Koh Qaaf Ki Wadion Main By Zabeeh Ullah Balaggan

Read Book Koh Qaaf Ki Wadion Main By Zabeeh Ullah Balaggan in Urdu. This is Travel Book, and available to read online for free. Download in PDF or read online in multiple episodes. Also Read dozens of other online by famous writers.

کوہ قاف کی وادیوں میں - ذبیح اللہ بلگن

ابن بطوطہ اور ابن انشاء کی راہ پر
مجھے نہیں معلوم میرے دل میں بین الاقوامی سیاحت کا ذوق کب اور کیسے پیدا ہوا تاہم اس ذوق رہ نوردی میں اگر ابن بطوطہ اور ابن انشاء کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ دیانتدارانہ صحافت کی خلاف ورزی تصور ہوگا۔زمانہ طلب علمی میں مجھے ابن انشاء کے سفر نامے ”چلتے ہو تو چین کو چلو“ اور”آوارہ گرد کی ڈائری “پڑھنے کاموقع میسر آیا۔اسی طرح ابن بطوطہ کا سفری یاد داشت نامہ ”عجائب الاسفارنی غرائب الدیار“پڑھنے کااتفاق ہوا ۔غالباََ یہی وہ وقت تھا جب میرے دل میں نئی نئی دنیائیں دیکھنے کی خواہش نے جنم لیا۔بین الاقوامی سفر کرنے کیلئے جو لوازمات درکار ہوتے ہیں ان میں سیاح کی پختہ عمر، جس ملک کا سفر کیا جا رہا ہواس ملک کے متعلق ٹھوس معلومات اور زاد راہ کا ہونا ناگزیرہے ۔ ابن بطوطہ کے سفری اخراجات نجانے کون اٹھاتا تھا اس بابت مجھے زیادہ معلوم نہیں ۔تاہم ابو عبد اللہ محمد ابن بطوطہ کی ذات کا یہ پہلو انتہائی متاثر کن ہے کہ وہ 1304ء میں مراکش کے شہر طنجہ میں پیدا ہوئے اور انہوں نے 28سال کی مدت میں افریقہ،روس،ترکی،جزائر شرق الہند،چین،عرب،ایران،شام،فلسطین،افغانستان اور ہندوستان کی سیر کرتے ہوئے75ہزار میل کا سفر طے کیا۔ ابن بطوطہ نے اپنی زندگی کا پہلا سفر تقریبا بائیس سال کی عمر میں روضہ رسول ﷺاور خانہ کعبہ کی زیارت کی غرض سے کیا تھا ۔اسی سیاحتی ریاضت کا نتیجہ تھا کہ محمد تغلق نے ابن بطوطہ کی ہندوستان آمد پر بڑی آو بھگت کی اور قاضی کے عہدے پر سرفراز کیا ۔اور پھر یہیں سے ایک سفارتی مشن پر چین روانہ کیا ۔
جہاں تک ابن انشاء کا معاملہ ہے ابن انشاء نے اپنے سفر ناموں کو ظرافت کے پیرائے میں تحریر کر کے ادبی ذوق کے حاملین پر احسان کیا ہے ۔مجھے اس حقیقت کا متعدد بار سامنا کرنا پڑا ہے کہ محض معلومات پر مشتمل سفر نامہ قارئین کی طبع پر بوجھ گزرتا ہے ۔ ابن انشاء کا اصلی نام شیر محمد خان تھا ۔وہ جالندھر کے ایک نواحی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ابن انشاء کو یونیسکو کے مشیر کی حیثیت سے متعدد یورپی و ایشیائی ممالک کا دورہ کرنے کا موقع ملا۔ جن کا احوال اپنے سفر ناموں چلتے ہو چین چلو ، آوارہ گرد کی ڈائری ، دنیا گول ہے ، اور ابن بطوطہ کے تعاقب میں اپنے مخصوص طنزیہ و فکاہیہ انداز میں تحریر کیا۔
مذکورہ دونوں قلمکاروں کی تحریروں کے مطالعہ سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ابن بطوطہ اور ابن انشاء کا زکر کرنے کا مقصد ہر گز یہ نہیں ہے کہ مجھے عصر حاضر کا ابن بطوطہ یا ابن انشاء تسلیم کر لیاجائے ۔محض یہ کہنا مقصود ہے کہ ہر نارمل انسان کسی نہ کسی سے متاثر ضرور ہوتا ہے اور میں مذکورہ دونوں حضرات کی تحریروں سے بے حد متاثر ہوں ۔اسی طرح میں جناب عطاء الحق قاسمی سے کی تحریروں کا بھی مداح ہوں ۔بلکہ عطاء الحق قاسمی صاحب نے تومجھے ایک مرتبہ مشورہ دیا تھا کہ میں سنجیدہ تحریروں کی بجائے مزاح لکھا کروں ۔خدا جانے میں ان کے مشورے کو عملی جامع کیوں نہیں پہنا سکا ۔قارئین کی معلومات کیلئے عرض کرتا ہوں کہ سیاحت کیلئے بیرون ملک جانا میری بچپن کی شدید ترین خواہش تھی ۔کم عمری میں میں سوچا کرتا تھا کہ دوسرے ممالک میں بھی اسی طرح کی گھاس،درخت اور پرندے ہوتے ہیں؟۔ان ممالک میں کس طرح کے جانور ہوتے ہیں ،وہاں کی کھیتی باڑی کا نظام کیسا ہے،وہاں کے باسیوں کا مزاج کیسا ہے ،کیا وہاں کے افراد بھی ہماری ہی طرح سوچتے ہیں؟۔بہر حال میں اللہ رب العزت کا کروڑوں مرتبہ شکر ادا کرتاہوں کہ اس نے مجھے اپنی تخلیق کی ہوئی بیشتر دنیا دیکھنے کا موقع فراہم کیا ۔میرا یہ ذوق جنوں اگرچہ تھما نہیں تاہم اب ایک ہی ملک میں بار بار جانے سے میں اکتا جا تا ہوں ۔جیسا کہ مجھے کاروباری سلسلے میں ملائشیاء اور چین بار بار جانا پڑتا ہے ۔ہاں جب مجھے معلوم پڑتا ہے کہ میں کسی ایسے ملک میں جا رہا ہوں جہاں اس سے قبل نہیں جا سکا تو پھر مجھے بہت خوشگوار احساس ہوتا ہے ۔
