Sikandar Azam 323 To 356 Qabal Masih - Article No. 916

Sikandar Azam 323 To 356 Qabal Masih

سکندراعظم 356 تا 323 قبل مسیح - تحریر نمبر 916

دنیائے قدیم کا عظیم فاتح سکندراعظم مقدونیہ کے دار الخلافہ پیلا میں 356قبل مسیح میں پیدا ہوا۔

پیر 22 جون 2015

دنیائے قدیم کا عظیم فاتح سکندراعظم مقدونیہ کے دار الخلافہ پیلا میں 356قبل مسیح میں پیدا ہوا۔
اس کا باپ بادشاہ فلپ دوئم صیحح معنوں میں غیر معمولی قابلیت اور بصیرت کا حامل انسان تھا۔ فلپ نے مقدونیہ کی فوج میں تو سیع اور تنظیم پیدا کی۔ اور اسے ایک اعلیٰ درجہ کی جنگجو طاقت میں تبدیل کردیا۔ اس وقت کو اس نے پہلی بار یونان کے شمالی حصوں کو فتح کرنے میں استعمال کیا۔
پھر وہ جنوب کی طرف بڑھا اور یونان کے بیشتر حصہ پر قابض ہوگیا۔بعدازاں فلپ نے یونانی شہری ریاستوں کی ایک انجمن تشکیل دی جس کا وہ سربراہ تھا۔ وہ یونان کے مشرق میں وسیع وعریض ایرانی سلطنت پر حملہ کی تیاریاں کرنے لگا۔336قبل مسیح میں جب اس یورش کا آغاز ہوا فقط چھیالیس برس کی عمر میں فلپ کو قتل کردیا گیا۔

(جاری ہے)


باپ کی موت کے وقت سکندر کی عمر بیس برس تھی۔

تاہم وہ کسی دشواری کے بغیر اس کی جگہ تخت اقتدار پر براجمان ہوا۔ فلپ نے اپنے بیٹے کی جانشینی کے لیے راہیں ہموار کردی تھیں اور نوجوان سکندر کو اعلیٰ عسکری تربیت سے لیس کیا تھا۔ اس کی ذہنی تربیت کا بھی فلپ نے خاطر خواہ اہتمام کیا تھا۔عظیم عالم ارسطو کو اس کا تا لیق مقر رکیا گیا تھا جو دنیا نے قدیم کا سب سے عظیم سائنس دان اور فلسفی تھا۔

یونان اور شمالی علاقہ جات میں جنہیں فلپ نے فتح کیا تھا لوگوں نے فلپ کی موت کو اس زیردستی کا چوغہ سر سے اتار پھینکے کا ایک بہترین موقع جانا۔ تاہم تخت نشین ہونے کے دوبرس بعد ہی سکندر نے دونوں علاقوں کو پھر سے فتح کرلیا۔بعد ازں وہ ایران کی جانب مڑا۔
دوسو سالوں سے ایرانیوں نے ایک وسیع علاقے پر جو بحیرہ روم سے ہندوستان تک محیط تھا ایک عظیم سلطنت قائم کر رکھی تھی۔
اگرچہ ایرانی سلطنت کواب ماضی جیسا عروج حاصل نہیں رہا تھا لیکن یہ ہنوز ناقابل تسخیر حریف تھا۔ دنیا کی وسیع ترین طاقت ور ترین اور امیر ترین سلطنت۔
334قبل مسیح میں سکندر ایران پر حملہ آور ہوا۔اسے اپنی فوج کا کچھ حصہ مقدونیہ میں انتظام وانصرام سنبھالنے کے لیے چھوڑنا پڑا۔جس کے بعد صرف پینتیس ہزار فوجیوں کا دستہ اس کے پاس باقی بچا جس کے ساتھ وہ ایران پر حملہ آور ہوا۔
ایرانی فوجوںکے مقابلے میں یہ نہایت کم فوج تھی۔ اس کمی کے باوجود سکندر ایرانی فوجوں کو پے درپے شکست دیتا چلا گیا۔ اس کی کامیابی کی تین وجوہات تھیں۔ اول فلپ کی تیار کردہ فوج ایرانی فوجوں سے کہیں زیادہ تربیت یافتہ اور منظم تھی۔ دو م سکندر ایک غیر معمولی اہلیت کا سالار تھا ،غالبا تاریخ کا سب سے بڑا جنگجو۔ سوم اس کی ذاتی شجاعت مندی نے بڑا اہم کردار ادا کیا۔
اگرچہ وہ پچھلی صفوں سے ہر مرحلے پر اپنی فوجوں کی رہنمائی کرتا لیکن اپنے خاص سواروں کے رسالہ کی قیادت وہ خود ہی کرتا۔ یہ ایک پر خطر اقدام ہوتا جس میں وہ کئی مرتبہ زخمی بھی ہوا لیکن اس کے رسالے کو جو صلہ رہتا کہ اس نقصان میں وہ اپنے حصے کا پوار کردار ادا کررہا ہے۔ وہ کبھی ان سے ایسا خطرہ مول لینے کو نہیں کہتا تھا جس سے وہ خودنہ گزر سکتا ہو اس اخلاقی مثال کا اثر بے پایاں تھا۔

