Open Menu

Sunehri Kirnain - Article No. 906

Sunehri Kirnain

سُنہری کرنیں - تحریر نمبر 906

عجائب القرآن۔۔۔۔۔ جب سورہ تبت یدا نازل ہوئی اور ابو لہب اور اس کی بیوی ”ام جمیل“ کی اس سورہ میں مذمت اتری تو ابو لہب کی بیوی ام جمیل غصہ میں آپے سے باہر ہو گئی اور ایک بہت بڑا پتھر لے کر وہ حرم کعبہ میں گئی

ہفتہ 24 جنوری 2015

علامہ عبدالمصطفیٰ:
ابو لہب کی بیوی کو رسول ﷺ نظر نہ آئے!
جب سورہ تبت یدا نازل ہوئی اور ابو لہب اور اس کی بیوی ”ام جمیل“ کی اس سورہ میں مذمت اتری تو ابو لہب کی بیوی ام جمیل غصہ میں آپے سے باہر ہو گئی اور ایک بہت بڑا پتھر لے کر وہ حرم کعبہ میں گئی اس وقت حضور اکرمﷺ نماز میں تلاوت قرآن فرما رہے تھے اور قریب ہی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیٹھے ہوئے تھے۔
”ام جمیل“ بڑ بڑائی ہوئی آئی اور حضور اقدسﷺ کے پاس سے گزرتی ہوئی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئی اور مارے غصہ کے منہ میں جھاگ بھرے ہوئے کہنے لگی کہ بتاؤ تمہارے رسولﷺ کہاں ہیں مجھے معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے میری اور میرے شوہر کی ہجو کی ہے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میرے رسولﷺ شاعر نہیں ہیں کہ کسی کی ہجو کریں پھر وہ غیض و غضب میں بھری ہوئی پورے حرم کعبہ میں چکر لگاتی پھری اور بکتی جھکتی حضورﷺ کو ڈھونڈتی پھری مگر جب وہ حضورﷺ کو نہ دیکھ سکی تو بڑ بڑاتی ہوئی حرم سے باہر جانے لگی اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہنے لگی کہ میں تمہارے رسول کا سر کچلنے کے لئے یہ پتھر لے کر آئی تھی مگر افسوس کہ وہ مجھے نہیں ملے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور اکرمﷺ سے اس واقعہ کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا کہ میرے پاس سے وہ کئی بار گزری مگر میرے اور اس کے درمیان ایک فرشتہ اس طرح حائل ہو گیا کہ آنکھ پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کے باوجود وہ مجھے نہ دیکھ سکی اس واقعہ کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔

(جاری ہے)


ترجمہ:
”اور اے محبوب! جب آپ نے قرآن پڑھا تو ہم نے آپ اور ان میں جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے ایک چھپا ہوا پردہ ڈال دیا!“
درس ہدایت: اْم جمیل انکھیاری ہوتے ہوئے اور آنکھ پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کے باوجود حضورﷺ کے پاس ہی سے تلاش کرتی ہوئی بار بار گزری مگر وہ آپ کو نہیں دیکھ سکی۔ بلا شبہہ یہ ایک عجیب بات ہے اور اس کو حضور اکرمﷺ کے معجزہ کے سوا کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔
اس قسم کے معجزات حضورﷺ کی طرف سے بار ہا صادر ہوئے ہیں اور بہت سے اولیاء اللہ سے بھی ایسی کرامتیں بارہا صادر ہوئی ہیں۔
ذبح ہو کر زندہ ہو جانے والے پرندے
حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے ایک مرتبہ خداوند قدس کے دربار میں یہ عرض کیا کہ یا اللہ! تو مجھے دکھا دے کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ فرمائے گا! تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ابراہیم! کیا اس پر تمہارا ایمان نہیں ہے؟ تو آپ نے عرض کیا کہ کیوں نہیں؟ میں اس پر ایمان تو رکھتا ہوں لیکن میری تمنا یہ ہے کہ اس منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں تا کہ میرے دل کو قرار آجائے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم چار پرندوں کو پا لو اور ان کو خوب کھلا پلا کر اچھی طرح ہلا ملا لو۔
پھر تم انہیں ذبح کر کے اور ان کا قیمہ بنا کر اپنے گردونواح کے چند پہاڑوں پر تھوڑا تھوڑا گوشت رکھ دو پھر اْن پرندوں کو پکارو تو وہ پرندے زندہ ہو کر دوڑتے ہوئے تمہارے پاس آجائیں گے اور تم مردوں کے زندہ ہونے کا منظر آپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک مرغ، ایک کبوتر، ایک گدھ، ایک مور ان چار پرندوں کو پالا اور ایک مدت تک ان چاروں پرندوں کو کھلا پلا کر خوب ہلا ملا لیا۔
پھر ان چاروں پرندوں کو ذبح کر کے ان کے سروں کو اپنے پاس رکھ لیا اور ان چاروں کا قیمہ بنا کر تھوڑا تھوڑا گوشت اطراف و جوانب کے پہاڑوں پر رکھ دیا اور دور سے کھڑے ہو کر ان پرندوں کا نام لے کر پکارا کہ یَا ایْھالدیکْ (اے مرغ) یا ایھا الحمامتہْ (اے کبوتر) یا ایھالنسر (اے گدھ) یا ایھالطاؤسْ (اے مور) آپ کی پکار پر ایک دم پہاڑوں سے گوشت کا قیمہ اْڑنا شروع ہو گیا اور ہر پرند کا گوشت پوست، ہڈی پر الگ ہو کر چار پرند تیار ہو گئے اور وہ چاروں پرند بلا سروں کے دوڑتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آگئے اور اپنے سروں سے جڑ کر دانہ چگنے لگے اور اپنی اپنی بولیاں بولنے لگے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی آنکھوں سے مردوں کے زندہ ہونے کا منظر دیکھ لیا اور ان کے دل کو اطمنیان و قرار مل گیا۔

