Pakar - Article No. 948

Pakar

پکڑ - تحریر نمبر 948

موبائل فون کی گھنٹی بجنے پردلاور نے سکرین پرنام دیکھا۔ چند ساعتوں بعد وہ فون کان سے لگا کر بغیر کسی تمہید کے بولا : سکندر بتاؤ کیا کام ہوگیا ہے؟ دام بنانے کام جہاں پیسہ لگ جائے پھر ہر کام ہوجاتا ہے آڈٹ ہوگیا ہے سب اچھا ہے۔

منگل 9 اگست 2016

نذیر انبالوی :
موبائل فون کی گھنٹی بجنے پردلاور نے سکرین پرنام دیکھا۔ چند ساعتوں بعد وہ فون کان سے لگا کر بغیر کسی تمہید کے بولا :
سکندر بتاؤ کیا کام ہوگیا ہے؟ دام بنانے کام جہاں پیسہ لگ جائے پھر ہر کام ہوجاتا ہے آڈٹ ہوگیا ہے سب اچھا ہے۔ سکندری کی بات سن کردلاور نے کہا۔
تمہارے جیسا تجربہ کارآدمی میرے ساتھ ہوا اور میرا کام رک جائے ایسا بھلا کیسے ہوسکتا ہے۔
شام کو آجانا اور اپنا حصہ لے جانا‘ کام ایسا ہوناچاہئے کہ پکڑنہ ہوسکے‘ آج کل سبھی ہمارے محکمے پر نظریں لگائے بیٹھے ہیں۔
پکڑ بھلا کون ہے جو ہمیں پکڑ سکے، سب کو حصہ ملتا ہے‘ میں شام کو نہیں کل آؤں گا‘ اب اجازت چاہتا ہوں۔
ٹھیک ہے کل آجانا۔

(جاری ہے)

یہ کہہ کردلاور نے فون بند کردیا۔ دلاور کے والد ہدایت اللہ ایک طرف بیٹھے بظاہر تو کتاب پڑھ رہے تھے مگر اپنے بیٹے کی سکندر کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے مفہوم کو بھی اچھی طرح سمجھ رہے تھے۔

دلاور اب وہاں زیادہ دیا ٹھہرنا نہیں چاہتا تھا وہ کمرے سے نکلنا ہی چاہتا تھا کہ اس کے والد اسے گھوڑا ۔
آپ مجھے اس طرح کیوں گھور رہے ہیں۔
تم اچھی طرح جانتے ہو کہ میں ایسا کیوں کررہا ہوں سکندر کے ساتھ مل کرکیا حرکت کی ہے؟ ہدایت اللہ کا لہجہ تلخ تھا۔
اباجی ! میں نے کچھ نہیں کیا․․․․․ “
تم نے کچھ تو کیا ہے جبھی تو سکندر کو کہہ رہے تھے کہ شام کو آجانا اور اپنا حصہ لے جانا‘ کام ایسا ہونا چاہئے کہ پکڑ نہ ہو سکے‘ کیا مطلب ہے ان باتوں کا ۔
بولو جواب دو۔
میں اس بارے میں کچھ نہیں بتاسکتا‘ آپ اپنے کام سے کام رکھا کریں‘ کھائیں پئیں اور اللہ اللہ کیا کریں میرے معاملات میں آپ کو دخل اندازی کی کوئی ضرورت نہیں۔
یہ تم کہہ رہے ہو دلاور حسین تم غلط راستے پر چلو اور میں تمہیں روکوں بھی نہ یہ نہیں ہوسکتا‘ تم پکڑ کے راستے پر چل رہے ہو‘ پکڑے جاؤ گے۔
ابا جی! بس کریں، میںآ پ کی روز روز کی نصیحتوں سے تنگ آگیا ہوں۔
دلاور کی آواز اتنی بلند تھی کہ کمرے کے دروازے کے پاس کھڑا دانیال چونک کررہ گیا تھا۔
اس کے کمرے کی طرف بڑھتے قدم رک گئے تھے۔ دانیال کو دیکھ کر دلاور چونکا۔
تم یہاں کھڑے کیا کررہے ہو‘ یہ تو تمہارے ٹیوشن جانے کا وقت ہے ٹیوسن کیوں نہیں گئے۔
ابھی تک رکشے والے کی خبر لیتا ہوں۔ پھر دلاور نے اپنا غصہ رکشے والے پر اتار دیا۔
دانیال خاموشی سے کھڑا ساری باتیں سن رہا تھا۔
تم اور حریم تیار ہو جاؤ رکشے والا تھوڑی دیر میں آجائے گا۔ دانیال کااب وہاں ٹھہرنا ممکن نہ تھا۔ وہ دادا جان سے ملے بغیر حریم کے ساتھ ٹیوشن جانے کے لئے تیار ہوگیا۔ ٹیوشن جاتے ہوئے دانیال نے حریم کو بتایا کہ ابوکس لہجے میں دادا جان سے بات کررہے تھے۔ حریم کو یقین نہیں آرہا تھا کہ ابو ایسا کر سکتے ہیں۔