سکندر اپنے سالاروں کے ساتھ پہلے ایشیائے کو چک میں داخل ہوا اور وہاں موجود ایرانی فوجوں کو شکست فاش دی۔پھر وہ شمالی شام کی طرف مڑا۔ وہاں آئس کے مقام پر اس نے بھاری ایرانی فوجی جمعیت کو مات دی۔وہ مزید آگے جنوب کی طرف گیا۔ جہاں سات ماہ کے دورانیہ کے ایک دشوار محاصرے کے بعد اس نے موجودہ لبنان کے علاقے میں تائر نامی فونیشین قوم کے شہر کو فتح کیا۔
اس محاصرے کے دوران اسے شاہ ایران کی طرف سے ایک پیغام موصول ہوا کہ وہ اپنی نصف سلطنت کے بدلے اس سے امن معاہدہ کرنے کو آمادہ تھا۔ سکندر کے ایک سپہ سالار پارمینیو کو یہ پیشکش قابل قبول معلوم ہوئی اگر میں سکندر ہوتا تو یہ پیشکش قبول کرلیتا اس نے کہا۔
ہاں میں بھی قبول کرلیتا اگر میں پارمینیو ہوتا۔سکندر نے جواب دیا۔ محاصرے کے بعد غازہ پر قبضہ کیا۔
مصرپر کسی حملے کے بغیر ہی اسے فتح حاصل ہوئی تب اپنے دستوں کو آرام دینے کے لیے وہ کچھ دیر مصر میں ٹھہرا۔ وہ صرف چوبیس برس کا تھا جب اس نے فرعون کا تاج پہنا اور خود کوا یک دیوتا وقرار دیا وہ اپنی فوجوں کے ساتھ ایشیا واپس آیا۔133قبل مسیح میں آربیلا کی فیصلہ کن جنگ میں اس نے ایرانی فوج کو مکمل طور پر اکھاڑ کر پھینک دیا۔
اس فتح کے بعد وہ بابل کی طرف بڑھا اور ایرانی اہم شہروں سوسا اور پرسی پولیس سے گزرا۔
330 قبل مسیح میں ایرانی بادشاہ ڈارلیس سوئم کو اس کے اپنے افسروں نے یہ اپنے پیش روڈار لیس اعظم سے مختلف تھا،قتل کردیا تاکہ یہ سکندر کے سامنے ہتھیار پھینک کو اپنی جان نہ بچالے۔ تاہم سکندر نے ڈارلیس کے جانشین کو شکست دے کر مار ڈالا۔ تین سالوں پر محیط اس جنگ میں اس نے تمام مشرقی ایران پر قبضہ کیا اور وسطی ایشیا میں داخل ہوگیا۔
تمام ایرانی سلطنت کو اپنا مطیع بنا کر سکندر اپنے آبائی وطن لوٹ سکتا اور اپنی سلطنت کو منظم کر سکتا تھا۔
لیکن اس کی دنیا فتح کرنے کی حرص آسودہ نہیں ہوئی تھی۔ اس نے افغانستان کی طرف پیش قدمی جاری رکھی ۔ وہاں سے وہ کوہ ہندو کش کے راستے ہندوستان میں داخل ہوا۔مغربی ہندوستان میں اس نے متعدد فتوحات حاصل کیں۔ وہ آگے مشرقی ہندوستان کی طرف بڑھنا چاہتا تھا لیکن اس کے سپاہی مسلسل کشت وخون سے تھک چکے تھے۔ انہوں نے مزید پیش قدمی سے انکار کردیا۔
سکندر کو طوعا کرہا واپس لوٹنا پڑا۔
ایران واپس آکر سکندر نے اگلا ایک برس اپنی سلطنت اور فوج کی تنظیم میں صرف کیا۔ یہ ایک بڑی تنظیم نوتھی۔سکندر کو یقین تھاکہ یونانی تمدن ہی صیحح معنوں میں حقیقی تہذیب تھی۔ یہی تمام یونانی دنیا کا نقطہ نظر تھا۔ حتیٰ کہ ارسطو کا بھی یہی نقطہ نظر تھا۔اس کے باوجود کہ وہ تمام ایرانی فوجوں کو مکمل شکست دے چکا تھا۔
سکندر کو احساس ہوا کہ ایرانی کسی طور پر وحشی قوم نہیں تھے ،بلکہ انفرادی طورپر ایرانی بہت ذہین قابل اور لائق احترام تھے جیسے یانانی تھے۔تب اس نے اپنی سلطنت کے ان دونوں حصوں کو باہم مدغم کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک متحدہ یونانی ایرانی تہذیب اور بادشاہت کی بنیاد رکھی جس کا وہ سربراہ تھا۔ جس حد تک ہم قیاس کرسکتے ہیں وہ تہہ دل سے چاہتا تھا کہ ایرانیوں کی بڑی تعداد کو اپنی فوج میں بھرتی کیا۔
اس نے مشرق اور مغرب کی شادی کے عنوان سے ایک شاندار تقریب کا اہتمام بھی کیا جس میں مقدونیہ کے ہزاروں فوجیوں کی ایشیائی عورتوں سے باضابطہ شادیاں کروائی گئیں۔ اس کی اپنی ایک ایشیائی شہزادی سے شادی ہو چکی تھی لیکن اس نے ڈاریس کی بیٹی سے بھی شادی کی۔
یہ امرواضح ہے کہ سکندر اپنی اس منظم فوج کے ساتھ مزید فتوحات حاصل کرنے کا منصوبہ رکھتا تھا ہم جانتے ہیں کہ اس کا عرب اور ایرانی سلطنت کے شمالی علاقوں پر حملہ کرنے کا ارادہ تھا۔
اس کا یہ منصوبہ بھی تھاکہ وہ ہندوستان پر چڑھائی کرے یا روم کار تھیج اور بحیرہ روم کے مغربی علاقوں کو فتح کرے ۔ جیسے بھی اس کے منصوبے ہوں ہم جانتے ہیں کہ اس کے بعد اس نے کوئی جنگ نہیں لڑی۔323قبل مسیح میں جون کے اوائل میں بابل میں سکندر اچانک بیمار ہوگیا اور صرف دس روز بعد ہی دنیائے فانی سے کوچ کر گیا۔ تب اس کی عمر فقط تینتیس برس تھی۔

