا تو آگے بڑھے․․․․اماں نے کھری کھری سنائیں اور پھر حبیب جالب نے لوگوں کو بتایا” یہ میری اماں ہیں جہاں گیرپارک کے ایک جلسے کے اختتام پر بھی اماں رابعہ بصری نے حبیب جالب کی سب لوگوں کے سامنے پٹائی کی اور جب انہیں معلوم ہوا کہ حبیب جالب ڈرامہ نگار حمید کا شمیری کے ساتھ گھومتا پھرتا ہے تو ایک ڈنڈا حمید کا شمیری کی کمر پر بھی دے مارا۔

ماں کے دل میں حبیب جالب کی شاعری کیلئے نرم گوشہ اس وقت پیدا ہوا جب حبیب جالب گھر کی غربت دور کرنے اور ماں باپ کا ہاتھ بٹانے کیلئے چھوٹی موٹی نوکریاں کرنے لگے۔ اخبار ”جنگ میں پروف ریڈری،انکم ٹیکس وکیل کے دفتر میں ملازمت اور کراچی بندر گاہ پر مزدوری کے واقعات حبیب جالب کی معاشی ناداری کی یاد دلاتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ کراچی پولیس نے جب حیدر بخش جتوئی کی ہاری تحریک کے کارکنوں کے ساتھ حبیب جالب کو بھی گرفتار کر لیا تو اماں رابعہ بصری پہلے تو پریشان ہوئیں لیکن جب معلوم ہواکہ بیٹا مزدوروں کیلئے گرفتار ہوا ہے تو ان کی پریشانی رفع ہوگئی اور وہ بیٹے کے اس مزدور دوست رویے پر خوش ہوگئیں۔
سعیدپرویز نے لکھا ہے” یہ خوشی اپنی جگہ مگر ابااور اماں اب بھی اپنے بیٹے حبیب کی طرف سے فکر مندرہتے تھے کہ وہ کوئی کام دھندانہیں کرتا تھا اور آوارہ گردوں کے ساتھ دن رات گھومتا پھرتارہتا تھا ۔ یہ آوارہ گرد تھے شاعر فرید جاوید،رساچغتائی،اطہرنفیس جمال پانی پتی
دوسری طرف یہ حبیب جالب کی شاعری کا سنہری دور تھا۔ ان کی مترنم شاعری کی شہرت پورے پاکستان میں پھیل گئی تھی۔
جگر مراد آبدی نے ایک مشاعرے کے صدارتی خطبے میں کہا اگر ہمارے نوشی کا زمانہ نہ ہوتا تو ہم پاؤں پر گھنگھروباندھ کر سر محفل حبیب جالب کی غزل پر رقص کرتے ۔ ان کی ایک غزل

دل کی بات لبوں پر لا کر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں
ہم نے سنا تھا اس بستی میں د ل والے بھی رہتے ہیں

گلوکار مہدی حسن نے گائی تو یہ غزل زبان زد خاص وعام ہو گئی۔
اب انہیں مشاعروں سے بھی خاطر خواہ آمدنی ہونے لگی اور فلموں میں گیت نکاری کے مواقع ملنے لگے۔ حبیب جالب جو پیسے بھی ملتے اپنی ماں کو پیش کردیتے اور انہوں نے اپنی بیٹی رشیدہ کی شادی کی تو مالی معاونت کا بوجھ حبیب جالب نے زیادہ اٹھایا۔ ماں کی دعائیں اب حبیب جالب کا قیمتی سرمایہ تھیں اور ماں بھی خوش تھی کہ ان کا بیٹا ملک کا نامور شاعر بن گیا تھا اور آمروں کو للکار رہا تھا۔

حیدر بخش جتوئی کی ہاری تحریک سے حبیب جالب کی زندگی کا رخ سیاست کی طرف مڑگیا۔ 1958ء میں ایوب خان کے مارشل لاء نے ان کے باطن میں مزاحمت کا آتش فشاں سلگادیا اور جب خود ساختہ فیلڈر مارشل نے اپنا نیا دستور نافذ کیا تو اماں رابعہ بصری کی خودداری حق اور بے باکی کی گود پل کر جوان ہونے والے حبیب جالب کا نعرہ مستانہ بلند ہوا۔
اب غزل نگار حبیب جالب مارشل لاء کے جابرانہ نظام کے خلاف ایک باغی شاعر کی صورت میں ابھرا تو مادرملت محترمہ فاطمہ جناح کے صدارتی انتخاب کے عوامی جلسوں میں مزاحمتی نظمیں پڑھ رہاتھا۔
مادر ملت کے جلسوں سے دوررکھنے کیلئے لاہور پولیس نے حبیب جالب کو گرفتار کر لیا۔ ان پر دفعہ 307 کے تحت بابومحمد وارث کے قتل کے اقدام کا الزام تھا۔ اماں رابعہ بصری یہ خبر پڑھ کر لاہور کچہری میں پہنچیں جہاں جالب کو ہتھکڑی لگی ہوئی تھی۔ والدہ نے انتہائی طیش میں کہا․․․اوے تھا نیدارا میرے بچے کے ہاتھوں کی ہتھکڑی کھول دے یہ بھاگے گا نہیں ۔
یہ بزول نہیں یہ میرا بچہ ہے اور میں نے اسے جاگتا دودھ پلایا ہے․․․ تھانیدارا ماں رابعہ بصری کے حکم کی تاب نہ لاسکا اور ہتھکڑی کھول دی۔ اماں بیٹے کی پیٹھ تھپکی اور کہا بیٹا ڈولیں ناں (ڈگمگانا مت) محترمہ رابعہ بصری ایک جرات منداور خوددار ماں تھیں۔ ان کا پہلاٹا کر ااپنے گاؤں کے جاگیردار سے ہوا جو بچوں کی تعلیم کا مخالف تھا۔ لیکن اماں رابعہ بصری نے اسے للکارا سن لے جاگیردار․․․اب میرے بچے تعلیم حاصل کریں گے۔
اب یہ تمہاری خدمت نہیں کریں گے تم انہیں تعلیم حاصل کرنے سے روک نہیں سکتے۔ اماں رابعہ نصری نے اپنے گھر میں نہ صرف علم کی شمع روشن کی بلکہ اپنے بچوں کو حق پرست اور صداقت کا طرفدار بھی بنادیا۔ حبیب جالب جیسا باغی ان کی گود میں پل کر جوان ہوا اور اپنے ملک کے جابر آمروں سے ٹکرا گیا۔85برس کی عمر میں 31اکتوبر 1986ء کو جب اماں رابعہ بصری کی وفات ہوئی تو وہ سرجوآمروں کے سامنے جھکا نہیں تھا جنازے کے ساتھ ٹکا ہوا تھا۔ یہ حبیب جالب تھا جس کی آنکھوں سے آنسو نہہ رہے تھے۔ عزم وہمت اور حق وصداقت کی یہ داستان اب ہمیں سعید پرویز سنا رہے ہیں جو حبیب جالب کے چھوٹے بھائی ہیں۔

Browse More Urdu Literature Articles