اگست کے مہینے کا آغاز ہوتے ہی ہدایت اللہ کو چھوٹا بیٹا خاور انہیں لینے آگیا تھا۔ ہدایت اللہ اگست کا پورا مہینہ اپنے آبائی گھر میں گزارتے تھے۔ قیام پاکستان کے وقت وہ اپنے دادا اور والد کے ساتھ جب پاکستان ہجرت کرکے آئے تو انہیں یہ مکان الاٹ ہوا تھا۔ چند سال قبل دلاور نے ایک نئی ہاؤسنگ سوسائٹی میں نیا گھر بنایا تو وہ اس کے اصرار پر وہاں چلے گئے تھے۔
وہ اکثر قیام پاکستان کے واقعات بچوں کو سناتے۔ پرانے محلے کی باتیں سن کر بچے حیرت کااظہار کرتے کہ ایسا بھی ہوتا تھا۔ خاص طور پر خوشی اور غم کے موقع پر محلے دار جس طرح مل کر کام کرتے تھے۔ اس کی مثال اب نہیں ملتی۔ شادی کے موقع پر محلے کے نوجوان مہمانوں کے قیام کا بندبست کرتے۔ رمضان المبارک اورعیدین کے موقعوں پر سب ایک ہوجاتے تھے۔ دانیال اور حریم دلچسپی سے ان کی باتیں سنتے۔
ہدایت اللہ جب دلاور کے ساتھ نئے گھر میں آئے تو انہوں نے کہاتھا کہ وہ اگست کا مہینہ آبائی گھر میں گزاریں گے ۔ دلاور کوبھلا اس پر کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔
دادا جان نے جب بچوں کو اگست میں آبائی گھر کے قریب ایک میدان میں آزادی میلے کے لگائے جانے کے بارے میں پہلی بار بتایا تو دانیال نے پوچھا تھا۔
دادا جان ! وہاں کیا ہوتا ہے۔
وہاں بچوں کی دلچسپی کی ہر چیز ہوتی ہے۔
جھولے اونٹ کی سواری‘ کھانے پینے کی اشیاء کے سٹالز رنگ برنگے غبارے آئس کریم کتابوں کے سٹالز اور لہو گرمادینے والے ملی نغمے وہاں بچوں کے درمیان مصوری تقاریراور ملی نغموں کا بھی مقابلہ کروایا جاتا ہے۔
دادا جان بولتے جارہے تھے اور بچے دلچسپی سے ان کی باتیں سن رہے تھے۔
ہم اس مرتبہ ضرور آزادی میلے میں جائیں گے۔ دانیال اور حریم نے ایک زبا ہوکر کہا۔