سکندر نے کسی کو اپنا جانشین منتخب نہیں کیا۔ سواس کی موت کے بعد اقتدار کے لیے باہمی چپقلشیں شروع ہوگئیں۔ اس جنگ وجدل میں سکندر کی والدہ ‘بیویاں اور بچے سبھی قتل ہوگئے۔ پایان کار اس کی سلطنت اس کے سپہ سالاروں میں تقسیم ہوگئی۔
چونکہ اپنی زندگی میں سکندر ناقابل تسخیررہا اور جوان موت مرا سواس بارے میں متعدد قیاس آرائیاں کی جاتی ہیں کہ اگر وہ زندہ رہتا تو کیا صورت حال ہوتی ؟ اگر وہ اپنی فوجوں کے ساتھ بحیرہ روم کے مغربی جزیروں پر یورش کرتا قرین قیاس یہی تھا کہ وہ کامیاب رہتا۔
اس صورت میں مغربی یورپ کی تمام یکسر مختلف ہوتی ۔ یاایسی قیاس آرائیاں دلچسپ ضرور ہیں لیکن ان کا سکندر کے اثرات سے کم تعلق بنتا ہے۔
سکندر غالبا تاریخ کا نتہائی ڈرامائی کردار تھا۔اس کی زندگی اور شخصیت میں ایک طرح کا سحر پوشدہ ہے۔اس کی زندگی کے متعلق مختلف حقائق بھی ڈرامائی نوعیت کے ہیں۔ جبکہ متعدد اسطور اس کے نام سے منسوب کی جاتی ہیں۔
یہ اس کا نصف العین تھا کہ وہ دنیا کا سب سے بڑا جنگجو بنے۔ وہ اس اعزاز کا استحقاق بھی رکھتا تھا۔ ایک سپہ سالار کی حیثیت سے وہ واعلیٰ منصب پر فائر تھا۔ اپنی گیارہ سالہ عسکری زندگی میں اسے ایک بار بھی شکست نہ ہوئی۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک دانش ور بھی تھا۔ وہ اسطور کا شاگرد رہا اور ہو مرکی شاعری سے اس نے بصیرت حاصل کی۔ بلاشبہ اپنے اس خیال کی بنیاد پر کہ غیر یونانی بھی وحشی اقوام نہیں ہیں وہ اپنی وسعت نظری میں اپنے دور کے متعدد یونانی فلاسفہ سے سبقت لے جاتا ہے۔
لیکن دیگر معاملات میں وہ اسی درجہ حیرت انگیز طور پر تنگ نظر واقع ہوا تھا۔ اگرچہ اس نے دوران جنگ متعدد بار اپنی زندگی کو جو کھم میں ڈالا لیکن اس نے اپنے جانشین کا کبھی یقین نہ کیا۔ اس کی یہی غفلت اس کی موت کے فورا¿¿ بعد اس کی سلطنت کی عظیم پھوٹ کا سبب بنی۔
سکندر ایک سحرا شخصیت کا مالک تھا۔ متعدد مواقع پر اس کا اپنے مفتوحین سے رویہ بڑا فراخدانہ اور صلح جویانہ رہا۔
دوسری طرف وہ ایک تندخومزاج کے ساتھ خود پرست بھی تھا۔ ایک موقع پر شراب نوشی کے دوران اس نے اپنے ایک قریبی رفیق کالائینس کو قتل کردیا تھا۔ جس نے ایک بار اس کی جان بھی بچائی تھی۔
ہٹلر اور نپولین کی مانند سکندر نے بھی اپنی نسل پر بے پناہ اثرات چھوڑے ۔ تاہم ان دونوں کی نسبت سکندر کے اثرات کم عمر ثابت ہوئے۔جس کی وجہ اس دور کے سفر اور ابلاغ کے محدود ذرائع تھے جنہوں نے دنیا میں اس کے اثرات کے پھیلاﺅ پر قدغن لگائی۔

