Sheheed Ghaza Bhi Shifa Bhi - Article No. 685

Sheheed Ghaza Bhi Shifa Bhi

شہد غذا بھی شفا بھی - تحریر نمبر 685

قرآن و حدیث اور دیگر الہامی کتب نے شہد کا استعمال مستند قرار دیا ہے اور اسے تمام امراض کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ جدید طب میں بھی شہد کو تمام امراض کیلئے اکسیر اور معجزاتی دوا کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے

ہفتہ 15 نومبر 2014

حکیم محمد عثمان:
شہد عطیہ خداوندی ہے‘ اللہ پاک نے اس میں اپنی حکمت پوشیدہ کی ہوئی ہے اور یہ ہمہ جہت دوائی کا درجہ رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شہد کے مفید اثرات اور اس کی اہمیت قرآن پاک میں بڑے واضح انداز میں اجاگر کی ہے اور اس مقصد کیلئے ایک مکمل سورہ نازل فرمائی ہے۔ اللہ تعالٰ نے سورہ نحل میں شہد کی مکھی کے بارے میں فرمایا ہے۔

”تمہارے رب نے شہد کی مکھی پر وحی بھیجی کہ وہ پہاڑوں‘ درختوں کی بلندیوں پر اپنا گھر بنائے‘ پھر وہ ہر قسم کے پھلوں سے رزق حاصل کرے اور اپنے رب کے متعین کردہ راستوں پر چلے۔ ان کے پیٹوں سے مختلف رنگ کی رطوبتیں نکلتی ہیں جن میں لوگوں کے لئے شفا رکھی گئی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نشانیاں ہیں تاکہ لوگ ان پر غور و فکر کر کے فائدہ اٹھائیں“ (ترجمہ۔

(جاری ہے)

النحل 68-69)
اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں تین اہم نکات بیان کئے ہیں کہ شہد کی مکھی کے ٹھکانے بلندیوں پر ہوں گے‘ وہ پھلوں سے اپنا رزق حاصل کرے گی اور اس کے منہ اور پیٹ سے متعدد رطوبتیں خارج ہوں گی جو لوگوں کیلئے شفا بن جائیں گی۔
اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ہر چیز حکمت اور ایک مقصد کے تحت پیدا کی ہے اور ہر چیز اپنے مدار میں گھوم کر اپنا مقصد پورا کررہی ہے۔
شہد اللہ تعالیٰ کے ان عظیم مقاصد کی ایک ایسی مثال ہے کہ جس کے معجزاتی اثرات ہر کوئی تسلیم کرتا ہے۔ شہد کی مقبولیت‘ اہمیت اور اثرات کا نتیجہ ہے کہ یہ صدیوں سے متواتر استعمال کیا جارہا ہے اور ترقی یافتہ ممالک میں اسے بطور غذاکا درجہ حاصل ہے۔ آج کینیڈا‘ امریکا‘ آسٹریلیا‘ برطانیہ‘ جرمنی‘ جاپان اور چین میں شہد کی مدد سے جراثیم کش اور اعصابی دباؤ دور کرنے والی ادویات بنائی جارہی ہیں۔
جبکہ شہد کے جوہر کا متنوع استعمال عام ہورہا ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان اپنا شہد ان ممالک میں تو بھیج رہا ہے لیکن مقامی طور پر اس کے استعمال کا رجحان کم ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں خالص شہد کے بارے میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔اسی وجہ سے لوگ شہد خریدنے سے کتراتے ہیں۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ خالص شہد اپنی پہچان خود کرواتا ہے۔
اس کیلئے ضروری ہے کہ ہر کوئی شید کے بارے میں اپنی معلومات میں اضافہ کرے اور مستند اداروں کے شہد خریدے۔ یہ ادارے صحت کے حفاظتی اصولوں کو مد نظر رکھ کر ہد مارکیٹ میں لاتے ہیں‘ جبکہ بازاروں میں کھلے عام کنستروں اور بوتلوں میں بکنے والا شہد عام طور پرناخالص ہی ثابت ہوتا ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمار ایمان ہے کہ قرآن پاک اور نبی کریمﷺ نے جو فرمادیا وہ ہی ہمارے لئے بہتر ہے۔
شہد کے بارے میں قرآن پاک اور احادیث میں جو کچھ بھی بیان گیا گیا ہے اگر ان کو ملاحظہ کریں تو شہد کے معجزاتی اثرات آپ کی طبیعت پر خوشگوار اثر ڈالیں گے۔
سورہ التحریم کی آیت نمبر 1 کا ترجمہ ملاحظہ کیجئے۔
”اے نبیﷺ! تم ایسی چیز کو کیوں حرام کررہے ہو جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے حلال کردیا ہے کیا ایسا کر کے تم اپنی بیویوں کی مرضی پوری کررہے ہو۔
تمہارا رب بخش دینے ولا اور رحم کرنے والا ہے۔“
یہ آیت مبارکہ ایک دلچسپ پس منظر بیان کرتی ہے کہ ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ نے امہات المومنین کی آپ سکی چپقلش کی وجہ سے شہد پینے سے انکار کردیا تھااسے اپنے اوپر حرام کرلیا جس پر اللہ تعالیٰ نے سورہ التحریم اتاری۔ یہ پس منظر اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شہد کو کتنی اہمیت عطا فرمائی ہے کیونکہ اگر اس امر کی تصحیح نہ کی جاتی اور نبی کریم ﷺ آئندہ زندگی شہد سے کنارہ کش رہتے تو نبی کریم ﷺ کی امت کا کوئی شخص شہد پر متوجہ نہ ہوتا اور اس طرح امت مسلمہ ایک مفید خوراک اور لاجواب دوا سے محروم ہوجاتی۔

قرآن پاک کے چند حوالوں کے بعد ارشادات نبوی ﷺ سے شہد کی اہمیت کا اندازہ کیجئے۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چار حشرات کو مارنے سے منع فرمایا۔ چیونٹی‘ شہد کی مکھی‘ ہدہد اور چڑی ممولا (ابوداؤد)
حضرت ابو ہریرہ رضی افرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص مہینہ میں کم از کم تین دن صبح صبح شہد چاٹ لے‘ اس کو اس مہینہ میں کوئی بڑی بیماری نہ ہوگی۔
(ابن ماجہ)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا کہ ”تمہاے لئے شفا کے دو مظہر ہیں‘ شہد اور قرآن“۔ (ابن ماجہ)
حضرت عاشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول پاکﷺ نے فرمایا کہ ”خاصرہ گردے کا اہم حصہ ہے جب اس میں سوزش ہوجائے تو گردے میں بڑی تکلیف ہوتی ہے‘ اس کا علاج جلے ہوئے پانی اور شہد سے کیا جائے۔
“ (ابوداؤد)
خاصرہ سے مراد گردے کا بطن ہے جسے طب میں PELVISکہتے ہیں‘ محدثین نے جلے ہوئے پانی سے مراد بلا ہوا پانی لیا ہے مگر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنت کی پیروی میں ”ماء الحراق“ کی جگہ ہمیشہ بارش کا پانی استعمال کیا ہے۔
مسند احمد بن حنبل میں متعدد روایات اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ جسمانی کمزوری‘ تھکن اور مختلف امراض کیلئے نبی پاک ﷺ نے کبھی شہد کا شربت اور کبھی دودھ میں شہد ملا کر پیا اور لوگوں کو بھی ایسے ہی تلقین فرمائی۔

اللہ تعالیٰ نے شہد کی اہمیت قرآن پاک اور احادیث کے علاوہ دیگر الہامی کتب میں واضح کی ہے کہ شہد پر شبہ کرنا ایمان کی کمزوری کی علامت ہوگی۔ الہامی کتب کے چند اقتباسات ملاحظہ کیجئے۔
”وہ ایک ایسا ملک ہے جہاں روغن دار زیتون اور شہد بھی ہے۔“ (استثناء)
”دیکھو میری آنکھوں میں شہد چکھنے کے سبب کیسی روشنی آئی۔“ (سمویل)
اسی باب میں مذکور ہوا۔

”اور شہد اور مکھن اور بھیڑ اور بکریاں اور گائے کے دودھ کا پنیر لوگوں کے کھانے کے واسطے لائے۔“ (سمویل)
”اے میرے بیٹے تو شہد کھا کیونکہ وہ اچھا ہے اور شہد کا چھتا بھی۔ کیونکہ مجھے وہ میٹھا لگتا ہے۔“ (امثال)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی بشارت اور ان کی خوراک کے بارے میں ارشاد ہوا ․․․․ ”وہ اس کا نام عمانویل رکھے گی وہ دہی اور شہد کھائے گا‘ جب تک کہ وہ نیکی اور بدی کے رد و قبول کے قابل نہ ہو۔
“ (بعیاہ)
قرآن و حدیث اور دیگر الہامی کتب نے شہد کا استعمال مستند قارار دیا ہے اور اسے تمام امراض کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ جدید طب میں بھی شہد کو تمام امراض کیلئے اکسیر اور معجزاتی دوا کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے جو اس امر کی دلیل ہے کہ شہد نہ صرف روحادنی امراض کیلئے مفید ہے بلکہ جسمانی امراض کیلئے بھی یکساں مفید اور صحت کا ضامن ہے۔
شہد کو اگر غذا کہیں تو یہ مکمل غذا ہے۔ اگر اسے مشروب قرار دیں تو مقوی مشروب ہے‘ محدثین نے سرکہ کو شہد کا مصلح قرار دیا ہے۔ اسے صبح نہار منہ کھانا یا پینا معدہ کو ہر قسم کی غلاظت سے پاک کردیتا ہے۔ جگر‘ گردوں اور مثانہ سے غیر مطلوبہ عناصر کو خارج کردیتا ہے لیکن یہ سب کمالات اور اثرات خالص اور قدرتی شہد ہی دکھا سکتا ہے۔ نقلی شہد شفا دینے کے بجائے بیماریاں پیدا کرسکتا ہے اس لئے استعمال سے پہلے شہد کے اصل ہونے کی تسلی کرنا بہت ضروری امر ہے۔
شہد بلا شبہ ایک جامعہ اور مکمل غذا ہے۔ شہد کو بطور دوا پانی اور دوددھ میں حسب ضرورت استعمال کیا جاسکتاہے۔ شہد ہر بیماری کیلئے شفا کامل ہے۔ یہ ہر مرض میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مگر چند ایک بیماریاں ایسی ہیں جو ہمارے ہاں بہت عام ہیں۔ شہد بلڈ پریشن دور کرتا ہے‘ گاڑھے خون کو پتلا کرتاہے‘ حلق کی خشونت مٹادیتا ہے‘ پیاس بجھا دیتا ہے‘ بواسیر میں اکسیر ہے‘ بلغم خارج کرتا ہے‘ پرانے بخار کو رفع کرتا ہے‘ دمہ اور کھانسی میں مفید اور زود اثر ہے‘ پیشاب آور ہے اور بادی دور کرتا ہے‘ اعصابی تناؤ دور کرتا ہے‘ دماغ کو جلا بخشتا ہے اور حافظہ بڑھاتا ہے‘ مردانہ قوت بڑھاتا ہے اور عورتوں کے حیض میں باقاعدگی پیدا کرتا ہے’ قبض کشا اور پیچش دور کرتا ہے۔
بصارت کو تقویت دیتا ہے اور آنکھوں کے بعض امراض میں معجزاتی دوا کی تاثیر دکھاتا ہے۔ چہرے کی کوبصورتی کیلئے مرکبات کے ساتھ استعمال کیا جائے تو جھریاں ‘ چھائیاں اور کیل مہا سے دور کرتا ہے۔ عورتوں کو دودھ نہ آئے تو دودھ میں ملا کر پینے سے دودھ بھر کر آتا ہے۔ کولیسٹرول اور چربی کم کرتا ہے اور وزن میں اعتدال لاتا ہے۔ السر کی تکلیف میں اسپغول کے ساتھ کھانے سے اس کی تکلیف دور کردیتا ہے‘ کیلشیم کی تعداد بڑھاتا ہے‘ صبح کے وقت جسم میں تھکاوٹ کا احساس پیدا ہونے لگے تو دودھ میں شہد ملا کر پینے سے چستی آجاتی ہے‘ جسم کے جوڑوں کیلئے اسپغول اور شہد کا اکٹھا استعمال کیا جائے تو نہایت مفید دوا بن جاتی ہے۔
جنہیں جنوں کا مرض لاحق ہو وہ شہد ٹھنڈے پانی میں ملا کر پئیں تو ان کی جنونیت میں کمی واقع ہوگی۔ نوزائیدہ اور ہر عمر کے بچے کی افزائش کیلئے شہد قدرتی توانائی کا اور صحت اک ضامن ثابت ہوتا ہے گیس کے دیرینہ مرض کو دور کرنے کیلئے شہد کو بطور خوراک استعمال کرنا چاہئے۔ اگر کوشت کو تین ماہ تک شہد میں رکھ دیا جائے تو اسے گلنے نہیں دیتا۔ اسی لئے علماء اور حکماء نے اسے ”الحافظ الامین“ کا لقب دیاہے۔
شہد کو پانی میں ملا کر بدن پر مالش کی جائے تو بدن میں چمک پیدا کرتا ہے۔ جوؤں کو مارتا’ بال ملائم اور لمبے کرتا ہے جبکہ سکری سے نجات دلاتا ہے۔ اس کا سرمہ آنکھوں کو روشن کرتا ہے اور اس کا منجن دانتوں کو چمکاتا اور مسوڑھوں کی حفاظت کرتا ہے۔ نشہ اتارتا ہے‘ گردہ اور مثانہ کی پتھری توڑ نکالتا ہے۔
شہد پانی اور دودھ کے علاوہ جواہرات اور دیگر ادویات کے ساتھ بھی استعمال کرایا جاتاہے البتہ اس کی خاصیت کے بارے میں یہ بات طے ہے کہ شہد دنیا کی وہ واحد منفرد دوائی ہے جو وائرس کو بھی بلاک کرسکتی ہے۔
آسمانی کتابوں اور تجربات سے لوگوں کو شہد کی اہمیت سے روز بروز زیادہ واقفیت ہورہی ہے جس کی وجہ سے اس کو تجارتی پیمانے پر تیار کرنے کی ضرورت پیدا ہوگئی ہے۔ آج پاکستان میں صرف چند ایک ایسے ادارے ہیں جو دیانتداری کے ساتھ اس عطیہ خداوندی کو محفوظ کر کے اسے شفا کا حاصل تسلیم کرارہے ہیں۔
شہد کیا ہے؟
پاک جرمن ترویج نحل پروری پراجیکٹ اور قومی زرعی تحقیقاتی مرکز اسلام آباد کے شہد کے بارے میں نئے انکشافات۔

شہد کی مکھی سے حاصل ہونے والی شیریں خوراک قدیم زمانے سے ہی مکھیوں کی بنائی ہوئی شیریں خوراک شہد بہت لذیذ اور گراں قدر تصور کی جاتی تھی۔ لوگ اس کی اہمیت کے پیش نظر اس کو دیوتاؤں کی نظر کیا کرتے تھے۔ علاو ازیں وہ اسے خوراک‘ علاج اور زیبائش حسن کیلئے بھی استعمال کرتے تھے۔ مصر میں شہد بچھو کے ڈنگ اور دیگر زہروں کے اثر کو زائل کرنے کیلئے بھی استعمال ہوتا تھا۔
جبکہ قدیم یونانیوں کیلئے شہد ہر بیماری کا علاج تھا۔ قرآن حکیم میں ہدایت ہے کہ ”شہد کھاؤ یہ مفید ہے اور اس میں بہت سی بیماریوں کیلئے شفا ہے۔“
شہر کی تیاری میں مکھی کی سرگرمیاں
شہد ہمیں مکھیوں کی انتھک محنت سے حاصل ہوتا ہے‘ صرف ایک کلو گرام شہد بیار کرنے کیلئے مکھیوں کو 30سے 50لاکھ شگوفوں کا رس چوسنا پڑتا ہے اور اس کیلئے انہیں چھتے سے شگوفوں تک تقریباََ 60ہزار مرتبہ آنا جاتا ہوتا ہے۔
شہد کی مکھیاں جنگلی پھولوں‘ باڑوں‘ جھاڑیوں‘ پھلوں کے درختوں‘ سرسوں کے پھولوں سے رس چوستی ہیں‘ مکھیاں کچھ پودوں سے بھی رس حاصل کرتی ہیں‘ جیسے پائن‘ چیڑکے پتوں‘ تنے‘ کونپلوں اور دیگر جھاڑیوں وغیرہ پر موجود HONEYDEW سے اس کی مٹھاس مکھیوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ مکھی کے جسم میں شہد ذخیرہ کرنے کیلئے عام سوئی کے برابر ننھی سی ایک نالی ہوتی ہے جس میں وہ اعشاریہ 7 گرام رس یا نیکٹر رکھ سکتی ہے۔
چھتے تک پہنچنے کے دوران ہی مکھی کے جسم سے کچھ رطوبتیں اس میں شامل ہوجاتی ہیں اور یہیں سے شہد کی تیاری کا آغاز ہوجاتا ہے۔
چھتے میں (HIVEBEE) مہیا کردہ رس کو انتہائی احتیاط کے ساتھ شہد میں تبدیل کرنا شرع کردیتی ہے۔ اس عمل میں وہ رس کو ایک خانے سے دوسرے خانے میں منتقل کرتی جاتی ہے تاکہ پانی کی مقدار کم ہوتی جائے۔ اس طرح رس بتدریج شہد کی خصوصیات حاصل کرتا جاتا ہے۔
چھتے کی مکھی شہد میں کچھ ایسے انزائمز شامل کرتی ہے جس سے شہد میں بیکٹریرا اور جراثیموں کے خلاف مدافعتی اجذاء پیدا ہوجاتے ہیں۔ آخر میں مکھی چھتے کے خانے کو موم کی باریک تہہ میں بند کردیتی ہے تاکہ شہد محفوظ رہ سکے۔
شہد کا حصول اور مکھیاں پالنے کی ذمہ اری
ایک خالص قدرتی شے ہے‘ مکھیاں اسے بہت محنت سے بناتی ہیں جبکہ مکھیاں رکھنے والے اسے انتہائی احتیاط سے حاصل کرتے ہیں۔
شہد کیلئے ضروری ہے کہ اسے حرارت‘ روشنی اور نمی سے بچایا جائے اورتاریک‘ ٹھنڈی‘ خشک اور حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق صاف ستھری جگہ پر رکھا جائے۔ تیاری کے بعد خالص شہد تین حالتوں میں حاصل ہوسکتا ہے۔
براہ راست چھتے سے حاصل ہونے والا شہد
شہد کی مکھیاں اپنے چھتے میں موم سے چھوٹے چھوٹے خانے بناتی ہیں۔ ان خانوں میں شہد بھر کر انہیں موم کی باریک تہ میں بند کردیتی ہیں۔
ان چھتوں کو اسی حالت میں فروخت کردیا جاتا ہے۔
صاف کیا ہوا شہد
اس کیلئے چھتے سے شہد نکال لیا جاتا ہے اور نکالنے سے قبل اس بات کا اطمینان کرلیا جاتا ہے کہ شہد پوری طرح تیار ہے‘ یعنی اس میں پانی کی مقدار 30فیصد یا اس سے بھی کم ہے۔ اس بات کا اندازہ چھتے کے سوراخوں پر لگی ہوئی موم سے ہوتا ہے جو مکھیاں مکمل تیاری کے بعد لگاتی ہیں۔
صرف مکمل طور پر تیار شہد ہی محفوظ کیا جاسکتا ہے وگرنہ دوسری صورت میں شہد خراب ہوجاتاہے۔ مکمل طور پر تیار اور صاف شہد ٹھوس اور مائع دونوں حالتوں میں محفوظ کیا جاسکتا ہے۔
شہد کی مختلف اقسام
شہد کی اقسام کا انحصار متعلقہ پودے اور علاقے پر ہے جہاں وہ موجود ہے‘ ہر قسم کے شہد کا ذائقہ‘ خوشبو اور رنگ مختلف ہوتا ہے۔
آپ کئی اقسام کا شہد لے سکتے ہیں۔ مثلاََ پھولوں کے شگوفوں سے حاصل کیا ہوا یا جنگلی پھولوں‘ سرسوں‘ لوشن‘ برسیم‘ لیموں‘ مالتا‘پھلائی‘ چیڑ وغیرہ کا۔
تاہم بعض علاوقں میں مخصوص پودے کثیر تعداد میں لگا کر ایک مخصوص قسم کا شہد بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔
مائع اور ٹھوس شہد
پراسیسنگ کے بعد شہد ایک مشین EXTRACTOR سے مائع حالت میں باہر نکلتا ہے جسے بوتلوں میں بھر دیا جاتا ہے۔
اس دوران شہد شفاف ہوتا ہے تاہم یہ حالت زیادہ دیر قائم نہیں رہتی۔ جلد یا بدیر گدلا ہوجاتا ہے اور نرم گاڑھی پیسٹ کی طرح لگتا ہے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ شہد میں گلوکوز وافر مقدار میں پایا جاتاہے۔ اور جب یہ قلمی حالت اختیار کرلیتا ہے تو ٹھوس محسوس ہونے لگتا ہے۔ تاہم یہ شہد کی قسم پرمنحصر ہے کہ وہ جلد جمتا ہے یا دیر سے۔ سرسوں اور جنگلی پھولوں DANDELION سے بنا ہوا شہد جلد قلمی حالت اختیار کرلیتا ہے جبکہ پھلائی اور HONEYDEWسے حاصل ہونے والا شہد دیر سے جمتا ہے۔
شہد میں گلوکوز کا قلمی حالت میں چلے جانا ایک قدرتی عمل ہے اور اس سے شہد کے خالص پن پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ایسی صورتحال میں عموماََ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس میں عام شکر مائل کردی گئی ہے۔ بہر حال یہ حقیقت سے بعید ہے۔ شہد کا جمنا ایک قدرتی عمل ہے اور اس سے شہد کے معیار پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اسی طرح ٹھوس شہد کی بالائی سطح اور بوتل کے اطراف میں ہلکے ذرات بھی بے اثر ہیں۔
یہ جمے ہوئے ذرات کے درمیان ہوا کے بلبلوں کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ شہد کو نرم اور مائع حالت میں لانے کے لئے اسے 40Cڈگری سینٹری گریڈ، تک گرم کیا جاسکتا ہے۔ اگر اسے کافی عرصہ کیلئے رکھ دیا جائے تو یہ دوبارہ جم جاتا ہے۔ بازار میں ملنے والا شہد ٹھوس اور مائع دونوں حالتوں میں ہوتا ہے۔ عام طور پر لوگ مائع حالت کو ترجیح دیتے ہیں تاہم ٹھوس قمی حالت میں پایا جانے والا شہد خالصتاََ قدرتی اور خالص شہد ہوتا ہے۔
اس قسم کے شہد میں قلمیں اتنی نرم ہوتی ہیں کہ زبان پر محسوس نہیں ہوتیں۔ اس معیارکا شہد ٹھوس ہوتے ہوئے قلمی شہد کو ملانے سے حاصل یا جاسکتا ہے لیکن اگر اسے نہ ہلایا جائے تو قلمیں بے ترتیب ہوجاتی ہیں جس سے شہد دیکھنے میں بھلا نہیں لگتا اور انتہا انگیز محسوس نہیں ہوتا۔ تاہم شہد کو گرم کرکے مائع حالت میں لانے کے اس مسئلے سے بآسانی نمٹا جاسکتا ہے۔

شہد کے مفید اجزاء
صل کیا ہوا شہد ان تمام اجزاء سے بھرپور ہوتا ہے جو انسانی جسم کیلئے ضروری ہوتے ہیں۔ شہد میں تیزاب‘ وٹامنز اور بیکٹیریا اجزاء پائے جاتے ہیں۔ کچھ نمکیات جیسے کیلشیم‘ سوڈیم‘ پوٹاشیم‘ میگنیشیم‘ فولاد‘ فاسفیٹ اور بہت سے اہم اجزاء اسے ایک متوازن خوراک بناتے ہیں۔
یاد رکھنے کی باتیں
جما ہوا شہد بآسانی مائع حالت میں لایا جاسکتا ہے اس کیلئے اس کی بوتل کو گرم پانی میں رکھ کر گرم کیا جاتا ہے۔
لیکن خیال رہے کہ درجہ حرارت کسی صورت میں 40ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ نہ ہو اور حرارت پہنچانے کا عمل بار بار نہ کیا جائے۔ کیونکہ اس سے شہد میں موجود قیمتی اجزاء کو نقصان پہنچتا ہے اور ایسی صورت میں اس کی افادیت متاثر ہوتی ہے۔

Browse More Ghiza Aur Sehat