سکندر نے ایک لفافہ میز پر رکھتے ہوئے دلاور کو مخاطب کیا۔ گن لو۔ س
تم اعتبار والے آدمی ہو رقم پوری ہوگی۔ سکندر سب کچھ ٹھیک ہے نا۔
تم فکر کیوں کرتے ہو، یہ کام ہمارے لئے نیا تو نہیں ہے کوئی نہیں ہے جو ہمیں پکڑ سکے، ہر ایک کو برابر حصہ مل رہا ہے۔ سکندر مسکراکر بولا۔
اس مرتبہ گاڑی بدلنے کا ارادہ ہے دو سال سے ایک ہی گاڑی چلا رہاہوں۔
دلاور نے رقم اپنے قبضے میں کرتے ہوئے کہا۔
چند دنوں بعد ایک نئی گاڑی گھر میں موجود تھی۔ وہ اس گاڑی میں سواربچوں کو لے کر آبائی گھر گیا تو بچوں نے میدان کودیکھ کر شور مچایا۔
ابو ․․․․․․ابو․․․․․․ اس میدان میںآ زادی کا میلہ لگتا ہے‘ ہم اس سال آزادی میلے میں آئیں گے۔
دانیال پر جوش انداز میں بولا۔
آپ بھی دادا جان کے ساتھ اس میلے میں آتے تھے اور مزے دار برفی کھاتے تھے۔
حریم کی بات سن کردلاور نے مسکراکرکہا۔
آپ کو سب کچھ پتا ہے۔ یہاں کی برفی پہلے تو بہت مزے دار ہوتی تھے۔ اب مجھے نہیں معلوم کہ یہاں برفی ہوتی بھی ہے یانہیں۔ اس سال میں بھی آپ لوگوں کے ساتھ اس میلے میں آؤں گا۔
اور مزے دار برفی کھاؤں گا۔ دانیال درمیان میں بولا تھا۔ نئی گاڑی دیکھ کر ہدایت اللہ کو خوشی نہیں ہوئی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ ان کے بیٹے کی کتنی تنخواہ ہے۔
وہ اتنی مہنگی گاڑی خرید ہی نہیں سکتا۔
مت کرو ایسا ‘ ڈرواللہ تعالیٰ کی پکڑسے“ ہدایت اللہ نے دلاور کوایک طرف لے جاکر اتنا کہا تو وہ ہمیشہ کی طرح تلخ لہجے میں بولا۔
میری ترقی آپ کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ مجھے کوئی نہیں پکڑسکتا‘ ہر کوئی ایسے ہی پیسے کمارہا ہے‘ میں اب دوبارہ یہاں نہیں آؤں گا۔
اور میں تمہارے گھر واپس نہیں جاؤں گا۔
ہدایت اللہ نے بھی اپنا فیصلہ سنا دیا تھا۔
محکمہ موسمیات نے موسم گرما کے آغاز ہی میں شدید بارشوں کی پیش گوئی کی تھی۔ مون سون کی بارشوں کے بارے میں بھی قبل ازوقت شروع ہونے کے بارے میں بتایا گیاتھا۔ جون کے آخری ہفتے سے بارشوں کا آغاز ہوا جو وقفے وقفے سے جاری رہیں۔ جب بھی بارش ہوتی دلاور اپنے دوست سکندر کو لے کر پرانی بستی میں چلاجاتا۔
وہ پانی دیکھتا اور گھبرا جاتا۔ نکاس آپ کے لئے نئے سیوریج اور نالے کی صفائی کے لئے جو رقم انہیں ملی تھی وہ ان کی جیب میں چلی گئی تھی۔ دلاور کے حالت دیکھ کر سکندر مسکرا کر کہتا۔
آگھبرا تویوں رہے ہوجیسے پہلی بار یہ کام کیا ہو حوصلہ رکھو کچھ نہیں ہوگا‘ چند دنوں کی بات ہے بارشوں کے بعد سب ٹھیک ہوجائے گا۔
پکڑ کاخوف ہر وقت دلاور کا تعاقب کرتا۔
وہ جہاں بھی جاتا اسے دھڑکالگارہتا کہ کہیں پکڑا نہ جاؤں۔ دانیال اور حریم کی طرح بستی کے بچوں کو آزادی میلے کا شدت سے انتظار تھا۔ اس سال ملکی حالات امن وامان کے حوالے سے بہتر تھے۔ اس لئے قومی امکان تھا کہ اگست میں یہاں آزادی کا میلہ ضرور لگے گا بستی کے کئی مکین دوسرے علاقوں اور شہروں میں منتقل ہوگئے تھے۔ وہ اپنے بچوں کے ساتھ اس آزادی میلے میں شرکت کرنے کے لئے خصوصی طور پر آرہے تھے۔