اس واقعہ کا ذکر خداوند کریم نے قرآن مجید کی سورہ البقرہ میں ان لفظوں کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔
ترجمہ:
”اور جب حضرت ابراہیم نے کہا کہ اے میرے رب مجھے دکھا دے کہ تو کیونکر مردہ کو زندہ کرے گا فرمایا کیا تجھے یقین نہیں؟ عرض کی کیوں نہیں مگر یہ چاہتا ہوں کہ میرے دل کو قرار آجائے فرمایا تو اچھا چار پرندے لے کر اپنے ساتھ ہلا لو پھر ان کا ایک ایک حصہ ہر پہاڑ پر رکھ دو پھر انہیں بلاؤ تو وہ آپ کے پاس دوڑتے ہوئے چلے آئیں گے اور یہ یقین رکھو کہ اللہ بڑا غالب، بڑی حکمت والا ہے۔

تصوف کا ایک نکتہ: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جن چار پرندوں کو ذبح کیا ان میں سے ہر پرند ایک بُری خصلت میں مشہور ہے مثلا مور کو اپنی شکل و صورت کی خوبصورتی پر گھمنڈ ہوتا ہے اور مرغ میں کثرت شہوت کی بُری خصلت ہے اور گدھ میں حرص اور لالچ کی بری عادت ہے اور کبوتر کو اپنی بلند پروازی اور اونچی اُڑان پر نخوت و غرور ہوتا ہے تو ان چاروں پرندوں کے ذبح کرنے سے ان چاروں خصلتوں کو ذبح کرنے کی طرف اشارہ ہے چاروں پرند ذبح کئے گئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مردوں کے زندہ ہونے کا منظر نظر آیا اور ان کے دل میں نور اطمینان کی تجلی ہوئی جس کی بدولت انہیں نفس مطمئنہ کی دولت مل گئی تو جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کا دل زندہ ہو جائے اور اس کو نفس مطمئنہ کی دولت نصیب ہو جائے اس کو چاہیے کہ مرغ ذبح کرے یعنی اپنی شہوت پر چھری پھیر دے اور مور کو ذبح کرے یعنی اپنی شکل و صورت اور لباس کے گھمنڈ کو ذبح کر ڈالے اور گدھ کو ذبح کرے یعنی حرص اور لالچ کا گلا کاٹ ڈالے اور کبوتر کو ذبح کرے یعنی اپنی بلند پروازی اور اونچے مرتبوں کے غرور و نخوت پر چھری چلا دے اگر کوئی ان چاروں بُری خصلتوں کو ذبح کر ڈالے گا تو انشاء اللہ تعالیٰ وہ اپنے دل کے زندہ ہونے کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا اور اس کو نفس مطمئنہ کی سرفرازی کا شرف حاصل ہو جائے گا۔

Browse More Islamic Articles In Urdu