Open Menu

Shaoor Zaat Se Ubhroo - Article No. 894

Shaoor Zaat Se Ubhroo

شعور ذات سے ابھرو مقام ذات کو پاؤ - تحریر نمبر 894

انسان سی دوسری چیز خدا نے پیدا نہیں کی جو مضطرب ہو تو ایک کائنات ہلا کے رکھ دے اور سکون میں ہو تو سات سمندر ایک نگاہ سے ٹھہرالے۔ کبھی اتنا مضبوط کہ پہاڑوں کا سینہ چیر کر راستے بنا لے

ہفتہ 11 اکتوبر 2014

پروفیسر شازیہ اکبر:
انسان سی دوسری چیز خدا نے پیدا نہیں کی جو مضطرب ہو تو ایک کائنات ہلا کے رکھ دے اور سکون میں ہو تو سات سمندر ایک نگاہ سے ٹھہرالے۔ کبھی اتنا مضبوط کہ پہاڑوں کا سینہ چیر کر راستے بنا لے اور کبھی اتنا کمزور اتنا حساس کہ چھوٹے سے جذباتی حادثے سے اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے۔یہی حضرت انسان جب اپنے مصمم ارادے کے ساتھ ڈٹ جائے تو ایک عالم کو بدل کے رکھ دیتا ہے اور کبھی کبھی تو یہ اپنی ناکامیوں اور کمزوریوں پر بیٹھا قسمت کو روتا ہوا بھی نظر آتا ہے۔

آج اگر ہم اپنے اردگرد کی دنیا پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالیں تو یوں لگتا ہے جیسے دنیا میں ایک ہلچل مچی ہوئی ہے، نفسا نفسی کا عالم ہے، بیشتر لوگ اس ہڑبونگ میں بوکھلائے پھر رہے ہیں اور ان میں اکثریت امت مسلمہ کی نظر آتی ہے جو انفرادی اور اجتماعی دونوں سطح پر نا اتفاقی ، خود غرضی، بے بسی و کمزوری کا شکارہیں۔

(جاری ہے)


دیکھا جائے تو جہاں کہیں طاقت آسودگی اور خوش حالی نظر آتی ہے وہاں اکثر و بیشتر ان خوشحالی کے محلوں کے پیچھے بے شمار لوگوں کی حسرتیں، محرومیاں اور پسماندگی بھرے احساسات کا ایک جہاں بھی پوشیدہ ہوتا ہے۔

کتنے ہی تاج محلوں کی بنیادوں میں ان گنت دست بریدہ لوگوں کی داستانیں پوشیدہ ہوتی ہیں۔ غریب کا بچہ تو امیر کے کتے کی روٹی کو بھی حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہا ہوتا ہے۔مگر ہم کم ظرف انسان اکثر و بیشتر اپنی کامرانیوں اور امارات کا اندازہ لوگوں کی حسرت بھری نظروں کی تعداد سے ہی لگایا کرتے ہیں۔
آج امت مسلمہ کی حالت ذار کو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے اسلام دشمن طاقتیں اسلام کا دیا ہوا باہمی اتحاد و یگانگت کا سبق یاد کر کے اسلام کے خلاف آزما رہی ہیں، اپنی توانائیاں اور وسائل مسلم کشی کیلئے پوری دیدہ دلیری سے استعمال کر رہی ہیں، اور اپنی بے حسی دیکھیں کہ ہم ظلم و بربریت کے خلاف مذمتی قرار دادوں کی رسمی کاروائی سے بھی گریزاں نظر آتے ہیں۔
کیونکہ ہمیں ان دنیاوی آقاؤں کا آشیر باد کھو دینے کا خدشہ ہے، امداد اور قرضوں کی بھیک کے کشکول کے خالی رہ جانے کا خوف ہے۔
ہم نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ ہم احمقوں کی جنت تعمیر کرنے میں مصروف عمل ہیں، آنے والے وقت میں ہماری باری بھی آ سکتی ہے تب ہمیں بھی توقع یہی رکھنی چاہئے کہ ہماری حالت زار پر کسی نے رسمی مذمت کا فرض بھی نہیں ادا کرنا۔
مجھے واصف علی واصف کے الفاظ یاد آ رہے ہیں کہ” اگر اینٹوں میں ربط نہ ہو تو آندھی تو کجا دیوار کو اپنے ہی بوجھ سے گر جانے کا اندیشہ لاحق ہو جاتا ہے۔ اندرونی کمزوری کو بیرونی خطرات ہمیشہ در پیش رہتے ہیں، شکستہ جہاز کو کوئی ہوا بھی تو ر اس نہیں آتی“۔
آج ہمارے انفرادی و اجتماعی رویے ماضی کی طرح قابل تقلید تو چھوڑ قابل ستائش بھی نہیں رہے، ہمارے معاملات زندگی خود غرضانہ ہو چکے ہیں در اصل ہم سب لوگ اپنی اپنی حقیر چوٹی پہ پاؤں دبا کر کھڑے ہیں۔
یہی انفرادی رویے آگے چل کر ہم بحیثیت قوم متعارف کرواتے ہیں، بنیادی طور پر اگر دیکھا جائے تو انسانی شخصیت کی تشکیل میں تین عناصر کا اہم کردار ہے۔
Vision+Will+Values
اور Will,Visionاور Valuesکسی بھی قوم کی شناخت بھی بن جاتے ہیں، جیسے قطرہ قطرہ مل کر قلزم ہو تا ہے اسی طرح ہر قطرے میں قلزم ہے جو اپنے اندر مکمل تعارف لئے ہوتا ہے۔
انسان جو اشرف المخلوقات ہے۔
اپنی ذات میں بے پناہ صلاحیتوں اور توانائیوں کے جوہر سمیٹے ، خالق کائنات کی بہترین تخلیق ہے۔اس جوہر کی تلاش اور پہچان کے بعد انسان خود کو انسانیت کے بلند و بالا مقام سے ہمکنار کر سکتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ہر ظاہر میں اسکا باطن تلاش کرو۔
مقام عدل بھی تو اسی کو کہتے ہیں
زندگی کی ناہمواریوں میں ایک آسان ترین طریقہ تو یہ ہے کہ اپنی حالت زار پہ آنسو بہائے جائیں، مگر ہم کبھی خود کو بدلنے کی زحمت نہ کریں تو کیا حاصل؟ ’ ’زمین جنبندنہ جنبند گل محمد “کے مصداق اپنی محرومیوں، غربت اور پسماندگی کو قسمت کا لکھا مان لیں یا پھر ندرت افکار اور جرأت کردار کے ساتھ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو بدلنا شروع کر دیں۔