10اگست کو دوپہر کے وقت سیاہ بادل آسمان پر چھا گئے۔ شام تک ہلکی ہلکی بونداباندی ہوئی پھر رات کو طوفانی بارش کاآغاز ہوا۔ چوبیس گھنٹے جاری رہنے والی اس بارش نے نشیبی علاقوں میں تباہی مچادی۔ پرانی بستی میں نالوں کی صفائی نہ ہونے اور پرانے سیوریج کے باعث پانی گلیوں گھروں اور اس میدان میں کھڑا ہوگیا جہاں آزادی کا میلہ لگتا تھا۔ میدان میں چارفٹ تک پانی جمع تھا۔
علاقے میں ہنگامی صورت حال کا اعلان کردیا گیا۔ علاقہ مکین محفوظ مقامات کی طرف چلے گئے تھے۔ دلاور کو لگ رہا تھا کہ وہ پکڑا جائے گا۔ اسے اپنے والد کی باتیں یادآرہی تھیں۔ میڈیا میں بارش سے ہونے والی تباہی کا خوف چرچارہا۔ تجزئیے کئے گئے۔ لوگوں کی مالی امداد کی گئی۔ پھر بارش رکتے ہی سب خاموش ہوگئے۔ پکڑ کا عمل شروع نہ ہوسکا۔ دلاور کا خوف بھی کسی قدرجاتا رہاتھا۔
میدان سے اگرچہ پانی نکال دیا گیا تھا مگر وہ اس قابل نہیں تھا کہ وہاں آزادی کا میلہ لگایاجاتا۔
14اگست کو دلاور اپنی نئی گاڑی میں بچوں کولے کر سفاری پارک گیا۔ بچوں کو وہاں بالکل بھی مزا نہیں آیا تھا۔ وہ راستے بھر دادا جان ‘ دادا جان کاشور مچاتے رہے۔ آزادی میلے کے میدان کو یکھناچاہتے تھے۔ بچوں کی پردلاور نے گاڑی کا رخ پرانی بستی کی طرف کردیا۔
اب بھی بارش سے ہونے والی تباہی وہاں دیکھی جاسکتی تھی۔ جب وہ میدان کی طرف بڑھے تووہاں بہت سے بچے آزادی کا میلہ نہ لگنے کے باعث اداس کھڑے تھے۔ ان ادابچوں میں اب دانیال اور حریم بھی شا مل تھے۔ دلاور میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ ان بچوں سے آنکھ ملاسکتا۔ اسے یوں لگ رہاتھا جیسے یہ بچے ابھی اس کاگربیان پکڑ لیں گے۔ اس سال میدان میں آزادی کا میلہ اس کے باعث نہیں لگ سکا تھا۔
کیچڑسے اٹا ہوا میدان بھی اداس تھا اسے بچوں کے دلوں سے اٹھنے والی بدعائیں سنائی دینے لگی تھیں۔ اب اس کی آنکھوں کے سامنے وہ منظر تھا جب وہ اپنے والد کی انگلی پکڑ کرآزادی میلے میں آتا تھا اور مزے دار برفی کھاتا تھا۔ انگلی کی پکڑ سے لے کر اپنی پکڑ کے خوف تک ایک ایک بات اسے یاد آنے لگی۔گاڑی کی آرام دہ سیٹ کانٹوں سے بھر گئی اور اے سی کی ٹھنڈی ہوا گرم جھلسا دینے والی ہوا میں بدل گئی۔
وہ اب اس منظر کا حصہ نہیں رہاتھا۔ آبائی گھر زیادہ دور نہیں تھا۔ کچھ دیر بعد وہ اس گھر کے سامنے کھڑا تھا جہاں نہ آنے کے بارے میں کہہ کر گیا تھا۔ دستک دینے پر ہدایت اللہ نے درواہ کھولا تو دلاور نے کوئی وقت ضائع کئے بغیر ان کے ہاتھ چوم لئے۔
میں آپ کی انگلی پکڑ نے آیا ہوں۔ شاید اس طرح میں اللہ تعالیٰ کی پکڑ اور بچوں کی بددعاؤں کی پکڑ سے بچ جاؤں مجھے اپنی انگلی پکڑنے کی اجازت دے دیں‘ میں اب ویسا ہی کروں گا جیسے آپ چاہتے ہیں۔
دلاور اپنے بچوں کے سامنے بچوں کے طرح رونے لگا۔
پھر ہدایت اللہ اپنے بیٹے کی انگلی پکڑ کر پولیس اسٹیشن کی طرف چل پڑاتا کہ اس کابیٹا اپنے جرم کی سزا کاٹ کر وطن کابیٹا بن جائے ۔ اگلے دن دلاور کو پولیس وین میں جیل لے جایا جانے لگا تو یہ وہی راستہ تھا جہاں وہ میدان واقع تھا جہاں آزادی کا میلہ لگتا تھا۔ میدان کیچڑ کے باعث بدصورت دکھائی دے رہا تھا۔ دلاور کو یقین تھا کہ جب وہ اپنی سزا کاٹ کر باہر آئے گا تو یہاں آزادی کا میلہ لگا ہوگا۔ جس میں وہ اپنے باپ کی انگلی پکڑ کراور اس کے بچے اس کی انگلی پکڑ کر خوشیوں بھرے آزادی کے میلے میں آئیں گے۔ خوشیاں منائیں گے اور مزے مزے کی برفی کھائیں گے۔

Browse More Moral Stories