Open Menu

Khatoon E Jannat Hazrat Syeda Fatima Zehra RA - Article No. 868

Khatoon E Jannat Hazrat Syeda Fatima Zehra RA

خاتونِ جنت حضرت سیّدہ فاطمة الزہرا - تحریر نمبر 868

حضور نبی کریم کی چار دخترانِ ذیشان ہیں جو سبھی کی سبھی خاتون اوّل اُمّْ الموٴمنین حضرت سیّدہ خدیجہ کے بطنِ پاک سے آپ کی پاک بیٹیاں ہیں۔

جمعہ 4 جولائی 2014

علامہ منیر احمد یوسفی:
حضور نبی کریم کی چار دخترانِ ذیشان ہیں جو سبھی کی سبھی خاتون اوّل اُمّْ الموٴمنین حضرت سیّدہ خدیجہ کے بطنِ پاک سے آپ کی پاک بیٹیاں ہیں۔ قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں اللہ تعالیٰ نے سورة الاحزاب کی آیت نمبر 59 میں وضاحت فرمائی ہے یٰأاَیّْھَا النَّبِیّْ قْل لِّاَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَآءِ الْمْوْمِنِیْنَ۔
۔۔۔ ”اے نبی آپ اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے فرما دیں۔“ اگر آپ کی اپنی صرف ایک بیٹی ہوتی تو اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں اُس کا ذکر خیر بیٹیاں فرما کر نہ کرتا۔
ربِّ ذوالجلال والاکرام کے فرمان سے یہ بات واضح ہوئی کہ رسولِ کریم کی اپنی ہی چار بیٹیاں تھیں جن کے نام ترتیب وار اِس طرح ہیں۔

(جاری ہے)


1۔حضرت سیّدہ زینب

حضرت سیّدہ رقیہ
3۔حضرت سیّدہ اُمّ کلثوم
4۔حضرت سیّدہ فاطمة الزہرا
قرآنِ مجید کے اِرشادِ عظیم کے مطابق اَیسی لڑکی جو بیوہ عورت کے پہلے شوہر سے ہو اور وہ عورت کسی دوسرے شخص سے شادی کرے تو بیوہ عورت کی پہلے شوہر سے لڑکی دوسرے شوہر کی بیٹی نہیں کہلاتی بلکہ ”ربیبہ“ کہلاتی ہے۔ وَرَبَآئِبْکْمْ الّٰتِیْ فِیْ حْجْوْرِکْمْ مِّنْ نِّسَآءِ کْمْ الّٰتِیْ دَخَلْتْمْ بِھِنَّ۔
۔۔۔ (النسآ: 23) ”اور اُن کی بیٹیاں جو تمہاری گود میں ہیں اُن بیویوں سے جن سے تم صحبت کر چکے ہو۔“
حضرت سیّدہ فاطمة الزہرا رسولِ کریم کی پاک بیٹیوں میں سے سب سے چھوٹی شہزادی ہیں۔آپ کا اِسم مبارک ”فاطمہ“ ہے۔ آپ کا لقب بتول اور زہرا ہے۔ بتول کا معنی ہے منقطع ہونا‘ کٹ جانا چونکہ آپ دُنیا میں رہتے ہوئے بھی دُنیا سے اَلگ تھیں لہٰذا بتول لقب ہوا۔
زہرا بمعنی کلی‘ آپ جنت کی کلی تھیں۔ آپ کے جسم پاک سے جنت کی خوشبو آتی تھی۔ نبی کریم سونگھا کرتے تھے۔ اِس لئے آپ کا لقب زہرا ہوا۔مختلف روایات کے مطابق آپ اِعلانِ نبوت سے ایک سال یا پانچ سال پہلے پیدا ہوئیں۔
حضرت مسور بن مخرمہ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسولِ کریم نے فرمایا: فَاطِمَةْ بْضْعَة مِّنِّیْ فَمَنْ اَغْضَبَھَا اَغْضَبَنِیْ وَفِیْ رِوَایَةٍ یْرِیْبْنِیْ مَا اَرَابَھَا وَیْوْذِیْنِیْ مَا اٰذَاھَا”(حضرت) فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اِنہیں ناراض کیا اُس نے مجھے ناراض کیا اور ایک روایت میں ہے جو چیز اِنہیں پریشان کرے مجھے پریشان کرتی ہے اور جو اِنہیں تکلیف دے وہ مجھے ستاتا ہے۔