The real voyage of discovery Consists not go seeking new landscapes but in having new eyes
جیسا کہ اللہ رب العزت قرآن حکیم میں ارشاد فرماتا ہے۔
لمن شاء منکم ان یتقدم اویتا خرoکل نفس بما کسبت رھینةo
ترجمہ:۔لوگوں کو اس بات سے آگاہ رہنا چاہئے کہ یہاں افراد اور اقوام کی اپنی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ آگے بڑھ کر ترقی کی منزلیں طے کرنا چاہتے ہیں یا پیچھے رہ کر پسماندگی کی زندگی، یاد رکھو یہاں ہر کوئی اپنی اپنی کارکردگیوں کے شکنجے میں جکڑا ہے۔

سورة الفرقان میں ہے۔
خلق کل شی ء فقدرہ تقدیر
ترجمہ:۔اللہ تعالیٰ نے ہر شے کو پیدا کیا پھر اس کیلئے پیمانے اور اندازے مقرر کر دیئے“
اب رب کائنات کی Statementکے بعد کسی اور کا حوالہ دینا مناسب نہیں، انسان اپنی کمزوری کم ہمتی اور کاہل پسندی کے باعث اپنی حالت میں تبدیلی لانے کی ذمہ داری قبول کرنے سے گریز پا ہے، اور الزام سارے کا سارا قسمت کی جھولی میں ڈال دیتا ہے۔

انسان جو اشرف المخلوقات ہے اگر وہ اپنے حالات بدلنے کیلئے اپنی حالت بدلنے کی کوشش نہیں کرے گا تو اس کیلئے فطرت کا قانون تقدیر کبھی نہیں بدلے گا۔ بالکل اسی طرح جس طرح پانی جب تک سیال رہے گا اس پر سیالیت کا قانون تقدیر یا Liquidityکا قانون ہی نافذ العمل رہے گا۔ یہی پانی جب منجمد ہو جائے گا سخت برف کی صورت اختیار کر جائے گا تو اس پر Liquidityکے بجائے Solidityکا قانون تقدیر اور بھاپ بن جانے پر Gasکا قانون تقدیر اس پر لاگو ہو جائے گا۔
پھریہی نشیب میں بننے والا اور پتھر جیسا سخت حالت والا پانی لطیف بخارات کی صورت میں فضاؤں میں پرواز کے قابل ہو جائے گا۔اس کے مقابلے میں اگر دیکھا جائے تو انسان تو لا محدود صلاحیتوں اور خواص کا مجموعہ ہے ، انسان کو مجبور محض سمجھنا بہت بڑی نادانی ہے۔
بے یقینی کی کیفیت ہم سے نہ صرف ہمارا چین سکون چھین لیتی ہے بلکہ ہماری شناخت ہماری انفرادیت کو بھی ختم کر دیتی ہے، ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ محض ہجوم کو قوم کا نام کبھی نہیں دیا جا سکتا محض ملکی سرحدیں نظریات کو یکجا رکھنے کے لئے کافی نہیں، یہ ہمارا عمل ہماری سوچ ہو گی جو اس ہجوم کو قوم ، سرحدوں کی وطن اور مذہب کو یک رنگی عطا کر سکے گی۔

شعور ذات سے ابھرو، مقام ذات کو پاؤ
خرد کو چھوڑ دو تنہا جنوں کی آگ سلگاؤ
رہو دھرتی کے مسکن میں مگر پرواز مت چھوڑو
کبھی عرش بریں دیکھو کبھی تاروں کو چھو آؤ
تمہیں بخشا گیا ہے دل عطا تم کو ہوئیں آنکھیں
جلاؤ جوت آنکھوں کی دلوں میں روشنی پاؤ
تمہاری ذات کے ریشے چنے کس نے نفاست سے
جو اپنی ذات میں اترو خدا کی ذات کو پاؤ

Browse More Islamic Articles In Urdu