درجنوں ممالک کی سیر کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ موجودہ دور میں کوئی بھی ملک مختلف نہیں ہے ۔تمام دنیا کی جدید ٹیکنالوجی تقریباََ ایک جیسی ہے ۔ہاں اگر کچھ مختلف فیہ ہے تو وہاں کا سیاسی،معاشی اور سماجی نظا م اور خالق کائنات کی تخلیق ۔مثال کے طور پر شمالی ایشیاء کے ممالک میں مجھے دیکھنے کا موقع ملا کہ ان ممالک میں موجود جزیرے بہت خوبصورت ہیں ۔بلکہ ان جزائر کی کوئی نظیر ہی نہیں ہے ۔سربز و شاداب یہ جزیرے جنت کے ہونے کا احساس دلاتے ہیں ۔جہاں تک ان ممالک کی تعمیر و ترقی کا معاملہ ہے وہ تقریباََ تمام ممالک میں یکساں دکھائی دیتی ہے ۔ سچ کہا گیا ہے کہ انٹر نیٹ اور موبائل فون نے تمام دنیا کو گلوبل ویلج بنا دیا ہے ۔یقین جانئے اب تو افریقی ریاستیں بھی جدید تعمیرات کا عملی مظہر ہیں ۔
کتاب مذکورہ میں آپ میرے ازبکستان کے سفر کا احوال مطالعہ فرمائیں گے۔ دراصل نومبر 2011ء میں جب میں چین کے شہر تایان میں ایک ہوٹل میں بیٹھا ٹیلی ویژن پراز بکستان کے حوالے سے معلوماتی فلم دیکھ رہا تھا تبھی میں نے مصمم ارادہ کر لیا تھا کہ پاکستان واپس جا کر ازبکستان کا سفر ضرور کروں گا ۔دراصل ازبکستان ان علاقوں پر مشتمل ریاست ہے جسے ماضی قریب اور بعید کے مورخین نے کوہ قاف کے نام سے لکھا اور پکارا ہے۔ پاکستان، ہندوستان اور ایران میں کوہ قاف کے متعلق جنوں اور پریوں کے بے شمار قصے مشہور ہیں جو نہ صرف عوام میں سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے ہیں بلکہ بچوں کی کہانیوں میں باقاعدہ لکھے جاتے ہیں ۔جب ہم کوہ قاف کی جغرافیائی حدود کے تعین کی تلاش میں جاتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ کوہ قاف بحیرہ اسود اور بحیرہ قزوین کے درمیان خطہ قفقاز کا ایک پہاڑی سلسلہ ہے جو ایشیا اور یورپ کو جدا کرتا ہے۔اس پٹی کے گردو نواح کی ریاستوں کو ”کوہ قاف“کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے ۔
وہ تو بھلا ہو ملک جہانگیر حسین بارا اور ندیم بشیر میر کا جو آسانی سے میری ”باتوں“میں آگئے اور میرے ساتھ ازبکستان چلنے کیلئے آمادہ ہوگئے ۔ازبکستان میں ہم دوستوں کو تین بڑے شہروں کی سیاحت کا موقع ملا ان شہروں میں بخارا ،تاشقند اور سمر قند شامل ہیں ۔میں نے مقدور بھر کوشش کی ہے کہ کتاب مذکورہ میں ان تمام شہروں کا مکمل احوال بیان کر دیا جائے ۔اس میں کیاتردد ہے کہ ازبکستان کے شہر تاشقند ،بخارا اور سمر قند عظیم اور لازوال ماضی کے حامل ہیں۔ امیر تیمور جنہیں تیمور لنگ کے نام سے جانا جاتا ہے ان کی فتوحات کے سلسلے کا آغاز سمر قند سے ہی ہوا تھا ۔اسی طرح قرآن حکیم کے بعد سب سے معتبر حدیث کی کتاب صحیح بخاری کے مصنف امام بخاری بخارا میں پیدا ہو کر سمرقند میں مدفون ہوئے۔جلال الدین رومی جیسے اساتذہ سمرقند کے مدارس میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں ۔
کتاب کی تیاری کے سلسلے میں معاونت اور ماحول فراہم کرنے پر میں عثمان محبوب،محمد مسعود لالی ،ڈاکٹر منیر حسین،خلیل احمد آسی،مہتاب میر،شہزاد پرویز،مبشر سمیع بلگن ،مطیع اللہ بلگن،اعجاز احمد اعجاز،محمد اصغر چوہدری اورعطا اللہ ملہی کا شکر گزار ہوں کہ ان دوستوں کی محبت اور رہنمائی کتاب کی اشاعت مکمل ہونے تک میسر رہی اس کے علاوہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کتاب تکمیل کے مراحل تک رسائی حاصل کر ہی نہیں سکتی تھی اگر اس میں جناب معظم فخر اور ملیحہ انوار ہاشمی کی معاونت شامل نہ ہوتی۔

ذبیح اللہ بلگن
بدھ 27رمضان المبارک1433ھ15 اگست2012ء
المکہ المکرمہ،سعودی عرب

Chapters / Baab of Koh Qaaf Ki Wadion Main