ہجرت کے دوسرے سال غزوئہ بدر کے بعد نبی کریم نے اِن کا نکاح امیر الموٴمنین حضرت سیّدنا علی سے کر دیا۔ نکاح کے موقع پر حضور نبی کریم نے پوچھا: اے علی آپ کے پاس کوئی چیز ہے؟
امیر الموٴمنین حضرت سیّدنا علی نے عرض کیا کہ میرے پاس ایک گھوڑا اور ایک زرہ ہے۔ آپ نے فرمایا: گھوڑا جہاد کے لئے ضروری ہے۔ زرہ کو فروخت کر ڈالو۔ امیر الموٴمنین حضرت سیّدنا علی فرماتے ہیں‘ میں نے زرہ اُٹھائی اور بازارِ مدینہ منورہ میں چلا گیا اور میں نے یہ زرہ امیر الموٴمنین حضرت سیّدنا عثمان بن عفان ذوالنورین کے ہاتھ 400 (چار سو) درہم میں فروخت کر دی۔
امیر الموٴمنین حضرت سیّدنا عثمان بن عفان نے زرہ خریدنے کے بعد مجھے تحفہ کے طور پر واپس کر دی اور میں دونوں چیزیں لے کر نبی کریم کی بارگاہِ عالیہ میں حاضر ہو گیا۔ حضور سے امیر الموٴمنین حضرت سیّدنا عثمان غنی کی خدمت کا ذکر کیا۔ آپ نے حضرت سیّدنا عثمان غنی کے حق میں دُعائے خیر فرمائی۔ حضور نے حضرت سلمان فارسی اور حضرت بلال کو بُلا کر امیر الموٴمنین حضرت سیّدنا ابو بکر صدیق کے ساتھ روانہ فرمایا۔
امیر الموٴمنین حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق فرماتے ہیں آپ نے مجھے 63 درہم عطا فرمائے جن سے میں نے مندرجہ ذیل چیزیں خریدیں۔ ایک مصری بچھونا‘ ایک چمڑے کا گدا‘ ایک چمڑے کا بالین جو کھجور کی چھال سے پُر تھا‘ ایک خیبری قسم کی چادر‘ پانی کے لئے ایک مشکیزہ‘ کوزے‘ گھڑے‘ وضو کے لئے ایک برتن‘ صوف سے بْنا ایک باریک کپڑا‘ یہ تمام چیزیں امیر الموٴمنین حضرت سیّدنا علی کے اُن پیسوں سے خریدی گئیں جو آپ زرہ بیچ کر لائے تھے۔
امیر الموٴمنین حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق فرماتے ہیں یہ سامان کچھ میں نے خود اُٹھا لیا کچھ حضرت سلمان فارسی اور حضرت سیّدنا بلال نے اْٹھا لیا اور سب لا کر آپ کی بارگاہ میں پیش کر دیا۔ (جلاالعیون فارسی، ملا باقر مجلسی‘ کشف الغمہ فی معرفة الائمہ)
علامہ اقبال نے سیّدہ فاطمة الزہرا کی پاک بارگاہ میں نہایت جامع اَنداز میں ہدیہء عقیدت پیش کیا ہے۔
جس میں آپ کی عظمت و شان‘ عفت و پاک دامنی‘ فقر و استغنا اور اَولاد کی اعلیٰ تربیت اَیسی خوبیوں کو بڑے اَحسن پیرائے میں بیان کیا ہے۔
علامہ اقبال نے لکھا ہے:
مریم از یک نسبت عیسیٰ عزیز
از سہ نسبت حضرت زہرا عزیز
نور چشم رحمةا للعالمین
آں اِمام الاوّلین و آخرین
آں کہ جاں در پیکر گیتی دمید
روزگار تازہ آئین آفرید
بانوے آں تاج دار ھل اتی
مرتضیٰ ‘ مشکل کشا ‘ شیرِ خدا
پادشاہ و کلبہء ایوان اُو
یک حسام و یک زرہ سامان اُو
مادرِ آں مرکز پرُکار عشق
مادر آں کارواں سالار عشق
”حضرت سیّدہ مریم کا عزّت و مرتبہ صرف ایک نسبت سے ثابت ہے کہ وہ حضرت سیّدنا عیسیٰ  کی والدہ ماجدہ ہیں مگر حضرت سیّدہ فاطمة الزہرا کی عزت و مرتبہ تین نسبتوں سے ثابت ہے۔
ایک تو آپ حضور رحمةا للعالمین اوّلین و آخرین کے آنکھوں کا نور اور لخت جگر ہیں۔ یہ وہ ہستی ہیں کہ جنہوں نے روئے زمین کے جسم میں از سر نو جان ڈالی اور ایک نئے نظام اور نئے عہد کی تخلیق فرمائی۔ آپ کی دوسری نسبت یہ ہے کہ آپ اُس ہستی حضرت علی کی رفیقہء حیات ہیں جو مرتضیٰ بھی ہیں‘ مشکل کشاء بھی ہیں اور شیرِ خدا بھی ہیں۔ بادشاہ وقت ہوتے ہوئے بھی اُن کا شاہی دربار ایک جھونپڑی پر مشتمل ہے۔
اور یہ خود اِختیاری تھا۔ جبکہ ایک ذوالفقار حیدری اور ایک زرہ کل آپ کی کل کائنات تھی۔
حضرت سیّدہ فاطمة الزہرا کی عزت و عظمت کی تیسری نسبت یہ ہے کہ آپ حسنین کریمین کی والدہ ماجدہ ہیں جن میں سے ایک رونقِ عشق اور مرکز رعنائی عشق ہیں اور دوسرے اِسی قافلہ عشقِ الٰہی کے سالار و میرِ کارواں ہیں۔
نبی کریم کو اپنے اہل میں حضرت سیّدہ فاطمة الزہرا سب سے پیاری تھیں۔
جب سفر پر تشریف لے جایا کرتے تھے تو آخیر میں حضرت سیّدہ فاطمة الزہرا سے مل کر جاتے تھے۔ جب واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے حضرت سیّدہ فاطمة الزہرا سے ملتے۔
نبی کریم کے وصال کے بعد حضرت سیّدة فاطمة الزہرا کبھی ہنستی نہ دیکھی گئیں اور وصال کے چھ ماہ بعد 3 رمضان المبارک 11ھ میں اِنتقال فرما گئیں۔ حضرت سیّدنا عباس نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔ جنت البقیع میں رات کے وقت دفن ہوئیں حضرت علی‘ حضرت عباس اور حضرت فضل بن عباس نے قبر میں اُتارا۔
حضرت سیّدہ فاطمة الزہراکے تین بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔

Browse More Islamic Articles In Urdu