مجموعی طور پر سکندر کی فتوحات کا سب سے اہم اثر یونانی اور وسطی مشرقی تہذیبوں کا باہم قریب ہوجا ناتھا جس سے وہ دونوں ایک دوسرے سے مستفید ہوئے۔ سکندر کی زندگی میں اور اس کے بعد یونانی تمدن شتابی سے ایران میسو پوٹیمیا شام یہودہ اور مصر میں پھیل گیا۔ سکندر سے پہلے یونانی تہذیب کا ان علاقوں میں نفود بہت ست رو تھا۔ سکندر ہی کے باعث اس تمدن کو ہندوستان اور وسطی ایشیا میں فروغ پانے کا موقع ملا جیسا اس سے قبل ممکن نہ ہوا تھا۔
تاہم تہذیبی اثرو نفود ایک یکطرفہ عمل نہیں تھا۔سکندر کی وفات کے فورا¿¿ بعد کی صدیوں میں جسے ہیلیانی تمدن ہی تھا جس میں یونانی اور گہرے مشرقی اثرات موجود تھے اور جس علی الاخر روم کو متاثر کیا۔
اپنی حیات میں سکندر نے بیس سے زائد نئے شہروں کی بنیادیں استوار کیں۔ ان میں انتہائی اہم مصر میں شکدر یہ کا شہر ہے جو جلدی دنیا کے ممتاز شہروں کی صف میں شمار ہونے لگا اور علم وتہذیب کا گہوارہ بن گیا۔
علاوہ ازیں افغانستان کے شہر ہرات اور قندھار بھی اہم شہروں کی فہرست میں مقام پاگئے۔
اپنے مجموعی اثرات کے حوالے سے بھی ہٹلر نپولین اور سکندر میں بڑی مماثلت موجود ہے۔ یہ تاثر ملتا ہے کہ جیسے دوسرے دو افراد کے اثرات سکندر کی نسبت کم پائیدار ثابت ہوں گے۔ اس بنیاد پر اسے ان دونوں سے پہلے اس فہرست میں جگہ دی گئی ہے۔حالانکہ اس کے اثرات کی عمیاقی دونوں کی نسبت کم عمر دکھائی دیتی ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles