Open Menu

Fatah Mecca - Article No. 963

Fatah Mecca

فتح مکہ - تحریر نمبر 963

مہینوں کی تپش و تابش، لَو اور لپٹ، تڑاقے اور جلاپے کے بعد جب برسات کی ہوائیں چلتی ہیں تو کالے کالے بادل امنڈ امنڈ کر آتے ہیں اور جل تھل بھر جاتے ہیں۔ سالہا سال کی سختیوں اور آزمائشوں امتحانات اور ابتلات کے بعد جب مشیتِ مطلقہ کو، اس مشیت کو جس کے اوپر کوئی مشیت نہیں

جمعرات 6 اگست 2015

مہینوں کی تپش و تابش، لَو اور لپٹ، تڑاقے اور جلاپے کے بعد جب برسات کی ہوائیں چلتی ہیں تو کالے کالے بادل امنڈ امنڈ کر آتے ہیں اور جل تھل بھر جاتے ہیں۔ سالہا سال کی سختیوں اور آزمائشوں امتحانات اور ابتلات کے بعد جب مشیتِ مطلقہ کو، اس مشیت کو جس کے اوپر کوئی مشیت نہیں منظور ہوا کہ مردہ میں جان پڑ جائے اور سوکھی ہوئی کھیتی لہلہانے لگے تو نیتوں کے رْخ پلٹ دیئے اور دلوں کی اقلیم میں انقلاب برپا کر دیا۔
جو گردنیں اکڑی ہوئی تھیں وہ جھکیں اور جو زبانیں انکار پر اڑی ہوئی تھیں وہ اقرار کا حکم پڑھنے لگیں۔ جو قلوب اپنی سختی و قساوت میں پتھر کو شرما رہے تھے وہ پانی ہو ہو گئے اور جو جہنم کے شعلوں کے لئے تیار ہو رہے تھے وہ جنت کے ٹکٹ کی خریداری کو لپک لپک کر بڑھے۔

(جاری ہے)

مکہ کی سرزمین جو توحید کی منادی کرنے والے پر تنگ ہو چکی تھی۔ اب اسی بے بس اور بس کس یتیم کے جاہ و جلال، فتح و ا قبال کے سامنے اپنی ساری وسعتوں اور پہنائیوں کے ساتھ پیش ہوئی اور خانہ کعبہ کا دروازہ اسی ہجرت کر جانے والے پردیسی کے ہاتھوں نہیں بلکہ اس کے خادموں اور خدمت گزاروں کے ہاتھوں کھل کھل کر رہا۔

جس اللہ کا نام زبان پر لانا منع تھا اب اسی کی بڑائی کی پکار عرب کے گوشہ گوشہ میں گونجی اور اس کے جس بندہ کو مکہ نے حقیر جانا اور طائف نے تمسخر کیا تھا اس کی سچائی اور عظمت کی شہادت دینے پر اب مکہ و طائف، نجد و حجاز، یمن و عمان، دشت و جبل کے پیر وجواں، زن و مرد، غول کے غول، خیل کے خیل، جھپٹ جھپٹ کر آگے بڑھنے لگے۔ جس مجبور و بے کس کو اپنا عزیز و محبوب وطن بہ الفاظ گبن راتوں رات صرف ایک رفیقِ طریق کی معیت میں چھوڑنا پڑا تھا۔
وہ اس شہر میں جس کے در و دیوار تک اس کی عداوت کا عہد کر چکے تھے اس کے آٹھویں ہی برس اس شان سے داخل ہوا کہ دس ہزار آہن پوش جاں باز اس کے جلو میں تھے اور کوکبہ نبوی کا منظر اس جاہ و جلال کا تھا کہ بڑے سے بڑے دشمنِ اسلام کی آنکھیں خیرہ ہو کر رہ گئیں۔ ایک موٴرخ ان الفاظ میں نقشہ کھینچتا ہے۔
لشکرِ اسلام جب مکہ کی طرف بڑھا تو آنحضرت ﷺ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا کہ ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو پہاڑ کی چوٹی پر لے جا کر کھڑا کر دو کہ افواجِ الٰہی کا جلال اپنی آنکھوں سے دیکھے۔
کچھ دیر کے بعد دریائے اسلام میں تلاطم شروع ہوا۔ قبائلِ عرب کی موجیں جوش مارتی ہوئی بڑھیں۔ سب سے پہلے غفار کا پرچم نظر آیا۔ پھر جہینیہ، پھر ہذیم، پھر سلیم۔ ہتھیاروں میں ڈوبے ہوئے، تکبیر کے نعرے لگاتے ہوئے نکل گئے۔ ابو سفیان ہر دفعہ مرعوب ہو ہو جاتا تھا۔ سب کے بعد انصار کا قبیلہ اس سرو سامان سے آیا کہ آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔ ابو سفیان نے متحیر ہو کر پوچھا یہ کون لشکر ہے؟ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے نام بتایا۔
دفعً سردارِ فوج سعد رضی اللہ عنہ بن عبادہ ہاتھ میں علم لیے ہوئے برابر سے گزر اور ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر پکار اْٹھے۔
الیوم یوم الملحمةالیوم تستحل الکعبة (ا?ج گھمسان کا دن ہے۔ ا?ج کعبہ حلال کر دیا جائے گا)
سب سے آخر کوکبہ نبوی نمایاں ہوا۔ جس کے پر توسے سطح خاک پرنور کا فرش بچھتا جاتا تھا۔ حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ علمبردار تھے۔
''
چند سال کے اندر دیکھتے دیکھتے دنیا کی کایا پلٹ چکی تھی۔ اب راج تھا تو مکہ کے اْس اْمّی کا۔ اور جیت تھی تو بنی ہاشم کے اس یتیم کی۔ ابو جہل کی فخاری، عتبہ کی سرداری، ابو لہب کی ریاست سب نسیاً منسیا ہو چکی تھی اور عاص بن وائل، امیہ بن خلف، ولید بن مغیرہ کے بھائی اور بھتیجے، پوتے اور پوتی اگر کہیں تھے تو اس آرزو اور تمنّا میں دوڑتے ہوئے کہ اللہ کے رسول ﷺکی رکابوں کوچو میں اور خاک پاکو آنکھوں سے لگائیں۔

یہ عجیب و غریب نظارہ، عالم رویا و منام میں نہیں۔ نگاہ کشفی اور عرفانی سے نہیں۔ اسی عالم حس و بیداری میں ان ہی مادی آنکھوں سے دکھایا گیا اور دکھانے کے ساتھ ہی جتا دیا گیا کہ یہ جو کچھ ہوا۔ محض نصرتِ الٰہی سے ہوا۔ نصرت کا وعدہ شروع ہی سے تھا۔ نصرت علم باری میں مقدر ہو چکی تھی۔ جب اس کی گھڑی آئی، نصرت اپنے عین وقت پر ظاہر ہو کر رہی۔

اذا جاء نصر اللّٰہ والفتح۔ ورنہ کوئی بڑے سے بڑے انسان بھی اپنے عزم و ہمت، اپنی سعی و زورِ بازو سے ممکن نہ تھا کہ اتنا زبردست اور عظیم الشان انقلاب پیدا کر سکتا اور فتح اسی نصرتِ الٰہی ہی کے نتیجہ کے طور پر ظاہر ہو کر رہی۔ نصرت کا رنگ تو لطیف و خفی ہوتا ہے۔ اس کا ادراک تو صرف صاحبِ بصیرت ہی کر سکتے ہیں۔ فتح کا ظہور ایسا مادی اور اس قدر نمایاں اور کھلا ہوا ہو کر رہا کہ عامی سے عامی نے بھی اسے دیکھا اور غبی سے غبی اس کو سمجھ کر رہا۔
پھر نری ''فتح'' تو دوسروں کے لئے بھی ممکن ہے۔ جسموں کے فاتح تو دنیا میں اور بھی ہوئے ہیں۔ یہ نبی کی فتح تھی۔ اللہ کے سب سے بڑے پرستار کی فتح تھی۔ سکندر اور چنگیز، نپولین اور ہنڈن برگ کی فتح نہ تھی۔ یاد یہ نہیں دلایا جاتا کہ ملک کا رقبہ اتنا وسیع ہوا۔ خراج کی رقم میں اتنے کا اضافہ ہوا۔ رعایا کی گنتی اتنی بڑھی بلکہ مخاطب کے خاص مذاق پیغمبری کی رعایت سے ارشاد یہ ہوتا ہے کہ اس فتح کے آثار میں تم نے سب سے بڑا اور نمایاں اثر یہ دیکھ لیا۔
کہ جس میں شامل ہوتے لوگ اکا دکّا بھی ڈرتے تھے اس میں اب فوج کی فوج، جوق در جوق، گھرانے کے گھرانے، محلہ کے محلہ، قبیلہ کے قبیلہ کھلے خزانے ہانکے پکارے بے دھڑک اور بلا جھجک شامل ہو رہے ہیں اور شامل کاہے کو ہو رہے ہیں کسی انسانی جتھے کی تقویت کے لئے نہیں۔ قبیلہ، قوم، ملک، رنگ، نسل، وطن کا جھنڈا بلند کرنے کے لئے نہیں۔ نیشنلزم کے نام پر جینے اور مرنے کے لئے نہیں بلکہ فی دین اللہ۔
محض اللہ کے نام کی پاکی اور بلندی کے لئے، توحید کی پرستاری کے لئے لوگ سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں ہتھیار نہیں رکھ رہے تھے۔ سیاسی محکومی کے اقرار نامے نہیں لکھ رہے تھے۔ مسلمان ہو رہے تھے۔ توحید کا کلمہ پڑھ رہے تھے۔جسموں اور زبانوں سے نہیں دل و جان سے اسلام کی حلقہ بگوشی میں آرہے تھے۔ نجات و غفران کے پروانے حاصل کر رہے تھے اور کل تک جس نورِ حق کے خون کے پیاسے تھے آج اسی شمع کے گرد پروانہ وار خود نثار ہو جانے کو آگے بڑھ رہے تھے۔
دنیا نے ''فتوحات'' بہت سی دیکھی ہیں ایسی حیرت انگیز ''فتح'' بھی چشمِ تاریخ نے نہیں دیکھی ہے؟ اس عجیب و غریب فتح کو بجز نصرتِ الٰہی کے اور کس شے پر محمول کرنا ممکن ہے؟
دنیا جب فتح مند ہوتی ہے تو عام طور پر کیا کرتی ہے؟ اچھلتی ہے، کْودتی ہے، ناچتی ہے، گاتی ہے، باجہ بجاتی ہے، جشن مناتی ہے، کھاتی ہے، کھلاتی ہے، پیتی ہے، پلاتی ہے، یہ ''فتح'' جس طرح اپنی ذات میں بے نظیر تھی اپنے ثمرات و عواقب کے لحاظ سے بھی بے نظیر رکھی گئی۔
حکم یہ نہیں ملتا کہ اس فتح کی خوشی میں شہر میں چراغاں کیا جائے، کوئی جلوس نکالا جائے۔ جلسے اور مظاہرے کر کر کے تجاویز پاس کی جائیں بلکہ ارشاد یہ ہوتا ہے کہ اے پیمبر اب دین کی تکمیل ہو چکی۔ فرائض نبوت تمام ہو چکے۔ پیام کی منادی تم کر چکے۔ حق کے لئے اور خالق کے حکم سے، خلق کی جانب اپنے دل پر جبر کے بہت رجوع رہ چکے۔ بس اب وقت ہے کہ اپنے اصلی ذوق کے مطابق صورً بھی تمام تر حق ہی کی طرف رْخ کر لو۔
خالق ہی کی جانب رجوع ہو جاو۔ اِسی کی حمد کی تسبیح میں لگ جاو۔ اسی سے استغفار شروع کر دو۔ اسی سے اپنی حفاظت کی دعائیں کرنے لگو۔ وہ تمہارا رب، جو تمہارا اور سب کا مربی حقیقی ہے، بڑ ا ہی توبہ قبول کرنے والا بڑا ہی رجوع بہ رحمت کرنے والا ہے۔
سبحان اللہ کیا شانِ بے نیازی ہے اور کس درجہ تکمیلِ عبدیت مقصود ہے۔ استغفار کا حکم اسے مل رہا ہے جو خود دوسروں کی مغفرت کرے گا اور توبہ قبول ہونے کی بشارت اسے دی جا رہی ہے جو معصوم ہی نہیں معصوموں کا سردار ہے لیکن صلِ علیٰ بندہ بھی کیسا تھا؟ اپنے مولا کا عاشقِ راد۔
حکم کی تعیل معناً تو جس طرح کی ہو گی۔ اس کا حال اہلِ معنی ہی جان سکتے ہیں۔ لفظاً اِسی طرح کی کہ اْٹھتے اور بیٹھتے، آتے اور جاتے کوئی وقت ایسا نہ تھا کہ زبان سبحان اللہ وبحمدہ کے ورد سے نا آشنا رہنے پائی ہو اور کلماتِ استغفار کی کثرت اس کے علاوہ۔ احکام میں مخاطب گو پیمبر ہوتے ہیں لیکن مراد امت ہوتی ہے۔ جب فتح و نصرت غلبہ و کامرانی کے موقع پر رسول تک کو حکم تسبیح و استغفار کا ہے تو غیر معصوم افرادِ امت کے لئے ان احکام کی تعمیل کتنے زائد درجوں میں ضروری ہو گی۔

Browse More Islamic Articles In Urdu