Jahannum Kay Us Paar By Tahira Shameem Hussain

Read Book Jahannum Kay Us Paar By Tahira Shameem Hussain in Urdu. This is Novel Book, and available to read online for free. Download in PDF or read online in multiple episodes. Also Read dozens of other online by famous writers.

جہنم کے اُس پار - طاہرہ شمیم حسین

شمونہ کی اس کہانی کو پوری ایمانداری اور دیانتداری کے ساتھ، بغیر کسی کمی بیشی کے آپ تک پہنچانا میرے لیے بے حد کٹھن اور صبر آزما امر تھا۔ اس کہانی کی تہہ در تہہ حقیقتوں اور پیچیدگیوں سے ایک ایک کرکے ایسے پردہ ہٹانا کہ کہانی کی اصل سچائی اور کھرا پن کسی طور مجروح نہ ہو۔
اور پھر میرے لیے یہ بھی بے حد مشکل تھا کہ جس بھرم کی حفاظت میں شمونہ نے اپنی زندگی کا طویل عرصہ گنوا دیا۔ وہ بھی کسی طور داغدار نہ ہونے پائے۔
شمونہ کا درد و کرب، اُس کی بے بسی اور لاچارگی اور پھر اُس پر اُس کا صبر و ضبط اس قدر المناک اور تکلیف دہ تھا کہ کئی دفعہ مجھے اپنا قلم روک کر اپنی ہچکیوں اور سسکیوں پر قابو پانا پڑا۔ یہ حقیقت سبھی جانتے ہیں کہ یہ صرف ایک شمونہ ہی نہیں ایسی کئی شمونائیں ہیں کہ جن کی زندگیاں پھولوں اور خوشبوؤں کے بجائے لق و دق بیابانوں اور تپتی ہوئی ریت کے ایسے صحراؤں میں گم ہوگئیں کہ جن کا نہ کوئی ٹھکانہ تھا اور نہ ہی کوئی کنارا…!! وہ اپنی پوری زندگی دُھول اور ببُول کے ان خاردار راستوں میں ایسی بھٹکیں کہ خود بھی انہی بے رحم اور سنگدل پکڈنڈیوں کا حصہ بن گئیں…!!
اور پھر انہی میں سے ایک شمونہ نے متبادل راستہ اختیار کیا۔ ایک ایسا راستہ جو نہایت کٹھن اور دشوار گزار تھا جس کے ہر قدم پر اندھے کنوئیں اور گہری عمیق کھایاں تھیں اور جس کے ہر موڑ پر اغیار گھات لگائے بیٹھے تھے۔ لیکن یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح اٹل تھی کہ اس جہنم زار کے اُس پار کہیں نہ کہیں منزل بھی ضرور موجود تھی…!
شمونہ کی اسی جدوجہد پیہم کو احاطہٴ تحریر میں لانے کا مقصد صرف یہی ہے کہ شاید کہیں نا کہیں کسی نہ کسی شمونہ کو اپنی منزل کا کھوج و کھرا مل جائے…!
میں جب اُن لوگوں کے بارے میں سوچتی ہوں کہ جو میری اس کاوش کا اصل محرک بنے تو اُن کی فہرست کافی طویل ہے۔ میں کیسے اُنہیں بھول سکتی ہوں۔ میرے وہ دوست اور غمگسار، میرے وہ ساتھی اور ہمنوا جو ہر حال میں میرے ساتھ رہے۔ جنہوں نے اپنی بے لوث دوستی اور وفاداری کا پورا پورا حق ادا کیا۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی اور میں فیصلہ نہیں کر پارہی کہ کہاں سے پہل کروں… اب آپ مجھے معاف کردیجئے گا کہ اگر میں نے کہیں ناانصافی کی ہو۔
سب سے پہلے میں اپنے تینوں بچوں کی احسان مند ہوں جو چٹان کی طرح مضبوط اور ناقابلِ تسخیر ثابت ہوئے اور جنہوں نے مجھے گرنے اور متزلزل ہونے سے محفوظ رکھا۔ اس سے پہلے کہ میں ٹوٹ جاتی گر کر ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جاتی۔ میرے بچوں نے مجھے اپنے کومل ہاتھوں میں تھام لیا۔ یہ ہاتھ تھے تو بچوں کے نہایت نرم و نازک، لیکن ان کی سختی اور گرفت دیدنی تھی۔ انہوں نے میری ایسی حفاظت کی جیسے جلے ہوئے ہاتھ کی…!! انہوں نے ہی میرے ہاتھ میں قلم تھمایا اور وہی میری ہمت و حوصلہ بڑھاتے رہے۔
