Masoom Farishtay Ka Dukh - Article No. 933

Masoom Farishtay Ka Dukh

معصوم فرشتے کا دکھ - تحریر نمبر 933

بازار میں موجود لوگوں کے رنگین ملبوسات قوس قزح کا رنگ بکھیررہے تھے۔ دوکانوں اور گاہکوں کی آمدرفت نے ان رنگوں میں مزید اضافہ کردیا۔

ہفتہ 21 مئی 2016

عثمان غنی:
بازار میں موجود لوگوں کے رنگین ملبوسات قوس قزح کا رنگ بکھیررہے تھے۔ دوکانوں اور گاہکوں کی آمدرفت نے ان رنگوں میں مزید اضافہ کردیا۔ آدم کے ہجوم کی سرگوشیاں‘ ریڑھی والوں کی آوازیں‘ گاہکوں اور دکانداروں کی بحث ٹولیوں کی صورت میں مٹر گشتی کرتے ہوئے نوجوانوں کے قہقہوں کی گونج اور شور پیدا کرنے والے بے تگے ہارن کی آوازیں غربت زدہ آواز کوروندتی ہوئیں بازار کی آب وہوا میں گھل کر آسمان میں گم ہوگئیں۔
لکڑی کے بانس پر مختلف رنگوں کے کئی غباری کھلونے دھاگے سے پیوندتھے جس دس سالہ بچہ ہاتھ میں پکڑے پانچ پانچ روپے کی آواز لگاکر غبارے بیچ رہاہے۔ گول سانولے چہرے میں دھنسی ہوئیں موٹی موٹی سفید آنکھیں، بال قدرے چھوٹے اور کلیجی رنگ کی بوسیدہ قمیض جو شلوار سے بھی کئی درجے بھدی معلوم ہوتی تھی۔

(جاری ہے)

پیروں میں پرانی جوتی جو مختلف جگہوں سے آدھی گھس چکی تھی۔

گویا غربت پورے وجود سے سورج کی روشنی کی طرح نمایاں تھی۔ صبح سے شام تک پانچ پانچ روپے کی غباری کھلونے بیچ کروہ معصوم فرشتہ اپنے گھر لوٹ جاتا۔
پچھلے ہفتے جب تمام غباری کھلونے بک چکے تو بازار کی ایک دکان کے شوکیس میں لگے مختلف قسم کے کھلونوں نے اسے اپنی طرف مکمل طور پر مائل کرلیا۔ کچھ دیر وہ چمکتی نظروں سے انہیں دیکھنے لگا۔ شوکیس میں ترتیب لگے ہوئے مختلف کھلونوں کے ساتھ پڑی ہوئی چوٹی سی گاڑی اس کی آنکھوں میں رقص کر رہی تھی۔
گاڑی کے ساتھ لگے ہوئے ٹیگ پر لکھی ہوئی قیمت پڑھ کر وہ گھر کو روانہ ہوگیا۔ ایک ہفتہ پیسے جمع ہوتے رہے اور اس دوران وہ تمام غباری کھلونے بیچ کر اس دکان کا چکر ضرور لگاتا اور کھلونے شوکیس میں دیکھ کر دل میں خوشی کی کئی لہریں رقص کرتیں۔ کھلونے بج جانے کا خوف تسکین میں بدل جاتا اور گول سانولے چہرے میں دھنسی ہوئیں سفید آنکھیں خوشی سے چمکنے لگتیں۔
ایک ہفتے کے بعد گلوتوڑا اور تمام سکوں کو اکٹھا کرکے گنا۔
آج خواہشوں کی تکمیل کادن تھا سب سے بڑی فتح کادن۔ معمول کے مطابق غبارے اور کھلونے بیچنے کے بعدوہ بازار کو ہولیا۔ شام تک پھر پھر ا کر آخری دو کھلونے بچ گئے جن کا کوئی گاہک نہ لگا۔ سوچ بچار کے بعد وہ کھلونوں کی دکان میں داخل ہوا قمیض کی دائیں جیب سے تمام سکے نکال کر کاؤنٹر پر رکھے اور اس گاڑی کی طرف اشارہ کیا۔
دکاندار کے مطابق پانچ روپے کم تھے۔ معصوم فرشتے نے ایک غباری کھلونا دھاگے سے توڑ کر دکاندار کے آگے رکھ دیا۔ دکاندار نے نفی میں سر ہلایا” یہ نہیں ․․․․․․․ پانچ روپے لاؤ گے تو کھلونا ملے گا“ باہر نکلتے ہی اسکی نظر چوک میں چھوٹی سی بچی پرپڑی جو دائیں ہاتھ سے اپنی ماں کی قمیض کھینچتے ہوئے بائیں ہاتھ سے غباری کھلنے کی طرف اشارہ کررہی تھی۔
معصوم فرشتے کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ وہ ان کی طرف لپکابچی کو غباری کھلونا تھما کر پانچ روپے کا سکہ وصول کیا اور کھلونوں کی دکان کا رخ کیا۔ دکان کے قریب پہنچتے ہی وہ ہڑ بڑاہٹ میں بھاگتا ہوا شوروم کی طرف بڑھا۔ ایک بچہ بھاگتا ہوا اس سے ٹکرایا اورہاتھ میں وہ گاڑی لئے گھوں گھوں کرتا ہواا پنی ماں سمیت اس کی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ بانس زمین پر گرگیا اور آخری غبارہ زمین سے ٹکراتے ہی پھٹ گیا۔ بڑی دیر تک وہ شوروم کو تکتا رہا۔ اسکا وجود لکڑی کی طرح بے جان ہوچکا تھا۔ سانولے چہرے میں دھنسی ہوئیں سفید آنکھوں سے مسلسل بہتے ہوئے اشک دائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھے ہوئے پانچ روپے کے سکے کو گیلا کررہے تھے۔

Browse More Moral Stories