وطن سے دور اس ملک کے وہ باشندے جن سے میرا کوئی تعلق کوئی رشتہ اور کوئی ناطہ تھا ہی نہیں، اُنہوں نے آگے بڑھ کر میرا ساتھ دیا اور یہ بات ثابت کر دکھائی کہ صرف خونی، علاقائی یا قوم و ملک و مذہب یا رنگ و نسل کے رشتے ہی نہیں ہوتے۔ ان سے بھی بڑھ کر ایک رشتہ ہے… اور وہ ہے ” انسان دوستی کا رشتہ “۔ احساس کا رشتہ ہے۔ انسانی ہمدردی اور بے لوث محبت کا رشتہ ہے۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ میں شمونہ کی کہانی لکھنے لگی ہوں تو انہوں نے میری ایسی حوصلہ افزائی کی کہ میرا عزم اور ارادہ مضبوط تر ہوگیا اور پھر میرے اپنے ہم وطن دوست ساتھی، میرے شریک ِ کار جن کی دوستی اور محبت پر مجھے ہمیشہ فخر رہا ہے۔ جنہوں نے مجھے ہمیشہ محبت دی، عزت دی، بڑھاوا دِیا۔ میں اِن سب سے کسی طرح بھی بہتر اور اُن سب کے مقابلے میں کسی طور بھی بڑھ کر نہیں۔ لیکن اُن سب کی اپنی عظمت اور اعلیٰ ظرفی ہے کہ اُنہوں نے مجھے ہمیشہ خصوصی مقام دِیا۔ اس کتاب کی تکمیل میں ان سب کا کسی نہ کسی طرح ہاتھ کچھ حصہ ضرور شامل ہے۔ اور پھر میرے قابل احترام بھائی جان اور بھابھی جان۔ جو اس کتاب کی تکمیل کا سبب ثابت ہوئے۔
پچھلے سال جب میں پاکستان گئی تو میرا قیام حسبِ معمول میرے بھائی ہی کے گھر تھا۔ان دنوں میری کتاب آخری مراحل میں تھی ۔ اس سلسلے میں بھائی جان اور بھابھی جان نے میری حوصلہ افزائی اور رہنمائی کی۔ میں سمجھتی ہوں کہ اگران دونوں کا ساتھ اور مدد شامل نہ ہوتی تو میں اس کتاب کو نا مکمل ہی واپس لے آتی ۔اور پھر میرے وہ مخلص دوست اور خیرخواہ جو ڈنمارک سے مجھے پاکستان فون کرتے رہے اور کتاب کی اشاعت کے سلسلے میں مجھے اپنے بہترین مشوروں سے نوازتے رہے۔ اور پھرکراچی میں خواتین ڈائجسٹ کی مدیرہٴ خصوصی، بہن امت الصبور کو میں کیسے فراموش کر سکتی ہوں جنہوں نے میرے مسودے کو پڑھا اور میری صحیح راہنمائی کی۔
میں آپ سب دوستوں، ساتھیوں اور خیرخواہوں کی تہہ دل سے شکر گزار ہوں اگر آپ سب کا ساتھ نہ ہوتا تو شاید یہ داستان ادھوری رہ جاتی…! اس کہانی کی آخری نوک پلک بنانے و سنوارنے اور حمتی شکل دینے میں ایسی شخصیات بھی سامنے آئیں کہ جن کا عزم و حوصلہ، انتھک محنت و جدوجہد اور بے غرض جذبہ دیکھ کر مجھے بے اختیار کہنا پڑاکہ ، ” ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں“۔
اور پھر میں اُن ہستیوں کو آخر کیسے فراموش کر سکتی ہوں، جن کی اَن مِٹ محبتوں، بے لوث قربانیوں اور نوازشوں تلے میرا رُواں رُواں دَبا ہوا ہے ۔ میں اپنے جنت مکانی ابا جی اور اماں جی کی بھی زیر احسان ہوں کہ جہاں انہوں نے میری شخصیت اور کردار کی تکمیل میں کوئی کسر نہ چھوڑی وہاں انہوں نے مجھے علم دوست بھی بنایا۔ یہ انہی کی دین ہے کہ جس نے میرے ہاتھ میں قلم تھمایا ۔ اُن کے حضور میرے شانے جھکے ہوئے اور میرا سَر خم ہے ۔
جن احباب و کرم فرماوٴں کی کاوشیں اس کتاب کی تیاری میں معاون و مدد گار ثابت ہوئیں ،میں نے کہیں بھی اُن میں سے کسی کا نام نہیں لیا ۔ لیکن مجھے یقین اور بھروسہ ہے کہ آپ سب جان جائیں گے کہ اگر میں نے کسی کا نام نہیں لکھا تو میرا اشارہ کن کی طرف ہے…! ایک کہاوت ہے کہ ”سبھی جانتے ہیں کہ میرا دوست کون ہے اور دشمن کون“
الحمد للّہ… زندگی میں قدم قدم پر مجھے دوست ہی ملے ہیں…!
دشمن تو بس صرف ایک ہی کافی ہوتا ہے…!!
طاہرہ شمیم حسین
کوپن ہیگن
ڈنمارک

Chapters / Baab of Jahannum Kay Us Paar